Foreword
دو دریاؤں کے سنگم پر واقع ایک چٹان
کے نام!
دریا۔۔جو علومِ ظاہر وباطن کا سرچشمہ ہیں
چٹان۔۔ جوروز و شب نشان بدلتی ہوئی ریت سے ماورا ہے
Intor
السلام علیکم!
بات کو وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں پچھلی کتاب میں چھوڑا تھا۔ تو گویاسات برس کا بَن باس بھی کاٹ لیا۔ دوبارہ اذنِ سفر بھی پا لیا۔ سامنے پھر سے کچھ اشارے تھے۔ ایک چوٹی تھی اوراس پر آگ تھی۔ معلوم ہوا کہ قلب و آگہی تو خود بھی ایک سنگِ میل ہی ہے۔ قلب کی آگہی کے بعد بھی بہت منزلیں ہیں۔ یہ کتاب جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے انہی نئی مسافتوں اور منزلوں کا تذکرہ ہے۔
میری خواہش ہے کہ سرِدست وہ بات کہہ دوں جو اس کتاب کو پڑھنے یا نہ پڑھنے کا فیصلہ کرنے میں آپ کی مدد کر سکے۔ جناب اگر آپ کو شاعری پڑھ کر سُرور حاصل ہوتا ہے اور یہ ذہنی عیاشی کیف آور ہے تو یقین جانئے ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ شاعر اور کمال سے کمال تر شاعری کی کتب دستیاب ہیں۔ دنیا نِت نئے ردیف ڈھونڈ رہی ہے اور قافیہ باندھنے کا فن اپنے عروج پر ہے۔ راقم تو اس دوڑ میں شامل ہی نہیں ہے۔
ناچیز کو تو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ غزل کے پہلے شعر میں نوکری کےمسائل زیرِ بحث آتے ہیں، دوسرے میں محبوب کی بے وفائی کا شکوہ کیا جاتا ہے اور تیسرے میں موسم کے حال پر گفتگو کی جاتی ہے۔ یہاں تو پوری کتاب میں آپ کو وہی دوچار موضوعات کی تکرار ملے گی اور کیف و سرور کا تو میں سرے سے وعدہ ہی نہیں کرتا۔ہاں اس کے برخلاف اگر آپ شعوری ارتقا ء کے مسافر ہیں تو یہ کتاب آپ کے لئے سود مندثابت ہو سکتی ہے اور اگر کہیں آپ قلبی ارتقاء کی کسی سیڑھی پرہیں تب تویہ کتاب آپ ہی کے لیے لکھی گئی ہے۔
اب آپ کہیں گے کہ پھر میں شاعر کیوں ہوں اوریہ کتاب شاعری کی کتاب کے طور پر کیوں لکھی گئی ہے۔ اس کے کئی جوابات ہو سکتے ہیں۔ مثلاََیہ کہ ایک مصروف زندگی میں شعر کہنا نثر لکھنے سے آسان تر ہے یا یہ کہ شعر کی پہنچ نثر سے دور تک ممکن ہے۔ شاید یہ باتیں درست ہوں مگر اس کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل نے مجھے شعر کہنے کی ایک صلاحیت ودیعت کی ہوئی ہے اور اس کے توسط سے میں اپنی بات آسانی سے واضح کر سکتا ہوں۔ میری بنیادی دلچسپی بہرحال بات پہنچانے میں ہے نہ کہ شعر گوئی میں۔ شعرکہنا محض ایک ذریعہ ہے۔ اور اس ذریعے کا انتخاب بھی میں نے بہت سوچ سمجھ کر نہیں کیا بلکہ مجھ سے کروا دیا گیا ہے۔
آپ کے ہاتھ میں موجود یہ صفحات میرے اپنے شعوری اور قلبی ارتقاء کا احوال ہیں۔ اس کتاب میں موجود ساری شاعری اکتوبر ۰۲۰۲ء سے لے کر فروری ۱۲۰۲ء تک کی گئی ہے گویا تخلیقی اعتبار سے یہ میری پہلی کتاب قلب و آگہی ہی کا تسلسل ہے۔ جواحباب یہ جانتے ہیں کہ قلب و آگہی کیسے وجود پذیر ہوئی وہ اس نکتے کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا کہ صرف ایک برس میں دو کتب تحریر کرنے کے بعدکیا میں اس ہی تسلسل سے لکھتا رہوں گا یا نہیں مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اس کتاب میں مجھ سے کچھ ایسے موضوعات پر شاعری ہو گئی ہے جو اَب سے پہلے میں کسی نثری کتاب میں زیرِ بحث لانا چاہتا تھا۔نثری اس لیے کہ مجھے جن قلبی اور روحانی تجربات سے گزرنے کا موقع ملا ہے وہ آپ بیتی لکھنے کی طرف زیادہ راغب کرتے رہے ہیں۔ میں ذہنی طور پر یہی سوچتا رہا ہوں کہ فرصت ملتے ہی ایسا کچھ لکھوں گا اور پھر یک دم ان میں سے بعض موضوعات پر چند نظمیں کہی گئیں۔ اب میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ میں اگلی کتاب نثر کی لکھوں گا یا نظم کی۔ سوانح عمری ہو گی یا یادداشتیں۔ بہر حال عین ممکن ہے کہ آنے والے ماہ و سال میں اللہ عز و جل مجھے توفیق عطا فرمائے تو میں بیانِ حال کا یہ سلسلہ جاری رکھ سکوں۔
میری پہلی بات سے آپ کو اندازہ ہوچکا ہو گا کہ آورد پر تو میں یقین ہی نہیں رکھتا۔ میں نے جو بھی اور جب بھی لکھا ہے آمد ہی کے نتیجے میں لکھا ہے۔ اسی کو میں حقیقی معنی میں شاعری تسلیم کرتا ہوں۔ شعر کی جب آمد ہوتی ہے تو شاعر کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے۔ ظاہری طور پر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ مضامین غیب سے خیا ل میں آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر شعراء آمد کو نزول بھی کہہ دیتے ہیں مگر در حقیقت یہ بات اتنی آسانی سے ختم نہیں ہوتی۔
میرا تجربہ یہی رہا ہے کہ انسان کا لاشعور اس کے شعور سے کہیں پہلے علوم، مشاہدات اور معاملات کی تہوں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ انسان کو شعوری طور پر ادراک ہی نہیں ہوتااور لا شعور بہت سی بُنَت کر چکا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس شخص کے علم اور تجربات کا دائرہ جتنا زیادہ وسیع ہوتا ہے یہ نزول اتنا ہی معنی خیز ہوتا ہے۔جب انسان کے لاشعور کا ارتقاء ہوتا ہے تو لاشعور اس وقت تحت الشعور میں چھپے موتی بھی قلب کی تہہ سے نکال لاتا ہے اور ایسے میں جب لا شعور اپنی پوری قوت سے ان سوچوں اور احساسات کو قلم کی نذر کرتا ہے تو شعور اس لمحے سوائے لا شعور اور قلم کے درمیان ربط باندھنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ ان لمحات میں شعوری طور پر میں نے ہمیشہ خود کو صرف اس ہی جد و جہد میں پایا ہے کہ کہیں میں لا شعور اور قلم کے درمیان نہ آجاؤں۔ ایسے میں مجھے اپنے شعور کی کم مایگی پر ترس بھی آتا ہے کیونکہ یہ لا شعور اور قلم کی باہمی رفتار کا ساتھ دینے سے حد درجہ قاصر نظر آتا ہے۔
اس پوری تمہید کا خلاصہ یہ ہوا کہ میں شاعری برائے شاعری نہیں کر سکتا۔ نہ ہی میں شعوری کاوش سے شاعری کی طرف راغب ہوں۔ بس اتنا ہے کہ برسوں اپنی ذات کا سفر کرنے کے بعداب میں اندر باہر سے ایک مخصوص سانچے میں ڈھل چکا ہوں اور قلب کا پیالہ چھلک رہا ہے تو اظہار ہو رہا ہے۔ یہ اظہار میں کئی انداز میں کر رہا ہوں اور کیونکہ اللہ عز وجل نے شعر گوئی کی صلاحیت بھی عطا کی ہوئی ہے تو اس میں بھی یہی ظہور ہو رہا ہے۔
میں جب کبھی اپنی زندگی کے باطنی سفر کا موازنہ اپنی شاعری سے کرتا ہوں تو مجھے تجربات اورتخلیق کی یہی ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے۔ گویا یہ شاعری کی کتاب کم اور اندر کے سفر کی روداد زیادہ ہے۔ اب کیونکہ اندر کے مسافر تو آپ بھی ہیں۔ ایک نفس اپنے ہزاروں تِیر لے کر آپ میں بھی پوشیدہ ہے اور ایک قلب اپنے حصے کا نور پانے کے لئے آپ میں بھی سرگرداں ہے تو یہ آپ کے اندر کے سفر کے لئے بھی اہم ہے۔
اب اگر سفرکے بارے میں گفتگو ہو ہی رہی ہے تو اتنا مزیدعرض کرتا چلوں کہ ہر انسان کی طرح میں نے بھی اپنی زندگی میں محرومیوں، ناکامیوں اور کمزوریوں کا ایک لمبا سلسلہ دیکھا ہے۔ حوادث اور اپنے ہاتھوں کے کمائے ہوئے دکھوں کا سامنا کیا ہے۔ تشنگی اور تشنہ کامی دونوں کا ذائقہ چکھا ہے۔ مگر اطمینان اس بات کا ہے کہ میں انسانوں کی اس اقلیت سے تعلق رکھتا ہوں جنہوں نے ناکامیوں، محرومیوں اور تشنہ کامیوں کے ذائقے پہلے چکھے اور کامیابی بعد میں دیکھی۔ ناکامی منزل پرملے تو کر بِ ذات بن جاتی ہے مگر یہی ناکامی اگر کامیابی کا سنگِ میل ہو تو زندگی کے سفر نامے کی جان ہوتی ہے۔
پھر اس سے بھی بڑھ کر خوش کُن بات یہ ہے کہ میرے سفر کی سمت محض مادی زندگی میں ایسی نہیں رہی بلکہ شعوری اور قلبی سفر بھی اسی نوعیت کا رہا۔ میں نے بہت انسانوں کو شعوری اور قلبی سفر میں انحطاط پذیر دیکھا ہے۔ اس سفر میں رکنے، پھسلنے، گرنے، راہ بدلنے اور واپس پلٹ جانے کے امکانات مادی دنیا کے سفر سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ میری زندگی کا اصل سرمایہ اندر کے اس سفر میں حاصل ہونے والا و ہ قُطب نما ہے جو ایک بھی قدم غلط پڑنے کی صورت میں فی الفور درست راستے کی طرف راہنمائی کر دیتا ہے۔
یہی وہ رمز ہے جوبرسوں قلب کو تھامے رہا ہے اور اب میرے اندر باہر رچ بس گیا ہے۔ غار، لوح،خواب، تاویل، مدین،خضر، دیوار، کشتی، دریا، چٹان اور ایسے ہی کئی الفاظ در حقیقت الفاظ نہیں بلکہ اپنے اپنے اندر مکمل سفر ہیں۔میری شاعری میں نفس اور قلب کی گردان انہی راہوں میں رکھے جانے والے قدم ہیں۔ اگر کہیں ہجر و وصال ہے تو اس کا ماخذ یہی سفر ہیں۔ اگر کہیں غمِ دوراں ہے تو وہ غمِ ہستی ہی کے پس منظر میں کھڑا ہے۔ یہ سب اسی ایک رمز کے شاہد ہیں۔ اب یہ رمز کھلنا چاہتا ہے مگر زبان کو یارا کہاں۔ میں نے پہلے قلب و آگہی میں اور اب کیمیا گرکے اندر صاحبِ قلب افراد کے لئے نشانِ راہ چھوڑ دیے ہیں۔میری دعا ہے کہ کچھ لوگ بات کی رمز ضرور پا لیں۔
قلب و آگہی کی طرح اس کتاب میں بھی کسی ادیب کا لکھا ہوا مقدمہ موجود نہیں ہے۔ وجہ میری وہی ضد ہے کہ یہ شاعری کی کتاب نہیں ہے بلکہ اندر کے سفر کی داستان ہے۔ میری کسی بھی کتاب کا دیباچہ اگر کبھی کوئی لکھے گا تو وہ ایسا شخص ہو گا جو اس سفر کوپورا نہیں تو کم از کم ادھوری طور پر تو سمجھ چکا ہو گا۔ ایسا وقت آنے تک میں اپنی تحریر ہی کو مقدمہ سمجھتا ہوں اور قاری کو دعوت دیتا ہوں کہ شعر سے آگے جا کر بات کی روح تک رسائی حاصل کرے۔ اسی لئے میں نے اوپر لکھا ہے کہ میں نے صاحبِ قلب لوگوں کے لئے نشانِ راہ رکھ دیے ہیں۔
مجھے اس بات پرتو طمانیت محسوس ہوتی ہی ہے کہ میں شعوری کی بجائے لاشعوری شاعری کر رہا ہوں اور شعر میں بھی جگ بیتی نہیں بلکہ آپ بیتی لکھ رہا ہوں مگراس سے بھی زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ یہ آپ بیتی بھی صرف ذاتی نہیں بلکہ قلبی واردات سے متعلق ہے۔ شاعری کی اس کتاب کا اندر کے سفر سے منسلک ہونا مجھے گو ناگوں تسکین دیتا ہے۔
ایک تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ آورد نہیں آمد ہے، دوسرا یہ کہ الحمد للہ میرے اندر کے سفر کی سمت درست رہی، تیسرا یہ کہ اب میرا اندر اس قابل ہو رہا ہے کہ اس کی عملداری کا دائرہ ذات سے نکل کر حقیقی دنیا میں کسی تبدیلی کا شاخسانہ بن رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ میں اپنے ایک دیرینہ خوف سے نجات محسوس کرتا ہوں۔
اس خوف کا پس منظر یہ ہے کہ تقریباََ ایک دہائی ہوئی جب سورۃ الشعراء کی ان آیات نے کہ زیادہ تر شعرا وادیوں میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں، میرا شاعری سے دل ہی اُچاٹ کر دیا تھا۔ میں نے جو کم و بیش سات برس تک کچھ نہیں لکھا اس کے پیچھے ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی۔ اب اس خوف سے نجات یوں محسوس کرتا ہوں کہ میں جانتا ہوں یہ اشعار جو میں اب لکھ رہا ہوں یہ وادیوں میں بھٹکتے ہوئے نہیں بلکہ دو دریاؤں کے سنگم پر واقع ایک مضبوط چٹان کے اوپر بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔
والسلام
عماد احمد
لاہور
۱۲ رجب المرجب، ۲۴۴۱ ہجری
بمطابق۶مارچ ۱۲۰۲ء
1
تیرے نام پہ اٹھی جو تحریک وہی بیدار لگی
جو الحاد پہ رکھی وہ تہذیب ہمیں بے کار لگی
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کی ضرب سے سینہ کانپ اٹھا
استغفار کے ورد سے ہلتی قلب کی ہر دیوار لگی
اللہ ھو اللہ ھو کرتے میرا جسم ہوا تحلیل
باقی عمر وہی شب زندہ ہونے کا معیار لگی
ذات سمندر، نفس اندھیرا، قلب میں روشن تیرا نام
آیت کریمہ پڑھتے پڑھتے زیست کی کشتی پار لگی
قلب کو سَونا کرنا تھا اور سوچ کو تیز بنانا تھا
ذات کو پارس پتھر سے رگڑا ہے، اسی سے دھار لگی
سوچ گریزاں، جذبے ٹھنڈے، جسم پریشاں، روح غریب
رب سے دور ہوا تو اپنی ذات مجھے بیمار لگی
جسم کو چھوڑ کے جانا برسوں سخت اذیت ناک لگا
جب اللہ سے رشتہ جوڑا تب ہی روح تیار لگی
رَبِّی نَجِّنی کہتے کہتے بستی سے منہ موڑ لیا
کوہ و دمن میں عمر گزاری، ذات تبھی ہموار لگی
قرض کی سانسوں پر انسان کا ذاتی استحقاق نہیں
سجدے میں ماتھا ٹیکا تو ذات بھی کچھ خوددار لگی
میں تَو مٹی کا قالب تھا، تُو نے نور بھی پھونک دیا
ہستی یکدم قرنوں کے سفروں کو بھی تیار لگی
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ بس
پوری عمر لگا کر اتنی بات سمجھ سرکار لگی
کہتے ہیں سیلاب میں ڈوبے لوگ نہیں مِلتے ہیں عماد
نفسِ امّارہ کو ورد کی محفل یوں منجدھار لگی
2
یقینا میرے ہاتھوں میں خدا کے گھر کی کنجی ہے
درودِ پاک کی برکت سے میرا قلب جاری ہے
اندھیرا موڑ ہے آگے، لحد تیار بیٹھی ہے
مشیّت اُنؐ سے جُڑ جائے تو روشن یہ گلی بھی ہے
مجھے مرنے سے پہلے آپؐ سے نسبت نبھانی ہے
سمجھتا ہوں کہ اِک وعدے پہ میری جان اٹکی ہے
اگر حبِ نبیؐ کم ہو، عبادت کر بھی لیں بیشک
طبیعت میں کہیں اِک تشنگی موجود رہتی ہے
محبت کا دیا چمکائے رکھتا ہے مِری سوچیں
مِرے جذبوں کی سچائی مِرے سینے میں بہتی ہے
خدا کیا چاہتا ہے یہ کسی نسبت سے جانا ہے
محمدؐ مجھ سے خوش ہیں تو خدا بھی مجھ سے راضی ہے
ہو شامِ زندگی چاہے غروبِ دل کا منظر ہو
نبیؐ کا قرب ہو تو پھر مقدّر روشنی ہی ہے
سفر کا تجربہ بھی ہے، مسافت بھی سمجھتا ہوں
مگر یہ ساتھ اونچا ہے، مگر یہ بات گہری ہے
اگر ایمان ہو سینے میں تو پھر قلب کی مٹی
محمد مصطفیؐ کے نام سے زرخیز ہوتی ہے
نگاہِ نم کا اِک لمحہ، درودِ پاک کا اِک پل
دلِ مضطر، سکونِ زندگی، دونوں پہ بھاری ہے
ابھی تو اِک پہر اُنؐ کی محبت میں بِتایا ہے
ابھی تو ذکر باقی ہے، ابھی تو رات ٹھہری ہے
خدا کے اِذن سے ہی ہے شفاعت تو رسولؐ اللہ
مگر کچھ امتی ہونے سے بھی امید بڑھتی ہے
عماد اِک بار مکہ کی ہوا میں سانس لینا ہے
پھر اس کے بعد یثرب جا کے اپنی جان دینی ہے
3
مجھے سجدے کے لئے ایک چٹائی دے دے
اور مِرے قلب کے شیشے کو صفائی دے دے
مِری زندان کی محنت کی کمائی دے دے
اب مجھے پیکرِ خاکی سے رہائی دے دے
کیا خبر کتنے برس ظلم حکومت میں رہے
کب مبلّغ تھکے اور رب کو دُہائی دے دے
آدمِ خاکی کی ذُرِّیّتِ کم مایہ ہوں میں
تُو مِرے قلب کو اب نورِ خدائی دے دے
میرے کانوں نے سنے ہیں کئی اَسرارِ نہاں
ان میں اِک آدھ تجھے کاش سنائی دے دے
معتکف ہوتا چلا جاتا ہے اپنے اندر
جسے سینے میں چھپا غار دکھائی دے دے
اے خدا تُو نے چُنا ہے تَو کمر کر مضبوط
مجھے فرعون سے لڑنا ہے تو بھائی دے دے
کیا پتا کس پہ اِن اشعار کے اَسرار کُھلیں
کیا پتا کس کو مِری رمز سجھائی دے دے
روح کے روگ میں اجسام پگھل جاتے ہیں
تُو عماد آج مجھے قلبی دوائی دے دے
4
کبھی نکل غمِ دل سے ملالِ ذات کو دیکھ
تُو شام ڈھلنے کا غم چھوڑ چاند رات کو دیکھ
بَلا و کرب کے صحرا میں رک، فرات کو دیکھ
نظر حُسینؓ کی رکھ پھر رہِ نجات کو دیکھ
تُو اِک نگاہ ستاروں پہ ڈال آخرِ شب
پھر اپنے قلب میں ضم پوری کائنات کو دیکھ
جہانِ فانی سے پا لے حیاتِ نو کی نوید
تغیّرات میں پھیلے ہوئے ثبات کو دیکھ
فراق و وصل کے قصے کہانیوں سے نکل
نظر اٹھا کے مکمل غمِ حیات کو دیکھ
سوائے عجز کے میں کچھ بھی لا نہیں پایا
مِرا عمل نہیں یا رب مِری بساط کو دیکھ
میں اپنے اشک سیاہی بنا کے لایا ہوں
قلم تِرا ہے خدایا، مِری دوات کو دیکھ
تُو اپنے دل کی گواہی سے منحرف ہے عماد
اب آنکھ کھول کے اپنے مشاہدات کو دیکھ
5
اپنی کاوش ابھی شعوری تھی
قلب کی روشنی ادھوری تھی
میرے جذبوں میں چاشنی کم ہے
ورنہ سوچوں کی آنچ پوری تھی
تجھ کو کھویا تَو پا لیا خود کو
زیست میں یہ کمی ضروری تھی
خاک خوردہ چٹائی پر ماتھا
روشنی، راستی، حضوری تھی
اب عماد اُن دنوں کا ذکر ہی کیا
جب تجھے آگہی سے دوری تھی
6
بات بے بات کی تکرارِ مسلسل ہر روز
ذات اور رات کی تکرارِ مسلسل ہر روز
سوچ یکسوئی سے اِک سمت رواں شام و سحر
پر وہ جذبات کی تکرارِ مسلسل ہر روز
دیدہ و دل کی گواہی سے نمٹ سکتی ہے
میرے خدشات کی تکرارِ مسلسل ہر روز
اِک وہی جیت کی خواہش ہمیں تا عمر رہی
اِک وہی مات کی تکرارِ مسلسل ہر روز
اپنے گَھٹ جانے کا احساس ہمیشہ قائم
غم کی افراط کی تکرارِ مسلسل ہر روز
نوحہِ عمرِ رواں کس کو سناتا میں عماد
مٹتے لمحات کی تکرارِ مسلسل ہر روز
7
اداس رات مجھے کچھ بتانے آئی ہے
مِرے وجود کو پھر سے جگانے آئی ہے
جو میرے ساتھ رہا ہے مگر قریب نہیں
اب اُس کی یاد مجھے آزمانے آئی ہے
وہ ایک چوٹ کسی گمشدہ زمانے کی
ہمارے دل کو دوبارہ دُکھانے آئی ہے
تمہاری چاہ کے جنگل میں میری سوچ بھی آج
اداسیوں کے پرندے دِکھانے آئی ہے
کسی کی یاد مِری سوچ سے اُبھر کے عماد
قرینِ دل ہی کہیں ڈوب جانے آئی ہے
8
ہم نے یہ ٹھیک کیا نفس کو گر بیچا نہیں
موت برحق ہے مگر روح کا سمجھوتا نہیں
اُس کے بِن تنہا ہوں مَیں، یہ نہیں احساس کیا
وہ مِرے بعد اکیلا ہے، کبھی سوچا نہیں
تھوڑی کاوش سے سمجھ سکتے ہو اُس شخص کا حال
درد میں ہنس تو وہ دیتا ہے مگر روتا نہیں
رمز کی بات سمجھتے نہیں دیکھے احباب
بات کی تہہ میں اتر سکتا کوئی دیکھا نہیں
اب عماد اُس نے بلایا ہے تو مِل لیتے ہیں
جیسے اِس حال میں اُس نے ہمیں پہنچایا نہیں
9
فالج
مِرے مفلوج ہونٹوں سے صدا آتی تو کیا آتی
کروڑوں پَل بِتائے تھے خوشی کے آستانوں پر
کوئی قصّہ دھرا رہتا تھا ہر لمحہ دہانوں پر
نہ جانے کتنے دن کاٹے تھے یکسر مسکرانے میں
کبھی لمحاتِ عشرت میں کبھی یوں ہی بہانے میں
مِرے دانتوں کی زیبائش نے کتنی ساعتیں پائیں
مِری پلکوں میں کتنے سال تَک خوشیاں نظر آئیں
نہ جانے کتنے برسوں تک ہنسا ہوں کھلکھلا کر مَیں
نہ جانے کتنے سالوں سے مِلا ہوں سَر اُٹھا کر مَیں
مِرے گالوں کی گولائی نمایاں سے نمایاں تر
غمِ دوراں کی پسپائی گریزاں سے گریزاں تر
زمیں کی گود میں گویا مجھے ہی خاص جوبَن تھا
مقدر کے اُفق پر جس طرح اِک مَیں ہی روشن تھا
مگر بس ایک لمحے میں
مگر بس ایک ساعت میں
سفر یوں رُخ بدلتا ہے کہ منظر اور پس منظر
بدل جاتے ہیں یکدم ہی
ہوا میں تیرتا پھرتا ہُوا انسان اِک لحظہ میں اپنے جسم کے زندان میں
جب قید ہو جاتا ہے
تَو محسوس کرتا ہے کہ مہلت کس کو کہتے ہیں
فراغت کس کو کہتے ہیں
بدن، انسان کا اپنا بدن،کیسے قفس بنتا ہے
کیسے آدمی اغراض و بے غرضی کے مابیں ڈوب جاتا ہے
مقدر،د سترس اور وقت کے اندھے سفر میں خود سے خود کا ساتھ
کیسے چھوٹ جاتا ہے
بدن مفلوج ہو جاتا ہے تب احساس ہوتا ہے
کہ فرصت ایک موقع تھا، فراغت ایک رستہ تھا
بدن مٹی کی ڈھیری میں بدل جانے سے پہلے
روح کو آباد کرنے کا
خس و خاشاک ہو جانے سے پہلے آخرت کو یاد کرنے کا
غمِ ہستی میں ضم ہونے، گِلِ کردار نم ہونے
اور آنسو دیس میں اپنا بدن بَو کر ثمر ہونے
فنا سے قبل خود کو امر کرنے کا
وصالِ موت سے پہلے شعورِ رات پانے کا
بقائے ذات پانے کا
نہ اب مسکان ہونٹوں پرنہ امکانات کی مستی
فقط اِک قصّہِ ماضی بنی جاتی ہے اب ہستی
تو سارے قہقہے، سب مسکراہٹ سے بھرے لمحے
مجھے کیا دے سکے ہیں اور کیا کچھ چھین بیٹھے ہیں
کبھی مفلوج پلکوں سے
کبھی مفلوج گالوں سے
میَں خود سے پوچھتا تھا اور خاموشی سے سنتا تھا
مگر اِس خامشی میں کچھ ندا آتی تو کیا آتی
مِرے مفلوج چہرے سے
مِرے مفلوج ہونٹوں سے
صدا آتی تو کیا آتی
بھلا آتی تو کیا آتی
10
راستے ملتے ہیں، منزل کے نشاں ملتے ہیں
ایک مقصد سے جُڑے لوگ کہاں ملتے ہیں
قلب کی تہہ میں کہیں کون و مکاں ملتے ہیں
اپنے اندر سے ہی پھر میرِ زماں ملتے ہیں
شہر کے شہر اُجڑ جاتے ہیں یکسر لیکن
ان خرابوں میں بھی کچھ ہیرے نہاں ملتے ہیں
لوگ جب ساتھ نہیں دیتے تو غم ہوتا ہے
آتشِ غم سے نئے سوزِ بیاں ملتے ہیں
کوئلہ گیلا ہو اور آگ لگا دیں اُس کو
منجمد سینوں سے ویسے ہی دخاں ملتے ہیں
میری سوچوں سے بھی دشوار رہی حق گوئی
لفظ انگارے ہیں جو نوکِ زباں ملتے ہیں
حق کی راہیں تو جوانوں کو بنا دیتی ہیں پِیر
خیر، جنت میں سبھی بوڑھے جواں ملتے ہیں
عیش و عشرت میں پھلے پھولے ہمیں کُند مِلے
لوگ صدموں کے پَلے ہوں تو رواں ملتے ہیں
اگلے وقتوں کی لکھی نظمیں عماد احمد کی
آج بھی ان میں اداسی کے بیاں ملتے ہیں
11
گِھر گیا اپنی چشمِ نم میں مَیں
غرق ہونے لگا تھا غم میں مَیں
مان لی ہے شکستِ فاش اپنی
آ گیا ہوں کسی کے دَم میں مَیں
ساری تقسیم کا ہے ایک اصول
ہے زیادہ میں تُو، تَو کم میں مَیں
آخرت پر یقیں نہیں تھا مجھے
یعنی کافر تھا اس جنم میں مَیں
نظرِ الفت رہے غریب نواز
رہ سکوں آپ کے کرم میں مَیں
مذہبِ روح چھوڑ کر اِک عُمر
کیوں رہا جسم کے دھرم میں مَیں
کائناتی نظامِ قدرت میں
اِک اکائی ہوں یا ہوں ضم میں مَیں
اب سیاہی سے نقش پھوٹیں گے
بھر گیا ہوں کسی قلم میں مَیں
روح بیمار کیوں ہوئی ہے عماد
مَر نہ جاؤں اِسی کے غم میں مَیں
12
ہم خیالی نصف حل تھا، مسئلہ گھمبیر تھا
ساتھ چلنا، ساتھ رہنا پاؤں کو زنجیر تھا
وہ سمجھتا تھا اصولی فیصلوں کے امتحاں
وعدہِ فردا پہ ہنس دیتا تھا گو دلگیر تھا
بے دلی دو روز میں بڑھتی نہیں، گَھٹتی نہیں
عہد تھا اِک جو شبانہ روز پُر تقصیر تھا
مَیں نے قرنوں کا سفر لمحوں میں کیسے طے کیا
قلب تھا میری کماں، مَیں روشنی کا تِیر تھا
جبر کے اس دور میں ہر شخص یوں زندہ رہا
آپ اپنی ڈھال تھا اور آپ ہی شمشیر تھا
جب کسی نے غم دیا تو رات کے پہلو میں درد
دل میں لے کر رب کے آگے بیٹھنا اکسیر تھا
روشنی کھوئی کبھی تو دو قدم دشوار تھے
قلب روشن تھا تو دو عالم مِری جاگیر تھا
ٹوٹتے دیکھا عماد احمد کو میں نے بارہا
کمسنی میں ہی وہ ہم سے دل جلوں کا پِیر تھا
13
نہیں ہوں مایوس ہاں مگر کچھ ڈرا ہوا ہوں
مَیں اِک سفر پر ذرا اکیلا نکل پڑا ہوں
فریب دینے لگا تھا اپنا یقین مجھ کو
مَیں بے یقینی سے اس یقیں کے تلے گیا ہوں
اگر گرہ دوں نفوس کو تو برا نہ مانو
مجھے جو شک ہو تو اپنے پیچھے بھی دوڑتا ہوں
ہزار ہا غم مِلے ہیں تیرے سا غم نہیں ہے
مَیں اِس خرابے میں اپنی ہستی بُھلا چکا ہوں
مجھے ہی بَننا ہے بند، نسلوں کے کچھ دکھوں پر
مَیں باپ دادا کے روگ بچوں سے روکتا ہوں
بکھر رہا ہے بدن مِرا وقت کے سفر میں
مَیں قلب میں ہی پنپ رہا ہوں، سنبھل رہا ہوں
وہ ایک لمحہ جہاں ممات و نجات اِک ہَوں
اُس ایک لمحے کے خواب میں مَیں جیے گیا ہوں
یہ شہرِ غم ہے یہاں کا باسی ہوں مَیں بھی تم بھی
کئی مسافر بھی ہیں اُنہیں بھی مِلا ہوا ہوں
کسے مِلا ہے غمِ حقیقی کسے مجازی
مَیں ہر مسافر کا سارا اسباب جانچتا ہوں
مَیں بے خبر تھا تو اپنی مرضی سے جی رہا تھا
تِری رضا جان لی خدایا تو آ گیا ہوں
جہاں پہ تم دیکھتے ہو خوشیوں کی رنگ و رونق
وہیں مَیں اکثر اداس روحوں کو دیکھتا ہوں
وہ مسکراہٹ جو مرتے لمحے نصیب ہو گی
عماد اُس کے لئے دکھوں سے گزر گیا ہوں
14
کیمیا گر
کیمیا گر بَتا
ریت جذبوں کو شیشہ بنانا ہو گر
تو انہیں کون سی گوند سے گوندھ لیں؟
تو انہیں کون سے رنگ میں باندھ دیں؟
کیمیا گر بَتا
اپنی سوچوں کو شفّاف کرنا ہو گر
تو انہیں کیسے پانی سے دھویا کریں؟
یہ بَتا کس روانی سے دھویا کریں؟
کیمیا گر بَتا
قلب مٹی سے سَونا بنانا ہو گر
تو اسے کیسے سانچے میں ڈھالے کوئی؟
کوئی تیزاب جس سے اجالے کوئی؟
کیمیا گر تجھے کیا یہ معلوم ہے؟
میری مٹی کا نم
میری مٹی کی بُو
میری مٹی کے ایٹم میں پنہاں سبو
میری مٹی سے اگتے ہوئے یہ گلو
میرا اعجاز ہیں
یہ مِری کُل حقیقت کے غمّاز ہیں
کیمیا گر تِرے علم کی انتہا
کیمیا گر تِرے فن کی اونچی بِنا
میری ہستی کو کندن نما پائے گی؟
میری مٹی کو سَونا بَنا پائے گی؟
کیمیا گر بَتا
کیمیا گر بَتا
اِس سیہ رات میں
ذات کے پھیلتے اِن سوالات میں
تیری میری ادھوری ملاقات میں
اپنی خواہش کے چُبھتے ہوئے کانچ میں
اپنی سوچوں کی بڑھتی ہوئی آنچ میں
ریت ہوتے ہوئے خواب شیشے کے پیکر میں ڈھل جائیں گے؟
میرے اندر کے پتھر مُناسب حرارت ملے گی تو یکسر پگھل جائیں گے؟
میرے قالب کی مٹی کے ماخذ سے کیا آج سونے کے چشمے ابل پائیں گے؟
کیمیا گر بَتا
15
اِک نئی تہذیب کی بنیاد اٹھانی چاہئے
شہر سے کچھ دور اِک بستی بسانی چاہئے
اِس بہی کھاتے میں بس کچھ لمحہِ ادراک ہیں
یہ کمائی صنعتِ غم میں لگانی چاہئے
پُر سکوں حالات کا حامل رہا ہے میرا دل
اِس کو کچھ تہذیب صدموں کی سکھانی چاہئے
منجمد سینے ہیں مغرب کی ہوائے سرد سے
برف زاروں میں ہمیں آتش جلانی چاہئے
راستے گم ہیں مگر موجود تو ہیں آج بھی
ڈھونڈنے والوں کو ہمت تو دلانی چاہئے
اِس صدی میں غار والے، لوح والے کون ہیں
ڈھونڈنے والوں کو اِک واضح نشانی چاہئے
واقعاتِ زندگی، حیران کُن ماضی و حال
لِکھ ہی دینی داستانِ زندگانی چاہئے
چھوڑ دینا چاہئے دنیا کو اُس کے حال پر
وقت سے پہلے فقط قوّت بچانی چاہئے
اِک خراساں کے سیہ پرچم ابھی درکار ہیں
اِک یہودِ اِصفہانی کی نشانی چاہئے
کان پر پردہ رہا تو آنکھ اندر کی کُھلی
عمر کی ساری کہانی اب سنانی چاہئے
تم بَھلا کتنوں کو کب تک یوں بچاتے آؤ گے
ڈوبنے والوں کو پیراکی سکھانی چاہئے
اور دنیائیں ابھی تسخیر کرنی ہیں عماد
غم کے اندھے سلسلوں کو بے کرانی چاہئے
16
زندگی کے جنگل میں جستجو بھی رستہ ہے
بیٹھ کر اکیلے میں، آرزو بھی رستہ ہے
خود کو گر سمجھنا ہو، رمز تک پہنچنا ہو
خامشی بھی رستہ ہے، گفتگو بھی رستہ ہے
کاروبارِ ہستی میں خود کو بیچنے سے قبل
اتنا سوچ لینا بس، آبرو بھی رستہ ہے
اِک طرف ہجومِ غم، اِک طرف نشاطِ دل
آگہی بھی رستہ ہے، رنگ و بو بھی رستہ ہے
نخلِ دل کی ویرانی، چشمِ نم کی سرشاری
ریگزار بھی رستہ، آبِ جُو بھی رستہ ہے
زندگی مسافت تھی، زندگی مسافت ہے
کوبکو بھی رستے تھے، روبرو بھی رستہ ہے
آج بھی عماد احمد خود سے لڑ رہا ہے تو
ہمسفر بھی رستہ ہے، دوبدو بھی رستہ ہے
17
بے وفا لوگ جفا کار ہوا کرتے ہیں
اور پھر ظلم پہ تیار ہوا کرتے ہیں
دیکھ سکتے ہیں جو گرتی ہوئی دیوارِ حیات
وہی اعمال کے معمار ہوا کرتے ہیں
گرمیئ شوقِ نظارہ سے شرر پھوٹ پڑے
قلب کچھ ایسے ہی بیدار ہوا کرتے ہیں
اپنے اعمال پہ ِاترا کے ہم ایسے کچھ لوگ
اپنی نیکی سے گنہ گار ہوا کرتے ہیں
بستیاں جن پہ غضب گرتے ہیں اُن میں بھی کہیں
چار چھ صاحبِ کردار ہوا کرتے ہیں
قلب نے عشق سے جو نور کے ماخذ پائے
عقل والوں کے یہ آزار ہوا کرتے ہیں
کسی ہادی کو صدا دینی ہی پڑتی ہے عماد
لوگ خود سے نہیں تیار ہوا کرتے ہیں
18
زخمی کرنا پڑ سکتا ہے
خود سے لڑنا پڑ سکتا ہے
رنگ و بو کے اِس میلے میں
تنہا رہنا پڑ سکتا ہے
اوروں کے غم کے ریلے میں
خود بھی بہنا پڑ سکتا ہے
دل کے اندر، سات سمندر
سا غم بھرنا پڑ سکتا ہے
عار ہو جس سے کچھ کہنے میں
اُس سے کہنا پڑ سکتا ہے
بے بس بندہ، بے کس خواہش
کچھ بھی کرنا پڑ سکتا ہے
من جنگل میں اترو گے تو
جینا مرنا پڑ سکتا ہے
خود کو صاف کیا تو جانا
گندہ ہونا پڑ سکتا ہے
اپنے سب اعمال کو اِک دن
سامنے دھرنا پڑ سکتا ہے
ماضی کا اِک ایک تبسم
تول کے رونا پڑ سکتا ہے
آج عماد غمِ ہستی کو
تنہا ڈھونا پڑ سکتا ہے
19
کِن سرابوں سے، خرابوں سے گزرتی آئی
سانس کی ڈور بندھے زیست گھسٹتی آئی
روشنی ملتی رہی راہ پہ چلنے جتنی
عمر ہر موڑ پہ تھوڑی سی پگھلتی آئی
قلب میں ذوق تو تھا، گرمیئ نظّارہ نہ تھی
وہ بھی وارفتگیئ شوق سے ملتی آئی
ایک خواہش تھی کبھی دل کو لبھانے والی
اب دبے پاؤں مِرے سامنے ڈرتی آئی
مَیں کسی موڑ کو آسان سمجھ بیٹھا اگر
چابکِ نفس چَلا، کھال اُدھڑتی آئی
یا اُسے میری طلب نے کبھی سمجھایا نہیں
یا مجھے اس کی ضرورت نہیں پڑتی آئی
جستجو کوئی ملی فاتح و سرشار عماد
کوئی خواہش کسی انجام پہ روتی آئی
20
رحمتِ حق بھی تھی، ادراک کی تنویر بھی تھی
قلب روشن ہوا، ہمّت بھی تھی تقدیر بھی تھی
زورِ بازو پہ بھروسہ تھا حقیقی ہتھیار
یوں تو کہنے کو مِرے ہاتھ میں شمشیر بھی تھی
کچھ مِری جستجو لے آئی مجھے سب سے دور
کچھ مِری زندگی اِس طور پہ تحریر بھی تھی
تاجداری سَرِ زنداں کی روایت ہے طویل
پھر یہی ماضی کے اِک خواب کی تعبیر بھی تھی
نفس تو پھول گیا گردنیں نیچی کر کے
اپنی نظروں میں کوئی ذات کی توقیر بھی تھی
دشمنِ دل سے لڑائی میں بھلا کیا لڑتا
اُس کے ترکش میں خموشی بھی تھی، تقریر بھی تھی
تِری پلکیں مِرے اجڑے ہوئے دل کی غمّاز
مِری آنکھوں میں تِرے درد کی تصویر بھی تھی
کیسا لمحہ تھا حقیقت کے پنپنے کا عماد
اُڑ بھی سکتا تھا مِرے پاؤں میں زنجیر بھی تھی
21
جوگی
مَیں نے کہا
جوگی بابا میرا دل بھر دو
من جنگل میں رات کی رانی سی خوشبو ہو
شور ہو تَو بہتے پانی سا، گاتی کوئل سا
یااڑتی کونجوں سا ہو
سنّاٹاابھرے تو اس میں بادِ صبا کی آمیزش ہو
جس سے جب پتےّ ہلتے ہوں
من جنگل زندہ لگتا ہو
جوگی میری جانب دیکھ کے کچھ مسکایا
چہرے پر شفقت کا سایہ بھی لہرایا
پھر دھیرے سے سرکودونوں سمت ہلایا
ہاتھوں کو کانوں سے لگایا
بولا! بیٹے!
جاؤ کہیں کچھ سنگت ونگت میں بیٹھو
کچھ گاؤ واؤ
اچھا وقت بِتانا بھی اچھا ہوتا ہے
جاؤ اچھا وقت بِتاؤ
ٹھمری سنتے، راگ سناتے
گانا گاتے، ڈھول بجاتے
آتے جاتے
یک دَم تم کو کیا سوجھی ہے
کیا سوچا ہے جو کہتے ہو
جوگی جی میرا دل بھر دو
میں نے کہا جوگی جی
میرا دل خالی ہے
قلب کہاکرتے ہیں جس کو روحانی بابے شابے سب
وہ نہیں چلتا
جذبوں کی جھیلوں میں جیسے کائی جمی ہے
لیکن ایک کنول نہیں کِھلتا
سوچوں کے ویرانے میں بس دھول پڑی ہے لیکن کوئی پھول نہیں ہے
ایسے تو زندہ رہنے کا لطف نہیں ہے
ایسے سانسیں چلنا کیا اِک بھول نہیں ہے؟
جوگی نے آنکھوں کو موندا
پھر اِک لمبا سانس لیا اور بولا! بچے!
سننا چاہتا ہے تو اب سن
دل کے اندر سات سمندر جتنی کالی نیلی پیلی لال سیاہی
بھر اور آ جا
خوب سمجھ لے سارے رنگوں میں تیرا من ڈوبے گاتو دل میں تھوڑا جوگ لگے گا
مَیں نے پوچھا
جوگی بابا
کالی تو مَیں لے آؤں گا
وہ تو میرے باطن سے ہی کالی ٹھہری
وہ تو میرے اپنے من میں بَن جاتی ہے
لیکن آخر
نیلی پیلی لال سیاہی
کیسے اور کہاں سے حاصل ہو سکتی ہے؟
جوگی بولا!
میرے بیٹے!
لال سیاہی تجھ کو اپنے خون سے حاصل کرنا ہوگی
پیلی یادوں سے، برسوں کی دھُول سے نکلے گی
تُو اُس کو
رفتہ رفتہ ماضی کی پرتوں سے نکالے گا اور دل میں جذب کرے گا
نیلی تیرے دل کو لگنے والی چوٹوں ہی کا رنگ ہے
دل خارا ہے تو نکلے گی
ورنہ تُو محروم رہے گا
کالی جو تو کہتا ہے تیرے باطن سے ملتی ہے، وہ غم سے بھی
لے سکتا ہے تُو
کالے باطن والے اکثر کالے غم بھی پا لیتے ہیں
مَیں نے پوچھا
جوگی بابا
دل کے اندر سات سمندر جتنی کالی نیلی پیلی لال سیاہی بھر کر اُس کا کیا کرنا ہے؟
جوگی بولا!
بس بیٹا لکھتے جانا ہے
یادوں، ماضی کی پرتوں سے
خون سے اور دل کی چوٹوں سے
غم سے اور اپنے عملوں سے
اِنّی کُنتُ مِنَ الظّالِمِیں
لکھنا ہے، لکھتے جانا ہے
رو نا ہے، روتے جانا ہے
سات سمندر کم پڑ جائیں تو اتنے ہی اور مہیا کر لینے ہیں
اِنّی کُنتُ مِنَ الظّالِمِیں
لکھنا ہے، لکھتے جانا ہے
رو نا ہے، روتے جانا ہے
آخر اِک دن تیرادل بھی بھر جائے گا
من جنگل میں رات کی رانی سی خوشبو بھی بس جائے گی
شور ہوا تو بہتے پانی سا، گاتی کوئل سا
یا اڑتی کونجوں سا ہی ہوگا اور
سناٹا ابھراتواُس میں بادِ صباکی آمیزش بھی ہو گی جس سے
جب پتّے ہلتے ہوں گے تو
من جنگل زندہ ہو لے گا
22
گروہِ کینہ وراں اُٹھ گیا ہے جا کے دیکھ
کھڑا ہے دل کا محافظ کوئی، بُلا کے دیکھ
کسی حَسِین کے ماتھے کا بَل سمجھ اس کو
غمِ حیات کو ایسے ہی مسکرا کے دیکھ
غلط، صحیح زمانہ نہیں بَتا سکتا
کبھی کتابِ مقدس کو بھی اٹھا کے دیکھ
مِرا وجود درخشاں ہوا ہے جس غم سے
اُسی کا بیج ہر اِک قلب میں لگا کے دیکھ
23
سرابِ جان کو پانی سمجھ کے پیش نہ کر
غرورِ نفس کو ایسے نہیں سجا کے دیکھ
یقین کر تَو محبت کی ہر صفت پر کر
گمان و ظن سے مراسم ذرا گھٹا کے دیکھ
میں سُن چکا ہوں دلائل شعورِ ہستی کے
کبھی صحیفہِ دل بھی مجھے سنا کے دیکھ
جو اپنی قوت و طاقت کے وصف ٹوٹ رہے
جواں دلوں کا کبھی حوصلہ بڑھا کے دیکھ
کبھی کسی کو بکھرتے ہوئے سمیٹ عماد
کبھی کسی کے تو سینے میں لَو جَلا کے دیکھ
24
گروہِ کینہ وراں اُٹھ گیا ہے جا کے دیکھ
کھڑا ہے دل کا محافظ کوئی، بُلا کے دیکھ
کسی حَسِین کے ماتھے کا بَل سمجھ اس کو
غمِ حیات کو ایسے ہی مسکرا کے دیکھ
غلط، صحیح زمانہ نہیں بَتا سکتا
کبھی کتابِ مقدس کو بھی اٹھا کے دیکھ
مِرا وجود درخشاں ہوا ہے جس غم سے
اُسی کا بیج ہر اِک قلب میں لگا کے دیکھ
سرابِ جان کو پانی سمجھ کے پیش نہ کر
غرورِ نفس کو ایسے نہیں سجا کے دیکھ
یقین کر تَو محبت کی ہر صفت پر کر
گمان و ظن سے مراسم ذرا گھٹا کے دیکھ
میں سُن چکا ہوں دلائل شعورِ ہستی کے
کبھی صحیفہِ دل بھی مجھے سنا کے دیکھ
جو اپنی قوت و طاقت کے وصف ٹوٹ رہے
جواں دلوں کا کبھی حوصلہ بڑھا کے دیکھ
کبھی کسی کو بکھرتے ہوئے سمیٹ عماد
کبھی کسی کے تو سینے میں لَو جَلا کے دیکھ
25
ٹوٹنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
کانپنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
میرے اندر لگا جُنوں کا درخت
سوکھنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
اپنے اندر چُھپا مُحَرِّک مَیں
ڈھونڈنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
بے سبب کیوں اداس رہتا ہوں
دیکھنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
اپنے کچھ فیصلوں پہ خود سے ہی
روٹھنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
دل اداسی کے سب حوالہ جات
چھوڑنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
سوچ کا تارا غم کی راتوں میں
ڈوبنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
نفس کا کلب، قلب کے اوپر
بھونکنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
اپنے مقصد سے ہٹ کے اور اِک سمت
بھاگنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
اپنا انجام اپنی آنکھوں سے
دیکھنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
میرے ہونے کی کچھ وجہ تو ہے
سوچنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
غیر مانوس راستوں کا سراغ
ڈھونڈنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
نیکیاں اور گناہ آپس میں
بانٹنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
میرے اندر کا سانپ میری نسیں
کاٹنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
اپنی بربادیوں کا اِک احساس
جاگنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
ایک ادراک میری نس نس میں
بھاگنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
میرا اپنا وجود میری ذات
کاٹنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
اپنے اندر سے آ رہی ہے ندا
ماننے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
میری ہستی کے غم کا چاند عماد
ڈوبنے کیوں لگا تھا کچھ دن سے
26
بلائے جان کا سودا خرید لائے ہیں
فتن کے دور سے دھوکہ خرید لائے ہیں
ہم آج درد کے میلے سے آرزو کا وبال
تِری خرید سے سستا خرید لائے ہیں
خودی کو بیچ کے سامانِ زیست لائے تو ہیں
تُو جانتا ہے کہ مہنگا خرید لائے ہیں
بَتا کہ ذات کا بیوپار کر کے مال و متاع
خرید لائے تو اچھا خرید لائے ہیں
بَتا رہا ہے تُو ایسے مِرے نصیب کا حال
کہ جیسے فال کا توتا خرید لائے ہیں
ملال و سوز کے بازار میں لُٹے کچھ یوں
جو بیچنا تھا وہ اُلٹا خرید لائے ہیں
عماد آج سرِ شام ہے غموں کا نفوذ
گداز دن سے کچھ ایسا خرید لائے ہیں
27
اُنس
کیا کرتے ہو؟
کیوں بھاتے ہو؟
سب چہروں میں
دِکھ جاتے ہو
سب رنگوں میں
رنگ آتے ہو
پر ساتھی کب
بَن پاتے ہو
ہر مشکل میں
اُٹھ جاتے ہو
جب جاتے ہو
تڑپاتے ہو
اب خود کو کیا
سمجھاتے ہو؟
دُکھ دیتے ہو
سو پاتے ہو
پھر روتے ہو
گھبراتے ہو
یہ سب کر کے
بھی بھاتے ہو
خلوت میں پھر
آ جاتے ہو
پھر کاہے اشک
بہاتے ہو؟
کیا کرتے ہو؟
کیوں بھاتے ہو؟
28
مَیں سمجھتا تھا پرانے گُل گئے
بے خودی میں زخمِ دل پھر کُھل گئے
وزن کیا ہونے لگا اعمال کا
آپ، مَیں، وہ، باری باری تُل گئے
اُڑ گئے سارے پرندے نفس کے
قلب میں روشن دریچے کُھل گئے
جتنے ماضی حال کے جنجال تھے
ایک ہی فرصت میں سارے دُھل گئے
خود سے خود کو ڈھونڈ ہی ڈالا عماد
ہم ادھورے آئے، واپس کُل گئے
29
بزدلی سے جی جی کر تَھک گئے ہو آخر تم
منصبِ جواں مردی تَک گئے ہو آخر تم
ہم بھی خیر خواہی سے چل نہیں سکیں گے اب
زہر میں بجھے الفاظ بَک گئے ہو آخر تم
آج بات سن لی اور سنگ دل نہیں بولا
ذات میں چُھپے موتی تَک گئے ہو آخر تم
رنگ و روپ کے رسیا، آخرش یہ ہونا تھا
میرے یک جہت دل سے تھَک گئے ہو آخر تم
اب نہیں عماد احمد ذات میں وہ کچّا پن
غم کی آنچ لے لے کر پَک گئے ہو آخر تم
30
حاصلِ غم
غم کیا ہوتا ہے؟
پلکوں کی دہلیز پہ بیٹھا
نم کیا ہوتا ہے؟
سانسوں کا دوبھر ہونا
پر چلتے رہنا
قدموں کا من من کا ہونا
پھر بھی آگے بڑھتے رہنا
اِک اِک پور کا تھکتے جانا
ہاتھوں پیروں کا شل ہونا
لیکن آس کی ڈوری پکڑے ہمّت کرنا
غم سے لڑنا
نم سے ڈرنا
لیکن پھر بھی آگے بڑھنا
ایسے میں غم اور نم کے باہم کیا ہوتا ہے؟
ہستی کی بستی میں انساں
جب تنہا رہ جاتا ہے تو
دل کی سونی گلیوں میں اِک
افسانہ رہ جاتا ہے تو
من کے اجڑے آنگن میں بس
ویرانہ رہ جاتا ہے تو
اس عالَم میں
لمحہ لمحہ
لحظہ لحظہ
غم بڑھتا ہے
نم بڑھتا ہے
قطرہ قطرہ ٹَپ ٹَپ رِستے
اِس غم کا
مرہم کیا ہوتا ہے؟
برسوں رفتہ رفتہ گرتا
دھیرے دھیرے روز پگھلتا
انساں جب تھک جاتا ہے تو
پھر کُھلتا ہے
مدھم کیا ہوتا ہے اور پیہم کیا ہوتا ہے
اپنے زندہ رہنے کا ماتم کیا ہوتا ہے
سانسوں کے آزار سے رشتہ جڑتا ہے جب
پھانس چبھی ہوتی ہے دل میں
کرچی کرچی ہوتا ہے من
کانچ پھنسی سانسوں کا
زیر و بم کیا ہوتا ہے؟
ایسی ساعت میں ہستی پر
واضح کیا ہوتا ہے اور مبہم کیا ہوتا ہے؟
تنہائی کی راہوں میں چلنے والے کو
اپنے اندر کی رسوائی سے لڑنے بھڑنے والے کو
تب معلوم ہوا کرتا ہے
غم کے اِس پاگل جنگل میں
نم کی اِس گہری دلدل میں
تنہائی میں
رسوائی میں
اپنا آپ کسے کہتے ہیں
ہمدم کیا ہوتا ہے
اور محرم کیا ہوتا ہے
غم اور نم کے موسم میں جب
سینہ چھلنی ہو جاتا ہے
من بھٹی میں
کندن ہونے کی خواہش میں جلنے والا
جب اس آگ کی شدت سے
لڑنے لگتا ہے
جلنے سے بچنے کی کوشش میں
پیچھے ہونے لگتا ہے
یک دم، اِک ساعت میں
ساری ہمّت زائل ہو جاتی ہے
انساں بالکل رک جاتا ہے
جلتے جلتے گر جاتا ہے
چلتے چلتے گر جاتا ہے
تب معلوم ہُوا کرتا ہے
دَم کیا ہوتا ہے، ہونا بے دَم کیا ہوتا ہے
کیا ہوتا ہے سیدھا رستہ، خَم کیا ہوتا ہے
ایسے میں اندر کے سفر میں
تنہائی میں، رسوائی میں
ذات کی اصلی شنوائی میں
سوچ کی ہر اِک گہرائی میں
سب جذبوں کی انگڑائی میں
غم اور نم کے ا ِس ماخذمیں ضم کیا ہوتا ہے؟
قلب کو کیا حاصل ہوتا ہے؟
کم کیا ہوتا ہے؟
غم کیا ہوتا ہے؟
پلکوں کی دہلیز پہ بیٹھا
نم کیا ہوتا ہے؟
31
سرابِ ذات دِکھا کر مجھے غلام کرو
کبھی نہ قلب سے دیکھوں یہ انتظام کرو
مجھے بتاؤ بہت کچھ، سِحر زدہ کر دو
ملے نہ عِلم مجھے اِس طرح کلام کرو
رموزِ ذات کی ترتیب کو اُلٹ ڈالو
خرد مٹا کے تواہم کا اہتمام کرو
مِری نظر کو دکھاؤ جہانِ نو کا طلسم
مِرے وجود کو پتھر کرو، غلام کرو
نظامِ عدل مٹا دو، معاش ہو کہ سماج
سیاسیات میں دجال کو امام کرو
گئے زمانے کی رسمیں کہو قدامت ہیں
پر اپنی رجعتِ دوراں کو پھر سلام کرو
اب ایسے دور میں زندہ رہو تو بچ کے جیو
خدا سے ربط بڑھانے کی طرز عام کرو
غلط، درست پرکھنا پڑے زمان میں تو
پکڑ کے ہاتھ میں قرآن اہتمام کرو
جو سامنا ہو دجل سے تو فاصلہ رکھ کر
نظر کو تِیر کرو، سوچ کو نیام کرو
مِرا مزاج نہیں ہے کہ بے وجوہ رہوں
تو سنگِ میل کا پتھر کرو یا بام کرو
عماد آج سرِ شام اِس قدر سچ کو
اگر بیان کیا ہے تو جاؤ عام کرو
32
جسم جسموں کے طلب گار نظر آتے ہیں
ہر طرف روح کے آزار نظر آتے ہیں
رنگ اور خوشبو میں لپٹے یہ پری چہرہ لوگ
دیدۂ بینا کو بیمار نظر آتے ہیں
ریت کے ذرے میں، پانی کے ہر اِک قطرے میں
دیکھنے والوں کو سنسار نظر آتے ہیں
فتنہ گر وقت نہیں مَیں تھا، مِری سوچیں تھیں
اب مکافات کے اَسرار نظر آتے ہیں
خیر اور شر کی لڑائی میں ذرا کود کے دیکھ
ہر طرف اپنے ہی کردار نظر آتے ہیں
خبرِ واحد تھا مِرے نفس کی سازش کا بیاں
پھٹ پڑا ہوں تو یہ اخبار نظر آتے ہیں
ڈھونڈتا پھرتا ہوں برسوں سے قلوبِ صالح
لاکھ دو لاکھ میں دو چار نظر آتے ہیں
اب کے تمثیل سے، تشبیہ سے کوشش کی ہے
لوگ حق سننے سے بیزار نظر آتے ہیں
غیرتِ ہجر ہو وارفتگیئ وصل یا غم
ہم تِرے اِذن پہ تیار نظر آتے ہیں
غم کی گھاٹی میں اترتے ہیں تِرے حکم پہ جب
قلب کو نور کے مینار نظر آتے ہیں
آئینہ دیکھ کے رو دیتے ہیں ہر روز عماد
روز اتنے ہی گنہ گار نظر آتے ہیں
33
دیوار
کیسی بستی ہے یہ
جس میں کوئی مسافر اگرشدّتِ بھوک میں کچھ نوالوں کا طالب ہوا
تو اُسے کچھ نوالے نہیں مل سکے
پیٹ بھرنا کجا
تپتے سورج کے نیچے کھڑے شخص کو آب کے دو پیالے نہیں مل سکے
انسیت کے حوالے نہیں مل سکے
جانے کتنوں نے دیکھا اُسے بھوک میں
پر کسی نے بھی اُس کی کفالت نہ کی
اُس نے چاہا اگر ملتفت ہو کوئی
تو کسی نے بھی اُس کی وکالت نہ کی
اُس نے مانگا کسی سے تو اُس شخص کا دل پسیجا نہیں
اُس کے غم کو کسی نے بھی دیکھا نہیں
کیسی بستی ہے یہ
ایسی بستی میں تنہا، اداس آدمی
ایک دیوار کے سائے میں بیٹھ کر
اپنے غم کو غلط کر رہا تھا کہ جب
اُس نے دیکھا کہ دیوار گرنے کو ہے
اُس کی بنیاد تک بیٹھ جانے کو ہے
اور بنیاد کی کھوکھلی درز سے
صاف دِکھنے لگا
اُس کی تہہ میں کہیں اِک خزانہ بھی ہے
کیسی بستی ہے یہ
اِس میں کوئی نہیں جو کسی شخص کو بھوک میں دو نوالے کھلاتا چلے
صرف پانی کا پیالہ پلاتا چلے
ایسی بستی میں کس کا خزانہ ہے یہ
یہ ہزاروں برس کی پرانی کہانی ہے یا آج ہی کا زمانہ ہے یہ
اِس خزانے میں کیا ہے ذرا سوچئے!
اِس زمانے میں کیا ہے ذرا سوچئے!
یہ جو دیوار ہے
یہ ہماری روایت کی دیوار ہے
دین و دنیا کی غایت کی دیوار ہے
اِس کی بنیاد میں
یہ جو سَونا ہے یہ میری تہذیب ہے
میری اقدار کا ایک اظہار ہے
میرے اجداد کا اِس میں کردار ہے
میرے بعد آنے والی نسل کے لئے
ایک حجت ہے یہ
اُن کی میراث ہے
کیسی بستی ہے یہ
اور اِس میں یہ بنیاد ہلنے کو ہے
میرے اجداد کی سب روایات کی
دین و دنیا کی دیوار گرنے کو ہے
کس سے بولوں یہ دیوار تھامے کوئی
کس سے کہہ دوں کہ بنیاد کو پُر کرے
ایسی بستی میں کوئی مسیحا نہیں
ایسی بستی میں کوئی سنے گا نہیں
آج کَل میں یہ دیوار گر جائے گی
یہ خزانہ یہیں پر ہی لُٹ جائے گا
میرے اجداد کی سب روایات کا
دین و دنیا کے سارے کمالات کا
نام تک اِس زمانے سے مٹ جائے گا
میری اگلی نسل
اِس خزانے کو حاصل نہ کر پائے گی
اپنی ہستی کو کامل نہ کر پائے گی
مَیں نے سوچا ہے اللہ کا نام لوں
زورِ بازو سے ہی آج کچھ کام لوں
چاہے بستی سے روٹی نہیں مل سکے
کوئی پانی بھی پوچھے یا دھتکار دے
اپنے کاندھوں پہ اِس بوجھ کو تھام لوں
مَیں نے سوچا ہے دیوار گرنے نہ دوں!
34
شعورِ حق بھی سینے میں، ظہورِ حق بھی سینے میں
یہی بیداریئ قلبی مزہ دیتی ہے جینے میں
غم و اندوہ کے بادل تو چَھٹ جائیں گے بالآخر
یقینا ظرف بڑھ جائے گا اپنے غم کو پینے میں
ہے بے مادر پدر نسلوں کی کچھ میراث دفن اِس میں
گری دیوار تو لُٹ جائے گا جو ہے دفینے میں
سماجی ہو، معاشی ہو، سیاسی ہو کہ ذاتی ہو
بدل جاتا ہے طرزِ زندگی لمبے شبینے میں
تنوروں کے ابلنے تک اُنہیں سمجھا رہا تھا مَیں
مِرے اپنے نہیں بیٹھے مِرے اپنے سفینے میں
گریباں چاک تھا پَر سی لیا ہے اب عماد احمد
کہ ضبطِ حال لازم ہے حضوری کے قرینے میں
35
غیرتِ آرزو نہیں جاتی، حسرتِ جستجو نہیں جاتی
عمر تو ڈھل رہی ہے پر اب بھی زیست کی ہاؤ ہو نہیں جاتی
زندگانی کی شام کا انجام، ایک ویران سرمئی منزل
لیکن انسان کے حواسوں سے دن کی وہ رنگ و بو نہیں جاتی
جب اداسی اتر رہی ہو تو ایک اِک نس بدن سے لڑتی ہے
ریشہ ریشہ ادھیڑنے سے قبل، آنکھ تک آبِ جو نہیں جاتی
بے سر و پا محاذ کھولے تھے، بے غنیمت پلٹ گئے ہم لوگ
بے دلی سے لگی ہوئی بازی، جیت کے روبرو نہیں جاتی
بے کلی! لوگ چاہتے ہیں مَیں توڑ دوں تیرا اور مِرا رشتہ
میری اپنی، مِری بہت اپنی، میرے اندر سے تُو نہیں جاتی
زخمِ دل کی رفو گری کب تک، ضبطِ حالاتِ زندگی کب تک
آج تو سوچ بھی گریزاں ہے، درد کے دوبدو نہیں جاتی
جانتا ہوں بَتا نہیں پاتا، حدِ ادراک سے جڑے کچھ راز
لاکھ کوشش کے باوجود عماد، اس طرف گفتگو نہیں جاتی
36
سردی کی رات
بہت سردی کی لمبی رات
اور ایسی ٹھٹھرتی رات میں، کمبل میں لپٹے جسم لے کر جاگنے والے
بدن سے نیندکا گہرااثر تحلیل کرنے کے لئے یخ بستگی کو چومنے والے
بدن کے سُکھ سے اور آسودگی سے بڑھ کے بھی کچھ سوچنے والے
نہایت منجمد اجسام سے قلبی حرارت ڈھونڈنے والے
مقدّر سینچنے والے
بہت سردی کی لمبی رات
اور اُس رات کا وہ آخری حصّہ
جہاں پر زندگی سارے جھمیلے چھوڑ کر
تھک ہار کر، خود میں سمٹ آتی ہے
سنّاٹا سمٹ آتا ہے بام و در میں
پورے گھر میں
اور انسان کے اندر، بہت اندر
فقط اس کاشعوری اصل بچ جاتا ہے
خود سے پوچھتا ہے
کون ہے وہ، کس جگہ ہے، کیوں ہے اور کس سمت رفتہ ہے
حقیقت کے نہاں رازوں کا پردہ چاک کرتا ایسا لمحہ پھیلتا ہے
بے کراں ہوتا ہے
تو آباد ہوتا ہے
بہت سردی کی لمبی رات
اور اُس رات کا وہ آخری حصّہ
تہجد کا پہر
خالص عبادت کا پہر
اور اُس کا وہ لمحہ
مکمّل اور مقدّس، جاگتا لمحہ
جہاں انسان خود سے ماورا ہوتا ہے
اور تنہائی کے، ادراک کے مفہوم کو آباد کرتا ہے
زمانے کے حوادث سے شعورِ ذات کو آزاد کرتا ہے
بہت سردی کی لمبی رات
اور اُس رات کا وہ آخری حصّہ
جہاں پرزندگی تھمتی بھی ہے، چلتی بھی ہے
اور جاگنے سونے کے مابیں فرق بھی ممتاز کرتی ہے
مقدّر کے سفر کے دو حقیقی اور اصولی ضابطے آغاز کرتی ہے
بہت سردی کی لمبی رات
اور اُس رات کا وہ آخری حصّہ
جہاں نرم وگرم بستر کی چاہت دلفریبی کے لئے موجود ہوتی ہے
بدن کی خواہشوں کو باعثِ آسود ہوتی ہے
بہت سردی کی لمبی رات
اور اُس رات کا وہ آخری حصّہ
جہاں گویا
خدا انسان کی دھڑکن میں یوں موجود ہوتا ہے
کہ اُس کا بات کرنا ذات کو محسوس ہوتا ہے
37
تشنگی کیا ہے کسی روز سنائیں گے تمہیں
تیرگی کیا ہے یہ فرصت میں بتائیں گے تمہیں
روشنی کون سی دہلیز پہ ٹھہری ہوئی ہے
اِس اندھیرے سے بچے گر تو دکھائیں گے تمہیں
رابطے ٹوٹ گئے ہیں کئی اندر باہر
خود سے جُڑ جائیں ذرا، تم سے ملائیں گے تمہیں
درد تو ایک ہے پَر سوچیں جدا رکھتے ہیں
آج سب اپنے رویوں سے دِکھائیں گے تمہیں
دل ابھی جوش میں ہیں، سوچیں فضاؤں میں بلند
جب زمیں بوس ہوئے خود ہی بلائیں گے تمہیں
گَھر کے دروازے سے جانے کو نہیں کہتے ہیں
اِسی دہلیز پہ تسلیم کرائیں گے تمہیں
غمِ ہستی کے کواکب پہ نگہ ڈالو عماد
گُھپ اندھیرے میں یہی راہ سُجھائیں گے تمہیں
38
اداس ہونا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا
اکیلے رونا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا
جہانِ فانی کے میلے میں ڈھونڈتے کیا ہو
کوئی کھلونا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا
یہ کہہ کے خاک کی چادر ہی اوڑھ لی مَیں نے
یہاں بچھونا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا
سمجھ گئے ہو اگر قلب کی حقیقت تو
نفاق بونا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا
شعورِ ذات کے بدلے غرورِ مال و متاع
کبھی کہو نا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا
تمہارا نفس اگر روح پر گراں ہے تو
یہ بوجھ ڈھونا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا
تمہاری مٹی کی زرخیزی یہ بتاتی ہے
غبار ہونا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا
اٹھو زمانے کو درکار ہے کوئی بیدار
یہاں پہ سَونا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا
غمِ فراق ہو چاہے غمِ حیات عماد
اِنہیں پرونا تمہیں زیب ہی نہیں دیتا
39
ذات کی تطہیر مقصد بَن گئی
قلب کی تنویر مقصد بَن گئی
کَل جسے رسوائی کہتے تھے وہ آج
باعثِ توقیر مقصد بَن گئی
جب یہ سمجھا، قید میں ہی ہے نجات
نفس کی زنجیر مقصد بَن گئی
رمز رکھنے تھے تو چپ سادھے رہے
اِذن پر تحریر مقصد بَن گئی
عِلم حاصل ہو گیا تاویل کا
خواب کی تعبیر مقصد بَن گئی
جب خدا سے رابطہ ٹوٹا تو پھر
روز اِک تصویر مقصد بَن گئی
کَل تلک سودا جُنوں کا تھا عماد
آج کیوں تدبیر مقصد بَن گئی
40
اپنی قوم کے نام ایک پیغام
رک جاؤ
کچھ دیر سنبھل لو
دیکھ تو لو بے سمت کھڑے ہیں
کس جانب سے آئے ہیں ہم
اور کہاں کا رخ کرنا ہے
رستہ کیا ہے
منزل کیا ہے
کیا ممکن ہے
مشکل کیا ہے
رک جاؤ
کچھ دیر سنبھل لو
وقت کی قیمت مت سمجھاؤ
جلدی پر بھی مت اکساؤ
جذبوں کو مت آگ لگاؤ
سوچوں پر پہرے نہ بٹھاؤ
بات کو سمجھو
پہلے اپنی ذات کو سمجھو
اپنے اندر پھیلی کالی ناگن جیسی رات کو سمجھو
پہلے اپنی فکر کو سمجھو
پھر اپنے جذبات کو سمجھو
دنیا کے حالات کو سمجھو
قوموں کے خدشات کو سمجھو
ایسے کچھ بھی جانے سمجھے بِن ہاتھوں میں بھالے لے کر
پاؤں میں اِتنے چھالے لے کر
فکروں پر یوں تالے لے کر
جذبوں کے متوالے لے کر
دنیا سَر کرنے مت نکلو
قوموں سے لڑنے مت نکلو
اپنے اندر پھیلی کالی ناگن جیسی رات سے نکلو
غم اور نم کی سات دَہائی سے جاری برسات سے نکلو
رک جاؤ
کچھ دیر سنبھل لو
دیکھ تو لو بے سمت کھڑے ہیں
کس جانب سے آئے ہیں ہم
اور کہاں کا رخ کرنا ہے
41
گریزاں ہو مگر پھر بھی بلانا چاہتے ہو تم
خموشی بھی بَصد صورت جتانا چاہتے ہو تم
ہَمِیں سے دوستی ہے اور ہَمِیں سے ہے عداوت بھی
ہمیں کچھ دور رکھنا، کچھ منانا چاہتے ہو تم
شعورِ ذات تک تو آ گئے تاریک راہوں پر
جَلا کر روشنی اب کیا دِکھانا چاہتے ہو تم
خوشی کا کیوں پتا پوچھا ہے اِتنے سال بعد آخر
کہو کیا حاصلِ ہستی گنوانا چاہتے ہو تم
سفر آسان تھا پیچھے مگر اب سوچ لو ہمدم
غمِ ہستی کی راہوں پر نبھانا چاہتے ہو تم
نفوسِ نسلِ انسانی کے غم جو ذات میں ضم ہیں
انہیں اب آنکھ کے در پر سجانا چاہتے ہو تم
وہی اِک دُکھ جو چلتا آ رہا ہے سات نسلوں سے
عماد احمد اُسے اپنا بنانا چاہتے ہو تم
42
کچھ برسوں، کچھ لوگوں کا غم دل پر چھایا ہے
تنہائی ہمدرد ہے اور دُکھ ہمسایہ ہے
سچ کو گروی رکھ کر جھوٹ کا قرض لیا ہے
تب ہی میرے ہاتھوں میں تھوڑا سرمایہ ہے
عُمر کا سورج نصف نہار سے گزرا تو دیکھا
میرے سے لمبا تو میرے غم کا سایہ ہے
جو بویا جاتا ہے وہ ہی کاٹا جاتا ہے
ربع صدی دُکھ بویا تھا آخر پایا ہے
برسوں بعد پلٹ کر آیا غم کا یہ تہوار
مَیں ہوں، شب کا گریہ ہے اور تیرا سایہ ہے
آنکھ اگر ہنستی ہے تو غم اُس سے کہتا ہے
دُکھ نگری میں اِک تُو ہے جو مجھ کو بھایا ہے
رات عماد مِلا تھا، تنہا بھی تھا خوش بھی تھا
کہتا تھا لوگوں سے کٹ کر خود کو پایا ہے
43
تم جو کہتے تھے کہ پھولوں سے بہل جاؤ گے
سوکھے پتّوں کی طرح دل کو مسل جاؤ گے
راستے دو ہوں تو کیا عِلم، چناؤ کیا ہو
حق و ناحق میں چنو گے تو پھسل جاؤ گے
خشک پَتّا ہے اگر نفس تو دنیا آتش
آگ کے پاس بھی منڈلائے تو جل جاؤ گے
برف جذبے ہوں کہ پتھریلی نگاہیں، جس دن
قلب سلگے گا تو تم پورے پگھل جاؤ گے
یہ گماں ہی تھا تمہارا کہ بھُلا دو گے اُسے
یہ گماں ہی ہے تمہارا کہ بہل جاؤ گے
وقت لے لے کے تصوّر سے سنوارا تھا تمہیں
وقت گزرے گا تو تصویر میں ڈھل جاؤ گے
تم سے پہلے بھی بہت رنجِ نہاں پالے ہیں
تم بھی اے دردِ رواں ایسے ہی پَل جاؤ گے
چاہے اب ہوش و خرد والوں میں بیٹھو جا کر
گر جُنوں پیشہ ہو ِاک روز سنبھل جاؤ گے
تم عماد احمد اُسے خود سے جدا دیکھو گے
نظم تھے، آج بَہ اندازِ غزل جاؤ گے
44
بہت تکلیف ہے لیکن بتانے سے گریزاں ہو
گریباں چاک ہے پر دل دِکھانے سے گریزاں ہو
بہت کچھ سوچ رکھا ہے، بہت کچھ دل میں پنہاں ہے
نگاہوں میں جو دِکھتا ہے، سنانے سے گریزاں ہو
اِسے بھی کچھ نہیں کہتے، اُسے بھی کچھ نہیں کہتے
زمانوں سے گریزاں ہو، زمانے سے گریزاں ہو
کہو پہلے سی وہ قوّت نہیں باقی رہی دل میں
کہو اِس عمر میں اب غم کمانے سے گریزاں ہو
اگرچہ جانتے ہو میرِ منزل صرف تم خود ہو
مگر یہ بوجھ کاندھے پر اٹھانے سے گریزاں ہو
ابھی بھی چاندنی راتوں میں چھت پر کیوں ٹہلتے ہو
یقینا آج تک اُس کو بھلانے سے گریزاں ہو
غمِ دوراں کی چھینٹوں میں لتھڑ بیٹھے ہو اور اب بھی
غمِ ہستی کی موجوں میں نہانے سے گریزاں ہو
عماد احمد بھری محفل میں تنہا کیوں کھڑے ہو تم
بہانہ بات کا ہے، تم بہانے سے گریزاں ہو
45
مسافت
غمِ جاناں کی وادی کو ہزاروں لوگ جاتے ہیں
ازل سے ہی محبت کے سفر ناموں میں لکھے
خوبصورت اور روشن راستوں کے تذکرے
انسان کو انجان راہوں پر چلانے کے لئے تیار کرتے ہیں
کسی امید کا دامن پکڑ کر ان گنت راہی
سفر آغاز کرتے ہیں
ڈگر آباد کرتے ہیں
کوئی اِس راہ میں ایسے بکھرتے ہیں کہ اپنی زندگی
برباد کرتے ہیں
کوئی اِس راہ پر اپنی مقید ذات کو
آزاد کرتے ہیں
محبت کے تحیّر کے نئے روشن نگر
آباد کرتے ہیں
غمِ جاناں کی وادی د ل نشیں تو ہے مگر پھر بھی
غمِ جاناں کی وادی پر مسافت تھم نہیں جاتی
محبت کے تحیّر کے نگر آباد کرنے سے سفر سچّے نہیں ہوتے
کسی اگلے سفر کے راستے کچّے نہیں ہوتے
ذرا سا وقت ڈھلتا ہے تو کُھلتا ہے کہ آگے اور بھی غم ہیں
ابھی پلکوں کی دہلیزوں پہ بیٹھے اور بھی نم ہیں
غمِ جاناں سے آگے اور بھی رستے ہیں جن کو کھوجنا، تنویر کرنا ہے
غمِ دوراں کے جنگل کو ابھی تسخیر کرنا ہے
نیا اِک راستہ تعمیر کرنا ہے
غمِ جاناں کی وادی میں نئے بَنتے نگر میں چند دن گزرے نہیں ہوتے کہ اگلے راستوں کا اِذن ہوتا ہے
غمِ دوراں کے جنگل تک مسافت کا نیا اعلان ہوتا ہے
سفر پھر سے ہماری زیست کا عنوان ہوتا ہے
غمِ دوراں کے جنگل تک سفر آغاز ہوتا ہے
غمِ جاناں کی وادی سے غمِ دوراں کے جنگل تک بہت سے موڑ پڑتے ہیں
فراق و تیرگی انسان کو مغموم کرتی ہے
سکونِ ذات سے محروم کرتی ہے
کئی آہستہ قدموں سے چلے چلتے ہیں یہ راہیں
کئی وحشت زدہ ہوتے ہیں واپس دوڑ پڑتے ہیں
غمِ دوراں کے جنگل میں
بہت سے لوگ ملتے ہیں
بہت سے روگ ملتے ہیں
بہت سے جوگ ملتے ہیں
کئی سنجوگ ملتے ہیں
سفر کی ہر صعوبت آدمی کو چِیر دیتی ہے
ہر اِک رستے پہ غم کی اِک نئی تحریر دیتی ہے
غمِ دوراں کے جنگل میں غمِ جاناں کی وادی قصّہِ ماضی نظر آتی ہے اور ہر پَل گزرتی زندگی بس پاؤں کو زنجیر دیتی ہے
غمِ جاناں کی وادی کو ہزاروں لوگ چلتے ہیں
غمِ دوراں کے جنگل تک ہزاروں لوگ آتے ہیں
مگر جنگل سے آگے بھی مسافت ہے
حدودِدل سے آگے بھی ریاضت ہے
غمِ جاناں سے بھی آگے، غمِ دوراں سے بھی آگے
گمانِ فہم و نظراں سے بہت اوپر، کہیں آگے
اگرچہ اِس مسافت پر بہت کم لوگ جاتے ہیں
اگر جاتے بھی ہیں تو ذات کے کچھ بھوگ جاتے ہیں
مگر کچھ لوگ جاتے ہیں
اٹھا کر روگ جاتے ہیں
نِبھا کر جوگ جاتے ہیں
تلاشِ ذات کی تکلیف دہ گھاٹی سے بھی آگے
شعورِ زندگی، افکار کی دھرتی سے بھی آگے
غمِ جاناں کی وادی کو ہزاروں لوگ چلتے ہیں
غمِ دوراں کے جنگل تک ہزاروں لوگ آتے ہیں
مگر جنگل سے آگے بھی مسافت ہے
حدودِدل سے آگے بھی ریاضت ہے
غمِ جاناں سے بھی آگے، غمِ دوراں سے بھی آگے
گمانِ فہم و نظراں سے بہت اوپر، کہیں آگے
اگرچہ اِس مسافت پر بہت کم لوگ جاتے ہیں
اگر جاتے بھی ہیں تو ذات کے کچھ بھوگ جاتے ہیں
مگر کچھ لوگ جاتے ہیں
اٹھا کر روگ جاتے ہیں
نِبھا کر جوگ جاتے ہیں
تلاشِ ذات کی تکلیف دہ گھاٹی سے بھی آگے
شعورِ زندگی، افکار کی دھرتی سے بھی آگے
46
غم بڑھتا ہے تو راتیں ماتم کرتی ہیں
دل کو بوجھل اور آنکھوں کو نم کرتی ہیں
تنہائی کی پریاں میرے خواب کدے میں
آ جاتی ہیں اور جانم جانم کرتی ہیں
چاند نکل آتا ہے، تارے چُھپ جاتے ہیں
غم کے دیپ کی لَو، خوشیاں مدھم کرتی ہیں
47
غم بڑھتا ہے تو راتیں ماتم کرتی ہیں
دل کو بوجھل اور آنکھوں کو نم کرتی ہیں
تنہائی کی پریاں میرے خواب کدے میں
آ جاتی ہیں اور جانم جانم کرتی ہیں
چاند نکل آتا ہے، تارے چُھپ جاتے ہیں
غم کے دیپ کی لَو، خوشیاں مدھم کرتی ہیں
سینے کی تبخیر سے اٹھنے والی سانسیں
میرے اندر ساون سا موسم کرتی ہیں
رفتم بودم کی گردان میں میری سوچیں
مستی میں آ کر ہستم ہستم کرتی ہیں
دل کا درد عماد کے آگے مت چھیڑو تم
وہ عاقل ہے، اُس کی سوچیں غم کرتی ہیں
48
اشک بہتے ہیں تو سیلاب میں گھِر جاتے ہیں
آہ لیتے ہیں تو گرداب میں گھِر جاتے ہیں
اپنے سینے کو جَلا لیتے ہیں اپنے ہاتھوں
اپنی نفرت ہی کے تیزاب میں گھِر جاتے ہیں
پوچھئے اُن سے جو تنہا ہیں بھری دنیا میں
آپ اچھے ہیں جو احباب میں گھِر جاتے ہیں
نفسِ لوّامہ کے تریاق کو پیتے پیتے
نفسِ امّارہ کے زہراب میں گھِر جاتے ہیں
تم نہیں جانتے، ہو جاتے ہیں بوجھل کیوں دل
لوگ افکار کے سیماب میں گھِر جاتے ہیں
کبھی جلتا ہُوا سینہ، کبھی بہتی ہوئی آنکھ
بس کبھو آگ، کبھو آب میں گھِر جاتے ہیں
تیرے ہتھکنڈے سمجھتے ہیں مگر دوست سمجھ
شرم رکھتے ہیں سو اسباب میں گھِر جاتے ہیں
زندگی لمبی کہانی ہے مگر بارِ دگر
ہم وہی ایک تِرے باب میں گھِر جاتے ہیں
لوگ کر جاتے ہیں ہر حد سے بھی آگے کے ستم
ہم ہر اِک بار ہی آداب میں گھِر جاتے ہیں
قلب کو کھوکھلا پاتے ہیں تو دل جمعی کو
دارِ فانی ہی کے اسباب میں گھِر جاتے ہیں
دن گزرتا ہے حقیقت سے نمٹنے میں عماد
رات ڈھلتی ہے تو ہم خواب میں گھِر جاتے ہیں
49
قطعہ
معاش و رزق کی فنکاریوں میں عمر تج دی ہے
غمِ دوراں تِری دلداریوں میں عمر تج دی ہے
حریص و لالچی انسان تھا سو فائدہ مندی
جہاں ملتی رہی اُن باریوں میں عمر تج دی ہے
50
قطعہ
من جنگل میں آگ لگی ہے، پھیل رہی ہے چاروں اَور
دھواں اٹھا تو سب نے دیکھا، بات گئی ہے چاروں اَور
آٹھ برس سے اپنے اندر سینت کے بیٹھا تھا کچھ رمز
راز کُھلا ہے سب کے اوپر، ذات کُھلی ہے چاروں اَور
51
قیمتِ نفس
نفسِ انسانی کی قیمت لگ رہی تھی شہر میں
ہر زن و مردم کھچا آیا بڑے بازار میں
خواہشوں کی پوٹلی لایا بھرے بازار میں
دل امیدوں سے بھرے،کیا مول لگتا ہے بَھلا
رہ گئے گَر بِن بِکے، یہ خوف تھا افکار میں
کوئی اپنے دن کی کاوش کا نتیجہ مانگتا
کوئی اپنے رَت جگوں کا دام اچھا چاہتا
کوئی ارزاں بیچنے آیا تھا دنیا اور دِین
کوئی مہنگا چاہتا تھا نرخ اپنی ذات کا
کچھ قلم کے زور پر سودا گری کرتے رہے
کچھ بھرم کے طور پر کوزہ گری کرتے رہے
کچھ کو اپنے زورِ بازو کا صلہ درکار تھا
کچھ کو لگتا تھا کہ سستا بیچنا بیکار تھا
شہر میں ہر آدمی کی کچھ نہ کچھ قیمت لگی
شہر میں ہر شخص نے بیچی متاعِ جان و دل
کچھ نے گنتی کے دنوں کا سُکھ کمایا، اور بس
کچھ نے ساری زندگی کا لطف پایا، اور بس
اُٹھ گیا اِک شخص اُس بازار سے کنگال ہی
جان بیٹھا نفس کی قیمت ہے گویا چال ہی
ایک تنہا آدمی تھا جس کی یہ حالت رہی
نفسِ انسانی کی قیمت کم سے کم جنت رہی
52
نسلِ انسانی کے دُکھ سمجھے بِنا ہی ہم نے خود کوکیسے کامل کہہ دیاتھا
بس کنارے پر رہے اور ڈوبنے والوں کے آگے خود کو ساحل کہہ دیا تھا
سوچ تو رکھنی تھی اپنی ذات سے چل کر زمانے تک میں تبدیلی کی تم نے
کتنا سستا بیچ ڈالا زندگی کو، نفس جیسی شے کو منزل کہہ دیا تھا
در حقیقت قلب کی تطہیر کی تدبیر کرنی تھی ابھی تو زندگی میں
نفس نے پھسلا دیا تو زعم میں ناپاک کو پاکوں میں شامل کہہ دیا تھا
جس نے دنیا کو خس و خاشاک کر ڈالا اسے ظِلِّ الٰہی ہی پکارا
جس نے اپنے نفس کو مارا، اُسے گلیوں میں کھینچا اُس کو قاتل کہہ دیا تھا
کرم تھارب کارضائے حق سے رستے کُھل گئے تاریک شب میں بھی تمہارے
تم نے کیسے قلب کو روشن جگہ اور ذات کو منزل کا حامل کہہ دیاتھا
یہ نہیں سوچا کہ شر اور خیر کی اصلی لڑائی ذات کے اندر چُھپی ہے
نفس کے آسیب کودل میں ہی رہنے دے دیا اور خود کو عامل کہہ دیا تھا
کاش ایسا ہو کہ جنت مِیں کہوں مَیں دوستوں سے شانِ حق نے حشر کے دن
کر لیا اعراض میری لغزشوں سے اور مجھے رحمت میں داخل کہہ دیا تھا
راستے آسان ہوں، دشوار ہوں، تم حق پہ جینا، حق پہ اپنی جان دینا
بس وصیت میں تمہیں اتنا ہی کہنا تھا مری جاں، سو یہ باسِل کہہ دیاتھا
ہاتھ میں اُم الکتاب آئی تو قلبی آنکھ سے ہر شے کو دیکھا پھر ہمیشہ
یہ عماد احمد نے اپنی زندگی کے تجربے کا عینِ حاصل کہہ دیا تھا
53
تلاشِ رزق میں مارا پھرا ہوں
سگِ دنیا ہوں آوارہ پھرا ہوں
زمانے تیرے ہتھکنڈوں سے بچ کر
تِری گلیوں میں بے چارہ پھرا ہوں
غمِ ہستی تِرے ہاتھوں ہی لُٹ کر
تِری بستی ہی میں ہارا پھرا ہوں
بہا کر لے گیا تھا نفس میرا
سو ساری عمر بے دھارا پھرا ہوں
سنو سب زخم نیلے پڑ گئے ہیں
میں گھائل دل، بدن خارا پھرا ہوں
عماد احمد حدودِ غم سے کٹ کر
چلا ہوں آج صد پارہ پھرا ہوں
54
سچ کڑوا تھا جان لیا تھا، جھوٹ سے گہری نفرت تھی
دوراہے پر کھڑا ہوا تھا، چلتے رہنا عادت تھی
مجبوری میں رشتے رکھے، بِن خواہش کے ساتھ چلے
سب کو سب کی حاجت تھی اور سب کو سب سے وحشت تھی
اپنے اپنے نفس پہ جو جو ظلم کیے ہم لوگوں نے
اپنے اپنے قلب پہ اُن سب کی تفصیل عبارت تھی
آنکھ چھلکنا بھی چاہے تو دل قائم رکھتا تھا اُسے
جگ ہنستا تھا اپنے گھر میں لیکن غم کی عزت تھی
استکبار کی دیواروں پر عجز کی چھت ڈلواتا تھا
کسی زمانے میں اپنی بھی تیرے جیسی حالت تھی
لوگوں کے چہرے پڑھ کر وہ ورد بتایا کرتا تھا
کہتا تھا اکثر سینوں کو سچّائی سے رخصت تھی
اِک اِک غم ہیرے جیسا ہے، اِک اِک درد نگینہ ہے
کہو عماد تمہارے گھر میں اِس سے زیادہ دولت تھی
55
سامنے بیٹھ کر جھوٹ کہتا رہا، مَیں اُسے ٹوکتا بھی تو کیا ٹوکتا
شرم ہی چھوڑ دی جس نے اُس شخص کو اب بھلا بولتا بھی تو کیا بولتا
اپنے ماضی کو یکسر بھلا کر مِلا، اپنی بابت بہت مسکرا کر مِلا
میرے اِک اِک رویے کا طعنہ دیا، میں اُسے روکتا بھی تو کیا روکتا
شدّتِ ہجر سے جسم دُکھتا رہا، شدّتِ کرب سے جاں بلب ہو گیا
نیم مردہ تھا جب اُس نے آواز دی، میں اگر چونکتا بھی تو کیا چونکتا
اُس نے مجھ سے کہا تو رذیلِ جہاں، اُس نے مجھ سے کہا تو سگِ بے مکاں
پھر کہا بول اب مجھ سے کیا چاہئے، میں بھلا بھونکتا بھی تو کیا بھونکتا
بے مہر راستے، بے یقیں منزلیں، بے ثمر رات دن، بے نشاں زندگی
ایک انساں بھٹک کر کہیں گم گیا، مَیں اُسے ڈھونڈتا بھی تو کیا ڈھونڈتا
غیرتِ آبرو، جرأتِ آرزو، شدّتِ جستجو اور کیا چاہئے
میرِمنزل کو اندر ہی پایا سدا، جابجا دیکھتا بھی تو کیا دیکھتا
نیم تاریک راہوں پہ میرے سِوا، کارواں کا محافظ کوئی بھی نہیں
اپنے اندر سے آتی رہی یہ صدا، اِس سے میں بھاگتا بھی تو کیا بھاگتا
زخمِ دل سل گئے، چشمِ نم سو گئی، آہِ دم رُک گئی، حالتِ غم گئی
زندگی سے عماد اور کیا مانگتا، تُو بَتا چاہتا بھی تو کیا چاہتا
56
بھائی
بھائی تم سے شکایت ختم ہو گئی
سالہا سال تک
جی میں ڈرتا رہا ہوں تمہارے لئے
جانتا تھا کہ کچھ فیصلے عمر بھر
اب تمہارے گلے میں پھنسے ہوں گے جو
ایک پھندے کی صورت دباتے رہیں گے تمہیں اور تم اُن سے تھک جاؤ گے
عمر کے بے یقیں موڑ تک جاؤ گے
جانتا تھا کہ اِس راہ کے اُس طرف
دل اجڑنے کا دن، درد کی رات ہے
زندگی روز و شب لکھ رہی ہے یہاں
ہر عمل کی یہاں پر مکافات ہے
سالہا سال تک سوچتا ہی رہا
کیا کروں مَیں تمہارے لئے میری جاں
کس طرح رُخ دِکھاؤں مکافات کا
ایک سیدھی سی آسان سی بات کا
جی میں ڈرتا رہا ہوں تمہارے لئے
خود سے لڑتا رہا ہوں تمہارے لئے
سالہا سال مَیں
یہ سمجھتا رہا ہوں کہ تم آؤ گے
میرے غم، میری مشکل، مِری زندگی
اِن سے چاہے تمہیں کچھ غرض ہو نہ ہو
اپنا دل سینچنے تو ضرور آؤ گے
ٹھوکریں کھاؤ گے، گر کے اٹھ جاؤ گے
ایک دن آخرش تم بھی پچھتاؤ گے
مجھ سے ملنے نہیں تو کم از کم کبھی
تم حقیقت سمجھنے ضرور آؤ گے
روز مرتا رہا ہوں تمہارے لئے
خود سے لڑتا رہا ہوں تمہارے لئے
تھک گیا ہوں مَیں لمحوں کی اِس جیل سے
روز و شب کے پرانے اِسی کھیل سے
انتظار اور اُس کے نتیجے میں دُکھ
ایک سپنا کہ آ جائیں گے کَل کو سُکھ
اب نہیں، آج لگتا ہے بس اب نہیں
ایک تو یہ کہ تم اب نہیں آؤ گے
اب نہ دیکھو گے چہرہ نہ دِکھ پاؤ گے
دوسرا یہ کہ بالفرض آ بھی گئے
تو مجھے منتظر ہی نہیں پاؤ گے
جی میں ڈرتا رہا ہوں مگر اب نہیں
خود سے لڑتا رہاہوں مگر اب نہیں
آج ساری عداوت ختم ہو گئی!
آج ساری عبارت ختم ہو گئی!
تم سے ملنے کی حاجت ختم ہو گئی!
بھائی تم سے شکایت ختم ہو گئی!
57
حقیقت کُھل گئی ہے نفس کی تو تزکیہ کیجے
بدلنا چاہتے ہیں زندگی تو حوصلہ کیجے
چلے آئیں تنِ تنہا زمانے کا نہیں سوچیں
مقدّر خود بنانا ہے اگر تو فیصلہ کیجے
یہ من کی پیاس، قلبی تشنگی میرے مسائل ہیں
طبیعت پر نہ کوئی بوجھ لیجے، ناشتہ کیجے
58
چھوڑیں صاحب آپ بڑے ہیں، آپ سے شکوہ کیا کرنا
بازی ہارے آپ کھڑے ہیں، آپ سے شکوہ کیا کرنا
میرے سر میں خاک ڈلی تھی، میں کوزہ گر بَن بیٹھا
مٹی میں خود آپ گڑے ہیں، آپ سے شکوہ کیا کرنا
ہر جاتے دن میرا سُکھ اور آپ کا دُکھ بڑھ جاتا ہے
اپنی ضد پر آپ اَڑے ہیں، آپ سے شکوہ کیا کرنا
چوری، اُس پر سینہ زوری، وہ بھی بارہ پندرہ سال
کیسے چکنے آپ گھڑے ہیں، آپ سے شکوہ کیا کرنا
موم سی باتیں کر کے پہلے مجھ جیسوں کو رام کیا
لیکن خود لوہے کے کڑے ہیں، آپ سے شکوہ کیا کرنا
وہ قسمت کا خوب دَھنی ہے، ہاری بازی جیت گیا
آپ بہت ہمت سے لڑے ہیں، آپ سے شکوہ کیا کرنا
کَل میری دستار کو اپنے پیروں میں رکھا ہوا تھا
آج مِرے قدموں میں پڑے ہیں، آپ سے شکوہ کیا کرنا
آپ کا اِک اِک تھپڑ میرے گال کو روشن کرتا تھا
ہیرے، موتی، لعل جڑے ہیں، آپ سے شکوہ کیا کرنا
آج عماد احمد صاحب یہ کیسے موضوع باندھے ہیں
جن سوچوں میں آپ کھڑے ہیں، آپ سے شکوہ کیا کرنا
غریبِ شہر سے نسبت پہ شرمندہ ہیں حضرت تو
مجھے دھتکار دیجے، تمکنت سے تخلیہ کیجے
فریبِ زندگی ہے آپ جس کے سِحر میں گم ہیں
سرابِ ذات سے باہر بھی کوئی سلسلہ کیجے
نہیں کچھ تو جَلا کر دل اُسے ہی بام پر رکھ دیں
عماد اب کے اندھیری رات میں کچھ راستہ کیجے
59
نم غم کی غمّازی کرتا رہتا ہے
غم نم کو ہی راضی کرتا رہتا ہے
سوچیں کہتی ہیں کچھ کَل کی فکر کرو
اور دل ماضی ماضی کرتا رہتا ہے
اِک ہم ہیں جو تیری وکالت کرتے ہیں
اور تو قاضی قاضی کرتا رہتا ہے
درد کی دولت بانٹتا پھرتا ہے یہ دل
اپنے تئیں فیّاضی کرتا رہتا ہے
اصلی رمز بتانے سے بچتا ہے عماد
بس یوں ہی لفّاظی کرتا رہتا ہے
60
ارتقاء
ہم انسانوں کا دنیا میں سفر کیسا گزرتا ہے
کبھی ہم پاک ہوتے ہیں
کبھی ناپاک ہوتے ہیں
کبھی ہم نفس کے ہاتھوں کھلونا بَن کے رہتے ہیں
کبھی حالات کے دھارے کے آگے بہہ سے جاتے ہیں
خس و خاشاک ہوتے ہیں
کبھی ہم زندگی میں آنے والوں کے لئے گویا
سراپا روشنی بَن کر دریچوں میں چمکتے ہیں
کبھی ہم زیست کی اجڑی حویلی چھوڑ جانے والے پَیروں کے لئے
دہلیز کے باہر پڑی کچھ خاک ہوتے ہیں
کبھی ہم زندگی سے
زندگانی کی ہر اِک تفصیل سے، تمثیل سے، تشریح سے، تشبیہ سے
ڈرتے ہوئے رستہ بناتے ہیں
کبھی اِس خوف کے چنگل سے
ہر اِک ڈر کے جنگل سے
پرے رہتے ہوئے اپنی حقیقت کو سمجھتے ہیں
تو پھر بے باک ہوتے ہیں
کبھی ہم ذات کے صحراؤں میں برسوں بھٹکتے ہیں
اور اپنے گرد جھوٹی آرزوؤں کے پرندے پال لیتے ہیں
کبھی سچّائی کے دشتِ حقیقت میں نکلتے ہیں
تو تنہائی سے لڑتے ہیں
کسی بستی کسی بَن میں بھی ڈیرے ڈال لیتے ہیں
جہاں سیکھی سکھائی زندگی کے سارے پردے چاک ہوتے ہیں
وہاں وجدان ہوتے ہیں، وہاں ادراک ہوتے ہیں
بہت موسم بدلتے ہیں
بہت سے سال ڈھلتے ہیں
کچھ انسانوں کی آدھی زندگی ایسی گزرتی ہے
کہیں پوری کی پوری زیست ہی ایسی گزرتی ہے
کبھی ہم پاک ہوتے ہیں
کبھی ناپاک ہوتے ہیں
کبھی ہم خاک ہوتے ہیں
خس و خاشاک ہوتے ہیں
کبھی چلنے سے ڈرتے ہیں
کبھی بے باک ہوتے ہیں
تبھی بھٹکے ہوئے آہو
کو کچھ ادراک ہوتے ہیں
بہت مدّت گزرتی ہے
بہت سے سال ڈھلتے ہیں
تو اپنے قلب کو پڑھنے میں تھوڑا طاق ہوتے ہیں
61
معاشیاتی نظامِ حاضر کے کھوٹے سکے چَلا رہا تھا
سیاسیاتی نظامِ مغرب ستم کو ہی حق بَتا رہا تھا
مَیں اِک زمانے سے سوچتا تھا مگر گریزاں تھا بولنے سے
سماجیاتی نظامِ دنیا غلط کو اچھا دِکھا رہا تھا
کچل کے رکھ دی زمانِ نو کی نئی امنگوں نے اِک نسل ہی
معاشرہ سب سماجی قدروں پہ مست ہاتھی بھگا رہا تھا
شریف و صالح، حکیم و دانا، بچائے دستار پھر رہے تھے
یہ شہر پھر سے رذیل لوگوں کو اپنے سر پر بٹھا رہا تھا
شرابِ توصیف و مدحِ دوراں، خمارِ مال و متاعِ دنیا
جسے میسر ہوئے یہ دھوکے، وہ اپنی ہستی گنوا رہا تھا
معاشیاتی نظامِ حاضر کے کھوٹے سکے چَلا رہا تھا
سیاسیاتی نظامِ مغرب ستم کو ہی حق بَتا رہا تھا
مَیں اِک زمانے سے سوچتا تھا مگر گریزاں تھا بولنے سے
سماجیاتی نظامِ دنیا غلط کو اچھا دِکھا رہا تھا
کچل کے رکھ دی زمانِ نو کی نئی امنگوں نے اِک نسل ہی
معاشرہ سب سماجی قدروں پہ مست ہاتھی بھگا رہا تھا
شریف و صالح، حکیم و دانا، بچائے دستار پھر رہے تھے
یہ شہر پھر سے رذیل لوگوں کو اپنے سر پر بٹھا رہا تھا
شرابِ توصیف و مدحِ دوراں، خمارِ مال و متاعِ دنیا
جسے میسر ہوئے یہ دھوکے، وہ اپنی ہستی گنوا رہا تھا
62
حرف حرفوں سے کھیلتے آئے
لفظ لفظوں سے کھیلتے آئے
غیر محرم نہیں تھے آپ کے ہم
پھر بھی غیروں سے کھیلتے آئے
جھوٹے لوگوں سے لوگ کُھل کھیلے
اور سچّوں سے کھیلتے آئے
نفس کے گیدڑوں کی کیا چلتی
قلب شیروں سے کھیلتے آئے
آگ اور خون میں چڑھے پروان
یعنی رنگوں سے کھیلتے آئے
ہم مسافر بھی، راہزن بھی خود
سو لٹیروں سے کھیلتے آئے
جلتی سوچیں لئے ہوئے کچھ درد
سرد جذبوں سے کھیلتے آئے
اپنے خوابوں سے ڈر گئے کچھ بار
کبھی سپنوں سے کھیلتے آئے
ہنستے روتے منا لیا ہر بار
اپنے لہجوں سے کھیلتے آئے
ہم تو اپنوں سے لڑ پڑے تھے عماد
آپ غیروں سے کھیلتے آئے
63
حقیقت تک پہنچنے کے طریقے کچھ عیاں بھی تھے
مگر کچھ راز اہلِ حق کے سینوں میں نہاں بھی تھے
خمار آلود آنکھوں میں اداسی کے نشاں بھی تھے
ملن کی آرزو بھی تھی، بچھڑنے کے گماں بھی تھے
شعورِ بندگی کے بعد کے اَسرار مت پوچھو
حدودِ آگہی کے بعد اَن دیکھے جہاں بھی تھے
مَیں اِک نقطہ تھا، اِک مرکز تھا، اِک محور تھا، کیا تھا مَیں
مِرے اندر زماں بھی تھے، مِرے اندر مکاں بھی تھے
سنا ہے ریگزاروں کی طرف تنہا گیا تھا وہ
سنا ہے ریت کے اوپر لہو کے کچھ نشاں بھی تھے
تِری بھیگی ہوئی پلکوں میں ماضی کی کسک بھی تھی
مِری خاموش آنکھوں میں اداسی کے بیاں بھی تھے
علومِ ظاہری اور باطنی دونوں کے رکھوالے
جُنوں والے یہاں بھی تھے، خرد والے وہاں بھی تھے
اگرچہ کہہ رہا تھا تُو کہ بس سچ جھوٹ لکھا ہے
عماد احمد تِری تصنیف میں سود و زیاں بھی تھے
64
قحط ا لرجال
فقط شعور کسے رازِ زیست دیتا ہے!
فقط شعور سے کب کائنات کُھلتی ہے!
شعور سیڑھی ہے جو بے مقام سوچوں کو
بھٹکتے لمحوں کو اور بے منام جذبوں کو
مقامِ عقل کی چھت تک رسائی دیتی ہے
جہاں سے رمز کے تارے دکھائی دیتے ہیں
جہانِ وجد کی دنیا دکھائی دیتی ہے
شعور زینہ ہے قلبِ بشر کی زینت تک
یہ بس قرینہ ہے اگلے سفر کی ہمت تک
مگر عماد کسے کہہ رہے ہو تم یہ سب؟
عیاں ہے کس پہ یہاں عقل و رمزِ دل کا مزاج؟
پَتا ہے کس کو بَھلا سوزِ قلب وجاں کا خراج؟
کسے ہے عِلم کہ اِس رہ کی معرفت کیا ہے؟
کسے ہے فکر کہ اِس رہ کی منفعت کیا ہے؟
کسے بتاؤ گے چھت آسمان تھوڑی ہے؟
فقط شعور کوئی امتحان تھوڑی ہے؟
یہ چند فٹ کی بلندی مکان تھوڑی ہے؟
یہ چار دن کی خوشی کُل زمان تھوڑی ہے؟
سنو عماد کسے کہہ رہے ہو تم یہ سب؟
یہاں زمین سے چھت تک کئی فسانے ہیں
نفوسِ آدمِ خاکی کے شاخسانے ہیں
مکاں، زماں تمہیں لگتا ہے سب سمجھتے ہیں؟
تمہاری رمز کی باتوں کو جانچ سکتے ہیں؟
انہیں پتا ہے یہ سیڑھی، یہ چھت، یہ رمز، یہ دل؟
بشر کے قلب کی زینت، یہ منفعت، یہ ڈگر؟
یہ سوزِ قلب وجگر، رہ کی معرفت، یہ سفر؟
سنو عماد کسے کہہ رہے ہو تم یہ سب؟
زمیں پہ بیٹھے ہوئے لوگ یہ سمجھتے ہیں
چھتیں مکانوں کی ہی آسمان ہیں گویا
جنہیں شعور کی سیڑھی نہیں میسر ہو
یہ فاصلے ہی بڑے امتحان ہیں گویا
انہیں مکان کا مطلب مکان لگتا ہے
زمان ان کو زمانے کا حال دِکھتا ہے
انہیں گھروں کے بڑے پھاٹکوں کا رعب بہت
انہیں چھتوں پہ لگی بتیوں کا رعب بہت
انہیں متاعِ زمیں آسمان ہیں گویا
بڑے مکان ہی پورا زمان ہیں گویا
تم اپنے زعم میں سب کو یہی سناتے پھرو
تمام شہر کو چاہے یہی بتاتے پھرو
شعور سیڑھی ہے جو بے مقام سوچوں کو
بھٹکتے لمحوں کو اور بے منام جذبوں کو
مقامِ عقل کی چھت تک رسائی دیتی ہے
جہاں سے رمز کے تارے دکھائی دیتے ہیں
جہانِ وجد کی دنیا دکھائی دیتی ہے
بہت سے لوگوں کی سوچیں ہیں بس مکانوں تک
کسی کسی کی نگاہیں ہیں آسمانوں تک
کسی کسی کی نظر ہے نئے مکانوں تک
کسی کسی کو خبر ہے نہاں زمانوں تک
65
وجودِ خاکی میں قید ہوں مَیں، ابھی مَیں کچھ کر نہیں سکا ہوں
قفس بدن کا گرا رہا ہوں مگر ابھی مر نہیں سکا ہوں
جو میرے بارے میں مطمئن ہے، اُسے خبر دو کہ وقت کم ہے
کہو کہ آگے کا بوجھ وہ لے، قلوب کچھ بھر نہیں سکا ہوں
جو آج بھی مضطرب ہے اُس کو مِری حقیقت نہیں بتاؤ
کسی کے سینے میں آج تک مَیں کسی کا دل دھر نہیں سکا ہوں
شعورِ ہستی کے بِن معاشی سفر کیا ہے، جیا نہیں ہے
مکان کتنے بَنا لیے ہیں، بَسا مَیں اِک گَھر نہیں سکا ہوں
عماد برسوں ہوئے خدا سے مجھے محبت تو ہو گئی تھی
مگر خشیّت نہیں ہے دل میں، خلوص سے ڈر نہیں سکا ہوں
66
روشنی چاہئے اور لگتا ہے باہر بہت روشنی ہے تمہارے لئے
قلب میں کوئی جگنو بچایا بھی ہے یا یہی زندگی ہے تمہارے لئے
تم سمجھتے ہو اعمال جیسے بھی ہوں، راستہ پا ہی جاؤ گے آخر میں تم
لوگ راہوں میں بھٹکیں تو بھٹکے پھریں، ہاں مگر راستی ہے تمہارے لئے
پہلے پہلے کئی لوگ روتے ملے، پہلے پہلے کئی روگ ڈھوتے ملے
پھر وہی عادتیں نسلِ آدم تِری، آخرت دل لگی ہے تمہارے لئے
جانور سے بھی بہتر نہیں جان لو، پر فرشتوں سے افضل ہو پہچان لو
اسفل السافلیں بھی تمہارے میں ہیں، اور جنت بَنی ہے تمہارے لئے
تم شہادت بھی دو گے تو اپنے لئے، تم عدالت بنو گے تو اپنے لئے
بے کراں سوزِ منزل ہمارے لئے، منزلوں کی خوشی ہے تمہارے لئے
تشنگی چاہتے تھے جُنوں کے لئے، سوچتے تھے کہ غم میرِ منزل بنے
اب عماد اِس محبت سے آگے چلو، اور بھی بے کلی ہے تمہارے لئے
67
دل کے اندر کی بات کرتے ہیں
اِک قلندر کی بات کرتے ہیں
گُھن کے کیڑے سے بَن رہا ہوں بشر
آپ بندر کی بات کرتے ہیں
دل کی گہرائی دیکھ لیں جو لوگ
کَب سمندر کی بات کرتے ہیں
یاد کرتے ہیں وہ پہاڑ کی سیر
آج پھندر کی بات کرتے ہیں
بے ہنر، بے شعور شخص عماد
کس مچھندر کی بات کرتے ہیں
68
تیز آندھی ہے، شام اندھی ہے
دل بھی غمگین ہے، اداسی ہے
آؤ خود سے تو رازِ دل کہہ دو
بات بوجھل ہے، رات گہری ہے
دوستی، دشمنی نبھا بیٹھے
اب فقط ذات کی کہانی ہے
مسکراہٹ کی احتیاج نہیں
غم خوشی سے کشید تھوڑی ہے
69
آپ آئے، رکے، چلے بھی گئے
بات پوری ہے پر ادھوری ہے
شورشِ نفس مٹ گئی لیکن
سوزشِ دل نے جان لے لی ہے
زندگی آج کا سراب ہے اور
آخرت بعد کی پہیلی ہے
اب کرو احتسابِ قلب و جگر
بات آکر کہاں پہ ٹھہری ہے
میری ہستی عماد سَستی ہے
اور سوغاتِ درد مہنگی ہے
70
غلامانِ کذب و ریا و دجل اب زمانے کے اطراف میں چھا چکے ہیں
بچا کر چلیں سوچ بھی، دل بھی، سَر بھی، رسولِؐ خدا پہلے سمجھا چکے ہیں
بلندی سے یاجوج ماجوج اترے ہیں، اِک ایک گھاٹی پہ خیمہ نشیں ہیں
یہود و نصاریٰ کے لشکر ملے ہیں، نیا جال دنیا میں پھیلا چکے ہیں
یمن سے نکلتی ہوئی آگ پورے عرب کو لپیٹے میں لینے لگی ہے
اُدھر نجد والے حجازِ مقدّس میں خیمے بھی مدّت سے لگوا چکے ہیں
شکم بلدِ مکّہ کی کھودی گئی ہے، زمیں دوز رستے بنائے گئے ہیں
جنہیں بھیڑ بکری چَرانے کا فن تھا وہ اونچی عمارات بَنوا چکے ہیں
ہزاروں برس غیر ملکوں میں رہ کر یہودانِ دنیا پلٹنے لگے ہیں
وہ بحرِ کنیرت کے پانی سے اب ریگ زاروں میں سبزہ بھی اگوا چکے ہیں
ابھی دابۃ الارض کی بھی حقیقت فقط کچھ دنوں میں کُھلی جا رہی ہے
پرندے ہواؤں سے کیوں گر رہے ہیں یہ راز اہلِ حق کو سمجھ آ چکے ہیں
ابھی مشرقی سر زمینوں پہ شب ہے تبھی اِس حقیقت سے اندھی ہے دنیا
کہ مغرب سے سورج نکل بھی چکا ہے، کہ باندی سے آقا جنم پاچکے ہیں
خراساں کے جھنڈے نکلنے سے پہلے یہ خطّہ تباہی سے لادا گیا ہے
سیہ پرچموں سے جڑے سب حوالے بھی دنیا میں بدنام کروا چکے ہیں
عماد اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تو نے، حقیقت مقدّر سے ملنے لگی ہے
زمانِ فتن آخری دم پہ ہے اب، نشاناتِ منزل نظر آ چکے ہیں
71
دابۃ الارض
اہلِ عالَم میں یہ بات مشہور ہے
ایک ارضِ مقدّس کے فرماں روا
اور خدا کے نبیؑ
اِک عصا کے سہارے کھڑے تھے کہ جب
اُن کے دنیا سے جانے کا وقت آگیا
اور کچھ روز میں
گُھن کا کیڑا پھر اُن کا عصا کھا گیا
جس سے وہ گر گئے
تب ہی جنّات کی چند سرکش مگربیڑیوں میں پھنسی کام کرتی ہوئی ٹولیوں پر کُھلا غیب کا عِلم ہوتا انہیں گر تو و ہ بے بسی، بے کسی سے یہ بیگار ہر گز نہ کرتیں کبھی
اہلِ عالَم میں یہ بات مشہور ہے
جب سلیماں ؑنبی اِس جہاں سے گئے، مدتوں اُن کی رحلت پہ پردہ رہا
پھر بہت دن ہوئے
دابۃ الارض۔دیمک کے کیڑے تھے جو۔وہ عصا کھا گئے
جس کو ٹیکے کھڑے تھے سلیماں ؑ نبی
جب سلیماں ؑ گرے
تب ہی جنّات پر راز کُھلنے لگے
وہ بھی اب شاد ہیں
پھر سے آزاد ہیں
بات بَنتی نہیں، جوڑ جُڑتے نہیں
اِس کہانی کے سارے سرے ایک دوجے سے ملتے نہیں
کس طرح، کتنے دن اِک عصا کے سہارے کھڑا جسم
جنّات تو کیا کسی آدمی تک نے دیکھا نہیں
حال پوچھا نہیں
روز و شب کے گزرنے پہ بھی ایک انساں نے احوال پوچھا نہیں
اِس کی تہہ میں یقینا کئی راز ہیں
بات میں در حقیقت کچھ اَسرار ہیں
اب ہزاروں برس بعد دنیا کے نقشے کو دیکھیں تو اَسرار کُھلتے ہیں کچھ
ڈیڑھ صدیوں میں دنیا کا منظر بہت سے سیاسی، سماجی، معاشی حوالوں سے جُڑ کر بَنا ہے انہیں دیدۂ قلب سے دیکھئے تو پرانے نئے سارے ادوار سینے پہ کُھلتے ہیں کچھ
اِس زمانے میں آکر پرانی کہانی کے سارے سرے ساتھ جُڑتے ہیں کچھ
ہم جو زندہ ہیں اِس آخری دور میں
آخری دور جو نسلِ آدم کی تاریخ کو دائرے میں گھما کر، سبھی رُخ دِکھا کر
گزر جائے گا
تب ہی انساں مکمل سفر کو سمجھ پائے گا
آخری دور جو اپنے ماخذ میں پہلے کی ضد بھی ہے اور اُس کی تصویر بھی
حق و ناحق کی تعبیر و تشریح و تقدیر و تحریر بھی
آخری دور جو یہ بتائے ہمیں
نسلِ انساں نے اپنا سفر اب مکمّل کیا
حق نے نا حق پہ اپنا تسلّط ہمیشہ ہمیشہ کو حاصل کیا
آج اِس آخری دور میں بات کُھلتی ہے یہ
دابۃ الارض میں اور سلیماں ؑ نبی کے عصامیں بھلا کون سا راز تھا
یہ تحیّر سے پُر واقعہ کس حقیقت کا غمّاز تھا
ہم پہ کُھلتی ہے اَسرار کی داستاں
اِس کہانی کے جُڑتے ہوئے کچھ نشاں
ایک ارضِ مقدّس سے چلتی ہوئی
داستاں کیوں فریب و دجل تک گئی
بات صدیوں سے دن، دن سے پَل تک گئی
تب کہانی کے سب رُخ عیاں ہو گئے
راز جتنے نہاں تھے بیاں ہو گئے
دابۃالارض دیمک کے کیڑے نہیں
جو عصا کھا گئے تو سلیماں ؑ جو اُس کے سہارے کھڑے تھے وہ گرنے لگے
اور نہ ایسا ہوا مدّتوں جسدِ خاکی عصا کے سہارے کھڑا رہ گیا
اور عصا گر گیا تو خدا کے نبیؑ اُس سے گرنے لگے
در حقیقت سلیمانؑ کی وہ عصا
اُن کے رب کی عطا
اِس لئے تھی کہ جو اُس کا حامل بنے
وہ مکمّل حکومت کے قابل بنے
اُس کو جن و بشر، طائرو جانور، حاملِ خیر و شر پرقیادت ملے
وہ عصا جب تلک اُن کے ہاتھوں میں تھا
سرکشی پر تلے دیو صفت سارے جن
اُن کی قوت میں تھے
اُن کی طاقت میں تھے
اُس عصا کے شکنجے میں جکڑے ہوئے جن زمان و مکاں سے کَٹے
زندگی کے سبھی ضابطوں سے ہٹے
ٹولیوں میں بٹے
صرف اُس کے اثر میں شب و دن کی کاوش میں مصروف تھے
اپنے مغلوب ہونے سے منسوب تھے
اُن کی آنکھوں میں، سوچوں میں، احساس میں یہ حقیقت بسی تھی
عصا تھام رکھا ہے جس ہاتھ نے
وہ جو چاہے تو اُن کو بڑے سے بڑے جبر میں ڈال دے
ایک تاریک شب کو سلیمانؑ نے
جاگتی آنکھ سے خواب دیکھا کوئی
خواب میں اِک جسد
روح کے بِن بدن
اُن کے تختِ حکومت پہ بیٹھا ہُوا
بے مہر، بے دیانت زمانوں کی بنیاد رکھتا ہُوا سامنے آ گیا
اُس شبیہِ جسدنے رسولِؑ خدا کو بہت غم دیا
اُن کے بعد ایک ایسا بھی دور آئے گا
جس میں اُن کے ہی تختِ حکومت پہ دھوکہ،فریب اور دجل بیٹھ جائے گا اِس سوچ سے اُن کی راتوں کی نیندیں ختم ہو گئیں
اپنے ہیکل سے منسوب کَل کی امیدیں بھی کم ہو گئیں
وہ سمجھنے لگے اُن کے بعد اِس حکومت کی خواہش زمانے کو کس رخ پہ لے جائے گی
سوچنے یہ لگے اُن کے بعد اِس حکومت کا حامل کوئی بھی نہیں بَن سکے
وہ نظامِ حکومت جو اللہ کے عدل پر چل رہا ہے وہ دجّال کے حکم پر مت چلے
سو انہوں نے خدا سے بہت التجا سے دعا مانگ لی، میرے رب
مجھ کو ایسی حکومت عطا کر کہ جو میرے بعد اور کوئی نہ حاصل کر ے
یہ دعا رب تعالیٰ نے منظور کی
ایک ارضِ مقدّس کی بنیاد پر ایک دھوکے کا سکہ نہیں چل سکے
لوحِ تقدیر میں یہ رقم ہو گیا
خوف کم ہو گیا
پر جسد نے بھی اِک چال چلنی ہی تھی
جب سلیمانؑ دنیا سے واپس گئے تو عصا پر جسد کا تسلّط ہوا
اور دجّال دنیا میں داخل ہوا
اور وہ جن جو عصا کے اثر میں مسلسل گرفتار تھے
آج تک وہ اِسی سوچ میں رات دن کارِ بے کار کرنے میں مصروف ہیں
اپنی بیگار کرنے میں مصروف ہیں
آج بھی وہ جسد
اُس عصا کے سہارے بہت کچھ سمیٹے کھڑا ہے مگر
اب بہت جلد یہ راز کُھلنے کو ہے
ایک نوری حقیقت کا حامل عصا
ایک جعلی مسیحا کے ہاتھوں میں گُھلتا چلا جا رہا ہے
کوئی دن میں گُھل جائے گا
دابۃالارض دیمک کے کیڑے نہیں جو عصا کھا گئے
یہ وہ منفی توانائی ہے جوجسد اپنے اندر بھرے سامنے آئے گا
یہ ہزاروں برس میں توانا ہوئی ہے مگر اب ہماری نگاہوں میں ہے
پچھلے سو سال میں جو سماجی تنزل ہواہے یہ اُس کی صداؤں میں ہے
یہ سیاسی اصولوں، معاشی رویوں
یہاں تک کہ اب تو ہماری بدلتی غذاؤں میں ہے
بستیاں جو قیامت سے پہلے لٹیں گی یقینا یہ اُن کی سزاؤں میں ہے
اب تو یہ حال ہے جیسے پانی میں، برقی توانائی میں
چار جی، پانچ جی کی ہر اِک سمت پھیلی شعاؤں میں ہے
اِن ہواؤں میں ہے،اِن فضاؤں میں ہے
یہ توانائی اب ایسی لہروں میں ضم ہے جو فطرت کو کھا کر فنا کر سکیں
اِن ہواؤں میں اڑتے پرندوں کو یکسر زمیں بوس کرنے کے قابل ہے یہ
شہد کی مکھیاں جن کے اوپر وحی ہے کہ راہوں میں چلتی رہیں بے خطر
اُن کو رستہ بھلانے پہ قادر ہے یہ
اب تو ہر اہلِ ایماں پہ ظاہر ہے یہ
اب ہواؤں، فضاؤں، صداؤں، غذاؤں میں پھیلی ہوئی
یہ توانائی اجسام کا نور گُھن کی طرح کھا رہی ہے،مگر
اِس صدی، اِس زمانے سے روحانیت کو مٹاتی چلی جا رہی ہے، مگر
نسلِ آدم کو روحوں سے عاری جسد ہی بناتی چلی جا رہی ہے،مگر
وہ جسد چاہے جتنی بھی کوشش کرے
اب وہ اپنی ہی قوّت سے ٹکرائے گا
دابۃ الارض آخر عصا کا وہ اِک معجزانہ تشخّص بھی کھا جائے گا
اور جنّات بھی یہ سمجھ جائیں گے وہ اگر غیب کا علم رکھتے کہیں
تو ہزاروں برس اِس قدر ذلت آمیز کاموں میں ہر گز نہ پھنستے کبھی
آج مغرب سے سورج نکل بھی چکا
دابۃ الارض شہروں میں پھر بھی چکا
ایک دن، اب بہت ہی قریب آ لگے ایک دن
نسلِ انساں کی تاریخ کا آخری معر کہ آئے گا
یہ فریب و دجل کا زمانہ ہی ڈھل جائے گا
پہلے ارضِ مقدس میں، پھر ساری دنیا میں مشرق سے سورج نکل آئے گا
ہر معاشی، سماجی، سیاسی عمل
اُس جسد اور اُس کے بنائے ہوئے
عارضی ضابطوں سے نکل جائے گا
جھوٹ کا دور انساں کی تاریخ سے یوں پھسل جائے گا
اِک نئے دور کا ضابطہ آئے گا
کفر مٹ جائے گا!
حق ٹھہر جائے گا!
72
کاہے اتنی مشکل چیزیں لکھتے ہو
تم کیا سادہ بات نہیں کر سکتے ہو
قلب کی خاطر کتنا اوپر اٹھتے ہو
نفس کی خاطر کتنا نیچے گرتے ہو
اپنے بارے میں سوچو کیا چاہتے ہو
اِس سے، اُس سے، سب سے ڈرتے رہتے ہو
جاؤ اپنی آگ میں خود ہی جل جاؤ
مجھ کو کیا ہے، تم میرے کیا لگتے ہو
غم، پھر ایک قلم، پھر کاغذ، پھر تحریر
اچھا تو تم ایسے نظمیں کہتے ہو
لوگوں نے بتلایا کتنے خوش ہو تم
پر سچ یہ ہے تم بس ایسے دِکھتے ہو
چارہ گر سے پوچھ رہے ہو اپنا پتا
اپنا گھر بھی یاد نہیں رکھ سکتے ہو
وہ کیسے خوش رہ سکتا ہے میرے بِن
جھوٹ ہے یہ، تم لوگ سراسر بَکتے ہو
پھر خوشیاں دھوکہ دے دیتی ہیں تم کو
پھر تم غم کے قدموں میں آ ٹکتے ہو
غم کے پہلو میں جو رات بسر کی تھی
اُس کا رتبہ ہر شب کو کیوں دیتے ہو
اب بھی گویا کرتے ہو اُس کی تعظیم
اب بھی گویا اپنے آپ پہ ہنستے ہو
دن میں پتھر لگتے ہو لوگوں کو عماد
رات میں لیکن پانی بَن کر بہتے ہو
73
مجھ پہ بھی التباس کرتی ہے
بے یقینی اداس کرتی ہے
کوئی دن اور جی لیا جائے
رات یہ التماس کرتی ہے
دوریاں کاٹنے کو دوڑتی ہیں
تشنگی بے حواس کرتی ہے
مسکراتی ہے جب مِری بیٹی
روشنی دل کے پاس کرتی ہے
فقہِ دل تو تمہاری نفرت بھی
دوستی پر قیاس کرتی ہے
آج بھی ایک یاد دل پہ عماد
درد کا انعکاس کرتی ہے
74
کشتی
مَیں اپنے ہاتھوں سے اپنی کشتی کے چند تختے اکھیڑ دوں گا
مَیں جانتا ہوں کہ میری کشتی مِرا اثاثہ ہے، قیمتی ہے
مَیں جانتا ہوں کہ میری کشتی ہے کسب میرا، کمائی بھی ہے
مجھے پتا ہے کہ اپنی کشتی کے بَل پہ دریا میں تیرتا ہوں
مجھے پتا ہے کہ دو کناروں کو صرف اِس سے ہی پاٹتا ہوں
مجھے خبر ہے کہ ٹوٹی کشتی مِرا ہی نقصان ہے مگر مَیں
اب اپنے ہاتھوں سے اپنی کشتی کے چند تختے اکھیڑ دوں گا
مجھے پتا ہے کہ یہ زمانہ بھی ایک دریائے آگہی ہے
کہ جس کی اِس سمت قلب والے علومِ شرقی لیے پڑے ہیں
اور اِس کے اُس پار عقل والے بیانِ غربی لیے کھڑے ہیں
مَیں اِس زمانے کے مشرقی ساحلوں پہ رہتا ہوں اِس لیے مَیں
خرد کو کچھ اور کہہ رہا ہوں، جُنوں کو کچھ اور کہہ رہا ہوں
مَیں مشرقی ساحلوں کے اوپر بڑی سہولت سے رہ رہا ہوں
مگر مجھے زیست کے سفر میں
کبھی کبھی رزق کی خبر میں
کبھی اندھیرے کبھی سَحر میں
اَماں کے موسم میں اورڈرمیں
کئی برس مغربی کناروں سے واسطہ پڑ چکا ہے اب تک
مجھے پتا ہے کہ اہلِ مغرب خرد کو کچھ اور کہہ رہے ہیں
جُنوں کو کچھ اور کہہ رہے ہیں
مجھے پتا ہے کہ اُن کناروں پہ بادشاہت ہے کس نہج کی
مجھے پتا ہے کہ اُن کا حاکم دجل کو سچ کہہ کے بیچتا ہے
وہ صرف ظاہر کو دیکھتا ہے
کہ اس کی قلبی نگاہ کج ہے
مجھے پتا ہے کہ میری کشتی وہاں گئی تو وہ چھین لیں گے
مجھے پتا ہے مِرا اثاثہ، یہ کسبِ دن اُن کی دسترس میں پہنچ گیا تو نہیں بچے گا
مجھے اندھیرا ہی ڈھانپ لے گا
مجھے پتا ہے کہ میری دولت کو اُن کا قانون بانٹ لے گا
مجھے پتا ہے کہ مغربی ساحلوں پہ رہنا بہت کٹھن ہے
کمالِ فن ہے
مگر مَیں اتنا تو جانتا ہوں کہ اِس زمانے میں مغربی ساحلوں سے کٹ کر
فنونِ مغرب سے دور ہٹ کر
کوئی جیے گا تو بس ادھوری طرح جیے گا
اُسے زمانہ بہت ہی پیچھے دھکیل دے گا
سو اِن مسائل کا اِک ہی حل ہے
جو مستقل ہے
مجھے خبر ہے کہ اپنی کشتی کو مشرقی ساحلوں پہ رکھ کر
مَیں اہلِ مغرب سے کس طرح خود کو دور کر لوں تو جی سکوں گا
اِسی لئے مَیں اگرچہ کشتی کو اِس ہی دریا میں کھے کروں گا
پر اپنے ہاتھوں سے اپنی کشتی کے چند تختے اکھیڑ دوں گا
75
کاش میں بَتا سکوں
کیا خرد ہے کیا جُنوں
شہر شہر کیوں پھروں
گھاٹ گھاٹ کیا بھروں
تو بَتا کسے کہوں
آج میں اداس ہوں
ماہ و سال، روز و شب
سب کا قرض اتار دوں
اب کے میں غمِ حیات
کیا سناؤں، کیا سنوں
دل نشین و دل فریب
چاند رات کا فسوں
مَیں نے خود کو تنگ کیا
خود کو اب مَیں کیا کہوں
تم سے وقت پاؤں تو
اپنے آپ سے مِلوں
چار دن بچے ہیں اب
سانس سانس کیا گِنوں
بات عقل کی کرو
دل کی بات کیا سنوں
بیس سال کا ملال
اِک غزل میں کیا لکھوں
بوڑھے ہو گئے عماد
دیکھ میں ہوں جوں کا توں
76
اللہ اور بندے کا رشتہ
سات برس کا تھا جب مَیں نے پہلی بار دعا مانگی تھی
کچھ ایسے غم گھر میں اترے جو بچّوں کو بھی دِکھتے تھے
کچھ رشتے ایسے ٹوٹے تھے پھر واپس نہیں جُڑ سکتے تھے
بات بھی کچھ آسان نہیں تھی
مبہم اور واضح کی بھی اُس عمر میں کچھ پہچان نہیں تھی
ایک تغیّر تھا جس میں ہلچل تھی اور ہنگامہ تھا جو
خوف دلوں میں گھول رہا تھا
چھوٹے سے بچّے کا دل بھی ڈول رہا تھا
امّاں، ابّا،بھائی، بہن سارے تھے لیکن کوئی سہارا کم لگتا تھا
ڈوبتے دل کو کوئی کنارہ کم لگتا تھا
ہٹ کے سب سے، بچ کے سب سے
چھوٹے سے بچّے نے پہلی بار دعا مانگی تھی رب سے
تیرہ سال کا تھا جب دل سے پہلی بار دعا مانگی تھی
پہلی مرگ نظر آئی تھی
پہلا سوگ سمجھ آیا تھا
ہنستے بستے گھر میں کیسے روگ کا جوگ بھی دَر آیا تھا
غم کو پہلی بار شعوری طور پہ بھی محسوس کیا تھا
جذبوں میں رونے دھونے سے بڑھ کر بھی کچھ غم ہوتے ہیں
پلکوں میں دل کی چوٹوں کے باعث بھی کچھ نم ہوتے ہیں
دل نے جذبوں اور سوچوں کے باہم ربط کو پہلی بار قریب کیا تھا
لوگوں کی جانب دیکھا تھا
اور سوچا تھا
سب تو اپنے اپنے درد لئے بیٹھے ہیں
میری کہانی کون سنے گا
تیرہ سال کے لڑکے نے سوچا تھاآخر
میرے دل کو کون پڑھے گا
دل سے پہلی بار دعا مانگی تھی اُس نے
رب کے آگے ہاتھ اٹھا کر رویا تھا وہ
تئیس سال کا تھا جب پہلی بار شعوری طور پہ رب کے سامنے جا کر بیٹھ گیا تھا
ہاتھ اٹھا کر، ماتھا ٹیک کے، ناک رگڑ کر مانگ لیا تھا
یا رب مجھ کو ہمّت دے دے
فکرِ معاش و رزق میں کیسی کیسی ذلّت ہو سکتی ہے
اِس ذلّت کے ڈھیر سے مجھ کو عزّت دے دے
کس کے آگے جا کر اپنا ہاتھ بڑھاؤں
کاسہ لے کر کس گھر جاؤں
آخر کونسا در کھڑکاؤں
تنگیئ داماں کسے دکھاؤں
کس کے آگے اپنے تن کا کپڑا کھولوں
کیا بولوں اور کیا نہ بولوں
تئیس سال کی عمر میں مَیں نے سارے کاسے توڑ دیے تھے
رب سے مانگا تھا اور اپنے دل کے دہانے کھول دیے تھے
تیس برس کا تھا جب پہلی بارحقیقی طور پہ رب کے سامنے آ کر پیش ہوا تھا
دل نے جانے کتنے کرب اٹھا کر آخر جان لیا تھا
رب کے سِوا سب کچھ مایہ ہے
اُس کے سِواسب کچھ دھوکہ ہے
سوچوں نے دنیا کی حقیقت سالوں میں پرکھی تھی اور اب
کُلّی طور پہ صرف خدا کو سچ سمجھا تھا
صرف اُسے ہی رب جانا تھا
اب چالیس برس کا ہوں اور پیچھے مڑ کر دیکھ رہا ہوں
سات برس کا بچّہ بھی پہچان رہا تھا
تیرہ سال کا لڑکا بھی یہ جان رہا تھا
تئیس سال کا بندہ یہ گردان رہا تھا
تیس برس میں آکر لیکن مہر لگی تھی
جان لیا تھا
عمر کے اِس ہنگام میں اصلی حاصلِ دل ایمان رہا تھا
اُس کے بعد گزارے تھے کچھ سال تلاشِ ذات کے اندر
اپنے من میں ہوتی غم اور نم کی اِک برسات کے اندر
خردکی گہری بات کے اندر، جُنوں کی لمبی رات کے اندر
اکثر رب اور بندے کے رشتے کی توجیہات کے اندر
آج حقیقت جان چکا ہوں
سمجھ چکا ہوں
چہرے، قصّے، لوگ، محبت
رشتے ناطے، خواہش، راحت
دنیا داری، عزّت، ذلّت
دل کی حالت، سوچ کی وحشت
وقت کے ساتھ بدل جاتے ہیں
سارے موسم ڈھل جاتے ہیں
جان چکا ہوں