ak amar kat di hay nazar ne shahud min
اک عمر کاٹ دی ہے نظر نے شہود میں
اب نور چاہیے ہے مجھے اس وجود میں
جب تک ہے روح خلق و فنا کی قیود میں
رہنا پڑے گا ذات کو تب تک حدود میں
ہر سانس، پور، بال مرا قلب بن چکا
پورا وجود کانپ رہا ہے سجود میں
اک زاویہ جو قائمہ اٹھا ہے قلب سے
امکان دِکھ رہے ہیں مسلسل عمود میں
جو کل حروفِ راز تھے اعجاز بن گئے
کھُلنے لگے ہیں بھید جنوں کی نمود میں
احساس، سوچ، روح سبھی کام آ گئے
تبدیل ہو رہا ہے بدن بھی وقود میں
وہ لمحہِ حصولِ تمنا و جستجو
پایا ہے وہ جو پا نہیں سکتے خلود میں
آؤ عماد رب سے دعا، التجا کریں
کر لیجیے قبول ہمیں بھی جنود میں
رات ۵۵:۲
۳۱ مئی۳۲۰۲
گھرپر
hadees jabrel
وحی کا ایک دور تھا
وہ دور اپنے مقصدِ عظیم کو نبھا رہا تھا
اور اب یہ طور تھا
کہ شرک کی دبیز تہہ قلوب سے اتر چکی تھی
فسق اور فجور کا جہاں پہ پہلے شور تھا
وہیں پہ اب صدائے حق، بنائے حق کا زور تھا
خدا کے آخری نبیﷺ
وحی کی اک طویل تر لڑی کی آخری کڑیﷺ
امین رازِ کن فکوں ﷺ، امیرِ تاجِ انبیاﷺ
رسولِ آخر الزماں ﷺ کے لب پہ تھی یہی دعا
کہ امتِ محمدی کی چھت سدا پڑی رہے
یہ قوم روز حشر تک ستون پر کھڑی رہے
رسول ﷺکی دعا کے پہلے حرف فرش سے چلے
اسی گھڑی
ملائکہ کے تاجدار جبرئیلِؑ پارسا
قوی، امین و با صفا
بھی کوئے عرش سے چلے
خدا کا حکم تھا کہ دینِ حق کا کل مقدمہ
ملائکہ کے تاجدار و تاجدارِ انبیاﷺ کے بیچ یوں بیان ہو
کہ حجتِ تمام ہو
کہ دین کو دوام ہو
کہ حشر تک سکینتِ قلوب کا سلیس انتظام ہو
ملائکہ کا تاجدار، تاجدارِ انبیا ﷺکے ساتھ ہم کلام ہو
مدینۃ النبی تھا اور مسجدِ رسول تھی
صحابہِ کرام کے جلو میں افضل البشرﷺ
زمیں پہ ایسی سادگی سے ہو رہے تھے جلوہ گر
جو شانِ انبیا ہی ہے
ملائکہ کے تاجدار ان کے سامنے گئے
زمیں، فلک، بشر سبھی کے سامنے اصولِ دیں کا مختصر بیاں ہوا
درست دین کیا ہے کچھ مکالموں میں
کھل کے یوں عیاں ہوا
کہ حشر تک سند رہے
ہر ایک دور میں اضافتوں کا باب رد رہے
سلامتی ہے جس کی ذات اس کا ہم پہ قرض ہے
رسولِ آسما ن اور رسولِ کائنات ﷺپر
سدا سلامتی کہیں کہ یہ ہمارا فرض ہے
سلام ہے رسولﷺ پر
سلام جبرئیلؑ پر
سلام آگہی، سلامتی کے اس قبیل پر
سلام دینِ حق کی اس سبیل اور دلیل پر
رات ۱۱:۰۱
۹۱مارچ ۴۲۰۲
گھر پر
raftagan
رفتگاں
چلتی کشتی کے ہچکولے
ہولے ہولے
جسم کے سنگ ہی من بھی ڈولے
من جو قرنوں سے ساکت ہو
دل جو کب سے بے حرکت ہو
سوچ جو صدیوں سے بے حس ہو
جذبے جن کا ذکر بھی مت ہو
سب کچھ اک دم، یک دم بولے
سانس کی ڈوری
آس کی ڈوری
من سے بندھی ہو
تو دل ہمت کر لیتا ہے
اپنے سے بھی لڑ لیتا ہے
ایک سفر پھر کر لیتا ہے
چلتی کشتی کے ہچکولے
جسم کے سنگ ہی من بھی ڈولے
با ہمت دل
ہولے ہولے
دور کہیں ماضی میں جا کر
دل کے پرانے، صدیوں سے جامد در کھولے
صبح ۰۲:۰۱
۲ اگست ۲۲۰۲
استنبول سے کچھ باہر بحیرہِ مرمرہ میں ایک کشتی کے اندر
sabr kar gaya ak shaqs
صبر کر گیا اک شخص
قلب بھر گیا اک شخص
سر کٹا کے کاندھے پر
بوجھ دھر گیا اک شخص
مجھ میں جی اٹھا اک درد
اور مر گیا اک شخص
شہر اب بھی تیرا ہے
کیا ہے گر گیا اک شخص
قبر میں نہیں اترا
اپنے گھر گیا اک شخص
روشنی تھا جیتے جی
رات کر گیا اک شخص
رمزِ حال سے واقف
با خبر گیا اک شخص
ان اداس راتوں میں
اب کدھر گیا اک شخص
کہہ رہے تھے پتھر ہے
لو بکھر گیا اک شخص
دل میں شمعِ غم لے کر
تا سَحَر گیا اک شخص
کر کے دن کے غم کی بات
رات بھر گیا اک شخص
کل عماد خوشیوں پر
درد دھر گیا اک شخص
رات ۶۴:۱
یکم ستمبر ۲۲۰۲
برمنگھم
mare wajud min badhane laga tha dar chap chap
مرے وجود میں بڑھنے لگا تھا ڈر چپ چاپ
میں خود کو حوصلہ دیتا رہا مگر چپ چاپ
ہوائے نفس بھی، شر کی گرج چمک بھی تھی
میں خود میں ڈھونڈ رہا تھا کوئی شجر چپ چاپ
کسی پہر میں دکھا دیں گے زخمِ دل بھی تمہیں
اداس رات گزرتی رہی اگر چپ چاپ
تمہاری یاد سے لڑتا رہا دلِ مضطر
تمہاری راہ کو تکتی رہی نظر چپ چاپ
کوئی فنا کا مسافر کوئی بقا کا سفیر
گزرنے دیتی ہے ہر شخص کو ڈگر چپ چاپ
ہمارے حال سے واقف نہیں ہیں واقفِ حال
ہوئی ہے رزم بپا ذات میں مگر چپ چاپ
تلاش اپنی تھی اور ڈھونڈنا بھی خود میں تھا
تبھی تو ذات کو کرنا پڑا سفر چپ چاپ
گرے ہیں نفس کی کھائی میں بھی اکیلے ہی
کیا ہے قلب کی چوٹی کو ہم نے سر چپ چاپ
کسی سے ذکر کیا ہے نہ دل دکھایا ہے
تلاشِ ذات میں چھانے ہیں بحر و بر چپ چاپ
درِ رسولﷺ پہ آواز پست رکھنی ہے
عماد حاضری دینی ہے سر بسر چپ چاپ
رات ۹۴:۸
۲ ستمبر ۲۲۰۲
برمنگھم
guzarte lamu ki be sabati ka zikar tha garchah har zaban par
گزرتے لمحوں کی بے ثباتی کا ذکر تھا گرچہ ہر زباں پر
مگر حقیقت کی جستجو میں تھے چارچھ لوگ ہی وہاں پر
زمیں پہ انسان رہ رہے ہیں، کوئی فرشتہ نہیں ملے گا
یہ اپنے خوابوں کے جیسی بستی کہو بسا پاؤ گے کہاں پر
جو سود پر زندگی گزاری تو یوں سمجھئے حرام کر لی
سو ایسا سوچا ہے آگے تکیہ کریں گے ہم بھی کسی زیاں پر
ہماری رگ رگ کی، ریشے ریشے کی آبیاری غموں نے کی ہے
ملے گا ادراکِ رمزِ ہستی، میاں کریدو گے تم جہاں پر
گئے زمانوں میں خود سے کہتا تھا میں کہ تنہائی ہی میں سکھ ہے
کئی برس اور ہزار چہرے، میں اب بھی قائم ہوں اس بیاں پر
وہ میرے اندر کی آنکھ سے صاف دکھ رہا ہے ہر ایک لحظہ
نہیں کی تشکیلِ زندگی میں نے ایک سائے پہ اک گماں پر
عماد احمد اداس شب ہے تو اپنے اندر اتر کے دیکھو
شکستِ دل بھول جاؤ گے تم ملالِ ہستی بھی ہے یہاں پر
رات ۲۵:۲
۴۱ستمبر ۲۲۰۲
گھر پر
kahin se khalane laga hay aqadah kah laamkan ka zhor kiya hay
کہیں سے کھلنے لگا ہے عقدہ کہ لامکاں کا ظہور کیا ہے
بدن کو محسوس ہو رہا ہے کہ کیا مجسم ہے نور کیا ہے
اگرچہ قالب تو ہے مگر قلب اس کے اندر نہیں ہے اب تک
اگر تجلی نہیں پڑی تو پہاڑ ہے صرف، طور کیا ہے
مقامِ عقل و خرد سے آگے مقامِ تسلیمِ قلب و جاں ہے
وہاں پہ اک وجد میں ہے ہستی وہاں نہ پوچھو شعور کیا ہے
تو اس کا مطلب سبھی ریاضت مجھے ہی تیار کر رہی تھی
بدن کے اندر بدن کی لذت سے ماورا یہ سرور کیا ہے
زر و زمیں سے نہ قلب بدلا، نہ سوچ نکھری، نہ روح جاگی
عماد احمد ابھی کھلا ہے یہ سب متائے غرور کیا ہے
رات ۷۱:۴
۴۱ستمبر ۲۲۰۲
گھرپر
ziyan ak soch hay, ahsas hay yaa tajrabah hay ya
زیاں اک سوچ ہے، احساس ہے یا تجربہ ہے یہ
کسی لمحے کا اک ادراک ہے یا سلسلہ ہے یہ
ترے اندر جو اتنی تشنگی ہے کیوں ہے آخر وہ
مرے اندر مسلسل بڑھ رہا کیسا خلا ہے یہ
بھلا کیسی خلش، کیسی اداسی دل میں اتری ہے
بھلا کیسا جنوں میری رگوں میں بہہ رہا ہے یہ
یہاں تک آتے آتے مڑ گئے ہیں بوالہوس سارے
جسے منزل سمجھتے تھے حقیقی راستہ ہے یہ
مرا ہمزاد بھی خاموش میرے پاس بیٹھا ہے
اسے کیا غم ہے میری بات کیسے سن رہا ہے یہ
اگر خود کو ہرا کر لوٹ آیا تو میں بچ آیا
اگر میں بچ گیا خود سے تو سمجھیں حادثہ ہے یہ
میں اپنی سوچ سے کترا کے جذبوں کی طرف چل دوں
تو میرا ذہن کہہ دیتا ہے، کتنا بے وفا ہے یہ
عماد احمد حوادث کا بیاں سنتا ہوں میں جب بھی
مجھے لگتا ہے میری ذات کا ہی واقعہ ہے یہ
صبح۱۴:۵
۷۱ ستمبر۲۲۰۲
گھرپر
min hi shar hon min hi khair hon min hi hon midani jang
میں ہی شر ہوں، میں ہی خیر ہوں، میں ہی ہوں میدانِ جنگ
خود سے لڑنے نکلا ہوں اور میں ہی چلوں گا اپنے سنگ
میں مظلوم ہوں، میں ہی ظالم، میں ہی ہوں پوری تاریخ
میں ہی کالا، میں ہی گورا میں ہی ہر تہذیب کا رنگ
میں انسانی سانچے میں ہوں، میں انسانی ڈھانچے میں
نور ہوں لیکن مٹی سے تشکیل ہوا ہے اک اک انگ
میں نے ہی اذکار سے اپنے قلب میں سات جہان بھرے
میں نے ہی کالے اعمال سے کیا ہے اپنا سینہ تنگ
میں نے ہی مخلوق میں اشرف ہونے کا اعزاز لیا
میں ہی اپنی ذات کے اندر ہو جاتا ہوں باعثِ ننگ
اعلیٰ، ادنیٰ، اونچا، نیچا، سادہ اور پیچیدہ سب
کس مخلوق میں مل سکتے ہیں ایسے لچھن ایسے ڈھنگ
اپنا آپ کریدو گے تو یہ سارے رنگ پاؤ گے
آؤ عماد احمد تم خود کو دیکھو اور ہو جاؤ دنگ
صبح ۷۱:۶
۷۱ستمبر۲۲۰۲
گھرپر
chhod din qalab ki or nafs ki gardan janab
چھوڑ دیں قلب کی اور نفس کی گردان جناب
اب رہیں ایسے کہ سمجھیں سبھی انجان جناب
میرے مٹ جانے سے کتنوں کا بھلا ہوتا ہے
آ گئی آپ کے ہونٹوں پہ بھی مسکان جناب
کہہ دیا آپ نے سب، یعنی بچایا ہی نہیں
کچھ تعلق کو بچانے کا بھی امکان جناب
گئے دن نت نئے الزام سجا دیتے ہیں
کیجئے آج نہیں مجھ پہ یہ احسان جناب
چھوڑ دیں آپ ندامت کا نہیں ذکر کریں
شرمساری کو سمجھئے مری پہچان جناب
ختم ہی کرنا ہے رشتہ تو مروت کیسی
اب عماد آئے تو کر ڈالیں پریشان جناب
رات گئے
۶۲ ستمبر ۲۲۰۲
گھرپر
sakoti hast
سکوتِ ہست
کیسے دن ہیں
کچھ کہنے کی خواہش بھی ہے
اور چپ بھی رہنا چاہتا ہوں
شاید کچھ کہنے کی خواہش میں ہی چپ رہنا چاہتا ہوں
حرفوں لفظوں سے ہٹ کر
خاموشی کے نازک تاروں سے
یا سانسوں کے زیر و بم سے
یا نبض کی دھیمی جنبش سے
ان ہونے جذبوں کی بابت کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں
انفس کی گہرائی میں گم کچھ راز سمجھنا چاہتا ہوں
آفاق کے پردوں کے پیچھے کچھ بھید پرکھنا چاہتا ہوں
ان ہونے، ان دیکھے سفروں کی بابت لکھنا چاہتا ہوں
لیکن اس سے پہلے ان کو احساس میں جینا چاہتا ہوں
ادراک میں جینا چاہتا ہوں
جس لطف و کرم کی حدت کو محسوس کیا ہے اب اس کو
میں روح تو کیا اس جسم میں بھی شدت سے سہنا چاہتا ہوں
دنیا کے گورکھ دھندے سے تھوڑا ہٹ کر
تھوڑا کٹ کر
اب اپنی ذات کے ساغر میں
اپنے اندر اٹھتی من کی موجوں میں بہنا چاہتا ہوں
اب جو کچھ کہنا چاہتا ہوں
اس کے بارے میں سچ یہ ہے
میں چپ بھی رہنا چاہتا ہوں
adarak
ادراک
سینے میں بائیں جانب اک ٹیس اٹھی ہے
ہلکی سی، مبہم سی، بے انداز سی جس نے
شاید دل کو تو تکلیف نہیں دی لیکن
سوچ میں گویا اک طوفان اٹھا ڈالا ہے
اک دن یوں ہی
شاید آج ہی، شاید سالوں بعد کسی دن
ایسے ہی اک ٹیس اٹھے گی
لیکن وہ لمحے دو لمحے میں ٹلنے والی کب ہو گی
شاید وہ سینے سے اٹھے گی
تو دل کی گہرائی میں ہی جا اترے گی
ذات کے گہرے ساگر میں طوفان اٹھے گا
سوچ کسی ساعت کو جلے گی اور پھر یک دم بجھ جائے گی
سانس کوئی لمحے کو چلے گی اور پھریک دم رک جائے گی
جسم اگر تڑپا بھی تو بس
کچھ ساعت کو تڑپے گا پھر جم جائے گا
عمر کی گاڑی اندھے موڑ پہ رک جائے گی
اور پہیہ تھم جائے گا
سینے میں بائیں جانب جو ٹیس اٹھی ہے
اس نے عمر کے گزرے سالوں اور آتے برسوں کو چھوا ہے
دل کو یہ احساس ہوا ہے
آج چلیں یا کچھ دن رک لیں
آخر تو جانا ٹھہرا ہے
اڑنا چاہیں یا پھر جھک لیں
آخر ایک گڑھا گہرا ہے
سینے میں بائیں جانب جو ٹیس اٹھی ہے
اس نے یہ ادراک دیا ہے
اک لمحے میں، اک لحظے میں
سارا منظر ہٹ سکتا ہے
عمر کا رستہ پٹ سکتا ہے
شاید آج ہی
شاید سالوں بعد کسی دن
لیکن تب تک مہلت ہے، کچھ لمحوں کی یا کچھ سالوں کی
جس میں سب ضائع کرنا ہے یا پھر کچھ حاصل کرنا ہے
جسم گنوا کر چل دینا ہے یا پھر روح کی پیاس کی خاطر
قلب کا مشکیزہ بھرنا ہے
مشکل اور لمبے رستوں پر زادِ سفر پورا رکھنا ہے
رات ۲۲:۲
۲۲نومبر۲۲۰۲
گھرپر
zat or raat ki haqeeqat jan
ذات اور رات کی حقیقت جان
ان کہی بات کی حقیقت جان
اپنے اندر چھپے شمر کو دیکھ
نفس پر گھات کی حقیقت جان
پہلے کچھ دیر آگ دے اس کو
پھر کسی دھات کی حقیقت جان
کامیابی کا جب نشہ اترے
تو مری مات کی حقیقت جان
پہلے ماخذ تلاش اپنا عماد
بعد میں ذات کی حقیقت جان
nafs or qalab
نفس اور قلب
مقصدِ زندگی کی راہوں پر
میں بھٹکتا رہا ہوں سال ہا سال
خود سے لڑتا رہا ہوں سال ہا سال
کوئی رستہ نہ سنگِ میل ملا
نہ مری ذات کو قبیل ملا
بے امیدی رچی رہی اندر
بے نشانی بسی رہی باہر
اور لڑتا رہا میں اپنے سے
ذات کے آب دار سپنے سے
ایسے لمحات مجھ پہ گزرے ہیں
جن میں ادراکِ درد بڑھتا تھا
میرے اندر کا دکھ کسک کے ساتھ
قلب سے اک سوال کرتا تھا
نفس تو معصیت سکھاتا ہے
راستہ بھول بھال جاتا ہے
پر تجھے نور تک رسائی تھی
تو نے اونچی اڑان پائی تھی
تیرا رستہ محال کیوں ٹھہرا
تو نے منزل کو کیوں نہیں پایا
اور مرا قلب کچھ نہ کہہ پاتا
کوئی اسباب بھی نہ بتلاتا
اک مسلسل سکوت، سناٹا
اس کے اطراف پھیلتا، چھاتا
اور ایسے میں نفس خود کہتا
قلب اور روح کا جو رشتہ ہے
نفسِ انسان ہی سے جڑتا ہے
نفس کا طہر چاہیے پہلے
ورنہ اندر کے غم نہ جاگیں گے
اپنی ہستی کے در کھلیں گے نہیں
اور قلب و نظر دھلیں گے نہیں
قلب اور نفس ساتھ دیں گر تو
راستہ راستی سے ملتا ہے
راستی راستے سے ملتی ہے
روح سرشار ہو تو جسم کو بھی
تشنگی فاصلے سے ملتی ہے
مقصدِ زندگی کی راہوں پر
کوئی پل بھی نہیں بھٹکتا قلب
خود سے ہرگز نہیں بدکتا قلب
راستے سنگِ میل بنتے ہیں
چلتے چلتے قبیل بنتے ہیں
بے امیدی کہیں نہیں رہتی
بے نشانی کہیں نہیں بستی
مقصدِ زندگی کی راہوں پر
مقصدِ زندگی کی راہوں پر
zat ka manazr
ذات کا منظر
ابھی یہ چند ساعتوں کی بات ہے کہ ہر طرف
دبیز سردیوں کی دھوپ خوشنما دکھائی دی
ابھی تو گھر کے صحن میں درخت اپنے پیر پر سکون سے کھڑے ملے
ہوا بھی نرم نرم تھی
فضا بھی گرم گرم تھی
پرند اپنے پر ہوا کے دوش پر لئے ہوئے
فضا کی وسعتوں سے آسمان کی طرف اڑے
کسی نظر نے آنکھ بھر کے دیکھ ہی لیا اگر
تو آسماں کی وسعتوں کا رعب دل پہ پڑ گیا
ابھی یہ چند ساعتوں کی بات ہے مگر یہ اب
ہوا کو کیا ہوا ہے اتنی تیز کیوں چلی ہے یہ
فضا کو کیا ہوا ہے اس میں اتنی گرد کیوں ہے اب
نظر اٹھائی ہے تو آسمان دکھ نہیں سکا
نظر جھکائی ہے تو یہ زمین سرخ رو ہے اب
نہیں سمجھ میں آ رہا کہ کس طرف ہے کون،کب
ہوا کی تیز لہرسے درخت ٹوٹتے ہوئے
پرند تیز و تند آندھیوں میں کانپتے ہوئے
چرند اپنے راستوں کے بیچ ڈولتے ہوئے
فضائے گرد و بار میں یہ شام ڈوبتے ہوئے
ابھی یہ چند ساعتوں کی بات ہے یہ کیا ہوا
فضا تو نرم گام تھی
ہوا تو ہم خرام تھی
یہ جو ہوا ہے اس جگہ کا یہ مزاج تو نہ تھا
ہواؤں پر، فضاؤں پربلا کا راج تو نہ تھا
یہ خارجی ہوائیں تھیں
یہ خارجی بلائیں تھیں
جو اس جگہ کے حسن اور مزاج میں گھلی نہ تھیں
جو اس حسین شام سے کبھی کہیں ملی نہ تھیں
عماد تیری ذات میں بھی ایک ایسی شام ہے
دبیز سردیوں کی دھوپ خوشنما ہے جس جگہ
جہاں پہ گھر کے صحن میں درخت اپنے پیر پر
سکون سے ہیں رات دن
ہوا بھی نرم نرم ہے
فضا بھی گرم گرم ہے
ترے خیال کے پرند اپنے پر ہوا کے دوش پر لئے ہیں اس جگہ
ترے مزاج کی فضا سے آسمان کی طرف
نظر اٹھا کہ دیکھ لو
تو آسماں کی وسعتوں کا رعب دل پہ آ پڑے
عماد تیری ذات میں بھی
شام آج اپنا رنگ و روپ یوں
بدل رہی ہے ایک دم
ہوا کو کیا ہوا ہے اتنی تیز کیوں چلی ہے یہ
فضا کو کیا ہوا ہے اس میں اتنی گرد کیوں ہے اب
نظر اٹھائی ہے تو آسمان دکھ نہیں سکا
نظر جھکائی ہے تو یہ زمین سرخ رو ہے اب
نہیں سمجھ میں آ رہا کہ کس طرف ہے کون، کب
ہوا کی تیز لہر سے ترے گھنے وجود میں درخت ٹوٹتے ہوئے
خیال کے پرند تیز و تند آندھیوں میں تیرے دل میں کانپتے ہوئے
سکون کے چرند جیسے تیری ذات کے مہیب را ستوں کے بیچ ڈولتے ہوئے
فضائے گرد و بارِ زندگی میں آج شام ڈوبتے ہوئے
یہ جو ہوا ہے تیری ذات کا مزاج تو نہ تھا
ترے وجود پر کسی بلا کا راج تو نہ تھا
یہ خارجی خیال تھے، یہ خارجی وبال تھے
جو تیری ذات کے مزاج میں کبھی گھلے نہ تھے
جو تیرے قلب و جان سے کبھی کہیں ملے نہ تھے
شام ۸۳:۴
۷۲ نومبر۲۲۰۲
گھر کے باغ میں، لاہور
fana or baqa
فنا اور بقا
مولا میرا اندر مار کے زندہ کر دے
میرے قلب کو اک آزاد پرندہ کر دے
خواہش، خواب، تمنا، آس، امید، ارادے
ماضی، حال اور مستقبل کے کچے دھاگے
دکھ سے بچنے کی، سکھ پا لینے کی خواہش
خوابوں جیسی زیست سجا لینے کی خواہش
من کو جو بھی بھا جائے اس شے کی تمنا
آس امید کی ڈور بندھے اڑنے کی تمنا
نفس کی موجوں میں بہتے کمزور ارادے
بہہ جاتا ہوں خود پر اپنی ذات کو لادے
دل کے اندر کتنے ہی سپنے زندہ ہیں
کچھ دنیا والے اور کچھ اپنے زندہ ہیں
سب زندہ ہیں مجھ میں، میں کیوں مردہ ہوں پھر
من میلے میں کیوں اتنا افسردہ ہوں پھر
خواہش، خواب، تمنا، آس، امید، ارادے
ماضی، حال اور مستقبل کے کچے دھاگے
خواہش، خواب، تمنا بس دنیا داری کی
ہر اک آس، امید ہے بس نفسا نفسی کی
جو بھی ارادہ باندھا اس کا حاصل میں تھا
جتنا پاس کیا اتنا ہی فاصل میں تھا
ماضی، حال اور مستقبل اک بہتا دریا
وقت کے اس دریا میں اک اک لمحہ ڈوبا
فانی دنیا، فانی جذبے، فانی سوچیں
یعنی لا یعنی جذبے لا یعنی سوچیں
ہر رستے سے پُر ہے خود بے رستہ ہے دل
ہر شے زندہ ہے اس میں خود مردہ ہے دل
مولا میرا اندر مار کے زندہ کر دے
میرے قلب کو اک آزاد پرندہ کر دے
دوپہر۵۲:۱
یکم دسمبر ۲۲۰۲
سودا سلف لانے کی لئے بازار جاتے ہوئے
khush nihen hon matman hon jo zarori bat hay
خوش نہیں ہوں مطمئن ہوں جو ضروری بات ہے
بات اتنی ہی کروں گا اور یہ پوری بات ہے
ذات کی گہرائی میں مدفون رازوں کا سراغ
لا شعوری میں بتا دینا شعوری بات ہے
ہجر کا اور ہجرتوں کا سلسلہ رکتا نہیں
وصل تک کی داستاں کتنی ادھوری بات ہے
قلب قرنوں کا سفر لمحوں میں کر لیتا ہے طے
چھوڑیے جوہر پرستوں کو یہ نوری بات ہے
آج پھر آنگن میں سارا گھر اکٹھا ہے مگر
بات تھی کل قربتوں کی، آج دوری بات ہے
تیرے اندر کی خشیت کچھ نہیں اب تک عماد
خلوت و جلوت میں اک جیسی حضوری بات ہے
صبح ۰۳:۶
۰۱دسمبر ۲۲۰۲
گھر،پر
qeedi
قیدی
نفسِ امارہ کا قیدی یہ سمجھتا ہے کہ وہ
قادرِ مطلق ہے اپنی ذات کا مختار ہے
اس کے جذبوں کی امنگوں سے عبارت ہے حیات
اس کی اپنی سوچ گویا زیست کا معیار ہے
اس کے جسم و جان سے روشن ہیں ساری منزلیں
اس کے ہاتھوں میں جہاں کا سارا کاروبار ہے
اس کو لگتا ہے کہ وہ آزاد ہے ہر عیب سے
اس کی خاطر آ رہی ہے ہر مدد بھی غیب سے
وہ بنا سکتا ہے اپنے قاعدے قانون بھی
ٹھیک ہے اس کے لئے رسمِ کہن کا خون بھی
وہ بدل سکتا ہے ترتیبِ نزولِ خیر و شر
اس کی خواہش پر چلائے جائیں گے سب بحر و بر
نفسِ امارہ کا قیدی ذات کے زندان میں
اپنے اندر پھیلتی اک رات کے زندان میں
قلب کے ماخذ سے کٹ کر روح سے بھی بے خبر
وسوسوں اور واہموں کی ایسے ہوتا ہے نظر
سال ہا سال آپ اپنی موج میں بہتے ہوئے
ڈوبتا جاتا ہے خود کو دیرپا کہتے ہوئے
شام۵۵:۵
۰۱ دسمبر ۲۲۰۲
گھرپر
ddhalan
ڈھلان
مرے قلب پر زنگ لگنے لگا ہے
یہ سینہ مجھے تنگ لگنے لگا ہے
بہت سال ایسی ریاضت میں کاٹے
کہ طہرِ نظر کی حفاظت میں کاٹے
میں قلب و بدن کو سنبھالے پھرا ہوں
خیال اور ظن کو سنبھالے پھرا ہوں
بچا کر چلا ہوں میں جذبوں کو شر سے
اٹھا کر چلا ہوں میں سوچوں کو ڈر سے
سدا نفس اپنی نگاہوں میں رکھا
سدا قلب اپنی دعاؤں میں رکھا
مگر وقت نے حادثہ کر دیا ہے
مجھے راستے میں فنا کر دیا ہے
نظر نے، سماعت نے، قلب و بدن نے
شرِ سوچ و جذبات، امید و ظن نے
کسی نے کہیں کچھ شرارت تو کی ہے
کسی واسطے تو نجابت رکی ہے
کسی امر سے قلب خالی ہوا ہے
مری روح کا درد والی ہوا ہے
خلا، میرے اندر خلا بڑھ رہا ہے
مجھے ذات سے کچھ گلہ بڑھ رہا ہے
کہیں میری برسوں کی ساری ریاضت
کہیں سال ہا سال کی یہ حفاظت
میں لمحوں کے اندر لٹا کر نہ رکھ دوں
میں اپنی نجابت گرا کر نہ رکھ دوں
نگاہوں سے میں نفس اوجھل نہ کر دوں
دعاؤں کے بن قلب بوجھل نہ کر دوں
مرے قلب کا زنگ اترے گا کیسے
یہ سینہ کھلے اور پھیلے گا کیسے
میں کیسے جیوں طہر و پاکیزگی سے
میں کیسے مروں طہر و پاکیزگی سے
مرے قلب کو راستہ چاہیے ہے
مجھے نور کا سلسلہ چاہیے ہے
مرا قلب ہے رب کی دو انگلیوں میں
دعا ہے پلٹ دے اسے ساعتوں میں
رات ۲۲:۱
۲۱ دسمبر۲۲۰۲
گھرپر
raat ke andhere min gar ek bhi starah hota shrahi sadar ho jati
رات کے اندھیرے میں گر ایک بھی ستارہ ہوتا شرحِ صدر ہو جاتی
بات کھل نہیں سکتی تو کوئی استعارہ ہوتا شرحِ صدر ہو جاتی
نفس کی عداوت کیا ہے، قلب کی ریاضت کیا ہے، ذات کا سمندر کیا
ہم نے بھی اگر یہ مشکل راستہ گزارا ہوتا شرحِ صدر ہو جاتی
وقت تیرے ہاتھوں نے جو نفس کو فنا کر ڈالا اس سے خوش نہیں ہوں میں
بات تب بنی ہوتی گر میں نے اس کو مارا ہوتا شرحِ صدر ہو جاتی
راستہ بنانے والا، راستہ دکھانے والا، منزلوں کا مالک ہے
کاش ہم نے اس مالک کو قلب سے پکارا ہوتا شرحِ صدر ہو جاتی
بوجھ کم نہیں ہوتا ہے، درد تھم نہیں پاتا ہے، زخم بھر نہیں پاتا
کاش اپنی آنکھوں میں بھی اشک کا ستارہ ہوتا شرحِ صدر ہو جاتی
کن سمندروں کے اندر کیسی کیسی سیپی ڈھونڈی، ہاتھ کچھ نہیں آیا
گر عماد احمد تو نے پا لیا کنارہ ہوتا، شرحِ صدر ہو جاتی
دوپہر ۵۲:۲
۲۱ دسمبر۲۲۰۲
ٹرفلزکیفے میں، لاہور
rzam
رزم
مکالمہ یہ نہیں
کہ دنیا غلط ہے اور میں درست تر ہوں
معاملہ بلکہ اس طرح ہے
کہ اب شعوری ثبوت ہیں جو
ہر ایک جانب سے میرے قلب و نظر پہ یلغار کر رہے ہیں
مجھے کسی اور سمت چلنے پہ جیسے تیار کر رہے ہیں
مجھے حقیقت کو اک نئے زاویے سے دکھلا کے
سخت اصرار کر رہے ہیں
کہ صرف اپنی نظر سے دیکھو
معاشرے کو، نظام کو، ضابطوں کو پرکھو
سماج کیسے بُنا ہوا ہے
معاش کیسے بَنا ہوا ہے
یہ ربط کیسے کھڑا ہوا ہے
تم اس کی گہرائیوں کو پرکھو
تم اس کی رعنائیوں کو سمجھو
پھر اس کی تنہائیوں کو جانو
اور اس کی ویرانیوں کو دیکھو
سوال ہرگز بھی یہ نہیں ہے
کہ میں شعوری جگہ پہ دنیا سے مختلف ہوں
یا میرے جذبات اور سے ہیں
مگر اگر ساری زندگی جس سماج کو، جس معاش کو
اور نظام کو دی ہے وہ مجھے اجنبی لگا ہے
تو اس کے پیچھے کہیں کوئی اور معاملہ ہے
بہت دنوں تک
میں اپنے اندر اور اپنے باہر کو دیکھتا، سوچتا، پرکھتا رہا ہوں تو
بات کھل رہی ہے
مرے پہ پہلے پہل تو اپنی ہی ذات کی رات کھل رہی ہے
جو میرے اندر سیاہ راتوں کا سلسلہ تھا
وہاں شفق پھوٹنے لگی ہے
اور اس کے روشن وجود سے رات دھل رہی ہے
جو میرے اندر سے ایسی تاریک رات ڈھلنے لگی ہے تواس معاشرے کی، معاش کی اور نظام کی بھی تمام اوقات کھل رہی ہے
ابھی کھلا ہے کہ جسم و جاں میں اگر کوئی باس بھر چکی ہو
تو پھر سماجی ہو یا معاشی
کسی طرح کے نظام کی باس کون محسوس کر سکا ہے
ابھی دکھا ہے کہ اپنے اندر کی آنکھ موندے ہوئے پڑے ہوں
تو کون باہر کا کرب دیکھے گا اور کس کے
لطیف جذبوں پہ بوجھ ہو گا
ابھی یہ سمجھا ہے میرے اندر نظامِ انصاف مر چکا تھا
تو میں نے آخر معاش میں اور سماج میں کیا نظامِ انصاف چاہنا تھا
سفر کا آغاز کون باہر سے کر سکا ہے جو میں کروں گا
اگر میں انصاف پر جیوں گا
تو پہلے اندر کے نظمِ باہم کو ربط دوں گا
دل و جگر کو
بدن، نظر کو
تمام سوچوں، دبیز جذبوں
اداس لمحوں، کمال سالوں
سفر کے رستوں کو، منزلوں کو
میں ضبط دوں گا
میں پہلے ہستی کے زاویوں کو شعور دوں گا
کلام دوں گا
میں اپنے ہونے کو منصفی کا مقام دوں گا
مکالمہ یہ نہیں
کہ دنیا غلط ہے اور میں درست تر ہوں
سوال ہرگز بھی یہ نہیں ہے
کہ میں شعوری جگہ پہ دنیا سے مختلف ہوں
یا میرے جذبات اور سے ہیں
معاملہ بلکہ اس طرح ہے کہ اب شعوری نشانیوں سے
دماغ و دل کی فصاحتوں سے
نظر کی پوری وضاحتوں سے
ثبوت پائے ہیں جو کہ یلغار کر رہے ہیں
مجھے یہ تیار کر رہے ہیں
کہ صرف اپنی نظر سے دیکھو
معاشرے کو، نظام کو، ضابطوں کو پرکھو
سماج کیسے بُنا ہوا ہے
معاش کیسے بَنا ہوا ہے
یہ ربط کیسے کھڑا ہوا ہے
تم اس کی گہرائیوں کو پرکھو
تم اس کی رعنائیوں کو سمجھو
تم اس کی تنہائیوں کو جانو
اور اس کی ویرانیوں کو دیکھو
جو اپنے اندر بپا کیا ہے
وہ انقلاب آج اپنے باہر بھی لا کے دیکھو
نظامِ ہستی نظامِ دنیا سے مختلف ہے تو آؤ جیسے
تم اپنے اندر سے بھڑ گئے تھے اسی طرح سے
معاشیاتی، سماجیاتی نظام دنیا سے اپنی سوچیں لڑا کے دیکھو
یا اس کو بدلو یا اپنی ہستی گنوا کے دیکھو
دوپہر۵۰:۱
۴۱ دسمبر ۲۲۰۲
گھر کے صحن میں
takbar kas ko kahate hen, tadbar kas ko kahate hen
تکبر کس کو کہتے ہیں، تدبر کس کو کہتے ہیں
پڑھا جب خود کو تو جانا تحیر کس کو کہتے ہیں
تکاثر اور تفاخر سے تمسخر پھر تشکر تک
گئے سالوں نے سمجھایا تغیر کس کو کہتے ہیں
نہیں دیکھا اسے لیکن نگاہوں میں بسا ہے وہ
محبت کس کو کہتے ہیں، تصور کس کو کہتے ہیں
ملے ہوتے اگر کچھ سال پہلے تم ہمارے سے
تمہیں معلوم ہو جاتا تحجر کس کو کہتے ہیں
بدن اور روح کا رشتہ نبھاتے عمر کاٹی ہو
تبھی ادراک ہوتا ہے تناظر کس کو کہتے ہیں
تسلسل سے کسی لمحے کو سالوں تک جئیں پہلے
پھر اس کے بعد سمجھائیں تواتر کس کو کہتے ہیں
تو اپنے قلب کا اور نفس کا قضیہ سمجھتا ہے
تجھے معلوم ہے خود سے تنافر کس کو کہتے ہیں
بدن سے ماورا جذبے، جہاں سے ماورا سوچیں
عماد احمد بتاؤ پھر تحور کس کو کہتے ہیں
صبح ۹۵:۷
۴۲ دسمبر ۲۲۰۲
گھرپر
samje ga mere bad tari kaj ravi ko kon
سمجھے گا میرے بعد تری کج روی کو کون
جانے گا تیرے بعد مری تشنگی کو کون
پہنچے گا شامِ غم تری آوارگی کو کون
حاصل کرے گا کرب کی وارفتگی کو کون
خوشیاں ملی ہیں راہ میں یکدم ہزار بار
پہنچی ہے پھر بھی درد کی برجستگی کو کون
مرگِ جنونِ عشق میں بولا یہ آئینہ
دھتکارتا رہا ہے اسی زندگی کو کون
قربِ غریبِ دل میں شبِ درد کاٹ کر
اب ڈھونڈنے چلا ہے غمِ آگہی کو کون
چل دشمنوں کی صف میں اتر کر تلاش کر
پہچاننے لگا ہے تری دوستی کو کون
دو چار لوگ خود میں اترنے چلے تو ہیں
اس راستے پہ پائے گا اب راستی کو کون
ماہِ تمام تُو تو ہے آنکھیں نہیں ہیں آج
دیکھے گا اب کی بار تری چاندنی کو کون
اے درد کس نے آپ سے آنکھیں چرائی ہیں
سہتا رہا ہے آپ کی پہلو تہی کو کون
تم رک کے اپنے آپ سے پوچھو کبھی عماد
سمجھا تمہارے قلب کی افسردگی کو کون
رات ۲۵:۲
۵۲جنوری ۳۲۰۲
گھر پر
shahab tha, sahab tha majhe pata nihen chala
شہاب تھا، سحاب تھا مجھے پتا نہیں چلا
خیال تھا کہ خواب تھا مجھے پتا نہیں چلا
میں اس کی آنکھ میں اتر کے دور تک چلا گیا
وہ دشت تھا کہ آب تھا مجھے پتا نہیں چلا
جسے سوال در سوال میں کریدتا رہا
وہی مرا جواب تھا مجھے پتا نہیں چلا
میں اس کی خار دار ٹہنیوں سے خار کھا گیا
وہ شخص تو گلاب تھا مجھے پتا نہیں چلا
خرد کے سارے سلسلوں کا منزلوں پہ ٹوٹنا
جنون کا حساب تھا مجھے پتا نہیں چلا
میں ایک عمر اپنی معصیت پہ اشک بار تھا
یہی عمل مجاب تھا مجھے پتا نہیں چلا
جو راستوں کے بھید تھے انہیں سمجھ گیا تھا میں
جو ذات کا سراب تھا مجھے پتا نہیں چلا
میں تیرگی کے راستوں پہ نور ڈھونڈتا رہا
جو قلب کا نصاب تھا مجھے پتا نہیں چلا
میں سوچتا رہا ردائے نور کیسے چاک ہو
نظر میں جو حجاب تھا مجھے پتا نہیں چلا
میں اپنی ذات کے عذاب اس میں بو کے اٹھ گیا
عماد تو تراب تھا مجھے پتا نہیں چلا
صبح۵۳:۴
۶۲ جنوری ۳۲۰۲
گھرپر
chhod, ghazal mat lakh to aaj
چھوڑ، غزل مت لکھ تو آج
درد کے پل مت لکھ تو آج
وقت کو خود چل لینے دے
اپنا کل مت لکھ تو آج
نام دے میرے باطن کو
پر دلدل مت لکھ تو آج
آنکھ برس کے خشک ہوئی
اب بادل مت لکھ تو آج
کچھ بھی کہہ لے دنیا کو
بس چنچل مت لکھ تو آج
ٹوٹ چکے ہیں جسم و جان
کچھ ہلچل مت لکھ تو آج
درد کی اس چادر کو عماد
پھر آنچل مت لکھ تو آج
صبح۲۵:۴
۶۲ جنوری ۳۲۰۲
گھرپر
zakham kholo ge, chalo kholo phar
زخم کھولو گے، چلو کھولو پھر
کھل کے رو لو گے، چلو رو لو پھر
یہ ہنر کس نے سکھایا ہے تمہیں
بات پہلے کرو اور تولو پھر
نرم گفتار میں کڑوی باتیں
آؤ کانوں میں شہد گھولو پھر
زخمِ دل ٹھیک سے بھرنے ہیں تو
اپنے ماضی کی گرہ کھولو پھر
نفس کی چھینٹیں ہیں اب تک اس پر
دامنِ قلب کبھی دھو لو پھر
جس کا ہونا تھا وہ حاصل نہ ہوا
جو ملا اس کے ہی بس ہو لو پھر
رات بھر جاگتے رہتے ہو عماد
دو گھڑی کے لئے اب سو لو پھر
شام۵۱:۷
۳۲ جنوری۳۲۰۲
گھرپر
tare khayal se peda huvay bahat se swal
ترے خیال سے پیدا ہوئے بہت سے سوال
ہر اک سوال سے اٹھتے رہے ہزار خیال
روایتِ غمِ ہستی بنی دلیلِ نجات
حدیثِ دل کو بنایا بنائے استدلال
شبیہِ درد کی تکمیل ہوتے دیکھی ہے
وجودِ آرزو دیکھا ہے چشمِ دل نے نڈھال
مرے غرور کا لاشہ نشانِ عبرت ہے
میں اپنی ذات کے اندر غریقِ حزن و ملال
یہ ایک جان جو دینے کا تم سے وعدہ تھا
بندھا ہوا ہے اسی قرض میں مرا ہر بال
ابھی تو وعدہِ فردا نبھا رہا ہے بدن
سنائیں گے کبھی برزخ میں بیٹھ کر احوال
مری نسوں نے مجھے رسیوں سا باندھ دیا
مرے وجود کے ریشوں سے بُن گیا اک جال
ذرا ٹھہر کے مری بات سن مسافرِ ذات
بدن شکستہ بھی ہو تب بھی روح و دل کو سنبھال
کوئی گناہ کیا ہو کہ پھر قیام اللیل
خدا ہی جانتا ہے سب کے رات کے اعمال
عماد آج ذرا دیر کے لیے ٹھہرو
سناؤ درد کی تحریک کے کوئی اقوال
صبح۵۳:۸
۶۲ جنوری۳۲۰۲
گھرپر
qata: nind min sochane ki adat hay
قطعہ
نیند میں سوچنے کی عادت ہے
خواب میں جاگنے کی عادت ہے
دن کے پہلو سے درد چن چن کر
رات بھر جھیلنے کی عادت ہے
دوپہر۰۳:۲۱
۰۳ جنوری۳۲۰۲
گھرپر
jas ka gham hawa hay atna, bat to wah zati hay
جس کا غم ہوا ہے اتنا، بات تو وہ ذاتی ہے
لیکن اس سے اٹھنے والا درد کائناتی ہے
انتظامِ ہستی میں اک عمر کاٹ کر جانا
انتشار استقلالی، نظم حادثاتی ہے
دشت کی مسافت میں اک خواب دیکھ بیٹھا ہوں
دن میں تشنگی تو شب میں آرزو جگاتی ہے
جسم سے جڑا ہوں جب تک اڑ نہیں سکوں گا میں
چاہ نور کے ماخذ کی، خوف نامیاتی ہے
جانے کتنے سالوں سے یہ کھیل گھر میں جاری ہے
میں تھکن سے گر جاتا ہوں رات مسکراتی ہے
جو ہوا رخ و عارض سے ہم کنار رہتی تھی
اب مری لحد پر آ کر گرد کو اڑاتی ہے
ذات کے نہاں پردوں کو چاک کر کے دیکھا ہے
رات تو سمٹ جاتی ہے بات پھیل جاتی ہے
آرزو سے استقرا کر، جستجو سے استنباط
اے زمین زادے تیری روح کائناتی ہے
رمز جس بھی پل کھل جائے قلب جب بھی بھر جائے
بات جب سمجھ آتی ہے ذات سرسراتی ہے
آج بھی عماد احمد کی رات کتنی رنگیں ہے
آج بھی اداسی اس سے کھیلنے کو آتی ہے
صبحِ صادق۶۳:۴
۷ فروری۳۲۰۲
گھرپر
yaa ghami zandgi ko ro jao
یا غمِ زندگی کو رو جاؤ
یا شبِ آگہی میں کھو جاؤ
میں نے کھولا ہے دل تمہارے لئے
تم اداسی کا بیج بو جاؤ
ابھی بیٹھوں گا میں یہیں کچھ دیر
تمہیں جانا پڑے گا سو جاؤ
دل جلو آبِ بے خودی کے ساتھ
زخمِ آوارگی کو دھو جاؤ
رات اب آخری دموں پر ہے
کچھ گھڑی کے لئے تو سو جاؤ
اتنی جلدی بھی کیا ہے مرنے کی
اور کچھ ساعتوں کو ڈھو جاؤ
نفس کو نفس سے بچاؤ عماد
جاؤ اپنے رقیب ہو جاؤ
دوپہر۵۳:۱۱
۴۱ فروری ۳۲۰۲
گھرپر
tanhi min melah tha or mele min tanhi thi
تنہائی میں میلہ تھا اور میلے میں تنہائی تھی
رسوائی میں عزت تھی اور عزت میں رسوائی تھی
خود کو زندہ جان کے اپنا جسم لئے پھرتے تھے لوگ
کسی نے کاندھے پر مرضی سے لاش نہیں اٹھوائی تھی
آس بھروسہ رکھنا ہو تو اپنی ذات پہ رکھتے ہیں
دشمن نے کیا سمجھانی تھی دوست نے جو سمجھائی تھی
غربت اور فقر کے اندر ایک لطیف سا پردہ ہے
عین غنا کی حالت میں یہ بات سمجھ میں آئی تھی
ڈھونڈ انہیں اور پوچھ کہ قلب و روح کا جوگ کہاں کاٹیں
تجھ سے پہلے کچھ لوگوں نے یہ گتھی سلجھائی تھی
قلب کٹورا نور بھرا تھا، روح مسلسل ذکر میں تھی
تب ہی جذبوں کی سچائی سوچوں سے دھلوائی تھی
اس گھر سے تو بن میں جا کر رہ لیتے تو اچھا تھا
جہاں اداسی دوست بنی تھی تنہائی ہمسائی تھی
سجدہِ شکر ادا کر گھر میں برکت اور سکینت ہے
وہ بھی دن تھے جب وحشت تن من دھن میں در آئی تھی
چھوڑ عماد گھرانہ حاصل ہے سو سب کچھ حاصل ہے
پردہ رکھ مت پوچھ کہ گھر کو کس نے آگ لگائی تھی
دوپہر۱۲:۲
۴۱فروری ۳۲۰۲
گھرپر
faraqe naur ne tadapa diye hen qaalb w qalab
فراقِ نور نے تڑپا دیے ہیں قالب و قلب
اندھیری رات نے بھٹکا دیے ہیں قالب و قلب
میں سوچتا تھا یہ چنگار بجھ چکا ہے مگر
تمہاری یاد نے سلگا دیے ہیں قالب و قلب
ابھی تو نور کی بارش سے ان کو دھونا ہے
مجھے لگا تھا کہ چمکا دیے ہیں قالب و قلب
اداس روح کا کچھ مستقل علاج کرو
کوئی دنوں کو تو بہلا دیے ہیں قالب و قلب
کسی جمال نے روشن کئے تھے روح و بدن
کسی ملال نے گہنا دیے ہیں قالب و قلب
یہاں سے آگے کوئی سخت معرکہ ہے عماد
کوئی تو بات ہے گھبرا دیے ہیں قالب و قلب
دوپہر۰۱:۳
۵۱ فروری ۳۲۰۲
گھرپر
fikar ka ruh ke ahsar se rashtah kiya hay
فکر کا روح کے احصار سے رشتہ کیا ہے
علم کا قلب کے اسرار سے رشتہ کیا ہے
یہ نہیں بات کہ غم خوار سے رشتہ کیا ہے
دل کے احساس کا اظہار سے رشتہ کیا ہے
جان افکار کا کردار سے رشتہ کیا ہے
اور کردار کا اقدار سے رشتہ کیا ہے
وقت کے آگے کو چلتے ہوئے اس پہیے کا
دور گزرے ہوئے ادوار سے رشتہ کیا ہے
مادہ و نور کی نسبت کو پرکھنے والے
یہ سمجھ قلب کا اذکار سے رشتہ کیا ہے
یہ بتائیے کہ بھلا علمِ ریاضی کے سوا
آپ کا نور کی رفتار سے رشتہ کیا ہے
یہ تو واعظ ہی بتائیں گے مجھے کیا معلوم
علم کا صاحبِ دربار سے رشتہ کیا ہے
رنج بھی دیتے ہیں، دلجوئی بھی کر لیتے ہیں
آپ کا آپ کے بیمار سے رشتہ کیا ہے
دائرہ ہوں مرا مرکز بھی بہت واضح ہے
اب بس اتنا ہے کہ پرکار سے رشتہ کیا ہے
آنکھ سے دیکھنے والے تجھے معلوم نہیں
قلب کا نور کے دیدار سے رشتہ کیا ہے
کاغذی نوٹ کو دولت نہیں کہہ سکتے ہیں
یہ سمجھ درہم و دینار سے رشتہ کیا ہے
ماہ و سال اتنے گزارے ہیں خرابوں میں عماد
سوچتا ہوں مرا گھر بار سے رشتہ کیا ہے
شام۰۵:۵
۸۱ فروری ۳۲۰۲
گھرپر
khamashi zandgi ka haasil or zandgi dard ki muqald hay
خامشی زندگی کا حاصل اور زندگی درد کی مقلد ہے
وہ جو اک بات ہے بتانے کی وہ بھی بس ذات میں مقید ہے
ساری دنیا کے سامنے ہم نے سوچ بس طاقچوں میں رکھ دی تھی
اب تمہیں بھی نہیں بتا سکتے یعنی احساس بھی مردد ہے
ماخذِ زندگی کو در در پر ڈھونڈتے ہی رہو گے کیا تا عمر
ذات کا بھی تو ایک محور ہے، قلب میں بھی تو ایک معبد ہے
رات پھیلی ہوئی تھی قرنوں سے، ذات بھٹکی ہوئی تھی صدیوں سے
ہر طرف تیرگی تھی جب یہ کھلا، ذات میں بھی کوئی مجدد ہے
دیرپائی کی خواہشات ہمیں بے وجہ رنج میں نہیں رکھتیں
زندگی موت عارضی حالات، اصل میں آدمی مخلد ہے
ہم تو دو چار روز کے اندر درد کی آنچ سے سلگ اٹھے
آپ نے کیسے سہہ لیے یہ غم، آپ کا روگ تو مشدد ہے
آپ تعریف کر رہے ہیں تو آپ کا شکریہ مگر اے دوست
دل مرا ہے تو خیر پتھر ہی اب زمرد ہے یا زبرجد ہے
درد کو دھیمی آنچ کے اوپر سال ہا سال رکھ کے چھوڑ دیا
یہ غمِ عاشقی کی سنت ہے اور سنت بھی جو موکد ہے
ہم نے دیکھاہے لوگ لوگوں سے مل کے روتے ہیں بین کرتے ہیں
دردِ ہستی عماد کس سے کہیں، قلب کا روگ ہی مجرد ہے
شام ۹۴:۴
۰۲ فروری ۳۲۰۲
گھرپر
waqat ke dhare min bahate ja rahe hen aap ham
وقت کے دھارے میں بہتے جا رہے ہیں آپ ہم
دہر کی چکی میں پستے جا رہے ہیں آپ ہم
روز و شب کا امتحاں دینا ہے ماہ و سال تک
سانس کی یہ پھانس سہتے جا رہے ہیں آپ ہم
ماہتاب و شمس کی تشبیہ کا حاصل سنیں
چاند سورج ہیں سو ڈھلتے جا رہے ہیں آپ ہم
جو زمانے کو بتانا تھا، جتانا تھا کبھی
خود کو خاموشی سے کہتے جا رہے ہیں آپ ہم
شام ہوتے ہی گریباں چاک کر لیتے ہیں لوگ
اور اپنے زخم سیتے جا رہے ہیں آپ ہم
دوستی ناتے عداوت کیا بچا ہے اب عماد
رابطوں رشتوں سے تھکتے جا رہے ہیں آپ ہم
سہ پہر۸۵:۳
۴۲ فروری ۳۲۰۲
گھر
bahat afsos se kahana pada hay
بہت افسوس سے کہنا پڑا ہے
جنوں کو با خرد رہنا پڑا ہے
بکی ہے باپ کی دستار بٹیا
تو خالی ہاتھ میں گہنا پڑا ہے
تمہارے ہاتھ پانی سے جلے ہیں
ہمیں بھی آگ میں بہنا پڑا ہے
بدن تو لذتوں میں گم رہا تھا
مگر جو قلب کو سہنا پڑا ہے
عماد اندر کی آزادی کی خاطر
مقید ذات میں رہنا پڑا ہے
صبح ۳۲:۹
۲ اپریل ۳۲۰۲
گھرپر
kharj min tazkir se istanbat male
خارج میں تذکیر سے استنباط ملے
باطن میں تطہیر سے ہی مرآت ملے
درد سے آگے ایک پڑاؤ غم کا ہے
دن پورا کرنے والوں کو رات ملے
ایک وظیفہ روز اکٹھے پڑھنا ہے
پہلے قلب ملانے ہیں سو بات ملے
بات ملانا نکتہ ہے آغاز کا بس
ذکر کی محفل عام کریں تو ذات ملے
ذات ملے کچھ لوگوں کی تو کام کریں
ایک دہائی کاٹ کے یہ حالات ملے
کچھ لوگوں کا ساتھ ہے اور اک مقصد ہے
دیکھیں آگے جیت ملے یا مات ملے
تھک جاتے ہو، پھر ہمت کر لیتے ہو
پھر سے عماد امید بھرے خدشات ملے
صبحِ صادق۵۳:۵
۸۲ اپریل ۳۲۰۲
گھرپر
qata: masjid w muharabi hasti kiya huvay
قطعہ
مسجد و محرابِ ہستی کیا ہوئے
ماہ و سالِ جوش و مستی کیا ہوئے
صاحبانِ کوچہِ نام و نمود
ساکنانِ شہرِ پستی کیا ہوئے
صبح۴۱:۶
یکم مئی ۳۲۰۲
گھرپر
takhel ke samandar se haqeeqat ke sarabon tak
تخیل کے سمندر سے حقیقت کے سرابوں تک
گزر کر آ گئے آخر تحجر کے عذابوں تک
یہ خار آلود رستے، پاؤں کے چھالے ہمیں دے کر
تم اپنی سوچ کو مرکوز رکھنا بس گلابوں تک
کبھی ٹوٹے ہوئے لوگوں کی آنکھوں کو پڑھا تم نے
یا اپنے علم کو محدود رکھا ہے کتابوں تک
حسابِ عمر ہم نے حشر پر ہی چھوڑ رکھا ہے
اٹھا رکھا ہے تم نے حشر کیوں سارے حسابوں تک
گناہِ اولیں، انسان اور ابلیس کی محفل
ملاپِ نفس و شر لایا سحابوں تک، عتابوں تک
ہو اک تو آرزوئے طہر، پھر دل بھی جنوں پیشہ
نہیں رکتی کہانی پھر گناہوں تک، ثوابوں تک
بدن، جذبات، سوچیں، روح کس ماخذ کی پیاسی ہیں
پہنچنا چاہتی ہے ذات آخر کن حجابوں تک
تمہاری جستجو اب بھی تمہیں جینے نہیں دیتی
عماد احمد پلٹ کر آگئے پھر سے خرابوں تک
صبحِ صادق۴۳:۴
۲ مئی ۳۲۰۲
گھرپر
dal w damag thakane pah aagay kah nihen
دل و دماغ ٹھکانے پہ آ گئے کہ نہیں
قلوب راز نبھانے پہ آ گئے کہ نہیں
قدم قدم پہ چھلکتے ہوئے ظروفِ مسی
حروفِ رمز چھپانے پہ آ گئے کہ نہیں
رموزِ شہرِ ولایت، علائمِ شبِ غم
جو جانتے ہیں بہانے پہ آ گئے کہ نہیں
قلوب آج کہیں مرتکز نظر آئے
نفوس آج نشانے پہ آ گئے کہ نہیں
بلا و درد کے عاشق، شبِ عروس کے بعد
غمِ حیات بتانے پہ آ گئے کہ نہیں
کہو کہ رات گئے مے کشوں کی محفل میں
فقیہِ شہر بلانے پہ آ گئے کہ نہیں
شعورِ ذات کی منزل کا سنگِ میل ہے یہ
عماد خود کو بھلانے پہ آ گئے کہ نہیں
رات ۸۲:۲۱
۸ مئی ۳۲۰۲
گھرپر
tehzeeb gham sakhaye nihen sekhta koi
تہذیبِ غم سکھائے نہیں سیکھتا کوئی
تنزیلِ درد کو بھی نہیں جانتا کوئی
ترتیلِ دردِ عشقِ مجازی کے رعب میں
حق کو نظر اٹھا کے نہیں دیکھتا کوئی
تقلید جس نظام کی بنیاد ہو وہاں
تحقیق کا محاذ نہیں کھولتا کوئی
احساس ہو رہا ہو جدائی کا ذات سے
ایسے میں جذب و ضبط نہیں باندھتا کوئی
گر انگلیاں قلم ہوں سیاہی ہو خون کی
پھر حرف کا وفور نہیں روکتا کوئی
ہر شخص کو کرامت و اعجاز چاہیے
اس شہر میں شعور نہیں مانگتا کوئی
لوگوں کو سچ بتا کے پلٹ آؤ تم عماد
اب سر چڑھے تو بات نہیں مانتا کوئی
صبح ۷۲:۹
۸مئی ۳۲۰۲
گھرپر
ejaazi gham hay hakmat qalab w shoori zat
اعجازِ غم ہے حکمتِ قلب و شعورِ ذات
کھلنے پہ آ گیا ہے تمہارا وفورِ ذات
یہ خود کو مارنے پہ عطا میں ملا ہمیں
تم جس کو کہہ رہے ہو ہمارا ظہورِ ذات
اوروں کے قلب و روح کی گہرائی چھوڑیے
پہلے گزر کے دیکھئے سارے بحورِ ذات
پاکیزگیِ جسم سے آگے بھی دیکھیے
کوشش کریں کہ پا سکیں تھوڑا طہورِ ذات
قلب آگہی کے ایک سمندر میں گھر گیا
کشتی بچائی پھینک کے اپنا غرورِ ذات
پایا ہے اک قرن میں حقیقت کا ایک پل
اترا ہے ایک عمر میں اپنا فتورِ ذات
دھونا پڑے گا نور سے دیوارِ قلب کو
اب طہر سے مٹے گا ہمارا فجورِ ذات
ماری ہیں اپنی ذات میں سو خواہشیں عماد
پر ذات بچ گئی ہے یہی ہے قصورِ ذات
جب نفس مٹ گیا ہے، فقط قلب رہ گیا
پایا ہے تب عماد ذرا سا سرورِ ذات
شام ۶۱:۴
۸ مئی ۳۲۰۲
گھرپر
nafsi ablis
نفسِ ابلیس
پہلے پہل تو صرف اقامت کی بات کی
پھر بیسیوں برس کی ریاضت کی بات کی
اپنا مقام خوب جتایا بڑھا چڑھا
جادو نہیں چلا تو کرامت کی بات کی
خواہش بڑھی تو ذکر گنائے تمام تر
اپنی عبادتوں کی طوالت کی بات کی
مخلوق کی بھلائی کا دعویٰ کیا گیا
سودا بڑھا تو عمرِ سخاوت کی بات کی
اپنے ہر اک چلن کا حوالہ دیا گیا
اپنے ہر اک عمل کی قدامت کی بات کی
پہلے پہل جتایا گناہوں سے اجتناب
پھر اپنی نیکیوں کی ضخامت کی بات کی
اپنا مقام و رتبہ بتانے کے بعد کچھ
اوروں کے فکر و دل کی خیانت کی بات کی
ماضی کی بے تحاشا مناجات کے عوض
فردا میں پرشکوہ نظامت کی بات کی
جب خواہشاتِ نفس کو سردار کر لیا
تو دل ہی دل میں اپنی امامت کی بات کی
انسانیت کا فخر مٹانے کو آخرش
ابلیس بن کے حقِ نیابت کی بات کی
شام۸۰:۸
۰۱ مئی ۳۲۰۲
گھرپر
amar ka sorj nasf nahar se aage nikala to ya jana
عمر کا سورج نصف نہار سے آگے نکلا تو یہ جانا
کتنا لا حاصل ہے بند مٹھی سے گرتی ریت بچانا
جانے والے جا سکتے ہیں، رکنے والے رک سکتے ہیں
سب کچھ کر کے دیکھ لیا ہے، کیا بتلانا، کیا سمجھانا
عمر کا نوحہ لکھا ہے تو پڑھ لینے دو ہم لوگوں کو
غم کے مارے سنگی ساتھی ہیں اب ہم سے کیا شرمانا
ذہنی کاوش سے گھر بار چلا لیتے ہو، خوش قسمت ہو
ان سے پوچھو جو دیتے ہیں اپنی سوچوں کا ہرجانہ
دنیا، ہستی، عمر، غنیمت، خوشیاں، غم، آسائش، روٹی
جذبوں کی یہ گہما گہمی، سوچوں کا یہ تانا بانا
کیسا روگ لئے پھرتے ہو، کیونکر جوگ لئے پھرتے ہو
چھوڑو لا حاصل کی خاطر حاصل کو کیوں آگ لگانا
قلب کی حدت قالب کے کوئلے کو ہیرا کر دیتی ہے
دھیمی آنچ پہ رکھے رکھو درد کا یہ انمول خزانہ
لوگ عماد احمد محور تک آ جاتے ہیں گرتے پڑتے
لیکن کتنوں نے سیکھا ہے محور پر پرکار گھمانا
رات ۱۳:۱۱
۰۱ مئی۳۲۰۲
گھرپر
khali bazo hi lahra do
خالی بازو ہی لہرا دو
لفظ کی حرمت پر پہرہ دو
حرف نہ آئے بے جگری پر
زخم دیا ہے تو گہرا دو
آنسو گھاٹ سے دھل کر نکلا
سلوٹ سے عاری چہرہ دو
ساتھ کا نخلستان نہیں تو
اجڑی یادوں کا صحرا دو
توڑ کے اپنا آپ عماد اب
خود کو ہی اس کا سہرا دو
رات ۶۴:۱۱
۰۱ مئی۳۲۰۲
گھرپر
low(1̱)
لَو (۱)
عمر کی ایک دہائی گویا درد کے نام ہوئی
ایک خزاں میں جھڑتے اک اک فرد کے نام ہوئی
ایک جوانی اور ہوائے سرد کے نام ہوئی
ایک جنونِ جان فشاں کی گرد کے نام ہوئی
ایک دہائی عمر کی بہتی نو کے نام کریں
دل میں لگی، دہلیز پہ جلتی لو کے نام کریں
رات ۰۵:۳
۱۱مئی۳۲۰۲
گھرپر
qata: janon ki pardah dari se sekha, khard ki bakhaya gari se sekha
قطعہ
جنوں کی پردہ دری سے سیکھا، خرد کی بخیہ گری سے سیکھا
نیاز مندی سے فیض پایا، سفر سے، آوارگی سے سیکھا
بہت کتابیں پڑھیں پڑھائیں، بڑے سیانوں کے پاس بیٹھے
بہت سے دور آئے زندگی میں مگر جو قلبِ جلی سے سیکھا
رات ۱۵:۱
۹۱مئی ۳۲۰۲
گھرپر
guftago ki low jalti hay, bat khudbakhud chalti hay
گفتگو کی لَو جلتی ہے، بات خودبخود چلتی ہے
دوستوں میں بیٹھے ہوں تو رات بے طرح ڈھلتی ہے
وقت تو دبے پاؤں ہی پاس سے کھسک جاتا ہے
بات تب سمجھ آتی ہے عمر ہاتھ کیوں ملتی ہے
مسکرا رہے ہیں اب بھی رنگ و روپ سے پر چہرے
ہم ہی ڈھل رہے ہیں شاید زندگی نہیں ڈھلتی ہے
تیرگی کے ان رستوں پر عمر کاٹ دی ہے ہم نے
قلب کی نہاں خانوں میں اب بھی ایک لو جلتی ہے
نفس کی ہر اک خواہش کو باندھ کر جیا جاتا ہے
اس کا پیٹ بھر دینے سے یہ بلا کہاں ٹلتی ہے
ذوق و شوق اونچا ہے تو حوصلہ بڑھانا ہو گا
جستجو میں دم کم ہو تو آرزو نہیں پلتی ہے
یاد ہے خوشی بھی اپنے گھر میں راج سے رہتی تھی
اب تو اس کی غم کے آگے دال ہی نہیں گلتی ہے
آج بھی عماد احمد گر تھک کے بیٹھ جاتا ہوں تو
آرزو سرہانے آ کر مجھ کو پنکھیاں جھلتی ہے
رات ۳۵:۲
۹۱ مئی ۳۲۰۲
گھرپر
khamashi adasi bhi hay, khamashi sakon paror bhi
خامشی اداسی بھی ہے، خامشی سکوں پرور بھی
بڑھ رہا ہے غم کا سایہ، گھٹ رہا ہے دل کا ڈر بھی
دشت کے سفر میں اک تو دور تک نظر جاتی ہے
اس پہ کھل رہا ہے اپنی ذات کا نہاں منظر بھی
دھیرے دھیرے، رفتہ رفتہ، ذات کے کھنڈر کھودے ہیں
تہہ بہ تہہ دبے جذبوں میں مل گئے کئی گوہر بھی
دو زماں ہیں اندر باہر، دو مکاں ہیں اندر باہر
جس سے جڑ سکیں گے دونوں، مل گیا ہے وہ جوہر بھی
اتصال قلب و قالب آنکھ کو بدل دیتے ہیں
روشنی ہیں برگ و بر بھی، روشنی ہیں بحر و بر بھی
اب کہو تو آ جاتا ہوں، اب کہو تو رک جاتا ہوں
درد سے عبارت دونوں، تیرا در بھی، میرا گھر بھی
ڈوب جاؤ چاہے اس میں، جھوم جاؤ چاہے اس سے
قلب ایک ساگر بھی ہے، قلب ہی ہے اک ساغر بھی
کہہ رہا ہوں گویائی کو لفظ سے شناسا مت کر
نطق کی اسی منطق نے کر دیے کئی بے در بھی
قلب آگ اور پانی کے امتزاج سے چمکے گا
لو لگائی ہے تو اب اٹھ ایک بار ہمت کر بھی
رات ۳۱:۴
۹۱ مئی ۳۲۰۲
گھرپر
low(2̱)
َؒلَو(۲)
لو لگائے ہوئے
لو جلائے ہوئے
دن گزرتے رہے
عمر کٹتی رہی
اپنے اللہ سے لو لگائے ہوئے
ایک امکان کی، ایک امید کی
روشنی اپنے سینے کے اندر مسلسل جلائے ہوئے
ایک خواہش کو من میں بسائے ہوئے
اک تمنا کو دل میں چھپائے ہوئے
دن گزرتے رہے
عمر کٹتی رہی
جسم و جاں کے سحر سے نکلتے ہوئے
ماخذِ روح کو آزمائے ہوئے
ضبط و امید اور تزکیے کے لئے
اپنا گھر چھوڑ کر، بام و در چھوڑ کر
اپنی بستی، محلہ،نگر چھوڑ کر
شہرِ دل میں بسی وہ نظر چھوڑ کر
جا بجا پھیلتے راستوں میں سے ہر
راستہ چھوڑ کر
حال و ماضی کا ہر سلسلہ چھوڑ کر
اپنے علم و ہنر سے نچوڑا ہوا
ہر اثر توڑ کر
قلب کی منزلوں کے تعاقب میں اپنے ہی اندر
مسلسل اترتے ہوئے
اپنے قالب کو رستہ بنائے ہوئے
دن گزر تے رہے
عمر کٹتی رہی
پہلے پہلے تو بس صرف اپنے لئے
پھر شعورِ ملاپِ جنون و خرد پا لیا تو سبھی دوسروں کے لئے
اپنے اندر سے اٹھتی ہوئی روشنی
اور خوشبو کو بادِ صبا میں ملائے، بسائے ہوئے
اپنی سانسوں کا جھونکا بنائے ہوئے
دن گزرتے رہے
عمر کٹتی رہی
رفتہ رفتہ قرارِ حقیقت ملا
دھیرے دھیرے مقامِ عنایت ملا
اپنے اندر یہ اعجاز پائے ہوئے
راستوں میں سے اک راستہ چن لیا
سب مسافت ختم کر کے بیٹھے رہے
اپنی ہستی کو دیپک بنائے ہوئے
دوسروں کو مسافت کی تکلیف سے
اور بھٹکنے سے یکسر بچائے ہوئے
اپنے قلب و نظر کو
اندھیرے میں روشن دیا کر کے ہر دم جلائے ہوئے
دن گزرتے رہے
عمر کٹتی رہی
لو لگائے ہوئے
لو جلائے ہوئے
دوپہر ۰۳:۲۱
۹۱ مئی۳۲۰۲
گھرپر
aarzo antezar karti hay
آرزو انتظار کرتی ہے
جستجو اعتبار کرتی ہے
تیز آندھی میں اڑ گیا تھا میں
میری ہستی غبار کرتی ہے
ذات میں قید چند یادوں کو
بے خودی خود فرار کرتی ہے
کیوں نہ ہونٹوں سے چھو لیا جائے
تشنگی مجھ سے پیار کرتی ہے
سب خرد مندیوں سے تھک کر ذات
اب جنوں اختیار کرتی ہے
دم بہ دم ڈوبتی ہوئی یہ رات
بے وجہ بے قرار کرتی ہے
یاد کا گھونٹ گھونٹ پیتا ہوں
اور تمنا خمار کرتی ہے
روز لیتی ہے سانس کی قیمت
زندگی کب ادھار کرتی ہے
یہ ٹھٹھرتی ہوئی اکیلی شب
میرے دل میں شرار کرتی ہے
نفس کے جنگلوں میں میری ذات
رات دن کیا شکار کرتی ہے
غم جلاتا ہے آگہی کی لو
یہ خوشی کیا نثار کرتی ہے
روشنی کے سفر پہ نکلی ذات
تیرگی سے کنار کرتی ہے
غم سے بھرپور زندگی بھی عماد
چین کے پل شمار کرتی ہے
دوپہر ۷۳:۲۱
۷۲مئی ۳۲۰۲
گھرپر
ajamaye kul hawas hay gham ke maqam par
اجماعِ کُل حواس ہے غم کے مقام پر
کربِ شعورِ ذات پہ، دکھ کے قیام پر
قلب و نظر نے عقل و خرد سے گلہ کیا
کیونکر نہیں بضد ہوئے سب انضمام پر
اے دل ترے سے ہٹ کے کئی فیصلے کئے
آئے نہ کوئی حرف ترے احترام پر
خواہش کے راستوں پہ چلو گے تو عمر بھر
بھٹکے پھرو گے تم بھی مشیت کے نام پر
جو راستہ چنیں گے چنیں گے یقیں کے ساتھ
اتنا یقین ہے ہمیں قلبی نظام پر
یہ ترکِ چاہِ نفس کی تکلیف ہے عماد
ہم خود سے لڑ رہے ہیں کسی انتظام پر
رات ۶۳:۹
۷۲ مئی ۳۲۰۲
گھرپر
tataheer badan tazkihi zat se pehle
تطہیرِ بدن تزکیہِ ذات سے پہلے
اور سوچ کی تدبیر ہو جذبات سے پہلے
قالب تو اندھیرے میں بھٹک جائے گا ایسے
روشن کرو یہ قلب گھنی رات سے پہلے
ہاں صبر کے کچھ سال بھی آئے تھے کہ سیکھیں
خاموشی کی تہذیب کسی بات سے پہلے
ان لوگوں کے بارے میں یہ رائے نہیں رکھیے
ایسے نہیں دکھتے تھے یہ صدمات سے پہلے
گزرے ہوئے برسوں سے یہ آنکھیں نہیں سوکھیں
اس سال تو بہہ جائیں گے برسات سے پہلے
انفاق نے کھولا ہے مرا سینہ وگرنہ
جو قلب کا افلاس تھا خیرات سے پہلے
میں نے تو عماد اپنا وتیرہ یہی رکھا
تھوڑا سا عمل علم کی افراط سے پہلے
دوپہر ۶۳:۱
۸۲ مئی۳۲۰۲
گھرپر
dal w damag ko gar be lagam chhod diya
دل و دماغ کو گر بے لگام چھوڑ دیا
مکاتبت کے بنا ہی غلام چھوڑ دیا
کسی نے فقر میں اونچا مقام چھوڑ دیا
کسی نے قلب کو سمجھا تو جام چھوڑ دیا
کسی نے عمر گزاری بچا کے دامن و دل
کسی نے دجل کا پورا نظام چھوڑ دیا
کسی کو درد کی تحریک نے جلا بخشی
کسی نے سوگ میں ہر انتظام چھوڑ دیا
خیال یہ تھا کہ میراثِ درد چلتی رہے
سو اپنے بعد کے لوگوں میں نام چھوڑ دیا
تم اپنی روح فروشی سے گھن نہیں کھاتے
برے بروں نے بھی اتنا تو کام چھوڑ دیا
ہنوز لذتِ کام و دہن نہیں چھٹتی
ابھی کہاں سے منام و کلام چھوڑ دیا
بقا کے راز کو ہم نے فنا کے پاس سنا
خلود پانے کی خاطر دوام چھوڑ دیا
عداوتوں کے گھنے جنگلوں میں کھو گئے لوگ
محبتوں کا سفر ناتمام چھوڑ دیا
عماد ہجرتِ قلب و نظر کے درد کے بعد
دماغ و دل نے غمِ انصرام چھوڑ دیا
شام ۹۳:۵
یکم جون ۳۲۰۲
گھرپر
bad az kẖrạby̰i besiar
بعد ازخرابیِ بسیار
ایک آنسو جو آنکھوں سے ٹپکا نہیں
ایک نوحہ جو سینے سے نکلا نہیں
ایک لمحہ جو برسوں سے گزرا نہیں
ایک صدمہ جو قرنوں سے بھولا نہیں
قلب میں آگ ہے، سوچ میں جوگ ہے
دل میں اک سوگ ہے، جذب کا بھوگ ہے
راستے راستوں سے ملے، کٹ گئے
لوگ بڑھ بڑھ کے آگے ہوئے، ہٹ گئے
جو کبھی ایک تھے، سب کے سب بٹ گئے
بال بھی اب تو مٹی تلے اٹ گئے
سوچ تھمتی نہیں، دل بہلتا نہیں
سوگ رکتا نہیں، بھوگ چھٹتا نہیں
کیا بتائیں کہ کس کس سے کٹ آئے ہیں
سوگ اور جوگ میں یوں گھسٹ آئے ہیں
قلب و جان و جگر سے نمٹ آئے ہیں
یعنی اپنے ہی اندر سمٹ آئے ہیں
قلب میں آگ کیا، سوچ میں جوگ کیا
دل میں اب سوگ کیا، جذب کا بھوگ کیا
کوئی آنسو نہیں جو ٹپک پائے اب
کوئی نوحہ نہیں کرب دے جائے اب
کوئی لمحہ نہیں پھیلتا ہائے اب
کوئی صدمہ نہیں جو ہمیں کھائے اب
دوپہر۲۵:۱
۲۱ جون ۳۲۰۲
گھرپر
khayal chal pada hay ek raaste pah, kiya kahin
خیال چل پڑا ہے ایک راستے پہ، کیا کہیں
نظر اٹھی ہوئی ہے ایک زاویے پہ، کیا کہیں
جنوں خرد کے نام پر بہت سے غم اٹھا لئے
اب آگئے ہیں بے خودی کے سلسلے پہ، کیا کہیں
دل و نظر کی بات تھی دماغ تک پہنچ گئی
شعور و بے خودی کے اس معاشقے پہ کیا کہیں
نظر کا التفات تھا، جنون کا ثبات تھا
پھر اس کے بعد شہرِ دل کے واقعے پہ کیا کہیں
جو رو دیے تھے صرف اپنی بات کی شکست پر
وہ اپنی ذات ٹوٹنے کے سانحے پہ کیا کہیں
جو چار دن کی بات ہو تو راستے بدل بھی لیں
عماد ساری عمر کے مغالطے پہ کیا کہیں
سہ پہر۳۱:۴
۱۳ جولائی۳۲۰۲
گھرپر
kwad kiya, yahan to jasm w jan ka dar akhad gaya
کواڑ کیا، یہاں تو جسم و جاں کا در اکھڑ گیا
پہ قلب کی مزاحمت سے زورِ شر اکھڑ گیا
مری جڑیں زمین میں اتر گئیں، بکھر گئیں
تبھی تو میں کھڑا رہا اگرچہ سر اکھڑ گیا
شعور و بے خودی ادھیڑتے اکھیڑتے رہے
جب اپنا سامنا کیا تو آج ڈر اکھڑ گیا
خرد کی بارشوں میں غم کی چھت شعور پر گری
جنوں کے زلزلوں سے آرزو کا گھر اکھڑ گیا
مجھے لگا شکستِ ذات جھیل جائے گا یہ دل
غموں میں بھی کھڑا رہوں گا میں، مگر اکھڑ گیا
یہ آخری کمین گاہِ آرزوئے راز ہے
نہیں بچے گی جستجو یہ قلب گر اکھڑ گیا
عماد غم کی رات میں جنوں کی آندھیاں چلیں
سنا ہے شہرِ ذات میں کوئی شجر اکھڑ گیا
رات ۱۱:۱۱
۱۳ جولائی ۳۲۰۲
گھرپر
shoori hasti ne kas adasi min kise dikh min janum liya tha
شعورِ ہستی نے کس اداسی میں کیسے دکھ میں جنم لیا تھا
غموں کی گودوں میں آنکھ کھولی تھی اور تنہائی میں پلا تھا
جنوں مرا مسئلہ نہیں ہے، غموں کا بھی سلسلہ نہیں ہے
مگر جو سوچوں میں چل رہا تھا، مگر جو ادراک بڑھ رہا تھا
مجھے کبھی وسوسوں نے گھیرا نہ دل نے بے چینیاں دکھائیں
اداس لمحوں سے فیض پانا تمہیں لگا ایک حادثہ تھا
یہ کہکشاؤں میں گم معارج تو میری ہستی میں کھل رہے تھے
جو آسمانوں میں جا کھلا تھا وہ میرے اندر کا راستہ تھا
دل و جگر جب قرینِ غم تھے تو آرزو کا سراغ پایا
عمیق لمحوں کی صحبتوں سے ہی جستجو کا پتا ملا تھا
جب ایک مدت کے بعد واپس پلٹ کے آئے تو ہم نے دیکھا
سبھی مسافر گزر گئے تھے، عماد رستہ وہیں کھڑا تھا
صبح ۰۳:۵
۲ اگست ۳۲۰۲
گھرپر
ad kare kah qalab ki khadki khali rahe
اللہ کرے کہ قلب کی کھڑکی کھلی رہے
ذہن و نظر میں روشنی یوں ہی بسی رہے
بڑھتے رہیں شعور بھی اور بے خودی بھی یوں
میرے وجود و قلب میں ہم شیرگی رہے
ماضی سے جو ملا ہے وہ اعجاز بن سکے
فردا میں قلب و روح کی آسودگی رہے
نورِ خدا سے ایسے لگائی ہوئی ہو لو
ہر پور پور روشنی، خوشبو بنی رہے
بیٹھا رہوں جلا کے میں نورِ ازل کی لو
دنیا خدا کے نور سے روشن ہوئی رہے
دوپہر ۰۱:۲۱
۰۱ اگست ۳۲۰۲
گھرپر
shama gham jal rahi hay jalaye rakho
شمعِ غم جل رہی ہے جلائے رکھو
زندگی چل رہی ہے چلائے رکھو
یہ فراق اب رگوں میں اتر جائے گا
بھول جانے کو اب تم بھلائے رکھو
میرے خوابوں میں بھی رتجگے ہیں میاں
اب جگائے رکھو یا سلائے رکھو
اور دو چار دن حوصلہ ہو رہے
جستجو آرزو میں ملائے رکھو
قلب کو تشنگی کا بہت خوف ہے
جامِ امید اس کو پلائے رکھو
خونِ دل سے نہیں کر سکے غسلِ جاں
آنسوؤں سے ہی چہرہ دھلائے رکھو
قلب کی پیاس کیا، قلب کی بھوک کیا
غم پلائے رکھو، دکھ کھلائے رکھو
جسم و جاں تھک رہے ہیں عماد آج کل
تھوڑی امید ان کو دلائے رکھو
شام ۷۰:۴
۵۱ اگست ۳۲۰۲
گھرپر
apane oper hasar mangta hay
اپنے اوپر حصار مانگتا ہے
بے وجہ دل قرار مانگتا ہے
پہلے اس کو حصول چاہئے تھا
اور اب انتظار مانگتا ہے
اتنی ترتیب سے الجھتا ہوں
قلب کچھ انتشار مانگتا ہے
قلب کہتا ہے بے کرانی ہو
ذہن کیوں اختصار مانگتا ہے
بے وقوفی کی بات کرتا ہے
آرزو کا شمار مانگتا ہے
جس کو منجھدار سے محبت ہو
پھر کہاں وہ کنار مانگتا ہے
مانگتا ہے جنوں میں پردہ دری
اور پھر بار بار مانگتا ہے
جستجو میں تھکا ہوا یہ دل
آرزو کا غبار مانگتا ہے
بس اجازت ہو ایک کاوش کی
دل کہاں اعتبار مانگتا ہے
دلدلوں میں چلا ہوا یہ جسم
پیر کے نیچے خار مانگتا ہے
کیا حماقت ہے یہ عماد احمد
ذات پر اختیار مانگتا ہے
شام ۷۲:۴
۵۱ اگست ۳۲۰۲
گھرپر
wafori jazbat min janon ne khard se kiya mastaar manga
وفورِ جذبات میں جنوں نے خرد سے کیا مستعار مانگا
بقا کی منزل کی سمت پوچھی کہ جوہرِ انتظار مانگا
فنا کے رستوں پہ چلنے والے رموزِ تسلیم جانتے ہیں
کبھی نہیں آرزو بتائی، کبھی نہیں اختیار مانگا
سمجھ گئے جب کہ نفسِ آدم کا امتحاں اس کی ذات میں ہے
صدائے کن میں سکون چاہا، رضائے حق میں قرار مانگا
قلوب برفاب ہو چکے تھے، دماغ جیسے کے سرد خانے
تبھی تو کچھ سرپھروں نے ضد میں جنوں کا جلتا شرار مانگا
بدن میں جب خوف بھر گیا تو چہار قل سے امان پائی
نقب لگا شر کا قلب پر جب تو نورِ حق کا حصار مانگا
وفا کے رستے پہ چلنے والے سبھی مسافر گزر گئے ہیں
کسی نے گردن ہی ہار دی ہے، کسی نے گردن میں ہار مانگا
جو زندگی کی دکاں پہ آیا ہے اب وہ قیمت ادا کرے گا
کسی نے چاہا کہ نقد لے لوں، کسی نے سودا ادھار مانگا
خیال کیا، احتمال کیا ہے، یقین و شک کا سوال کیا ہے
عماد کس نے تمہاری سوچوں کے زاویوں کا شمار مانگا
رات ۲۵:۰۱
۱۲ اگست ۳۲۰۲
گھرپر
min adam se wajud min aaya
میں عدم سے وجود میں آیا
پھر بدن کی حدود میں آیا
قلب نکلا دہر کے چنگل سے
قید چھوٹی، قیود میں آیا
کرب تسلیم و ضبط سے پایا
اور سکوں بھی سجود میں آیا
مشرق و مغرب و شمال و جنوب
سب چھٹے دل عمود میں آیا
عمر بھر کی ریاضتوں کا صلہ
ایک عام الوفود میں آیا
نفس کی بدلیاں چھٹیں تو قلب
پھر سپہرِ کبود میں آیا
ترکِ دنیا بھی ترک کر ڈالا
یعنی باطن نمود میں آیا
اس طبیعت میں انکسار عماد
زاہدوں کے جنود میں آیا
رات ۸۵:۲۱
گھرپر
dar w dewar se wahsht, shabihi yaar se wahsht
در و دیوار سے وحشت، شبیہِ یار سے وحشت
جنوں سے، عقل سے، تہذیب سے، اقدار سے وحشت
تری شعلہ بیانی کی اسیری میں رہے قرنوں
مگر ہونے لگی ہے اب تری گفتار سے وحشت
کبھی ہم بھی کسی کی نرم گفتاری کے قائل تھے
پر اب محسوس ہوتی ہے اسی کردار سے وحشت
غمِ جاناں، غمِ ہجراں، غمِ دوراں، غمِ ہستی
ہمیں ہوتی رہی ہے عمر کے ادوار سے وحشت
عماد احمد اب اس بستی میں ہر چہرے سے ظاہر ہے
تری یادوں سے اکتاہٹ، ترے دیدار سے وحشت
شام ۲۱:۵
۸ نومبر ۳۲۰۲
گھرپر
agar ham ajizi ko zist ki maraj kahate hen
اگر ہم عاجزی کو زیست کی معراج کہتے ہیں
تو سالوں ذات کے صحرا میں پھر کر آج کہتے ہیں
جو اپنے آپ کو ڈھوتا رہے مزدور ہوتا ہے
کرے جو ذات کی تعمیر اس کو راج کہتے ہیں
جنوں کے دور میں بخیہ گری کا فن نہیں چھوڑا
ہمیں اس شہر میں کچھ اہل دل نساج کہتے ہیں
جنوں والوں نے دشت و کوہ میں رستے نکالے تھے
انہی راہوں کو اب اہلِ خرد منہاج کہتے ہیں
ہماری آنکھ سے ٹپکا ہے برسوں بعد اک آنسو
اسی سیلِ بلا کو درد کا اخراج کہتے ہیں
تو تم نے آج تک میرے قریں اک غم نہیں دیکھا
نہیں دیکھو گے آئندہ بھی، اس کو لاج کہتے ہیں
شعور و آگہی کی ایک قیمت ہے عماد احمد
جسے تم بوجھ کہتے ہو اسے ہم تاج کہتے ہیں
دوپہر ۱۴:۲۱
۸ نومبر ۳۲۰۲
گھرپر
ghami hasti ki harmat ka agar adarak ho jata
غمِ ہستی کی حرمت کا اگر ادراک ہو جاتا
تو قلب و روح، جسم و جان سب کچھ پاک ہو جاتا
یہ خاک و خوں کا خاکستر لیے پھرنے سے بہتر تھا
میں خود کو نور کر لینے کی خاطر خاک ہو جاتا
خرد کے ماہ و سال ایسی زبوں حالی سے بچ جاتے
اگر جوشِ جنوں میں چار دن بیباک ہو جاتا
کبھی اندر خلا بڑھنے لگے تو سوچ آتی ہے
غبارِ نفس ہونے سے خس و خاشاک ہو جاتا
ذرا بھی زعم ہو جاتا اگر اپنی طہارت کا
عماد احمد تمہارا قلب ہی ناپاک ہو جاتا
صبح ۵۵:۸
۰۲ نومبر ۳۲۰۲
گھرپر
wafori naur ki ak jo ka antezar raha
وفورِ نور کی اک جو کا انتظار رہا
ہمارے قلب کو اک ہو کا انتظار رہا
بدن اداس ہوا پھر شکست مان گیا
اگرچہ روح کو خوشبو کا انتظار رہا
بہت سنی تھی فراقی کے ماہ و سال میں بات
شبِ وصال میں جادو کا انتظار رہا
شدید دھوپ میں سایہ تلاش کرتے رہے
اندھیری رات میں جگنو کا انتظار رہا
مہیب ذات کے جنگل میں بھیڑیے ہی ملے
ہمیش قلب کے آہو کا انتظار رہا
کوئی تو سیلِ غمِ زندگی میں ڈوب گیا
کسی کی آنکھ کو آنسو کا انتظار رہا
تکلفات کا ایسا حجاب قلب میں تھا
عماد آپ کو اک تو کا انتظار رہا
صبح ۰۳:۹
۶ دسمبر ۳۲۰۲
گھرپر
safar ke andar athi mare min khard se wahsht,janon ki chaht
سفر کے اندر اٹھی مرے میں خرد سے وحشت، جنوں کی چاہت
وگرنہ گھر میں تو بڑھ رہی تھی بدن کی راحت، سکوں کی چاہت
کسی کی سوچوں کے معترف ہو تو آؤ جذبوں کے در بھی کھولو
عقیدتوں سے بھی ماورا ہے محبتوں کے فسوں کی چاہت
ہزار ہا سال ہو گئے ہیں بشر بشر سے نبرد میں ہے
فنا ہوں کیسے بقا کی جنگیں، مٹے گی کیسے یہ خوں کی چاہت
ہماری ہستی میں رمز برپا ہے اور ہم پا بہ گل کھڑے ہیں
ہمارے اندر عروجِ ہستی، ہمارے اندر زبوں کی چاہت
عماد احمد تمہارے قلب و نظر میں اٹھتے سوال سارے
جواب بن جائیں گے کریدو گے جب کبھی بھی دروں کی چاہت
شام ۵۱:۶
۵۲ دسمبر ۳۲۰۲
ڈیفنس ایچ بلاک مارکیٹ، لاہور
siyah raat maqdar hay roshani muqadur
سیاہ رات مقدر ہے روشنی مقدور
سحر سے پہلے بھی کاوش کریں گے لوگ ضرور
نصیب ہے تو اسے آزما کے دیکھتے ہیں
اگر نہیں ہے تو پھر کاہے بیٹھنا مجبور
کسی کے ساتھ نہ چلنے کا دکھ تو ہے لیکن
میں اپنی ذات کے آگے نہیں ہوا معذور
غرورِ ذات سے آگے، شعورِ قلب کے بعد
غبارِ نفس کے صحرا میں آرزو کا ظہور
عماد لفظ حقیقت نہیں بتا سکتے
خموشیوں میں ہی ہونے دے ذات کا یہ وفور
شام۴۲:۶
۶۲ دسمبر ۳۲۰۲
غازی روڈ، لاہور
suci ka tanhi se rabt raha
سچائی کا تنہائی سے ربط رہا
اکثر سینہ سخت، کلیجہ لخت رہا
صدیوں کے دکھ لمحوں میں محسوس کئے
لمحوں کا غم سالوں دل پر ثبت رہا
دل ٹوٹا، نبضیں ڈوبیں، سانسیں الجھیں
لیکن چہرے اور انکھوں میں ضبط رہا
دنیا کی خوشیوں کے تناظر میں جانچا
پھر پلٹا اور اپنے غم میں مست رہا
اونچے لوگوں کی پستی دیکھی تھی عماد
اچھا تھا اپنی نظروں میں پست رہا
شام۴۳:۵
یکم جنوری۴۲۰۲
بحریہ ٹاوٗن لاہور میں ایک عزیز کے گھر پہ
amkan
امکان
زندگی کٹ گئی
آگہی کا سفر دل میں چلتا رہا
وقت کٹتا رہا
اپنی ہستی کا منظر بدلتا رہا
اپنے اندر ہی یوں ہم بدلنے لگے
ساری خوشیاں سبھی غم بدلنے لگے
اپنے قلب و نظر کے حوالوں سے نکلے
خیالوں کے موسم بدلنے لگے
تو دکھا آرزو کا انوکھا نگر
اس نگر کو جو دیکھا تو خواہش جگی
جس سے کھلنے لگے اور بھی راستے
اور ان سے سفر
آرزو، خواہشیں، راستے اور سفر
اس پہ باطن سے ملتی ہوئی اک خبر
اور ان کا ثمر
جس کے اک بیج سے
ایک پورا شجر
دل میں بڑھتا رہا
اس سے ہستی کا منظر بدلتا رہا
اپنے اندر سے اٹھتے سوالوں کا ڈر
گاہے بڑھتا رہا
گاہے گھٹتا رہا
پھر بہت فاصلوں، راستوں، موسموں اور سالوں نے پرکھا ہمیں
تو وہ دن آ گیا
راستوں سے سوا، بادلوں سے پرے بے نشاں اور بے رنگ رستے جو پہلے کبھی آنکھ کی پتلیوں کی رسائی میں آئے نہ تھے
یوں دکھائی دیے
جیسے روشن دیے
آنکھ میں گھل گئے
آسمانوں کے در قلب پر کھل گئے
اپنی ہستی کے غم جو بہت سال سے داغِ دل بن رہے تھے سبھی ایک دم دھل گئے
اور ان سے پرے
ڈوب کر پھر ابھرتے ہوئے روشنی سے بنے پیکروں کے وہ پر
پردہِ قلب پر جب دکھائی دیے تو حقائق کے کتنے ورق کھل گئے
اور دکھنے لگے اپنی ہستی سے پیچھے کے
پہلے کے غم
کائناتی الم
حال کے خیر و شر سے بہم زیر و بم
اور ہم میں جو ہونے کا امکان ہے
اس کے سارے قدم
اس کو لکھنے کی ساری سیاہی
قلم
اور ہم اور ہم
دوپہر۷۲:۱
۸ جنوری ۴۲۰۲
بہن کے گھر پر، مال روڈ، لاہور
antahaye artaqaye adim khaki to dekh
انتہائے ارتقائے آدمِ خاکی تو دیکھ
نور کے پردے کیے ہیں چاک بے باکی تو دیکھ
صاف ستھرے بام و در والے محلوں تک رہو
اپنی تہذیبی روایت کی یہ ناپاکی تو دیکھ
ان گنت رستے ہیں ہر رستے پہ سو سو دام ہیں
جو مشیت پر ہے راضی اس کی چالاکی تو دیکھ
قلب راضی ہے مگر تشکیک کی تسکین کو
نفسِ امارہ گواہی دے گا؟ تو شاکی تو دیکھ
آرزو اور جستجو نے منزلیں پا لیں مگر
دل کی غم ناکی تو دیکھ، آنکھوں کی نم ناکی تو دیکھ
ذات کے گہرے بھنور میں خود کو پھینکا، ہنس دیا
تو عماد احمد کی اپنی جاں پہ سفاکی تو دیکھ
دوپہر ۰۵:۲
۷ فروری ۴۲۰۲
گھرپر