ak amar kat di hay nazar ne shahud min

اک عمر کاٹ دی ہے نظر نے شہود میں

اب نور چاہیے ہے مجھے اس وجود میں

 

جب تک ہے روح خلق و فنا کی قیود میں

رہنا پڑے گا ذات کو تب تک حدود میں

 

ہر سانس، پور، بال مرا قلب بن چکا

پورا وجود کانپ رہا ہے سجود میں

 

اک زاویہ جو قائمہ اٹھا ہے قلب سے

امکان دِکھ رہے ہیں مسلسل عمود میں

 

جو کل حروفِ راز تھے اعجاز بن گئے

کھُلنے لگے ہیں بھید جنوں کی نمود میں

 

احساس، سوچ، روح سبھی کام آ گئے

تبدیل ہو رہا ہے بدن بھی وقود میں

 

وہ لمحہِ حصولِ تمنا و جستجو

پایا ہے وہ جو پا نہیں سکتے خلود میں

 

آؤ عماد رب سے دعا، التجا کریں

کر لیجیے قبول ہمیں بھی جنود میں

 

رات ۵۵:۲

۳۱ مئی۳۲۰۲

گھرپر