Introduction
Details coming soon.
Introduction
دو زمانوں اور تین سفروں پر محیط ایک پہیلی کے نام!
زمانے جو اول و آخر کا ربط باندھتے ہیں
سفر جو انفس و آفاق کے رموز کھولتے ہیں
پہیلی جو بس کوئی دن میں کھلنے کو ہے!
Foreword
بے کم و کاست
السلام علیکم!
سنتِ مدین پر عمل کرنے والے کو اتنا اندازہ تو ہوتا ہے کہ قلب و آگہی کے آٹھ سال کیمیا گر بنتے بنتے دس میں بھی بدل سکتے ہیں۔ اگر میری پہلی کتاب آٹھویں سال کی فراوانیِ نعمت کا حاصل تھی تو یہ تیسری کتاب ایک دہائی پوری ہونے کا عندیہ دیتی ہے۔ تلمیح و تشبیہ کا استعمال پچھلی دونوں کتب میں خوب ہو چکا، سو اب کی بار کچھ حقیقتِ حال بھی نظرِ قرطاس ہونی چاہئے۔
میری زندگی کی گزشتہ دہائی میں بالعموم قرآن اور بالخصوص سورۃ الکہف اورسورۃ یوسف کا ایک کلیدی کردار رہا ہے۔ ان دو سورتوں کو میں نے محض پڑھا اورسمجھا نہیں ہے بلکہ جی کر بھی دیکھا ہے۔ آج سے ایک دہائی پہلے یہ آغاز تو شاید صرف ایک قاری کی حیثیت سے ہوا تھا مگر اس سفر میں میں نے ان میں موجود واقعات اور تجربات کو اپنی بساط بھر اپنے اوپر گزرتے دیکھا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں موجود بہت سے اسرار و رموز کو آپ بیتی کی طرح جیا ہے۔
اب اگر اذنِ ربی ہے تو میں اس پر مختصراََ بات کئے ہی دیتا ہوں۔ مختصراََ اس لئے کہ آپ کے ہاتھ میں موجود اس کتاب کی ایک ایک نظم اور غزل، منظوم کتاب نہ لکھنے کی شعوری کاوش کے دوران لکھی گئی ہے۔ کیمیا گر کی تکمیل کے بعد میں ذہنی طور پر صد فی صد قائل ہو چکا تھا کہ اب مجھے نثری کتاب لکھنی ہے۔ مجھے احساس ہو رہا تھا کہ شاعری کی کتاب کو بحیثیت شاعری تو پذیرائی مل رہی ہے مگر جو میں کہہ رہا ہوں وہ شعر کے پیرائے میں کہیں دب رہا ہے۔
شاعری کا یہ ایک مسئلہ تو بہر حال ہے کہ شعر کی تشریح کریں تو بھلے وہ بھی بیان کر دیں جو شاعر کے گمان میں بھی نہیں ہے اور نہ سمجھیں تو شاعر جو کہنا چاہ رہا ہے اسے بالکل ہی نہ سمجھیں۔ مجھے قولِ سدیدپسند ہے اور یہ احساس میرے اندر تقویت پا چکا تھا کہ اب سیدھی سادی زبان میں نثری انداز میں تجرباتِ قلب بھی بیان کر دیئے جائیں اور واقعاتِ عمر بھی۔ پھر یوں ہوا کہ نثری کتاب کی بنت بنتے بنتے میں نے اکثر خود کو رات کی تنہائی یا دن کی مصروفیت کے بیچوں بیچ کوئی غزل یا نظم لکھتے ہوئے پایا۔ نثر کی کتاب تو کیا شروع ہوتی، آج میں خود کو شاعری کی کتاب کا نثری حصہ لکھتے ہوئے دیکھ کر قدرے محظوظ ہو رہا ہوں۔ میں ابھی بھی امید رکھتا ہوں کہ کسی دن آیت بہ آیت اس روداد کو لکھوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے اور اگر اللہ عز و جل میری بات کو شعر کے پیرائے میں سنوانا چاہتا ہے تو یہی بہتر اور مقدم ہے۔
تو بات ہو رہی تھی دو قرآنی سورتوں اور ان کی برکت سے میرے قلب و جان پر مرتب ہونے والے اثرات کی۔میں چاہتا ہوں کہ آج اختصار کے ساتھ ہی سہی مگر دونوں سورتوں پر بات کر ہی لوں۔ میری تینوں کتب کے انتسابات سورۃ الکہف کے میرے قلب، ذہن اور عمل پر پڑنے والے اثرات کے مظاہرہیں۔ آج کا انسان جس معاشرے میں جی رہا ہے اس کی اساس کیسے جانی جا سکتی ہے اور اس میں بے کجی سے جینے کا ہنر کیسے سیکھا جا سکتا ہے۔ زمانے کی دوڑ سے ہٹ کر اور کسی بھی قسم کے دنیاوی ساز و سامان کے بغیر انسان کیسے محض ایک قلبِ سلیم لے کر خدا کی سمت پلٹ سکتا ہے۔ کیسے اللہ ایسے انسان کے کانوں پر تھپکی دے کر اسے سال ہا سال کے لئے سلا دیتا ہے اور اس کے معاملات کی اصلاح کرتا ہے۔ اس سفر میں جان و ما ل کی کیا قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور کیسے کیسے انعامات حاصل ہوتے ہیں۔ قربانی کی کچھ قسطوں کے بعد اندر کی آنکھ کیسے کھلتی ہے اور معلوم ہونے لگتا ہے کہ جو حقیقت ہے وہ تو بیشتر افراد کو نظر ہی نہیں آ رہی اور جو نظر آ رہا ہے وہ تو حقیقت ہی نہیں ہے۔ اور جب معاملات کی ماہیت پر اپنے گرد بسنے والے لوگوں سے ایسا شدید بُعدپیدا ہو جائے تو اس تفاوت کی قیمت کیا ہوتی ہے۔
اور اگر کوئی شخص کہف کے سال بھی گزار لے، فتنہِ مال سے دامن بھی بچا لے اور ظاہری آنکھ کے دیکھے کو سبھی کی مخالفت کے باوجود باطن کی نظر پر قربان بھی کر دے تو اس پر تکمیلِ نعمت کس طرح سے ہوتی ہے جہاں وہ مال و قوت پر دسترس بھی رکھتا ہے، حقیقت پر نظر بھی رکھتا ہے اور اختیار کے کامل استعمال پر اذنِ ربی بھی شاملِ حال ہوتا ہے۔ اور کیا اس مقام پر امتحان ختم ہوتا ہے یا نفس کا اصل امتحان ابھی آغاز ہو رہا ہوتا ہے۔
اگر ایک طرف سورۃ الکہف میری شعوری زندگی کے افق پر چھائی رہی ہے تو دوسری طرف سورۃ یوسف نے سال ہا سال میری جذباتی اساس کو سنبھال کر رکھا ہے۔ میرے اندر کا نظریاتی انسان جب کہف میں اترتا چلا گیا تو یہ سورۃ یوسف ہی تھی جومیرے اندر کے کمزور انسان کو ہر قدم پر تھپکی دیتی رہی۔ یہ کوئی اتفاقیہ امر تونہیں ہے کہ یہ قرآن کی واحد سورۃ ہے جو شروع سے آخر تک ایک مکمل کہانی کے طور پر بیان کی گئی ہے۔ اس کہانی میں واقعات کا تسلسل گوشت پوست سے بنے انسان کو بامقصد زندگی کی تشکیل کرنا بھی سکھاتا ہے، ایسی زندگی گزارنے کے لئے کردار سازی بھی کرتا ہے اور کامیاب ہونے والے شخص کی زندگی کے آغاز کا انجام سے تعلق بھی جوڑتا چلا جاتاہے۔
یہ میری خوش قسمتی ہے کہ قرآن نے ان دونوں سورتوں کے ذریعے میری فکری اساس اور جذباتی ساخت کو سنبھالا بھی ہے اور نکھارا بھی۔صرف یہی نہیں بلکہ اس سفر نے مجھے اندر اور باہرکے جہانوں سے بھی روشناس کروایا ہے۔ بس آپ یوں سمجھ لیجئے کہ ان دو سورتوں نے مجھے انفس اورآفاق دونوں ہی میں اول و آخر کا ربط دکھایا ہے۔
میں نے پچھلے دس برس اسی دشت کی سیاحی میں گزارے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ قرآن نے مجھے زندگی کی تشکیلِ نو کا ہنر سکھایا ہے۔ جو ان دس سالوں میں مجھ سے رابطے میں نہیں رہا، وہ میرے بارے میں کچھ جانتا ہی نہیں ہے اور جو رابطے میں رہا ہے وہ شاید میرے چھلکے کو جانتا ہے گودے کو نہیں۔مجھے احساس ہے کہ اس طرح کے فقرات خود پذیرائی کے زمرے میں گردانے جا سکتے ہیں مگر میں مکمل شعوری طور پر یہ بات فقط بیانِ حال کے لئے کر رہا ہوں۔خود ستائش کا ارادہ رکھتا توعزلت نشینی اختیار ہی نہ کرتا۔ پچھلی دو کتب میں میں نے شاعری انہی موضوعات پر کی ہے اور دیباچوں میں بھی انہی کی طرف اشارہ دیا ہے۔ اس بار بات واضح بھی کر دی ہے کہ کسی کو شکایت نہ رہے کہ کھل کر نہیں بتایا۔
ایک سوال مجھ سے اکژپوچھا گیا ہے کہ میں نے شاعری میں انبیأ ؑ کی زندگی کے واقعات کو حوالہ بناتے ہوئے بہت کچھ لکھا ہے حالانکہ کہاں ان بلند پایہ ہستیوں کا مقام اور کہاں ہم جیسے عام انسان۔ اس کا جواب سادہ سا ہے۔ ہمیں یہ واقعات اس لیے نہیں سنائے گئے کہ ہم یہ سوچیں کہ کہاں ہم اور کہاں وہ اونچی ہستیاں بلکہ اس لئے سنائے گئے ہیں کہ ہم بھی ان بلند پایہ اکابرین کی سنتوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی اپنی زندگی تشکیل دینے کی کوشش کریں۔
جب ہم ایسی زندگی کی تشکیل کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں بھی کچھ امتحانات سے گزرنا ہوتا ہے۔ بس اس میں ایک نکتہ سمجھ لیں تو بھٹکنے اور اپنی حیثیت سے تجاوز کا احتمال نہیں رہتا۔ امتحان میں دو پہلو اہم ہوتے ہیں۔ اول نوع و طرزِ امتحان اوردوئم شدتِ امتحان۔ اللہ اپنی سنت میں تبدیلی نہیں کرتا سو طرزِ امتحان سب انسانوں کے لئے ایک سی ہوتی ہے مگر شدتِ امتحان انسان کے مقام ومرتبہ کے حساب سے ہوتی ہے۔ اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ خدا کی خوشنودی کے لئے اپنی محبوب چیز کی قربانی کا اصول سب کے لیے برابر ہے مگر قربانی کی جو کمال مثال ابراہیمؑ نے قائم کی وہ انہی کا اعجاز اور انہی کے مرتبے کے شایان ہے۔ میں نے یہ بات اپنے ایک شعر میں بھی بیان کی ہے۔۔۔
بس اپنے نفس پہ رکھ دی چھری، وہی تھا عزیز - مری بساط ہی کیا ہے خلیلؑ کے آگے - جن لوگوں نے میری کتب کو صرف شاعری کے طور پر پڑھا ہے انہوں نے یہ بھی تبصرہ کیا ہے کہ قلب و آگہی کے موضوعات کی نسبت کیمیا گر بہتر کتاب تھی۔ اب شاید وہ یہ بھی کہیں گے کہ انفس و آفاق کیمیا گرسے بہتر موضوعات کی حامل ہے مگر میں اس بات کو اور نظر سے دیکھتا ہوں۔ میں بارہا کہہ چکا ہوں مجھے سفرِباطن کا تجربہ لکھنا ہے اور میرے لیے یہ کتب نفسِ انسانی کے ارتقاء کا سفر ہیں۔ میری کتب انہی مراحل کی غمازہیں جن سے میں گزرا ہوں اور اگر ان میں ارتقاء دکھ رہا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ میری شاعری چند مہینوں میں ارتقاء پذیر ہو گئی ہے بلکہ یہ ہے کہ میری زندگی پچھلی ایک دہائی سے ارتقاء پذیر ہے۔ ہاں اب پچھلے دو برس سے قلب کا پیالہ چھلک رہا ہے تو اس کا اظہاربھی ہو رہا ہے۔مجھے خوشی ہے کہ یہ اظہار وارداتِ قلبی کی ترتیبِ نزول کے مطابق ہوا ہے۔
یہیں سے اس سوال کا جواب بھی ملتا ہے کہ اگر یہ سب اتنا ہی نظریاتی ہے تو شاعری میں کچھ غمِ دنیا، کچھ غمِ دوراں اور کچھ شکایاتِ دوراں کیوں ہیں۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ عموماََ روحانیت، قلب اور انسانی ارتقاء کی باتیں کرنے والے لوگ پکی پکائی دیگ سامنے رکھتے ہیں۔ ایسا کرنے سے وہ کوئی بہت اونچے درجے کی روحانی مخلوق تو محسوس ہوتے ہیں مگر عام انسانی تجربے سے بہت دور نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب عام انسان ہی ہیں اور ہم سب ہی خاص انسان بن سکتے ہیں۔
جو لوگ سمجھتے ہیں کہ تزکیہِ نفس اور تشکیلِ ذات کوئی بہت روح پرور سفر ہے، ان کے لئے عرض ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ ذات کا سفر اندھیرے کا سفر ہے۔ دنیا داری کے تکلیف دہ تجربات اور نفس کا دنیاوی معاملات پر شور و غوغا اس سفر کے سنگِ میل ہیں۔ روشنی تو اس کی منزل ہے۔ میرا منشا یہی ہے کہ پورے انسانی تجربے کو سب کے سامنے رکھا جائے۔ اس لئے آپ کو میری کتب میں غمِ دوراں اور غمِ ہستی دونوں ہی کے کئی سنگِ میل ملیں گے۔ میں نے پہلی کتاب میں بھی یہ ذکر کیا تھا کہ یہ ایک مضبوط زندگی کی تشکیل کے دوران اندر کے کمزور انسان پر گزرنے والے حوادث کا بیان ہے۔ اس بنیاد پر میری تمام شاعری تین حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے۔ نفسِ انسانی کا سفر، قلبِ انسانی کا سفر اور ادراکِ حقیقت کا بیان۔
میں نہیں جانتا کہ اس کتاب کے بعد میری تحریر کا رخ کیا ہو گا مگر مجھے یہ احساس اور ادراک ہے کہ جو بات قلب و آگہی میں چھیڑی تھی اور کیمیا گرمیں آگے بڑھائی تھی وہ انفس و آفاق میں ایک حد تک تکمیل پا گئی ہے۔ یہ تینوں کتب انتسابات سے لے کر موضوعات تک ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔ اس کتاب کا دیباچہ لکھتے ہوئے مجھے تکمیل کا ویسا ہی احساس ہو رہا ہے جیسا ایک تسبیح ختم کرتے اور دوسری شروع کرتے ہوئے ہوتا ہے۔
میں امید رکھتا ہوں کہ میری یہ تحریر میری تینوں ہی کتب میں موجود شاعری اور پچھلی دونوں کتب میں موجود دیباچوں کو آپ کی نظر میں واضح کر دے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے کچھ لوگ ضرور ان کتب کو پڑھیں گے جو پکا پکایا کھانا کھانے کی بجائے دیگ پکنے کا عمل سمجھنا چاہتے ہوں۔میں یہ امکان بھی دیکھتا ہوں کہ ان کتب کو پڑھ کر کچھ آگہی کے طالب قلوب کیمیا گری کے اس سفر پر ضرور نکلیں گے اور میں دعا گو ہوں کہ کوئی نہ کوئی تو انفس و آفاق کے پردے بھی چاک کرے گا۔
والسلام
عماد احمد
لاہور
۷۲ذوالحجہ، ۳۴۴۱ ہجری
بمطابق۷۲ جولائی ۲۲۰۲ء
1
جوش سے سینہ ہلے تو قُل ھُوَ اللہ،ُ اَحَد
خوف رگ رگ میں بہے تو قُل ھُوَ اللہ،ُُ،،ُُ اَحَد
جب خوشی پاؤ کوئی تو رَبِّ اَ وزِعنِی کہو
درد سینہ چیر دے تو قُل ھُوَ اللہ،ُ اَحَد
رحم کیا ہے، قہر کیا ہے، علم کیا ہے، حلم کیا
معرفت ملنے لگے تو قُل ھُوَ اللہ،ُ اَحَد
قلب جاری ہو کہو الحمدُلِلّٰہِ الّذِی
نفس کی خواہش جگے تو قُل ھُوَ اللہ،ُ اَحَد
2
آپﷺ کے نام سے دمکتا قلب
آپﷺ کے ذکر سے مہکتا قلب
نور و خوشبو کا امتزاجِ حسین
چاندنی رات میں چھٹکتا قلب
اسمِ احمدﷺ سے رفعتیں پاتا
نفس کے بوجھ کو جھٹکتا قلب
ہو گیا آج آشنائے حرم
وادیوں میں کہیں بھٹکتا قلب
دستِ رحمت سے آب دار ہوا
سال ہا سال سے بھڑکتا قلب
خاک ہوں پر کسی سے نسبت ہے
دیکھ لو نور سے چمکتا قلب
ذات کا امتحانِ جذب و سلوک
میناِ عشق سے چھلکتا قلب
لفظ اب ساتھ ہی نہیں دیتے
آ گیا ہوں لیے ہمکتا قلب
جب سے سمجھی ہے سنتِ آقاﷺ
نفرتوں میں نہیں دہکتا قلب
حوضِ کوثر سے دو قدم پیچھے
خوف و امید سے دھڑکتا قلب
دِکھ رہا ہے عماد اب واضح
عشق کے بام سے جھلکتا قلب
3
ضبطِ غم تہذیب ہے اور چشمِ نم تحریک ہے
قلب رمزیں جان لے تو قُل ھُوَ اللہ،ُ اَحَد
پیٹ بھوکا ہو تو کہہ وَاللہُ خیرُ الرّازقین
جب شکم سیری ملے تو قُل ھُوَ اللہُ اَحَد
انفس و آفاق دو تالے ہیں، کنجی ایک ہے
در نہیں تجھ پر کھُلے تو قُل ھُوَ اللہ،ُ اَحَد
دو جہانوں کا یہی ہنگام بھی، آرام بھی
جب سرا ملنے لگے تو قُل ھُوَ اللہ،ُ اَحَد
تو عماد اب تک کسے آواز دیتا رہ گیا
اب کھلے ہیں راستے تو قُل ھُوَ اللہ،ُ اَحَد
4
نور کو قلب کی دیوار میں محصور نہ کر
روشنی چاہئے جس جس کو اسے دور نہ کر
کچھ سفر دل کے پرندوں کے لئے ہوتے ہیں
سوچ کاندھے پہ لئے خود کو یہاں چُور نہ کر
ہجرتیں کرتے ہیں جذبات و خرد جسم سے قبل
ذات کو دور کہیں جانے پہ مجبور نہ کر
اپنی ہستی سے نکال ایک نیا ذوقِ سلیم
قالبِ خاکی کو یکسر ہی تو بے نور نہ کر
میری تنہائی کو محفل میں تماشا نہ بنا
میری گمنامی کو اس طور پہ مشہور نہ کر
نفسِ لوامہ کی تکلیف پہ آنسو نہ بہا
نفسِ امارہ کو اس کرب سے مسرور نہ کر
مرتکز قلب کو رکھ نکتہئ توحید پہ تُو
اپنے اندر چھُپے اصنام کو مغرور نہ کر
اپنی ہستی کا سفر خود ہی کیا جاتا ہے
تو مجھے ساتھ لئے پھرنے پہ مجبور نہ کر
اپنے ہونے کا سبب ڈھونڈ لیا تو نے عماد
اب اسے جی کے دکھا، شاملِ منشور نہ کر
5
غنیمت ہے عبادت میں گزر جائے کوئی پل تو
ملے اس عمر کی اندھی پہیلی کا کوئی حل تو
تری سب حسرتوں کا ہر مداوا پاس ہے میرے
دلِ مضطر چراغِ آرزو لے کر ذرا چل تو
اگر ہستی کے جنگل کے مسافر ہو تو ڈرنا مت
بس اپنے نفس سے بچنا، نگل لیتی ہے دلدل تو
جو بوندیں آ گریں تجھ پر انہی پر تیرا حق ٹھہرا
گھٹا کا رنگ کیا تکنا، گزر جاتا ہے بادل تو
عماد احمد سے رسم و راہ میں کچھ فاصلہ رکھ تُو
میاں کچھ روز جانے دے، بلایا تھا اسے کل تو
6
کوئی استاد نہیں رکھتا، نظر رکھتا ہوں
نفس اور قلب، میں دونوں کی خبر رکھتا ہوں
ابھی منزل سے بہت دور کسی دشت میں ہوں
اپنے کھو جانے کا احساس مگر رکھتا ہوں
وادی و صحرا میں تنہا ہی پھرا ہوں برسوں
اپنے سینے میں نہاں ایک نگر رکھتا ہوں
میرے اندر سے صدا آتی ہے، خوش بخت ہے تو
اپنی تنہائی کا افسوس اگر رکھتا ہوں
بیٹھتا رہتا ہے سائے میں مرے روز کوئی
اپنی ہستی میں کہیں ایک شجر رکھتا ہوں
میں کہیں دور نکل جاتا ہوں اپنے اندر
جیسے اس سینے میں اک لمبی ڈگر رکھتا ہوں
خود کو سینچا ہے بہت سال کی محنت سے عماد
تب کہیں ذات کی ٹہنی پہ ثمر رکھتا ہوں
میرے اندر سے صدا آتی ہے، خوش بخت ہے تو
اپنی تنہائی کا افسوس اگر رکھتا ہوں
بیٹھتا رہتا ہے سائے میں مرے روز کوئی
اپنی ہستی میں کہیں ایک شجر رکھتا ہوں
میں کہیں دور نکل جاتا ہوں اپنے اندر
جیسے اس سینے میں اک لمبی ڈگر رکھتا ہوں
خود کو سینچا ہے بہت سال کی محنت سے عماد
تب کہیں ذات کی ٹہنی پہ ثمر رکھتا ہوں
7
خواب جو پچھلی نسل سے چل رہا ہو اور اب اگلے زمانوں کے لئے بنیاد رکھے
اور مسافروہ جو طفلِ روح کو سینچے اسے آباد رکھے
ذات کے اور اشک کے اس معجزے کو جو سمجھ پاتا ہے
وہ قرنوں کسی آزار کا قیدی رہے
تب بھی سدا آزاد رہتا ہے کہ یہ ہی زندگی ہے
خواب کی تعبیر کو پانے کی خواہش میں زمانہ چھوڑ کر
اندر کے سفروں پر نکل آیا ہوا تنہا مسافر
تھک کے کب برباد ہوتاہے کہ یہ ہی راستی ہے
ریگ زارِ ذات سے پھوٹا ہوا اک چشمہئ اشکِ رواں
زم زم بھی کہہ دیں تب بھی تا آباد رہتا ہے کہ یہ ہی روشنی ہے!
8
صورتِ حال بدل سکتی ہے حالات نہیں
دن نکل آئے گا، ڈھلنے کی مگر رات نہیں
مرے بس میں مرا کردار، مری نیت ہے
مرے بس میں کسی انسان کے جذبات نہیں
مجھے اپنی نہیں، بستی کی بقا چاہئے ہے
مرا مقصد مری نسلیں ہیں، مری ذات نہیں
روح کو روشنی ملتی رہے اندر سے اگر
اندھی راہوں پہ بھی چل لیں گے، کوئی بات نہیں
شہر سے ہٹ کے مضافات میں بنوایا تھا گھر
اب کئی کوس کی دوری پہ بھی دیہات نہیں
جانتا ہوں کہ ریاضت میں کمی ہے اب تک
قلب شیشہ نہیں بن پایا، بدن دھات نہیں
میرِ منزل نہیں، میں میرِ مسافت ہوں عماد
اب مجھے راستہ کھو جانے کے خدشات نہیں
9
شوق چڑھتا ہے تو افلاک میں گم رہتا ہوں
خوف بڑھتا ہے تو میں خود میں سمٹ آتا ہوں
آبلہ پائی کی منزل سے سوا ہے یہ مقام
جس پہ میں نفسِ گراں بار لئے پھرتا ہوں
دل دہل جاتا ہے جب خود سے شناسا ہو بشر
منظرِ ذات کی ویرانی پہ میں چیختا ہوں
سورۃ الواقعہ پڑھتے ہوئے دل کانپتا ہے
خوف و امید کے مابین پگھل جاتا ہوں
کون اصحابِ یمیں، کون ہیں اصحابِ شمال
سابقیں کون ہیں اعراف پہ، یہ سوچتا ہوں
نفس پر پاؤں رکھے، سر کو ہتھیلی پہ لئے
لوگ کیونکر نہیں چلتے میں سمجھ سکتا ہوں
منجمد ہوتا ہوں ایسے کہ کوئی پتھر ہو
اور بہتا ہوں تو پھر بہتا چلا جاتا ہوں
غمِ جاناں کے سبھی روگ، سبھی سوگ گئے
میں کسی اور زمانے میں کہیں رہتا ہوں
غمِ دوراں تری نظموں کی رتیں بیت گئیں
غمِ ہستی کے چراغوں میں غزل لکھتا ہوں
اب کہاں کوئی ملالِ شبِ ہجراں ہے عماد
اب تو اپنے سے بھی ملتے ہوئے گھبراتا ہوں
10
قیام کرنا تھا سجدے میں جا پڑے کچھ لوگ
فتن کے عہد کی رعنائی میں گڑے کچھ لوگ
ستم کے دور کی تہذیب سے نہیں ڈرتے
امامِ وقت کی تقلید میں کھڑے کچھ لوگ
تمام شہر بکا، فرق صرف دام کا تھا
ضمیر و قلب کی خاطر تو بس اڑے کچھ لوگ
بہت ملے جنہیں خواہش قتال و جنگ کی تھی
جہادِ نفس کے اندر فقط لڑے کچھ لوگ
طبیعتوں میں بہت انکسار رکھتے ہیں
گرے ہوؤں میں بھی رہتے ہیں گر بڑے کچھ لوگ
جو آسمان سے اونچے مزاج رکھتے تھے
سبھی کے سامنے مٹی میں جا گڑے کچھ لوگ
خزاں بہار کے موسم میں آگئی تھی عماد
کھِلے تھے پھول کئی جب یہاں جھڑے کچھ لوگ
11
سکونِ قلب ہے ربِ جلیل کے آگے
امان مل گئی آ کر وکیل کے آگے
کمی زیادہ ہے لیکن بہت امید بھی ہے
بہت بھی کم ہے تمہارے قلیل کے آگے
حساب سخت کرو گے تو سخت دو گے بھی
میں ہار مانتا ہوں اس دلیل کے آگے
بس اپنے نفس پہ رکھ دی چھری، وہی تھا عزیز
مری بساط ہی کیا ہے خلیلؑ کے آگے
میں اپنی رسی کی تنگی سے خوش ہوا ہوں عماد
میں جانتا ہوں جو ہوتا ہے ڈھیل کے آگے
12
معنی تو انساں دیتے ہیں
لفظ بے معنی ہوتے ہیں
غم کبھی مارے دیتے ہیں
غم کبھی زندہ رکھتے ہیں
قہقہے محفل کو دے کر
سب تنِ تنہا روتے ہیں
13
گناہ کرتے رہے ہمیشہ کہ جیسے پردے رہیں گے رب سے
دلوں کے اندر گمان رکھے کہ سب چھپا ہی ہوا ہے سب سے
وصالِ نورِ خدا کی خواہش ہے میرے قلب و نظر کو ایسی
مزید ہمت نہیں بچی ہے، لگاؤ پیالے کو میرے لب سے
میں اپنے اندر پنپ رہا تھا، میں اپنے قالب میں ڈھل رہا تھا
ملا ہے اب نور کا خزانہ، تھا ایک مٹی کا ڈھیر کب سے
تمام دن سخت راستوں پر چلا ہے ہمت سے سر اٹھا کر
کھلا ہے کیا راز تیرے دل پر، کہا تھا کیا تو نے اپنی شب سے
طلسمِ دنیا کے ٹوٹنے سے کھلا ہے اک در نئی جہت میں
میں مادہِ بے نشاں نہیں ہوں، یقین آنے لگا ہے تب سے
عجیب تر فیصلے کئے تھے، عظیم تر راستے ملے ہیں
تمہیں بتاؤں میں رمزِ ہستی، جیا ہوں کیسے انوکھے ڈھب سے
غموں کے رستوں کی منزلوں پر حسین جذبوں کا اک محل ہے
مری بھی امید بڑھ رہی ہے، عماد ہنسنے لگا ہے جب سے
14
وقت کے ہاتھوں لٹ پٹ کر
وقت کی خواہش کرتے ہیں
رازداں کر لیتے ہیں دوست
اور پھر ڈرتے رہتے ہیں
ہم گئے وقتوں کے باسی
پچھلی صدیوں میں جیتے ہیں
عقل کی باتیں چھوڑ عماد
سب تجھے پاگل کہتے ہیں
15
انفس وآفاق
نیلگوں آسمان کے نیچے
سرمئی خاک پر کھڑا اک شخص
ہر طرف دیکھنے پہ قادر ہے
ہر طرح سوچنے پہ قادر ہے
نیلگوں آسمان کے نیچے
سرمئی خاک پر کھڑے ہو کر
ایک خواہش اٹھی کسی دل میں
اک تمنا بسی کسی دل میں
سوچ میں ایک آرزو اتری
رمزِ ہستی کرید لینے کی
رازِ ہستی کو جان پانے کی
کسی انجان راستے سے پرے
اجنبی دیس میں بسی بستی
تک پہنچنے کی، دور جانے کی
اپنی منزل کو ڈھونڈ پانے کی
نیلگوں آسمان کے نیچے
سرمئی خاک پر کھڑے ہو کر
چار سو ایک سے ہی رستے تھے
چار سو ایک سے اشارے تھے
آسماں ایک سا تھا ہر جانب
ریت ہر سمت ایک طرز کی تھی
کچھ نہیں کھل رہا تھا کس جانب
اپنا پہلا قدم اٹھے آخر
کون سی سمت میں مسافت ہو
اور ایسی عجب مسافت میں
کیا فقط ذات کی رفاقت ہو
نیلگوں آسمان کے نیچے
سرمئی خاک پر کھڑے ہو کر
چار سو دیکھتا رہا اک شخص
آرزو تولتا رہا اک شخص
مشرق و مغرب و جنوب و شمال
دل میں اٹھتے ہوئے ہزار سوال
خواہشیں پائدار ہیں کہ نہیں
منزلیں ہیں بھی یا نہیں ہیں کہیں
راستے پٹ سکیں گے کیا تنہا
ہمتیں بڑھ سکیں گی یا کہ نہیں
نیلگوں آسمان کے نیچے
سرمئی خاک پر کھڑے ہو کر
سوچتے سوچتے بڑھی امید
دیکھتے دیکھتے اٹھا خورشید
راستہ راستی سے نکلے گا
راستی راستے سے ابھرے گی
منزلیں خود بنائے گا وہ شخص
خواہشوں کو دوام خود دے گا
اپنی ہمت کو خود بڑھائے گا
اپنے رستوں کو پاٹ پائے گا
ایک امید، ایک قلب کی آگ
سوچ نے تھام لی شعور کی باگ
ہوگیا پوری ذات کا احراز
ایک لحظے میں کھل گئے کچھ راز
نیلگوں آسمان کے نیچے
سرمئی خاک پر کھڑے ہو کر
چار سو ایک سا ہی منظر تھا
چار سو ایک سے ہی رستے تھے
اور ہر راستہ حقیقت تھا
اور ہر راستہ عقیدت تھا
مشرق و مغرب و جنوب و شمال
جس طرف بھی نظر پڑی اس کی
اس ہی رستے پہ کھل رہے تھے کمال
نیلگوں آسمان کے نیچے
ایک ادراک ہو گیا یک دم
قلب بھی پاک ہو گیا یک دم
سارے امکان جڑ گئے گویا
راستے خود میں مڑ گئے گویا
منزلیں اپنی ذات میں نکلیں
آگہی کے ثبات میں نکلیں
آنکھ کیا دیکھنے پہ قادر ہے
قلب کیا سوچنے پہ قادر ہے
ایک انسان گر سمجھ پائے
کیا سے کیا کھوجنے پہ قادر ہے
نیلگوں آسمان کے نیچے
سرمئی خاک پر کھڑے ہو کر
16
درد ہوتا ہے تو ہو لینے دو
غم کو سینے میں سمو لینے دو
آنکھ پتھرا سی گئی ہے اب تو
کچھ گھڑی کے لئے رو لینے دو
جو نہیں ہونا تھا ہو بیٹھا ہے
اب جو ہونا ہے وہ ہو لینے دو
اشک ماضی تو نہیں دھو سکتے
چلو دامن ہی کو دھو لینے دو
17
قطعہ
قلب کو حسنِ وضو دیتا رہ
اس کے ہاتھوں میں سبو دیتا رہ
نبض ڈوبے بھی اگر تب بھی عماد
غمِ ہستی کو لہو دیتا رہ
18
خدا
تحیر ہے
تحیر در تحیر ہے
مکانی آدمی کیسے ستاروں کے سفر کے خواب بُنتا ہے
زمانی آدمی کیونکرکئی قرنوں پہ پھیلے سلسلوں کو جوڑ سکتا ہے
سفر کی سوچ تک تو خیر کچھ بھی عین ممکن ہے
مگر انسان جو مٹی کے جوہر سے اٹھا ہے کس طرح نور و بدن کو ایک کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے
شعورِ زندگی کو ڈھونڈنے نکلے تو یک دم کس طرح اجسام سے بڑھ کر شعورِ لامکاں اور لا زماں کی چاہ رکھتا ہے
ستاروں کے سفر کی راہ رکھتا ہے
ستاورں کا سفر تو سب زمانی اور مکانی سلسلوں کو ایک کر دیتا ہے
یہ پیغام دیتا ہے
جگہ اور وقت اک ہیں اور اک نقطے سے نکلے ہیں
تہور ہے
جنوں پیشہ تہور ہے
نفوسِ آدمِ خاکی کی مٹی میں تہور ہے
زمانی اور مکانی آدمی کا
بیکراں سوچوں کے پیچھے بھاگنا
جذبات کو تسخیر کرنااور اپنی ذات سے اونچے
بہت اونچے
ارادے باندھ کر تیار ہو جانا
انوکھے راستوں اور بے نشاں منزل کے حامل اس سفر کے واسطے خود کو مٹا کر اپنے اندر تار ہو جانا
تہور ہے
تغیر ہے
تغیر ہی تغیر ہے
کہاں مٹی کے جوہر سے بنا انسان جو حیوان لگتا ہے
کہاں پانی کے ماخذ سے اٹھا انسان جو انجان دکھتا ہے
کہاں یہ نور کی دنیا کی خواہش جو ازل سے نسلِ انسانی کی ہر تہذیب، ہر ترتیب میں موجود ہوتی ہے
پرانی داستانوں میں
کھدائی میں ملی اشکال میں
گزرے زمانوں میں لکھی غاروں کی دیواروں پہ
اور پتھر تراشی کے نتیجے میں بنی اصنام گاہوں میں
اور ان کے بعد
اب بھی، آج بھی
انسان کی بنیادی تکلیفوں کے ہوتے بھی
ستاروں کے سفر کی چاہ میں
کتنا تغیر ہے
تصور ہے
یقینا اک تصور ہے
مکانی آدمی کیسے ستاروں کے سفر کے خواب بنتا ہے
زمانی آدمی کیونکر کئی قرنوں پہ پھیلے سلسلوں کو جوڑ سکتا ہے
بھلا انسان جو مٹی کے جوہر سے اٹھا ہے کس طرح نور و بدن کو ایک کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے
شعورِ زندگی کو ڈھونڈنے نکلے تو یکدم کس طرح اجسام سے بڑھ کر شعورِ لامکاں اور لا زماں کی چاہ رکھتا ہے
بھلا یہ کیا تغیر ہے
بھلا یہ کیا تہور ہے
کہیں کچھ ہے جو اس انسان کے اندر ودیعت ہے
کہ وہ نوری ہے، نوری سلسلوں کی اَوربڑھنااس کی فطرت ہے
کہ اس میں روح ہے اور روح کا بھی ایک ماخذ ہے
کہ اس ماخذ کا بھی پھر ایک محور ہے
یونہی دو چار گھڑی رک جاؤ
چشمِ شوریدہ کو سو لینے دو
غیر نے مجھ سے مجھے مانگا ہے
میرے اپنوں سے کہو لینے دو
اس کھرے سچ کے عوض مال و متاع
اس کو یہ چاہئے تو لینے دو
جو صلہ مانگے کسی چاہت کا
تم اسے ایک کے دو لینے دو
یہ بہت سال میں سمجھا میں عماد
وہی سکھ ملتا ہے جو لینے دو
اسی کا یہ تحیر ہے
اسی کا یہ تہور ہے
اسی کا یہ تغیر ہے
اسی کا یہ تصور ہے
19
رک جا، آگے مت جا، آنچل جل جائے گا
اس امرت دھارے سے چھاگل جل جائے گا
سب اپنے اپنے اعمال کے بدلے گروی
آج جو آگ لگائے گا، کل جل جائے گا
قلب کی آتش کو ہر گام پہ یوں مت بھڑکا
تیرا من جنگل ہے، جنگل جل جائے گا
دیکھو بٹیا جذبوں کی حدت کو سمجھو
اشک بہیں گے، سارا کاجل جل جائے گا
تنہائی اچھی ہے ایسے ہنگامے سے
جس میں ماں بہنوں کا آنچل جل جائے گا
اپنے اندر کا موسم باہر بھی ہوا تو
ساون آگ جنے گا، بادل جل جائے گا
شاہ کی شاہی بھی، وزراء کی عیاری بھی
قاتل تو کیا، پورا مقتل جل جائے گا
کوئی عماد احمد سے کچھ امید نہ رکھے
بل نہیں نکلیں گے گو کمبل جل جائے گا
20
ذرہ ذرہ نکھر رہا ہوں، چمکی پوری ذات نہیں
وقت لگا ہے، وقت لگا ہی کرتا ہے، کوئی بات نہیں
باہر کی کچھ فکریں ہیں اور اندر کی کچھ سوچیں ہیں
اب کے میرے افسانے میں جذبوں کی برسات نہیں
اس رستے پر جو گرتا ہے اپنے اندر گرتا ہے
چلنے والے خود سے بچنا، باہر کوئی گھات نہیں
مدت ایک لحد میں رہنا ہے اس کا احساس نہ ہو
ایسا کوئی روز نہیں اور ایسی کوئی رات نہیں
جذبوں نے تحریر کیا اور سوچوں نے تسلیم کیا
روح و بدن نے بھی سچ جانا، بھٹکی میری ذات نہیں
اب جو کہنا ہے سو کہہ دو، اب جو سننا ہے سن لو
عمرکے اس حصے میں اب کچھ کھونے کے خدشات نہیں
آج عماد احمد گم سم ہے، بات نہیں کچھ کہنے کو
آج اسے کھل کر رونے دو، اس میں ایسی بات نہیں
21
ہم کبھی انفس و آفاق کو سمجھے ہی نہیں
اپنے سینے میں چھپے طاق کو سمجھے ہی نہیں
شوقِ نظارہ سے آنکھوں کو ادب بھول گیا
اور وہ دیدہئ بے باک کو سمجھے ہی نہیں
جو سمجھتے ہیں کہ برکت ہے حصولِ دولت
بات اتنی ہے وہ انفاق کو سمجھے ہی نہیں
یہ نمو پائے تو سو رنگ میں ڈھل جاتی ہے
آدمِ خاکی ہو پر خاک کو سمجھے ہی نہیں
قلب دھوتے رہے اور نفس پہ رکھی نہ نظر
پاک تو سمجھے ہو، ناپاک کو سمجھے ہی نہیں
ہم جگر سوز بھی پیوندِ قبا لے کے پھرے
دیدہ ور پیرہنِ چاک کو سمجھے ہی نہیں
آپ کہتے تھے تجلی سے بدل جاتا ہے قلب
آپ کیوں مجھ پہ پڑی دھاک کو سمجھے ہی نہیں
نور سے نور ملا اور ملی خاک میں خاک
لوگ اس معرکہئ ساق کو سمجھے ہی نہیں
رنگ و مستی میں مگن اتنے رہے لوگ عماد
جذب کو، روح کو، ادراک کو سمجھے ہی نہیں
22
قلب کٹورا بھر جائے گا
عشق سے سینہ تر جائے گا
من کی پیاس بجھا کر آخر
سادھو اک دن گھر جائے گا
خود سے ملنے جانے والے
خود سے مل کر ڈر جائے گا
آس کا پنچھی میرے در پر
شاہ کا اک خط دھر جائے گا
رمز کی باتیں کرنے والا
خاموشی سے مر جائے گا
روح و بدن کی رزم بپا ہے
سہرا کس کے سر جائے گا
کون عماد سے ملنے کو اب
غم کی چوٹی پر جائے گا
23
دل کے سفر میں ایک قلق بارہا ہوا
جتنا بھی جس سے ربط بنا، ٹوٹتا رہا
دریائے غم کی لہر بہا لے گئی مجھے
لوگوں کو بحرِ ذات میں ڈوبا ہوا ملا
اندر کے موسموں سے ہی بنتی ہے زندگی
دنیا تو ہنس رہی تھی مگر میں اداس تھا
اتنی کشش بڑھی کہ سبھی نور پی گئے
کچھ کالے دائروں نے ستاروں کو کھا لیا
لیکن یہ جذب موت نہیں راستہ ہے یہ
جس نے مکاں زماں کو مکمل مٹا دیا
یہ رازِ کائنات ہے یا رازِ ذات ہے
اتنا بتا دیا ہے تو آگے بھی کچھ بتا
انفس کی جنگ چھڑ گئی آفاق میں عماد
لگتا ہے غازیوں کو نیا راستہ ملا
24
تناظر
ایک مِل میں جلتی آگ
دو کروڑ کا نقصان
چند ساعتوں میں ہی راکھ ہو گئی سب آن
دو کروڑ کا نقصان
دو کروڑ کا نقصان
سو کروڑ ہوں تو پھر
اک ارب بناتے ہیں
سو ارب ملیں گر تو اک کھرب بناتے ہیں
اک کھرب سمجھتے ہو
کتنا لمبا ہندسہ ہے
جانتے ہو سر اوپر
کتنی کہکشائیں ہیں
دور بین نے اب تک
کتنی ڈھونڈ ڈالی ہیں
دو کھرب سمجھتے ہو
دو کھرب دکھا دی ہیں
کتنی اب بھی نظروں سے
بلکہ اپنی سوچوں سے
بھی پرے بسی ہوں گی
جو ہماری دنیا سے اور ہمارے ہر غم سے
دور ہو رہی ہوں گی
اتنی کہکشاؤں میں کس قدر ستارے ہیں
اور ہر ستارے کے ساتھ جو زمینیں ہیں
اور ان زمینوں میں کتنی داستانیں ہیں
ایک مِل میں جلتی آگ
دو کروڑ کا نقصان
کہکشاؤں کی گنتی
قلب و ذہن سب حیران
ایک کربِ لا حاصل
ایک دردِ لا ساحل
ایک مِل میں جلتی آگ
ذات میں سلگتی آگ
دو کروڑ کا نقصان!
کہکشاؤں کا ہیجان!
25
کبھی سادہ کبھی مشکل
کبھی جادہ کبھی منزل
ہوئے کس کس جگہ گھائل
کِیا کتنوں کو کیا قائل
یہ اک ادراک کا لمحہ
مری تکلیف کا حاصل
دھواں اٹھتا رہا برسوں
سلگتا رہ گیا یہ دل
مرے اندر سمندر تھا
مرے اندر ہی تھا ساحل
زبوں قلبی مرا سچ ہے
میں اپنی ذات میں سائل
جلی جب شمعِ غم مجھ میں
دمکتا ہی رہا یہ دل
کبھی تھک کر گرا گر میں
تو ملنے آگئی منزل
تجھے کیا چاہئے مجھ سے
بتا کس غم کے ہے قابل
عماد اتنا شکستہ دل
اداسی کی طرف مائل
26
گھل گیا جسم انتظار کے ساتھ
روح اب جا ملے گی یار کے ساتھ
بندگی کی حدود جانتا ہوں
ہے خشیت بھی اس کے پیار کے ساتھ
جیسے دریا ملے سمندر سے
خاک میں جائیں گے قرار کے ساتھ
صرف تلوار کچھ نہیں کرتی
قوتِ بازو بھی ہو دھار کے ساتھ
میں نے قصے سنے ہیں جنت کے
مجھ کو مرنے دو اس خمار کے ساتھ
اس نے مجھ سے کہا چلے جاؤ
دل دکھایا ہے اختصار کے ساتھ
میرا اپنا جنون کیا کم تھا
تم بھی آ بیٹھے اس بخار کے ساتھ
قلب روشن نہیں اگر میرا
کیا کروں گا میں اختیار کے ساتھ
کاش آئیں ملائکہ جس دم
جان لیں میری خاص پیار کے ساتھ
خاک میں دب کے پھر اگوں گا میں
اور کھل جاؤں گا بہار کے ساتھ
کر عماد آج اس نصیب کا ذکر
جو مقدر ہوا ہے غار کے ساتھ
27
Details coming soon.
28
تم کیا سمجھے قوت سے بس آس بڑھی
قلب کی محرومی بھی میرے پاس بڑھی
ایک ضمیر کو مار کے خود میں دفن کیا
پھر میرے ریشے ریشے میں باس بڑھی
شوق کو پورا کرنے سے ہی شوق بڑھا
پیاس بجھانی چاہی جب، تب پیاس بڑھی
گھور اندھیرے میں امید ہوئی روشن
اندھی رات سے چڑھتے دن کی آس بڑھی
کچھ دن گھر سے دور گیا، پیچھے سے عماد
چھت سے پانی ٹپکا، صحن میں گھاس بڑھی
29
وئی بھی آباد نہیں ہوتا ہے
خوف تہذیب کی بنیاد نہیں ہوتا ہے
توڑ کے نفس کی رسی کو جو تا عمر چلے
وہ بھٹک جاتا ہے آزاد نہیں ہوتا ہے
جس نے پامال زمینوں سے پرے جانا ہو
ایسے انسان کا استاد نہیں ہوتا ہے
تو کبھی انفس و آفاق کی گتھی سلجھا
قلب دھو لینے سے ہی شاد نہیں ہوتا ہے
روشنی پائی ہے جس دن سے نگاہوں میں عماد
تیرگی کا یہ سبق یاد نہیں ہوتا ہے
30
آئینہ
آئینے میں دیکھا تو
ایک شخص غصے سے
گھورنے لگا مجھ کو
آنکھ میں لئے نفرت
ہاتھ میں لئے نشتر
دیکھنے لگا مجھ کو
پوچھنے لگا مجھ سے
تم عماد احمد ہو
آج مل گئے آخر
اب حساب دو گے تم
میں نے حوصلہ کر کے
اس کو جوں ہی للکارا
وہ بھی مجھ پہ للکارا
میں نے اپنے ہاتھوں کو
اس کی آستینوں پر
ڈالنے کی کوشش کی
اس نے بھی اٹھایا ہاتھ
میری آستینوں پر
ڈالنے کی کوشش کی
میں نے اس کو دھتکارا
اس نے مجھ کو دھتکارا
میں نے اس پہ تُف بھیجی
اس نے مجھ پہ تُف بھیجی
وہ نہیں ڈرا پہلے
میں نہیں ڈرا پہلے
پھر مجھے اچانک ہی
خوف کا ہوا احساس
آئینے میں میں ہوں یا
سامنے مرا ہمزاد
اور اس گھڑی یکدم
وہ بھی ڈر گیا مجھ سے
میں نے اس سے پوچھا تو
عکس ہے یا یہ ہمزاد
اس نے عین اس لمحے
مجھ سے بھی یہی پوچھا
تھک کے گر گیا وہ بھی
تھک کے گر گیا میں بھی
آئینے میں دیکھا تو
آئینے میں دیکھا تو
31
درد الفاظ میں ڈھلتے تھے کبھی رات ڈھلے
مجھ پہ اشعار اترتے تھے کبھی رات ڈھلے
اب سرِ شام سرک آتے ہیں دہلیز کو لوگ
ہم اسی شہر میں پھرتے تھے کبھی رات ڈھلے
خوف محسوس نہیں ہوتا تھا ہر لمحے سے
شاذ ڈرتے تھے تو ڈرتے تھے کبھی رات ڈھلے
رات کی شفٹ میں سکرین پہ رہتی ہے نظر
تم بھی مہتاب پہ مرتے تھے کبھی رات ڈھلے
اب کوئی رنج، کوئی درد، کوئی روگ نہیں
بام و در کیسے سسکتے تھے کبھی رات ڈھلے
میرے اندر کے جنوں، میرے مقدر کے ملال
میرے اندر ہی سلگتے تھے کبھی رات ڈھلے
کوئی صدمہ، کوئی غم یا کوئی محرومیئ ذات
سارے پتھر ہی پگھلتے تھے کبھی رات ڈھلے
تم عماد اتنے برس ایک سے دن کاٹ کے بھی
کیسے لمحوں میں بدلتے تھے کبھی رات ڈھلے
32
نظریاتی سفر میں جسم و جانِ آدمی کے غم
لحد کا سوچنے سے روکتے ہیں زندگی کے غم
کسی تشنہ لبی کا واسطہ دیتے ہوئے کچھ پل
کسی کمزور لمحے سے مخاطب بے خودی کے غم
جہالت کے اندھیروں سے غموں کا سلسلہ پھوٹا
پھر اس کے بعد پاتے آئے اکثر آگہی کے غم
وہ بھی خوف سے کانپا
میں بھی خوف سے کانپا
ہم میں کون انساں ہے
عکس کون ہے ہم میں
ہم میں کون اصلی ہے
اور کون ہے ہمزاد
کون بات کرتا ہے
کون ہے فقط احساس
عکس کی حقیقت کیا
آئینے کا سچ کیا ہے
وہ نہیں سمجھ پایا
میں نہیں سمجھ پایا
اندھیری رات کے ہر درد سے واقف ہوا میں تب
سنے جب رات کے پہلو سے لپٹی روشنی کے غم
تجھے غم ہے عدالت کا، سیاست کا، حکومت کا
تجھے کیا علم کیسے کاٹتے ہیں بے بسی کے غم
عداوت ہو گئی جس سے نبھائی خوش دلی سے وہ
نہیں برداشت کر پایا تمہاری دوستی کے غم
عماد احمد ملالِ ذات کے صحرا سے ہو آئے
سنا ہے چُن لئے ہیں آگہی اور بہتری کے غم
33
قطعہ
درد اقدار کا حصہ ہے اسے جینا ہے
چپ کا، اظہار کا حصہ ہے اسے جینا ہے
عید شبرات پہ یاد آتے ہیں گزرے ہوئے لوگ
یہ بھی تہوار کا حصہ ہے اسے جینا ہے
34
دوراہے کی یاد
شبستانِ غمِ ہستی میں تیرے دکھ کے پہلو سے
لپٹ کر خوب رویا میں
غمِ جاناں بتا آنا
غمِ دوراں سے ہو آنا
شعورِ ذات کے صحرا میں آ کر خیمہ زن ہونا
وجودِ آدمِ خاکی کے ماخذکو سمجھنے میں مگن ہونا
حقیقت کے نہاں پردوں کو خود سے چاک کرنے کی لگن ہونا
نصیبہ ہے
نصیبے کی بہت اونچی چٹانوں سے گزر آیا
زمانوں سے گزر آیا
مکانوں سے گزر آیا
سبھی حسّی مصائب سے، گمانوں سے گزر آیا
زمیں کی کوکھ سے اور آسمانوں سے گزر آیا
مگر ایسا سفر جس کاکوئی انجام مشکل ہو
کوئی منزل نہ سنگِ میل ہو
پھر نام مشکل ہو
وہاں گر کوئی ایسا ماپ ہے جو یہ بتاتا ہو
کہ کتنے ماہ و سال آئے
کہ کتنے سنگِ میل آئے
برس کتنے غموں کی ہر پرت کو دیکھنے، ترتیب دینے میں گزر پائے
تو ایسا ماپ بس آغازِ منزل کی نشانی ہے
جہاں سے بات کھلتی ہے
جہاں سے ذات کھلتی ہے
کہ میں کس گام پر تھا اور کس رستے پہ چلتا تھا
کہاں رہتا تھا آخر کون سی بستی کا باسی تھا
کہ میں کس موڑ سے کیسے مڑا تھا،کیوں مڑا تھا جو
غمِ جاناں سے ہو آیا
غمِ دوراں بتا آیا
میں ایسی دور جا آیا
اک ایسے موڑ، ایسی راہ پر یہ میرا من کیوں تھا
شعورِ ذات کے صحرا میں آکر خیمہ زن کیوں تھا
وجودِ آدمِ خاکی کے ماخذ کو سمجھنے میں مگن کیوں تھا
سو اس آغازِ منزل کی نشانی میں سمٹ کر ایسے سویا میں
شبستانِ غمِ ہستی میں تیرے دکھ کے پہلو سے
لپٹ کر خوب رویا میں
35
نفس سے گھرتے گھرتے گھر جاتے ہیں لوگ
سوچ میں گرتے گرتے گر جاتے ہیں لوگ
اچھے دور کے رشتوں اور وعدوں کو چھوڑ
وقت بدلتا ہے تو پھر جاتے ہیں لوگ
وقت کی آری دل پر چلتی رہتی ہے
اندر ہی اندر سے چِر جاتے ہیں لوگ
باہر کے غم اندر تک آ جاتے ہیں
کم ہی اندر سے باہر جاتے ہیں لوگ
دنیا دنیا کرتے کرتے دنیا سے
جانا پڑتا ہے آخر جاتے ہیں لوگ
روح کے در کھلتے ہیں جب سینوں پہ عماد
سر پٹ جاتے ہیں حاضر جاتے ہیں لوگ
36
درد میں بھی ہنستا رہتا تھا بہتر تھا
جب تک آنسو پی لیتا تھا بہتر تھا
جوشِ جنوں سے پہلے سانسیں آساں تھیں
زخمی ہو کر گر جاتا تھا بہتر تھا
جیتے جی مرنے لگ جاتا ہوں میں اب
مرتے مرتے جی اٹھتا تھا بہتر تھا
تنہائی اور سناٹے میں خوش تھا میں
دل کی باتیں سن پاتا تھا بہتر تھا
اب بھی تو بیٹھے ہیں بازی ہار کے لوگ
کر لیتے جو ہو سکتا تھا بہتر تھا
سانسوں کا آزار بدن پر حاوی تھا
قلب مگر جاری رہتا تھا بہتر تھا
ٹھنڈی سانسیں آج بری لگتی ہیں عماد
آہ سے سینہ جل اٹھتا تھا بہتر تھا
37
سوال کچھ اور پوچھنا تھا جواب کچھ اور لے لیا ہے
حساب لینا تھا چشمِ نم کا نصاب کچھ اور لے لیا ہے
دکانِ دنیا سے مقصدِ زندگی خریدا ہے دام دے کر
ذرا سا رکئے، ذرا ٹھہرئے، جناب کچھ اور لے لیا ہے
فتن کے اس دور میں حقیقت پہ اتنی سطحی نظر نہ ڈالیں
یہاں بہت سوں نے کج روی میں سراب کچھ اور لے لیا ہے
38
کربِ شعور تھا جسے ڈھالا ہے شوق میں
قلب و نظر کو ایسے اجالا ہے شوق میں
آنکھیں ترس رہی تھیں تو دھڑکن تھی بے لگام
مشکل سے اس بدن کو سنبھالا ہے شوق میں
سوچوں کو اس کے نور سے سیراب کیجئے
قلب ایک آگہی کا پیالہ ہے شوق میں
غلام ابنِ غلام نسلیں، زمین پر رینگتی رہیں گی
کیا ہے یوں دہریا دہر نے، عتاب کچھ اورلے لیا ہے
مزاج اتنے نفیس رکھے کہ حق کی خاطر بھی کچھ نہ بولے
تمام دنیا کے ساتھ چل کر عذاب کچھ اور لے لیا ہے
فلک کے اس پار سے یکایک شہابِ ثاقب ابل پڑے ہیں
رہِ معارج نے ابنِ شر سے حساب کچھ اور لے لیا ہے
عماد اتنے برس تو انفس کے راستوں پر لکھا ہے تو نے
اب آسمانوں کے سات رستے، یہ باب کچھ اور لے لیا ہے
میرا ہر ایک ذوق تری جستجو میں ضم
تیری ہی آرزو کا حوالہ ہے شوق میں
گرچہ بدن ہے خاک سے اٹھا ہوا مگر
یہ قلب روشنی کا نخالہ ہے شوق میں
انفس کا درد گم گیا آفاق میں عماد
میں نے یہ اضطراب بھی پالا ہے شوق میں
39
نفرتیں، درد، خوف، پیار میاں
چھوڑ اب زندگی گزار میاں
تیرا ماتھا بھی داغ دار میاں
میرا دامن بھی تار تار میاں
پہلے تنہائی روز کاٹتی ہے
آ ہی جاتا ہے پھر قرار میاں
کیا گنے گا جنوں کے ماہ و سال
سانس کی پھانس کر شمار میاں
منتظر ہے لحد ہماری اب
اب کسے کس کا انتظار میاں
میری تشکیلِ جاں کا محور ہے
میرے اندر کا انتشار میاں
تیرے آنے سے بے سکون ہوا
تیرے جانے سے بے قرار میاں
میرے اندر نہیں بسو اے دوست
یہ ہے اجڑا ہوا دیار میاں
نفس کا بوجھ لاد بیٹھا تھا
زندگی بن گئی تھی بار میاں
سوچ و جذبات جسم پر حاوی
خیر و شر روح پر سوار میاں
خاک اور نور کے مرکب کا
چند سانسوں کا اختیار میاں
اپنے اشکوں پہ بند باندھ عماد
درد پر کھینچ لے حصار میاں
40
ربط ِاول و آخر
آخرالزمانی ہو؟
آخرالمکانی ہو؟
تم سے پیشتر کتنے دور آ چکے ہوں گے
جانے کتنی تہذیبیں
جانے کس قدر قومیں
آکے جا چکی ہوں گی
کچھ کو جانتے ہو تم
کچھ کو مانتے ہو تم
کچھ سمجھ میں آتی ہیں
کچھ سمجھ نہیں آتیں
کچھ کی باقیاتِ عام
کچھ کی باقیاتِ خاص
کچھ کی کاربن ڈیٹنگ
کچھ کی داستانیں پاس
کچھ عیاں عیاں سی ہیں
کچھ نہاں نہاں سی ہیں
کچھ فقط معمہ ہیں
کچھ فقط کہانی ہیں
کچھ بیاں سے باہر کچھ
قابلِ بیاں سی ہیں
فرد فرد تہذیبیں
ایک ایک نکتے کو جوڑتی ہیں سچ کے ساتھ
اور چند ایسی ہیں
جو کہ ہم بیاں بھی ہیں
خود میں اک نشاں بھی ہیں
کچھ کا رعب ہے اب تک
کچھ کا شور ہے سب تک
کچھ کی کھوج ہے اب تک
کچھ کی موج ہے اب تک
تم سے پیشتر کتنے
ان گنت زمانے ہیں
ان گنت زمانوں کے
ان گنت ترانے ہیں
زیست کے ہزاروں گر
ان گنت بہانے ہیں
ہم سے قبل دنیا میں
کتنی بستیاں ہوں گی
کوئٹہ کے بت خانے
کھنڈراتِ وَیروبار
اکواڈور کے احرام
چین کے پرانے برج
انڈونیشیا کے بت
مصر کے صنم خانے
راز کیا بتاتے ہیں؟
زیست کے حوالوں کے ساز کیا بجاتے ہیں؟
کیا ہمیں سکھاتے ہیں؟
فرق فرق خطوں میں
دور دور ملکوں میں
خال خال عہدوں میں
ایک سے حوالے ہیں
ایک سے صنم خانے
ایک سے اشارے ہیں
ایک سے نشانِ زیست
بات کیا بتاتے ہیں
آنکھ دیکھ سکتی ہے
سوچ جان سکتی ہے
ہم نے آج تک بس کچھ حادثات سمجھے ہیں
کچھ ہزار سالوں کے واقعات سمجھے ہیں
اس سے قبل کی تاریخ اب بھی دھلنے والی ہے
بات کھلنے والی ہے
آدمی کی اصلیت، ذات کھلنے والی ہے
آخر الزمانی ہو؟
آخر المکانی ہو؟
خوب دیکھ سکتے ہو
ٹوٹنے کو ہے ترتیب
ڈوبنے کو ہے تہذیب
جیسے پہلے ٹوٹی تھی
جیسے پہلے ڈوبی تھی
آخر الزمانی ہو؟
آخر المکانی ہو؟
اول الزماں سمجھو!
اول المکاں سمجھو!
اس سے قبل بھی انسان ایک بار ڈوبا ہے
اس کے بعد بھی انسان ایک بار ڈوبے گا
جس نے اول و آخر کے نشان جوڑے ہیں
اس نے ہر مکانی شے سے زمان جوڑے ہیں
اس نے نسلِ آدم کے ارضی و سماوی رازچشمِ دل سے دیکھے ہیں
آخرالزماں میں ضم
شعبدہ گری کے بت اپنے ہاتھ توڑے ہیں
تم بھی اول و آخر کو کرید سکتے ہو
ربط جوڑ سکتے ہو
تم بھی ایسے سارے بت خود سے توڑ سکتے ہو
تم بھی آسماں کے در اور ابلتے چولہے سے پانیوں کے آنے تک بات موڑ سکتے ہو
ذات موڑ سکتے ہو
تم بھی ایک کشتی کے کیل جوڑ سکتے ہو!
41
قطعہ
قلب کے اندر آگ لگی ہے، نفس کے اندر برف جمی ہے
آ بیٹھا ہوں آنچ میں اپنی، آنکھ میں پگھلے من کی نمی ہے
ڈھونڈا، کھوجا، سمجھا، پرکھا، اتنا جانا کوئی کمی ہے
اپنی ساری عمر بِتا کر رب پر آ کر بات تھمی ہے
42
حرمتِ زندگی ضروری ہے
ورنہ یہ زیست تو عبوری ہے
والہانہ نہیں مرے سجدے
یہ محبت بہت شعوری ہے
ابھی پردے میں ہے جمالِ یار
ابھی یہ آرزو ادھوری ہے
آنکھ سے دور، شاہ رگ سے قریب
کیسی قربت ہے کیسی دوری ہے
فیصلہ آپ کا ہے میرا نہیں
میں تو حاضر ہوں، چاہ پوری ہے
رازِ کن پا لیا ہے تو نے عماد
تیرے سجدے میں اب حضوری ہے
43
کچھ جنوں، کچھ خرد کے نام ہوئی
بس یونہی زندگی تمام ہوئی
ایک امکان کو کریدا تھا
ایک امید بے لگام ہوئی
میں نے جگنو سے راستہ پوچھا
رات کچھ اور زیرِ بام ہوئی
سوچ، جذبات سب ہوئے بے دل
آنکھ پتھرائی، بے منام ہوئی
راستہ پا لیا تھا میں نے مگر
تب تلک زندگی کی شام ہوئی
ذات میں کتنے دیپ روشن تھے
جب اندھیرے سے ہم کلام ہوئی
خود کو پانے کے راستوں میں عماد
شبِ ہجراں بھی اک مقام ہوئی
44
جو ڈوبتی آنکھوں کی تمازت نہیں سمجھا
وہ شخص شبِ غم کی کیاست نہیں سمجھا
ہر غم نے تجھے پھر سے ابھارا کہ جلا پا
تو ترشیئ دوراں کی حلاوت نہیں سمجھا
تو اب بھی رہ و رسمِ شکایات میں گم ہے
تو آج بھی جذبوں کی ثقافت نہیں سمجھا
میں ذات کے اسرار بتاتا اسے کیسے
جو رات کے اسرار کی بابت نہیں سمجھا
تو کس سے محبت کا صلہ مانگ رہا ہے
جو تیرا کوئی کارِ ریاضت نہیں سمجھا
کیوں میرے سنبھل جانے پہ حیران کھڑا ہے
کیا میری سمجھ جانے کی عادت نہیں سمجھا
پا گوشہ نشینی کی جگہ ربطِ زمانہ
اشراف کو سمجھا ہے شرافت نہیں سمجھا
جو فرصتِ دوراں کی اسیری میں رہا وہ
لمحاتِ پریشاں کی فراست نہیں سمجھا
میں اپنے ہی جذبوں پہ پریشان کھڑا ہوں
میں اپنے ہی سینے کی شقاوت نہیں سمجھا
میں حشر بپا کرتا تو کس بات پہ کرتا
میں نے ترے جانے کو قیامت نہیں سمجھا
تجھ سے نہیں، ہے منزلِ مقصود سے نسبت
اے میرِ سفر، تو مری حالت نہیں سمجھا
اے دل تجھے اب تک ہے مقدر سے شکایت
لگتا ہے شبِ غم کی وضاحت نہیں سمجھا
کیوں اپنے لئے اتنے خدا پال رہا ہے
کیا سجدہئ واحد کی نجابت نہیں سمجھا
گر کوئی گلہ ہے تو بس اپنے سے گلہ ہے
اوروں کی سنی اپنی شکایت نہیں سمجھا
اظہار سے واقف تھا خموشی سے نہیں سو
وہ میری نگاہوں کی فصاحت نہیں سمجھا
لمحوں کے کس درد کا اب اس سے گلہ کیا
وہ شخص جو صدیوں کی روایت نہیں سمجھا
ملکوں کے مسائل سے سوا ہے یہ حقیقت
افسوس مسلمان سیاست نہیں سمجھا
ترتیب سمجھتا ہے نہ تہذیب عماد اب
جو عمرِ فراغت کی عنایت نہیں سمجھا
45
درد کی تحریک ہو یا غم کی ترتیبِ نزول
رفتہ رفتہ کھل رہی ہے نم کی ترتیبِ نزول
کونسی سانسوں میں کیا اعمال کرنے ہیں مجھے
عمر ڈھلتے پا رہا ہوں دم کی ترتیبِ نزول
تو بدلتا ہے تو میں بھی پھر بدل جاتا ہوں کچھ
جان لی تبدیلیئ باہم کی ترتیبِ نزول
اشک بھی بہتے رہیں ایمان بھی بڑھتا رہے
نفسِ آدم تیرے زیر و بم کی ترتیبِ نزول
انفس و آفاق کے اسرار کھلنے لگ گئے
جب عماد احمد کھلی اس ضم کی ترتیبِ نزول
46
ایک یک طرفہ محبت تھی چلو ختم ہوئی
ایک بے وجہ عقیدت تھی چلو ختم ہوئی
اس خرابے میں بہت لوگ ملے اجڑے ہوئے
پھر بھی اک میری ضرورت تھی چلو ختم ہوئی
ہم بھی اوروں کی طرح نکلے ہوس کے مارے
قلب میں تھوڑی نجابت تھی چلو ختم ہوئی
چلو تسلیم کیا مجھ میں کئی کھوٹ رہے
وہ جو نیت میں خیانت تھی چلو ختم ہوئی
جان کیا شے ہے، بدن کیا ہے، یہ رشتہ کیا ہے
چند لمحات کی راحت تھی چلو ختم ہوئی
اب نہیں ہوتا کسی شخص کے جانے کا ملال
مجھ میں بس اتنی ہی ہمت تھی چلو ختم ہوئی
چار چھ لوگ مرے ساتھ چلے تھے کچھ سال
جو بچائی ہوئی قسمت تھی چلو ختم ہوئی
میں نے ماضی کے کئی نقش مٹا ڈالے ہیں
کتنی نسلوں کی نحوست تھی چلو ختم ہوئی
خود حسابی سے کھلا رحم ہی واحد حل ہے
وہ جو انصاف کی عادت تھی چلو ختم ہوئی
بے دھڑک جاتے تھے اس کنجِ اداسی میں عماد
عمر بھر اتنی اجازت تھی چلو ختم ہوئی
47
خود ستائش
لوگو!
میری سمت نظر ڈالو
اور دیکھو!
میں تم سے کتنا اونچا ہوں
دیکھو میں کتنا قابل ہوں
دیکھو میں کتنا افضل ہوں
دیکھو میں کتنا گہرا ہوں
دیکھو میں کتنا اعلیٰ ہوں
میری سمت نظر ڈالو اور
دیکھو میں کتنا عمدہ ہوں
پورے جوبن سے زندہ ہوں
لیکن۔۔۔
مجھ سے پہلے آنے والی نسلیں
بھی زندہ تھیں
میں جو قوت، جو ہمت رکھتا ہوں
کچھ بھی کر سکنے کی
مجھ سے پہلے جینے والے بھی تو یہ طاقت رکھتے تھے
تو کیا۔۔۔
کچھ سالوں میں میں بھی
ایسے ہی ڈھلنے والا ہوں
جیسے سارے ڈھل جاتے ہیں
مٹی میں میں بھی گڑنے والا ہوں جیسے سب گڑتے ہیں
دھرتی میں ضم ہو کر اپنے ماخذ سے جڑنے والا ہوں
جیسے سارے جڑ جاتے ہیں
زیست کے گورکھ دھندے سے چھٹنے والا ہوں
جیسے سارے چھٹ جاتے ہیں
یعنی۔۔۔
جیسے شام ڈھلے کچھ
پنچھی تھک کر گھر جاتے ہیں
میں بھی گھر جانے والا ہوں
میں بھی مر جانے والا ہوں
48
احتسابِ ذات ہونا چاہئے
ہر گھڑی، دن رات ہونا چاہئے
خامشی کو گفتگو کر لی جئے
بات کو بے بات ہونا چاہئے
میں کہاں اور نور کی بارش کہاں
بھیک پر اوقات ہونا چاہئے
سجدہئ توحید و تسلیم و رضا
یہ بھی اب اک رات ہونا چاہئے
روح گویا بوجھ لگتی ہے تمہیں
بس بدن کو ذات ہونا چاہئے
جسم نے آسودگی کو چن لیا
شکوہئ حالات ہونا چاہئے
سوچ کا ماخذ سمجھنے کے لئے
حاملِ جذبات ہونا چاہئے
اک گھڑی میں اتنے افسردہ عماد
کچھ تو پاسِ ذات ہونا چاہئے
49
تھک گیا ہوں تھوڑا سستانے کا حق تو دو مجھے
مڑ نہیں سکتا تو رک جانے کا حق تو دو مجھے
وقت کا دستور ہے آزاد ہے ہر آدمی
بات مت مانو پہ سمجھانے کا حق تو دو مجھے
خود سے خود کو باندھنا تھا، خود سے خود کو روکنا
خود سے ہارا ہوں بکھر جانے کا حق تو دو مجھے
مانتا ہوں میرے سینے میں نہیں اترا ہے حق
پر مسلماں ہوں یہ کہلانے کا حق تو دو مجھے
راہ چلتے کو بلا کر رنج دینے کا سبب
آشنا چھوڑو پہ انجانے کا حق تو دو مجھے
آرزو کی آگ دو دن میں نہیں بجھ پائے گی
کم سے کم امید بہلانے کا حق تو دو مجھے
میں نے کاوش کی تھی جب تک آرزو چنگار تھی
بجھ گیا ہوں تھک کے گر جانے کا حق تو دو مجھے
تارِ دل ہل جائیں گے شوقِ نظارہ سے عماد
اپنے ماخذ میں سمٹ آنے کا حق تو دو مجھے
50
ایک خواہش گلاب کی سی ہے
اک تمنا کہ خواب کی سی ہے
ذکر سے دھل گئے نظر اور قلب
اس کی تاثیر آب کی سی ہے
دلِ خستہ کی ایک ایک پرت
اک پرانی کتاب کی سی ہے
آپ کی نظم میں چھپی ہر رمز
غمِ ہستی کے باب کی سی ہے
جستجو کو عروج کیا دیتا
آرزو ہی حباب کی سی ہے
آگہی، حامل و حصولِ طہر
آگہی، جو شراب کی سی ہے
آپ کی اور مری یہ گفت و شنید
اب سوال و جواب کی سی ہے
آ گئے ٹوٹ کر عماد احمد
اب کہو زیست آب کی سی ہے
51
آپ کی نظم میں چھپی ہر رمز
غمِ ہستی کے باب کی سی ہے
جستجو کو عروج کیا دیتا
آرزو ہی حباب کی سی ہے
آگہی، حامل و حصولِ طہر
آگہی، جو شراب کی سی ہے
آپ کی اور مری یہ گفت و شنید
اب سوال و جواب کی سی ہے
آ گئے ٹوٹ کر عماد احمد
اب کہو زیست آب کی سی ہے
52
گم گشتہ زمانوں کے ہنر سیکھ کے جانا
ماضی نے بھلا کیسے تراشا ہے مرا حال
اک عمر ہوئی ساعتِ دیدار کو لیکن
ہیں دل پہ مرے نقش سبھی کربِ مہ و سال
رفتار بڑھائی بھی، گھٹائی بھی، رکے کب
کیفیتیں بدلی ہیں، نہیں بدلی کبھی چال
سردی کی گھنی شام میں تنہائی سے باتیں
کاندھوں پہ لئے ابا کی دی بھوری وہی شال
اک کاسہئ امید رہا عمر کا حاصل
کچھ کام بنا پائے نہ اعمال نہ اموال
بس رحمتِ حق ہی کے سبب پائی معافی
تھے ہی نہیں انصاف کے قابل مرے اعمال
ہم سات تھے ہفتے کے دنوں کی طرح اک ساتھ
اب صدیوں کی دوری پہ ہے اک لفظ، کوئی قال
دل ٹوٹ گیا، قلب تو قائم ہے عماد اب
تو جسم کا دکھ چھوڑ کے بس روح کا غم پال
53
شور کی آلودگی بڑھنے لگی
شہر میں بے ہودگی بڑھنے لگی
میرے اندر روح سہمی رہ گئی
جسم کی آسودگی بڑھنے لگی
اب کسی گاؤں میں بس، شہروں میں تو
سوچ کی فرسودگی بڑھنے لگی
نرمیئ دل التزامِ ذات ہے
جان کر بخشودگی بڑھنے لگی
ذات کو کچلا تھا پورا دن عماد
رات کی خوشنودگی بڑھنے لگی
54
تھکن
چل جانے دے
جو دھوکا کھانا چاہتا ہے
اب اس کو دھوکا کھانے دے
تو رستہ بتلا سکتا تھا
خود چل کر دکھلا سکتا تھا
تاریک اندھیری راہوں پر
کچھ دیپ جلا سکتا تھا تو
کچھ آس بڑھا سکتا تھا تو
امید دلا سکتا تھا تو
یہ سب تو نے کر ڈالا ہے
یہ رستہ خوب اجالا ہے
اب جانے دے
جو دھوکا کھانا چاہتا ہے
تو اس کو دھوکا کھانے دے
تو نے بھی اندھے موڑوں پر
اپنا رستہ خود ڈھونڈا تھا
جب باہر سورج ڈوبا تھا
تو من کے دیپ جلائے تھے
اپنے اندر بہتے غم کو
روکے بیٹھا تھا تو بھی تو
خود میں اٹھتے طوفانوں کو
تنہا جھیلا تھا تو بھی تو
یہ رستے ایسے رستے ہیں
جو جوشِ جنوں سے کٹتے ہیں
جو خود کو کاٹ کے پٹتے ہیں
ان پر تو کس کو کھینچے گا
یہ رستے تیرے رستے ہیں
یہ تجھ جیسوں سے بستے ہیں
اب جانے دے
جو دھوکا کھانا چاہتا ہے
تو اس کو دھوکا کھانے دے
ہاں سچ ہے دنیا دھوکا ہے
ہاں سچ ہے آنکھیں اندھی ہیں
جو ظاہر ہے، جو حاضر ہے
وہ بے معنی، لا یعنی ہے
جب من میں جوت جگی ہو تو
باطن میں آگ لگی ہو تو
اندر روشن ہو جاتا ہے
ظاہر کی حقیقت سے آگے
جو سچ ہے وہ دکھ جاتا ہے
دنیا کی حقیقت کھلتے ہی
سارا دھوکا کھل جاتا ہے
پر یہ سچ تو تیرا سچ ہے
پر یہ سچ تو کڑوا سچ ہے
یہ کڑوا سچ تو خود پی لے
ایسے جینا ہے تو جی لے
پر اوروں سے امید نہ رکھ
اب جانے دے
جو دھوکا کھانا چاہتا ہے
تو اس کو دھوکا کھانے دے
55
چار خوشیاں، چار آنسو، زندگی پوری ہوئی
سانس اب جو چل رہی ہے یہ تو مجبوری ہوئی
میری چوکھٹ پر بھی اک تہہ جم گئی ہے گرد کی
تیرے آنگن میں لگی وہ بیل بھی بھوری ہوئی
ہم قدم تھے، ہم خیالی سے کنارہ کش رہے
بیشتر لوگوں کے بیچوں بیچ یوں دوری ہوئی
تو نہیں بدلا، سمجھ تو صاحبِ اعجاز ہے
میں نہیں بدلا، سمجھ یہ میری معذوری ہوئی
ایک مدت چاکری کی حاصل و مطلوب کی
اختیارِ نفس کھویا ہے تو فغفوری ہوئی
میرے اندر کے شمر سے بھڑ گیا اندر کا حُر
خونِ دل کی بو سے پوری ذات کستوری ہوئی
جسم کی تکلیف پر روتا رہا مدت عماد
روح جب زخمی ہوئی تو اصل رنجوری ہوئی
56
خواب خوش رنگ تھے تعبیر سیاہی مائل
رات روشن تھی پہ تنویر سیاہی مائل
ذاتِ بے مایہ کے زندان میں پا بستہ تھا میں
خاک میں لپٹی تھی زنجیر سیاہی مائل
میں سمجھتا تھا کہ روشن ہیں نگاہوں کے چراغ
آئینے میں دکھی تصویر سیاہی مائل
بعد از رزمِ زماں ایک زمانے نے پڑھی
خاک اور خون کی تحریر سیاہی مائل
قلبِ روشن کے مقدر میں ستاروں کے سفر
قلبِ تاریک کی تقدیر سیاہی مائل
روح کے کرب کو ممتاز کیے دیتی ہے
رنگ اور روپ کی تصویر سیاہی مائل
جسم کو تیل پلایا ہے اداسی کا عماد
ذات بننی ہی تھی شہتیر سیاہی مائل
57
سو حقائق کے روبرو ہو کر، ایک واضح خیال پایا ہے
زندگی کے جواب پا پا کر، اک مکمل سوال پایا ہے
یہ اداسی تو ایک ماخذ ہے، اضطراب ایک راستہ ہے بس
منزلِ درد پر جو پہنچا ہے، ہم نے اس کو نہال پایا ہے
ہلکی ہلکی سی نیکیاں کر کے، تھوڑا تھوڑا عروج دیکھا تھا
گاہے گاہے گناہ کر دیکھے، رفتہ رفتہ زوال پایا ہے
لوگ بچھڑے ہیں، خواب ٹوٹے ہیں، راستے پائے کھوئے ڈھونڈے ہیں
عمر کی چار ہی دہائیوں میں دل نے کتنا ملال پایا ہے
دوستوں سے حسد کیا اس نے، دشمنِ جاں سے دوستی رکھی
عقل تو خیر کام کیا آتی ہم نے دل بھی کمال پایا ہے
وہ جو دشوار تھا وہ سہل رہا، وہ جو ممکن نہ تھا وہ کر ڈالا
وہ جو آسان تھا زمانے کو ہم نے اس کو محال پایا ہے
جب کبھی جسم و جاں سے کاوش کی، قلب کو پر سکون ہی پایا
جب کبھی فوقیت دی راحت کو، قلب کو تب نڈھال پایا ہے
حجلہئ درد میں غمِ ہستی جب بھی تجھ سے وصال ٹھہرا ہے
تیری آنکھوں میں رنگ دیکھے ہیں، تیرا چہرہ گلال پایا ہے
رات اور ذات کے نہاں پردے کم ہی لوگوں سے چاک ہوتے ہیں
راز کی بات کون کس سے کرے، کیسا قحط الرجال پایا ہے
ڈوبتے شخص کو تو لگتا ہے جیسے تنکا بھی اک سہارا ہو
بے یقینی کے اس سمندر میں ہم نے اک احتمال پایا ہے
سب تمنائیں مٹ گئی ہیں عماد، اب فقط ایک ھو ہے سینے میں
کوئی شے آنکھ کو نہیں جچتی، قلب نے وہ جمال پایا ہے
رات دن ایک کر دیے ہم نے، عشرہئ قلب و آگہی میں عماد
دس برس اعتکاف میں رہ کر ذات نے یہ ہلال پایا ہے
58
حزن و ملال ختم ہوئے زندگی کے ساتھ
رنج و وبال ختم ہوئے زندگی کے ساتھ
مال و متاعِ عمرِ گزشتہ سے منسلک
سارے سوال ختم ہوئے زندگی کے ساتھ
وہ جوشِ عہدِ بانکپن و سوچِ وسطِ عمر
خواب و خیال ختم ہوئے زندگی کے ساتھ
محرومیئ حیات سے تشکیلِ ذات تک
سوچوں کے جال ختم ہوئے زندگی کے ساتھ
کچھ درد، کچھ مقام، کئی لوگ، اور تم
سب خال خال ختم ہوئے زندگی کے ساتھ
خاکی مکاں ہے جس میں اندھیرے کا راج ہے
رنگ و جمال ختم ہوئے زندگی کے ساتھ
کتنے عروج خاک ہوئے اک زوال سے
سارے کمال ختم ہوئے زندگی کے ساتھ
انفس کا یہ سفر ملا آفاق سے عماد
ارضی سوال ختم ہوئے زندگی کے ساتھ
59
ہجرتیں
ہجرتیں فاصلے بڑھاتی ہیں
ہجرتیں فاصلے گھٹاتی ہیں
ہجرتیں توڑتی ہیں انساں کو
ہجرتیں جوڑتی ہیں انساں کو
ہجرتیں دردِ دل سے چلتی ہیں
ہجرتیں رازِ کن سے ملتی ہیں
ہجرتیں رات میں بھی ہوتی ہیں
ہجرتیں ذات میں بھی ہوتی ہیں
دشت و دریا میں، دھوپ بارش میں
گھات در گھات میں بھی ہوتی ہیں
ذہن کے زاویوں میں، سوچوں میں
اور جذبات میں بھی ہوتی ہیں
بے یقینی کا بے نشاں ساحل
بے نشانی سے پھوٹتی منزل
کوس در کوس ڈوبتی امید
موڑ در موڑ جسم و دل گھائل
چلتے رہنے کا اذن روزانہ
شام تک لوٹنے پہ دل مائل
ہجرتیں بے زمین ہوتی ہیں
ہجرتیں بے مکین ہوتی ہیں
ذات میں گونجتی ہوئی رمزیں
ہجرتوں کی رہین ہوتی ہیں
ہجرتوں کے دکھوں کے ماخذ کی
ہجرتیں ہی امین ہوتی ہیں
راستی کیا ہے راستہ کیا ہے
زیست کا پورا سلسلہ کیا ہے
رازِ ہستی کھلے تو کیسے کھلے
ذات کا رب سے رابطہ کیا ہے
کیوں بنائی ہے کائنات اس نے
قربتیں کیا ہیں فاصلہ کیا ہے
ہجرتیں ابتدائے غم بھی ہیں
ہجرتوں میں بہت سے نم بھی ہیں
ہجرتوں کی وجہ سے خوشیاں ہیں
ہجرتیں انتہائے غم بھی ہیں
ہجرتوں کا شعور ملنے سے
قلب میں دو جہان ضم بھی ہیں
ہجرتیں فاصلے بڑھاتی ہیں
ہجرتیں فاصلے گھٹاتی ہیں
ہجرتیں توڑتی ہیں انساں کو
ہجرتیں جوڑتی ہیں انساں کو
ہجرتیں دردِ دل سے چلتی ہیں
ہجرتیں رازِ کن سے ملتی ہیں
60
اگرچہ آنکھ میں اب کے ہلالِ ذات نہ تھا
پر ایک جذب تھا جس میں زوالِ ذات نہ تھا
ملالِ جان بہت تھا، ملالِ ذات نہ تھا
بدن کا خوف رہا، احتمالِ ذات نہ تھا
تمہیں بلایا تھا میں نے مگر تمہارے لئے
تمہیں شعور نہیں یہ سوالِ ذات نہ تھا
کسی کے عکس کا ہی انعکاس تھا مجھ پر
یہ ارتکازِ حقیقت جمالِ ذات نہ تھا
ابھی تو رات کی آغوش میں تھا میرا قلب
ابھی افق پہ کہیں بھی گلالِ ذات نہ تھا
یہ میرے ٹوٹنے، گرنے کا ایک منظر تھا
یہ رقصِ جان کنی تھا، دھمالِ ذات نہ تھا
ملال و حزن میں تفریق ہم سمجھتے ہیں
تھا سب کا درد مقدم، خیالِ ذات نہ تھا
بس ایک بار شبِ آگہی گزاری تھی
پھر اس کے بعد خدا تھا، کمالِ ذات نہ تھا
یہ آبِ رمز کہاں سے پیا ہے تم نے عماد
بدل گئے ہو تمہارا یہ حالِ ذات نہ تھا
61
رنج ہوتا ہے مگر لوگ بتاتے نہیں ہیں
زخمِ دل راہ چلے سب کو دکھاتے نہیں ہیں
نفسِ امارہ کو اب قید میں رکھا جائے
ہاتھ آئے ہوئے پنچھی کو اڑاتے نہیں ہیں
بزم میں لوگ جو کہتے ہیں وہ سنتے نہیں ہم
اور جو سناٹے میں سنتے ہیں، سناتے نہیں ہیں
قلب میں تھوڑی سی تحریک تو پیدا ہوئی ہے
آنچ پر دھیمی رکھو، خود کو جلاتے نہیں ہیں
آنکھ کہتی ہے کہ ظاہر سے پرے بھی کچھ ہے
ایسا کرتے ہیں اسے آج سلاتے نہیں ہیں
ہر گھڑی ذات کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتے
اتنی مدت کوئی غم خود سے چھپاتے نہیں ہیں
خود میں کھوئے ہوئے انساں کو پکاروں تو کیا
ایسے عالم میں تو ہم خود کو بلاتے نہیں ہیں
دشتِ ادراکِ حقیقت سے گزرنے والے
پھر غمِ ذات کے دریا میں نہاتے نہیں ہیں
چشمہئ دردِ محبت کا یہی ماخذ ہے
قلب پتھر بھی ہو، امید گنواتے نہیں ہیں
جس کی آزادیئ قلبی میں بدن حائل ہو
ایسے بیمار کو امید دلاتے نہیں ہیں
خود پہ اس درجہ ملامت کا صلہ یہ ہے عماد
اب ہمیں دوست بھی سینے سے لگاتے نہیں ہیں
62
بالیدگی
عام انسان نے خواہش کی تھی
خاص ہونے کی، ہوئے جانے کی
اپنے معبودِ حقیقی کے بہت
پاس ہونے کی، ہوئے جانے کی
اک تمنا سے مگر کیا ہوتا
آنکھ میں کوئی عقیدت ہی نہ تھی
جسم اور جان میں، دن میں، شب میں
سوچ میں کوئی نجابت ہی نہ تھی
وحشتِ حال سے اور جذبوں سے
روز لڑتا تھا دماغی دستہ
روز چڑھتا تھا ڈگر پر واپس
روز کھو جاتا تھا پھر سے رستہ
ایک عرصے میں ملا ٹھہراؤ
ایک مدت میں تھما رقصِ جنوں
ذات اور رات کے ہنگامے میں
ہاتھ آنے لگا اندر کا فسوں
نفس کو باندھ کے رکھا تو کھلا
رات انصاف سے جی سکتی ہے
قلب کو صاف کیا تو جانا
ذات انصاف سے جی سکتی ہے
رفتہ رفتہ کھلا عقدہ کہ بشر
وقت کے ساتھ بدل سکتا ہے
ذات اور رات کی دہلیز پہ قلب
پاسِ انفاس سے چل سکتا ہے
خود کو اللہ کے حوالے کر کے
دور بھی پاس میں ڈھل جاتا ہے
عام انسان اگر چاہے تو
پیکرِ خاص میں ڈھل جاتا ہے
63
بڑھ رہا ہے میرے ماضی کا یہ غم
علم کم تھا اور عمل اس سے بھی کم
ایک مدت آتشِ دل میں جلے
ایک مدت تک رہی یہ آنکھ نم
سانس چلنے تک ہے یہ ہنگامِ ذات
ختم ہو جائے گا اک دن زیر و بم
اے غمِ ہستی ہم اب سے ایک ہیں
میں ترے میں ضم ہوں تو میرے میں ضم
ذات کے محور پہ گھومے رات دن
رفتہ رفتہ ڈھل گئے سانچے میں ہم
ذات کے ماخذ سے اک آنسو چلا
پھر بنا چشمہ، بہا پھر یم بہ یم
فیصلہ کرنے دے پہلے دل کو بھی
دو گھڑی کے واسطے اے سوچ تھم
وقت کے آئینہ خانے میں عماد
ہم ہی کمتر تھے ہمی تھے محترم
64
سرمئی ریت، سمندر کا کنارہ اور ہم
دل میں بہتا ہوا اک درد کا دھارا اور ہم
اپنی آنکھوں میں جمے اشک کے موتی اور تم
اپنے سینے میں جلا ایک شرارہ اور ہم
اب تو اک عمر بتا دی ہے اسی طوفاں میں
میل کھاتا ہی نہیں کوئی کنارہ اور ہم
رات غم والوں کے پہلو سے جب اٹھی اس دم
جاگتے پائے فقط صبح کا تارا اور ہم
کوئی دیوانے ہو رکھتے ہو جو ایسی امید
یعنی احسان اٹھائیں گے تمہارا، اور ہم
جانتے ہو کہ وہ پڑھتا ہے کتابِ ہستی
اس لئے تم نے اسے آج پکارا، اور ہم
خود سے پوچھیں گے کہ تہذیبِ محبت کیا تھی
کر لئے اس نے کئی روگ گوارا اور ہم
نوحہئ عمرِ رواں لکھا ہے جس نے بھی عماد
آج مل بیٹھیں گے وہ درد کا مارا اور ہم
65
ہم گرفتارِ آرزو نہ ہوئے
تم طلب گارِ جستجو نہ ہوئے
عشق اور حسن فرد فرد جئے
ایک دوجے کے روبرو نہ ہوئے
نہ ہوئے خواہش و وصال قریب
اور ہوئے بھی تو باوضو نہ ہوئے
احترام آ گیا، خلوص نہیں
آپ تو ہو گئے تھے، تو نہ ہوئے
ایک مدت تمہارے ساتھ رہے
ہو گئے تم سے، ہوبہو نہ ہوئے
کل کو پتھر بنے ہوئے ہوں گے
ہم اگر آج آبِ جو نہ ہوئے
قلب تو نور کا پیالہ تھا
جسم اور روح ہم سبو نہ ہوئے
قلب اپنا سیہ رہے گا عماد
گر مشیت میں رنگ و بو نہ ہوئے
66
تھک گیا ہوں سکون چاہتا ہوں
یا نیا اک جنون چاہتا ہوں
ایک دنیائے ممکنات ہوں میں
اور بس کاف و نون چاہتا ہوں
غیرتِ آرزو کو دے تحریک
اپنے اندر وہ خون چاہتا ہوں
سائے میں تو نہیں رہا لیکن
ذات کو آبرون چاہتا ہوں
ہو بشر، آگ ہو یا پانی ہو
راہ میں کچھ شگون چاہتا ہوں
ذہن کی کاوشوں کے بعد عماد
ہاتھ میں بھی فنون چاہتا ہوں
67
ماضی
حسنِ آفاق پہ لکھتے لکھتے
حسنِ اخلاق پہ لکھتے لکھتے
آج یہ سوچ کدھر لوٹ گئی
آج جذبات کدھر جا نکلے
سوچ کے گہرے بھنور سے پہلے
جذب کے دن بھی گزارے تو تھے
شوقِ دیدارِ حقیقت سے قبل
شوقِ نظارہِ جاناں بھی تو تھا
چاہ تھی دل کو کسی نسبت کی
کسی چاہت کی، کسی الفت کی
کسی لمحے کی جہاں دل تھم جائے
کوئی قصہ کہ تا آخر دم جائے
قلب میں شوقِ نظارہ بھی تھا
آنکھ میں ذوقِ نظارہ بھی تھا
ہر طرف حسنِ دل آرا بھی تھا
اس کا اس دل کو اشارہ بھی تھا
پر مری سوچ کہیں دور پرے
کسی انجان سی منزل کے لئے
ایسے نکلی کہ نہیں پلٹی پھر
میرے جذبات کسی خواب کے ساتھ
گھر سے نکلے تو کبھی لوٹے نہیں
حسنِ دل آرا کہیں چھوڑ آیا
ذوقِ نظارہئ جانانِ جہاں
شوقِ سیماب صفت، سیمیں بدن
قربِ جاں پارہ کہیں چھوڑ آیا
حسنِ جاناں نہ ملا تو نہ سہی
حسنِ جاں پا لیا دل نے لیکن
شوقِ نظارہ نہیں پایا تو
شوقِ نظراں تو ملا باطن کو
ذوقِ عشاق نہیں تھا مجھ میں
ذوقِ تسلیم و رضا تھا مجھ میں
آج یہ سوچ کدھر لوٹ گئی
آج جذبات کدھر جا نکلے
میرا رستہ نہیں تھاحسن و جمال
میری منزل نہیں تھی قرب و وصال
68
بے بنیاد الزام لگا کر کیا پایا
اپنی عزت آپ گنوا کر کیا پایا
خواہش اور خوشبو کرتی ہیں یکساں تنگ
دونوں کو دامن میں چھپا کر کیا پایا
تم اپنے گھر سے آخر نکلے ہی کیوں
اپنوں کی دہلیز پہ آ کر کیا پایا
غم، پھر اس کا برسوں تک چلتا موسم
کاٹ لیا تھا، واپس جا کر کیا پایا
بانٹ دیا ہوتا جو ہاتھ میں آیا تھا
بولو آخر سب کچھ پا کر کیا پایا
کچھ عرصہ خاموش بسر کر لینے دو
اتنے سال تمہیں سمجھا کر کیا پایا
حاصل لاحاصل کی کہانی بہت سنی
بول دیا آخر اکتا کر کیا پایا
وہ پانے کھونے کے غم سے گزرا تھا
تب ہی کہا اس نے اترا کر کیا پایا
سوچو گے تو دل کو بھی موقع دو گے
آخر جذبوں سے کترا کر کیا پایا
قلبِ جلی کو شرکِ خفی سے پاک رکھو
ورنہ ساری عمر لگا کر کیا پایا
تھوڑی دیر مجھے تنہا رو لینے دو
محفل میں اتنا مسکا کر کیا پایا
سچائی کا سامنا کرنے دو دل کو
جھوٹے وعدوں سے بہلا کر کیا پایا
مستقبل کی باتیں کر لیتے اس سے
حال کو ماضی سے ٹکرا کر کیا پایا
سمجھایا تھا اپنا دل مت کھول عماد
غم کا یہ میلا لگوا کر کیا پایا
69
وقت کم ہے زندگی میں اور مقصد دور ہے
رات دن چلتا رہا ہوں جسم بھی اب چور ہے
سوچتا ہوں اپنا رستہ خود بنایا جائے اب
کیونکہ میرِ قافلہ کی سوچ بھی محصور ہے
عالمِ موجود کو پوری حقیقت مت سمجھ
یہ جو عزلت میں پڑا ہے، یہ کہیں مشہور ہے
نور کے ماخذ سے جڑنے کی یہ کچھ قیمت نہیں
گر بدن مٹی بھی ہو جائے ہمیں منظور ہے
انفس و آفاق سے آگے بھی ہے اک راستہ
نور کے پردے کے پیچھے نور ہے، پھر نور ہے
خود سری، خود آشنائی اور پھر خود آگہی
خود کو پانے کا زمانے میں یہی دستور ہے
جاں ِفشانی سے کٹے ہیں ماہ و سالِ زندگی
عرق ریزی سے کھلا ہے آدمی معذور ہے
راز ہائے خلق سے آگے ہے رازِ کن عماد
یہ جو آدم زاد ہے یہ امرِ لا مقصور ہے
70
مادہِ جسم کہوں، نورِ مجسم بولوں
بات پھیلاؤں یا پھر مصلحتاََ کم بولوں
رگِ جاں سے بہے اس خون کو کیا پارہ کہوں
آنکھ سے بہتے ہوئے پانی کو کیا نم بولوں
رات ایسی ہے کہ کھولوں تو بہت کچھ کھل جائے
بات ایسی ہے کہ بولوں بھی تو مدھم بولوں
کیا میں تنہائی کو رسوائی سے تعبیر کروں
یا اسے عشق کے آزار کا موسم بولوں
خود کو پانے کے اسی شوق کو ہنگام کہوں
خود سے لڑنے کے اسی کھیل کو اودھم بولوں
اب اگر ذات ہی کل فوج ہے میری تو عماد
کپکپاتے ہوئے بازو کو ہی پرچم بولوں
اس لرزتے ہوئے، ڈرتے ہوئے جذبے کو عماد
دکھ کہوں، روگ کہوں، درد کہوں، غم بولوں
71
وقت بدلا ہے مگر لوگ کہاں بدلے ہیں
نسلِ انسانی کے سب روگ کہاں بدلے ہیں
ذوق اور شوق تو بدلے ہیں گئی صدیوں میں
سوچ، جذبات، خوشی، سوگ کہاں بدلے ہیں
ایک انسان کو قرنوں کا سفر ہے درپیش
ماہ و سال آئے گئے، جوگ کہاں بدلے ہیں
قلب اور روح کے رشتے کو نہیں سمجھا تو
اس لئے اب بھی ترے بھوگ کہاں بدلے ہیں
میرے آزارِ بدن ان کی رفاقت کو سمجھ
درد اور ذات کے سنجوگ کہاں بدلے ہیں
ہم تو بدلے ہیں زمانے کے تھپیڑوں سے عماد
سوچ و جذبات کے آروگ کہاں بدلے ہیں
72
اجتماعی زیادتی
آبرو باختہ روحوں کا اکٹھے ہونا
ایک اک سوچ کی ناکامی دماغوں پہ سوار
ایک اک جذبہ کراہت کی مجسم تصویر
ایک اک روح کی ناپاکی بدن پر حاوی
اسفل السافلیں مخلوق کی بزمِ تزویر
آبرو باختہ روحوں کی رذالت کا عروج
ظلم نے راج کیا ایک بھرے میلے میں
آپ کی، میری حیا لُٹ گئی بازار کے بیچ
سارے اوباش نکل آئے انہی گلیوں میں
ایک معصوم کلی روند دی سنسار کے بیچ
73
آبرو باختہ روحوں کی گرفتِ آہن
رقصِ وحشت بھی ہوا، شر کو تحفظ بھی ملا
اس بھرے شہر کا کردار سیہ کار ہوا
دیکھنے آئے کئی لوگ تماشا لیکن
روکنے کے لئے کوئی بھی نہ تیار ہوا
آبرو باختہ روحوں کے عمل کا انجام
بنتِ حوا کی ردا چاک ہوئی، خاک ہوئی
عصمتِ آدمِ خاکی کا جنازہ اٹھا
نسلِ انسان کی مٹی پہ خباثت چھائی
نور سے جو بھی تھا رشتہ وہ سراسر ٹوٹا
74
عقل کا وحی سے رشتہ ماننا ضروری ہے
دائرے کا اک مرکز ہے جاننا ضروری ہے
فکرِ نسلِ آدم اب تک اک کثیف سچ ہے بس
مقصدِ حیاتِ انساں چھاننا ضروری ہے
اور یہ جدیدیت تو صرف بارِ اول تھی
انفرادیت کا طوفاں بھاننا ضروری ہے
صاف آسمانوں والے روز و شب بتا آئے
بارشوں میں چھاتا سر پر تاننا ضروری ہے
بے یقیں دماغ و دل سے کیا مقام پائے گا
اب عماد احمد کچھ تو ٹھاننا ضروری ہے
75
اس کے غصے کا بھوت مر جاتا
دل اگر سچی بات کر جاتا
خیر تف ہوتی اتنے سب کے بعد
وہ اگر پھر بھی تیرے گھر جاتا
صبر سے ذات پر سکوں ہوتی
شکر سے آدمی نکھر جاتا
گر خدا ہوتا، خواہشوں کی جگہ
پیالہئ قلب خود ہی بھر جاتا
خود سے ملنے میں اپنی ذات میں کاش
بے کھٹک، بے گنہ، نڈر جاتا
حالتِ قلب گر عیاں ہوتی
آدمی آدمی سے ڈر جاتا
غیرتِ آبرو نہ ہوتی تو
میں ترے سامنے بکھر جاتا
تجھ میں ہمت ہے لڑ زمانے سے
مجھ میں دم ہوتا تو میں کر جاتا
ایک برہان دیکھ لی تھی عماد
ورنہ اس رات قلب مر جاتا
76
قیام اللیل سے حاصل ہوا ہے
یہ دل جو جذب کا حامل ہوا ہے
جھکائے دے رہا ہے آنکھ میری
جو نور اس قلب پر واصل ہوا ہے
میں بحرِ ذات میں تھا ڈوبنے کو
شعورِ بندگی ساحل ہوا ہے
ابھی کیوں روح جانا چاہتی ہے
ابھی تو یہ بدن مائل ہوا ہے
سفر اس شخص کو کیا درد دے گا
جو اپنی ذات میں منزل ہوا ہے
فصیلِ شب پہ اک ہنگامِ غم تھا
سنا ہے ہر کوئی گھائل ہوا ہے
مراسم دیکھ کر تیرے خوشی سے
غمِ ہستی بہت بے دل ہوا ہے
مرے مقتول دل میں کیا گلہ ہو
جو خود مقتل خودی قاتل ہوا ہے
تلاش اس بار لاحاصل کا حاصل
تجھے حاصل سے کیا حاصل ہوا ہے
جسے آفاق میں ڈھونڈا تھا میں نے
وہی انفس میں جا شامل ہوا ہے
ابھی نوکِ زباں پر ہے حقیقت
ابھی سینہ کہاں کامل ہوا ہے
ہزاروں میں کہیں اک آدھ انساں
شعورِ ذات کے قابل ہوا ہے
جواں مردی سے حق کا ساتھ دینا
یہی ہر دور میں مشکل ہوا ہے
تجھے بھی نفس سے لڑنا ہے بیٹے
یہ میرے ساتھ بھی باسل ہوا ہے
حدودِ آگہی اور جستجو میں
عماد احمد یہ دل فاصل ہوا ہے
77
حالتِ ذات میں، حالات میں غم دیکھا ہے
کبھی دن میں تو کبھی رات میں غم دیکھا ہے
اپنی امید میں پایا ہے کئی بار سرور
پھر ابھرتے ہوئے خدشات میں غم دیکھا ہے
خود شعوری میں کئی بار ہنسا ہوں جن پر
بے خودی میں انہی جذبات میں غم دیکھا ہے
خواہشیں، حرص و ہوس، نفرتیں، اندھی سوچیں
میں نے تاریخ کے صفحات میں غم دیکھا ہے
میں بتاتا ہوں خوشی دیکھی تھی کب کب میں نے
تم کہو تم نے کسی بات میں غم دیکھا ہے
مفلسی میں بھی بتائے ہیں کئی نم کے سال
پر وہ اک عمر جو افراط میں غم دیکھا ہے
خشک سالی کے غموں سے تو نکل آیا تھا
شہرِ دل اب تری برسات میں غم دیکھا ہے
شہر میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں شناسا چہرہ
تم نے اس طور کا دیہات میں غم دیکھا ہے
کاسہئ عمر لئے نکلا ہوں ہر روز عماد
کھل کے مانگا ہے جہاں ذات میں غم دیکھا ہے
78
نطق
مرے اندر کئی احساس ہیں جو تولتا رہتا ہوں میں اکثر
مگر کہنے سے ڈرتا ہوں
کئی الفاظ ایسے ہیں کہ جو نوکِ زباں پر آتے آتے
لوٹ جاتے ہیں
کئی جذبے جو انگڑائی لئے اٹھتے تو ہیں لیکن
کبھی دہلیزِ دل سے اک قدم باہر نہیں دھرتے
نہ جانے کتنی سوچیں ہیں جواپنی راہ پر تھک ہار جاتی ہیں
سرِ منزل پہنچ جانے سے پہلے ڈوب جاتی ہیں
مرے احساس کو، الفاظ کو، جذبوں کو، سوچوں کو
کہیں یہ خوف لاحق ہے
زمانہ بات سنتا ہے تو اس کو نت نئے مفہوم دیتا ہے
جو سوچا ہو، جو سمجھا ہو
کوئی جذبہ کہ جس سے دل میں کچھ احساس جاگا ہو
کوئی غم ہو، خوشی ہو، حادثہ ہو، واقعہ ہویا
کہیں اندر بہت اندر شعوری سلسلہ کوئی
کسی کمزور لمحے کا، کسی مضبوط پل کا اک ادھورا رابطہ کوئی
اسے جب لوگ سنتے ہیں تو اپنے فہم کی بنیاد پر تفصیل گھڑتے ہیں
تو اپنے دل کی دھڑکن پر دھنیں ترتیب دیتے ہیں
اگرچہ بات اتنی ہے کہ جو احساس ہوتے ہیں
اگرچہ بات اتنی ہے کہ جو الفاظ ہوتے ہیں
یہ جو دہلیزِ دل کے پاس کے جذبات ہوتے ہیں
خوشی کے تذکرے یا درد کے حالات ہوتے ہیں
یہ سادہ بات ہوتے ہیں
زبانیں نطق ہوتی ہیں
انہیں منطق بنادینے سے جذبے مات ہوتے ہیں
79
ذوالقرنین
تین رستے
دو زمانے
اک پہیلی
اور سچ
ایک رستہ وہ جو مغرب کی حقیقت کھول دے
ایک رستہ وہ جو مشرق کا فسانہ بول دے
ایک رستہ وہ کہ جس کی سمت مشکل سے کھلے
اک زمانہ جو ہزاروں سال گزرے جا چکا
اک زمانہ وہ جو اپنے سامنے پھیلا ہوا
اک پہیلی دو زمانوں تین سفروں پر محیط
تین رستے
دو زمانے
اک پہیلی
اور سچ
اک مسافر تھا کسی گزرے زمانے میں کوئی
جس کو حاصل تھا زمیں میں اقتدار و انتظام
اس نے مغرب کی طرف سامان باندھا ایک دن
اس نے کالے پانیوں کے پاس دیکھی ایک قوم
اس نے یہ دیکھا سیہ پانی میں جا اترا ہے شمس
حق تعالیٰ نے اسے قدرت دی وہ جو بھی کرے
اس نے اس قوت کا پیمانہ رکھا انصاف پر
پھر کیا آغاز اس نے اک سفر مشرق کی سمت
پھر ملی اک قوم جو بے اوٹ اور بے حال تھی
لوٹ آیا وہ مسافر اس جگہ سے بے خراج
دل میں کوئی آرزو پائی نہ کوئی احتیاج
پھر کیا اس نے سفر انجان رستے کی طرف
مشرق و مغرب سے ہٹ کر،کس طرف؟ یہ سوچئے!
کچھ نشانِ راہ مل سکتے ہیں ان سے کھوجئے
مشرق و مغرب کے رستوں سے گزر آیا ہے وہ
اب پہاڑوں کی طرف پہنچا ہے رستہ پاٹ کر
مغربی رستوں پہ کالے پانیوں کو ڈھونڈئے
مشرقی رستوں پہ میدانی علاقے دیکھئے
پھر پہاڑوں کو تلاشیں کس طرف موجود ہیں
لوہے اور تانبے کے پھر دیکھیں ذخائر ہیں کہاں
ایک ایسی قوم ہے جس کی زباں دشوار ہے
جو خراجِ مال دینے کے لئے تیار ہے
اور ان اتنے نشانوں کے سوا اک بات ہے
جان جائیں جس کو تو ہر زاویہ اثبات ہے
جو مدینۃالنبیﷺ کودیکھئے تو ہے جنوب
ڈھونڈ سکتے ہیں یہ رستے آج بھی اہلِ قلوب
اس مسافر نے وہاں پر کیا کہا یہ سوچئے
اس مسافر نے وہاں پر کیا کِیا یہ جانئے
جو مجھے رب نے دیا ہے وہ بہت میرے لیے
تم فقط محنت سے میرا ساتھ دو کہتے ہوئے
بس مرے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دو،کہتے ہوئے
بند باندھا لشکرِ یاجوج اور ماجوج پر
اس نے پورے زور سے روکا فسادِ ارض کو
وہ سمجھتا تھا مہذب آدمی کے فرض کو
اور تہذیبوں کی گردن پر پڑے اس قرض کو
تین رستے
دو زمانے
اک پہیلی
اور سچ
اک زمانہ تھا کوئی، اس میں مسافر تھا کوئی
جس قرن میں تھا، پہیلی کو سمجھ سکتا تھا وہ
دیدہئ بینا تھی اس کے پاس اور کردار بھی
قوتِ بازو بھی تھی اور انتظامِ کار بھی
اس نے اپنے دور کو کیسے جیا معلوم ہے
اس نے مشکل فیصلہ کیسے کیا معلوم ہے
اک قرن یہ ہے جہاں پر آپ میں موجود ہیں
تین رستے کون سے ہیں آج کے اس دور میں
ان کی کیا نسبت ہے اس گزری ہوئی تہذیب سے
ان کا کیا رشتہ ہے اپنے دور کی ترتیب سے
کیا پہیلی ہے جسے ہم نے سمجھنا ہے ابھی
کیا سفر ہے جس سے ہم کو بھی گزرنا ہے ابھی
اک نظامِ زندگی ہے آسمانوں پر محیط
اک نظامِ زندگی انسان کے ہاتھوں میں ہے
کیا ہوا کرتا ہے جب انسان کے ہاتھوں میں نظم
آسمانی ضابطوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو
اور کیا ہوتا ہے جب اک کائناتی ضابطہ
نظمِ انسانی سے یوں بھڑ جائے، گویا جنگ ہو
تین رستے
دو زمانے
اک پہیلی
اور سچ
کس سفر میں کیا عمل رکھا تھا ذوالقرنین نے
اور نظرمیں کیا عمل رکھا تھا ذوالقرنین نے
جن کو حاصل ہے زمیں میں اقتدار و انتظام
ڈوبتے دیکھیں اگر سورج سیاہی میں تو وہ
ربط کیا رکھتے ہیں ایسی قوم کی ترتیب کا
کیا ہنر چنتے ہیں ان کے تزکیے، تادیب کا
سامنا ہو جائے ان کا جب کسی اس قوم سے
جس کے اپنے پاس قوت ہو نہ ہی اسباب ہوں
جو کسی کمزور ڈھانچے کے تلے آباد ہوں
لوٹ آتے ہیں پلٹ کو چھوڑ دیتے ہیں انہیں
یا پھر ان کی زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں وہ
سامنا ہو جائے گر یاجوج اور ماجوج سے
جنگ کرتے ہیں کہ مل جاتے ہیں خود بھی ان کے ساتھ
یا سمجھتے ہیں حقیقت اور بڑھا کر اپنے ہاتھ
باندھتے ہیں بند سب کمزور لوگوں کے لئے
خود نگہبانی سے بھی معذور لوگوں کے لئے
اور ان اقدام کا محصول لیتے ہیں کبھی
یا فقط کہتے ہیں، بس بازو کی قوت دو سبھی
سوچئے گزرے زمانے کے نظامِ عدل پر
سوچئے حاضر زمانے کے قیامِ عدل پر
اک مسافر ان زمینوں میں پھرا تھا ایک بار
آسمانی عدل سے ان کو بھرا تھا ایک بار
کچھ مسافر تھے جو نو آبادیاتی دور میں
پوری دنیا ہی کے اوپر چھا گئے تھے زور میں
تب زمینوں پر نظام آیا تھا کس انداز میں
اب نہیں تاریخ نے رکھا اسے کچھ راز میں
کوئی اپنے وقت کی قوت ہے اور فولاد ہے
کوئی اپنے وقت کی قوت ہے اور الحاد ہے
اک نظامِ زندگی تھا کائناتی راز پر
اک نظامِ زندگی ہے نامیاتی ساز پر
تین رستے
دو زمانے
اک پہیلی
اور سچ
ایک رستہ وہ جو مغرب کی حقیقت کھول دے
ایک رستہ وہ جو مشرق کا فسانہ بول دے
ایک رستہ وہ کہ جس کی سمت مشکل سے کھلے
اک زمانہ جو ہزاروں سال گزرے جا چکا
اک زمانہ وہ جو اپنے سامنے پھیلا ہوا
اک پہیلی دو زمانوں تین سفروں پر محیط
دیدہئ بینا سے دیکھیں صاف دکھ جائے گا سب
قلب سمجھے گا تو رستہ آپ کھل جائے گا تب
ایک رستہ
اک زمانہ
کیا پہیلی
صرف سچ
Summary
Details coming soon.