Intro

حرفِ آغاز


یہ کتاب میری تخلیقی زندگی کے سات خشک سالی کے برسوں اور ایک رس نچوڑنے کے سال کا نتیجہ ہے۔عمر کے پہلے اکتیس سالوں میں جو کچھ میں نے تحریر کیا،وہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ بیشتردانستہ اور کچھ نادانستہ۔ اس کے بعد آنے والے سات برسوں میں میں نے ایک مصرع بھی نہ کہا۔اس ہفت سالہ زندگی کا احوال ایک تفصیلی ذکر کا محتاج ہے سو اس تذکرے کو کبھی اور کے لیے اُٹھاتے ہوئے یہاں صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ قلب شاید کیفیت ِ اظہار سے زیادہ کیفیتِ جذب میں تھا۔سو اگرچہ میری زبان اس مدت میں کوئی نمو ظاہر نہ کرسکی مگر میرے اندر کی تشکیل میں ان کا نمایاں کردار ہے۔ بس اندر کا ایک سفر تھا جو شروع ہوا اور پھیلتا چلا گیا۔


میں نہیں جانتا تھا کہ عَسَیٰ رَ بِّیٓ اَنْ یَّھْدِیَنِی سَوَآءَ السَّبِیلِ سے شروع ہونے والا یہ سفر اتنا لمبا، پرپیچ اور حیران کن ہوگا مگر اپنی زندگی کے مدین کا رخ کرتے وقت کسے معلوم ہوتاہے کہ کتنے ماہ و سال اور کتنے سنگ میل آئیں گے چوٹی پہ آگ دیکھنے سے قبل؟بلکہ کسے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چوٹی یا کوئی آگ ہے بھی؟انسان تو بس اپنے اندر ایک آگ لیے ایک موہوم اشارے کے پیچھے چل پڑتاہے۔


اس سفر نے میری تعمیر بھی کی ہے،تشکیل بھی؛ مجھے توڑا بھی ہے اور جوڑا بھی۔استعارہ نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ مجھے واقعی خود کو ریزہ ریزہ کرنے اور دوبارہ خود کو جوڑنے کے عمل سے باتفصیل گزرنا پڑا ہے۔وہ شخص جسے میں برسوں پیچھے چھوڑ آیا تھا، نہ تو مانوس لگتا ہے،نہ معلوم۔یہ کچھ سال جگ شناسی سے چلے اور خود شناسی سے ہوتے ہوئے خداشناسی کی اوّلین منزلوں تک لے گئے گویا سفر شروع ہوگیاکہ اب خدا شناسی کی آخری منزل تک تو نہ کوئی پہنچا ہے نہ پہنچے گا۔


جگ شناسی تو جو ہوئی سو ہوئی۔اس کا تذکرہ یہاں محال بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔ہاں اس کا کچھ پرتو میری شاعری میں نظر آجائے تو اور بات ہے۔ خدا شناسی جو ہوئی؛وہ ایک سمندر ہے جو نثر کی کچھ کتب کی صورت میں میں تفصیلاًبیان کرپاؤں گا۔اس کا موقع تو ہے کہ اس کا موقع تو ہمیشہ ہوتاہے مگر ان مختصر صفحات میں میرا قلم اس جامع مضمون کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے۔ابھی بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ قلب نے کچھ گفت و شنید کی ہے جو بشرطِ زندگی اور بشرطِ اذنِ ربی کچھ اور صفحات پر بیان ہوگی۔


خود شناسی کی بات خیر ہوسکتی ہے کہ وہ برمحل بھی ہے اور قابلِ بیان بھی۔خود کو سمجھا تو جاناکہ میں بنیادی طور پر ایک تثلیث ہوں۔ مجھ میں تین انسان رہتے ہیں۔پہلا شخص خالصتاً نظریاتی ہے۔میری زندگی کو بھی بحیثیت مجموعی وہی جی رہاہے۔میری زندگی کے سارے فیصلے وہی کرتاہے۔میرے اندر دوسرا مکین ایک عملی آدمی ہے۔اب چونکہ حکومت نظریاتی انسان کی ہے تو وہ اپنے عمل کا دائرہ ان نظریات کی حد میں رہتے ہوئے کھینچتا ہے مگر جتنی آزادی اسے حاصل ہے؛ اس میں رہتے ہوئے وہ بھرپور کردار ادا کرتاہے۔اس آدمی کو دنیا جانتی ہے اور معاشرہ تسلیم کرتاہے۔جو مجھے دنیا داری کے حوالوں سے جانتاہے انہی دو میں سے کسی ایک یا دونوں حوالوں سے جانتاہے۔

ان دو مضبوط لوگوں کے بیچ میں میرے اندر ایک کمزور شخص بھی رہتا ہے۔یہ اپنے گھر میں بھی اجنبی ہے۔یہ شخص شاعر ہے؛خواب دیکھتاہے؛ہنستا اور روتاہے؛مگر یہ تنہائی پسند ہے اور خاموش رہنا اسے اچھا لگتا ہے۔اس نے خاموشی سے میرے اندر کے باقی دونوں انسانوں کو ایک زندگی کی تشکیل کرتے دیکھا ہے۔یہ کتاب اسی خاموش شخص نے لکھی ہے۔تبھی اس کتاب میں نہ میرے نظریات نظر آئیں گے نہ میرا عملی ہونا۔اگر نظر آئیں گے تو وہ جذبے جو ایک مضبوط زندگی کی تشکیل کے نتیجے میں ایک کمزور انسان کے مقدر میں آتے ہیں یا یوں کہیے کہ یہ ایک بامقصد زندگی گزارنے کے عمل کے دوران اندر کے انسان پر گزرنے والے حوادث کا بیان ہے۔


اِس کتاب میں آپ کو کسی شاعر یا ادیب کا تحریر کردہ دیباچہ یا مقدمہ نظر نہیں آئے گا۔اِس کی وجہ میں خود ہوں۔میں محض کتاب کی تشہیر کی خاطر کسی ادیب سے کچھ الفاظ تحریر کروا کر زیبِ قرطاس کرنے کو مناسب نہیں سمجھتا۔میرے لیے یہ ضروری تھا کہ کوئی ایسا شخص مقدمہ لکھتا جو اگر کتاب اور صاحبِ کتاب کی زندگی کے منظر اور پسِ منظر کا حصہ نہیں تو کم از کم اس سے کچھ نسبت ضرور رکھتا ہوتا۔ میں اپنی زندگی کے تینوں بنیادی رخوں؛ تخلیقی، عملی اور نظریاتی میں ایسا کوئی شخص نہیں پاتا۔ان تینوں ہی پہلوؤں میں نہ میرا کوئی استاد رہا ہے اور نہ ہی کوئی ہم سفر؛ ہاں گاہے بہ گاہے کچھ  راہزنوں سے ضرور واسطہ پڑتا رہا ہے۔ان تینوں پہلوؤں کی تشکیل تنہائی میں ہوئی ہے۔ انہوں نے بن باس گمنامی میں کاٹے ہیں اور اب جس سنگِ میل پر میں پہنچا ہوں محض اذنِ ربی سے پہنچا ہوں۔


جیساکہ میں نے عرض کیا کہ میں نے خشک سالی کے ان برسوں سے قبل کہی جانے والی تمام شاعری سالہاسال پہلے ہی تلف کردی تھی اور زندگی کے ان سالوں کی شاعری نہ تو اس کتاب میں ہے اور نہ ہی میرے پاس محفوظ ہے، ماسوائے اس ایک قطعے کے، جو تقریبا ً بیس برس پراناہے۔ یہ مجھے یاد تھا اور شاید اسی لیے یاد رہ گیا تھا کہ اقتباس کا حصہ بن جائے۔۔۔


آنکھوں سے کربِ ذات چھپایا نہیں گیا

عمرِ رواں کا بوجھ اُٹھایا نہیں گیا

پل پل کشید کرکے گزاری ہے زندگی

ہستی کا قرض پھر بھی چکایا نہیں گیا


والسلام

عماد احمد

۲۲  شوال،۱۴۴۱ ہجری 

بمطابق۴۱  جون  ۰۲۰۲  ؁