Intro
حرفِ آغاز
یہ کتاب میری تخلیقی زندگی کے سات خشک سالی کے برسوں اور ایک رس نچوڑنے کے سال کا نتیجہ ہے۔عمر کے پہلے اکتیس سالوں میں جو کچھ میں نے تحریر کیا،وہ میرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ بیشتردانستہ اور کچھ نادانستہ۔ اس کے بعد آنے والے سات برسوں میں میں نے ایک مصرع بھی نہ کہا۔اس ہفت سالہ زندگی کا احوال ایک تفصیلی ذکر کا محتاج ہے سو اس تذکرے کو کبھی اور کے لیے اُٹھاتے ہوئے یہاں صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ قلب شاید کیفیت ِ اظہار سے زیادہ کیفیتِ جذب میں تھا۔سو اگرچہ میری زبان اس مدت میں کوئی نمو ظاہر نہ کرسکی مگر میرے اندر کی تشکیل میں ان کا نمایاں کردار ہے۔ بس اندر کا ایک سفر تھا جو شروع ہوا اور پھیلتا چلا گیا۔
میں نہیں جانتا تھا کہ عَسَیٰ رَ بِّیٓ اَنْ یَّھْدِیَنِی سَوَآءَ السَّبِیلِ سے شروع ہونے والا یہ سفر اتنا لمبا، پرپیچ اور حیران کن ہوگا مگر اپنی زندگی کے مدین کا رخ کرتے وقت کسے معلوم ہوتاہے کہ کتنے ماہ و سال اور کتنے سنگ میل آئیں گے چوٹی پہ آگ دیکھنے سے قبل؟بلکہ کسے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چوٹی یا کوئی آگ ہے بھی؟انسان تو بس اپنے اندر ایک آگ لیے ایک موہوم اشارے کے پیچھے چل پڑتاہے۔
اس سفر نے میری تعمیر بھی کی ہے،تشکیل بھی؛ مجھے توڑا بھی ہے اور جوڑا بھی۔استعارہ نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ مجھے واقعی خود کو ریزہ ریزہ کرنے اور دوبارہ خود کو جوڑنے کے عمل سے باتفصیل گزرنا پڑا ہے۔وہ شخص جسے میں برسوں پیچھے چھوڑ آیا تھا، نہ تو مانوس لگتا ہے،نہ معلوم۔یہ کچھ سال جگ شناسی سے چلے اور خود شناسی سے ہوتے ہوئے خداشناسی کی اوّلین منزلوں تک لے گئے گویا سفر شروع ہوگیاکہ اب خدا شناسی کی آخری منزل تک تو نہ کوئی پہنچا ہے نہ پہنچے گا۔
جگ شناسی تو جو ہوئی سو ہوئی۔اس کا تذکرہ یہاں محال بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔ہاں اس کا کچھ پرتو میری شاعری میں نظر آجائے تو اور بات ہے۔ خدا شناسی جو ہوئی؛وہ ایک سمندر ہے جو نثر کی کچھ کتب کی صورت میں میں تفصیلاًبیان کرپاؤں گا۔اس کا موقع تو ہے کہ اس کا موقع تو ہمیشہ ہوتاہے مگر ان مختصر صفحات میں میرا قلم اس جامع مضمون کا حق ادا کرنے سے قاصر ہے۔ابھی بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ قلب نے کچھ گفت و شنید کی ہے جو بشرطِ زندگی اور بشرطِ اذنِ ربی کچھ اور صفحات پر بیان ہوگی۔
خود شناسی کی بات خیر ہوسکتی ہے کہ وہ برمحل بھی ہے اور قابلِ بیان بھی۔خود کو سمجھا تو جاناکہ میں بنیادی طور پر ایک تثلیث ہوں۔ مجھ میں تین انسان رہتے ہیں۔پہلا شخص خالصتاً نظریاتی ہے۔میری زندگی کو بھی بحیثیت مجموعی وہی جی رہاہے۔میری زندگی کے سارے فیصلے وہی کرتاہے۔میرے اندر دوسرا مکین ایک عملی آدمی ہے۔اب چونکہ حکومت نظریاتی انسان کی ہے تو وہ اپنے عمل کا دائرہ ان نظریات کی حد میں رہتے ہوئے کھینچتا ہے مگر جتنی آزادی اسے حاصل ہے؛ اس میں رہتے ہوئے وہ بھرپور کردار ادا کرتاہے۔اس آدمی کو دنیا جانتی ہے اور معاشرہ تسلیم کرتاہے۔جو مجھے دنیا داری کے حوالوں سے جانتاہے انہی دو میں سے کسی ایک یا دونوں حوالوں سے جانتاہے۔
ان دو مضبوط لوگوں کے بیچ میں میرے اندر ایک کمزور شخص بھی رہتا ہے۔یہ اپنے گھر میں بھی اجنبی ہے۔یہ شخص شاعر ہے؛خواب دیکھتاہے؛ہنستا اور روتاہے؛مگر یہ تنہائی پسند ہے اور خاموش رہنا اسے اچھا لگتا ہے۔اس نے خاموشی سے میرے اندر کے باقی دونوں انسانوں کو ایک زندگی کی تشکیل کرتے دیکھا ہے۔یہ کتاب اسی خاموش شخص نے لکھی ہے۔تبھی اس کتاب میں نہ میرے نظریات نظر آئیں گے نہ میرا عملی ہونا۔اگر نظر آئیں گے تو وہ جذبے جو ایک مضبوط زندگی کی تشکیل کے نتیجے میں ایک کمزور انسان کے مقدر میں آتے ہیں یا یوں کہیے کہ یہ ایک بامقصد زندگی گزارنے کے عمل کے دوران اندر کے انسان پر گزرنے والے حوادث کا بیان ہے۔
اِس کتاب میں آپ کو کسی شاعر یا ادیب کا تحریر کردہ دیباچہ یا مقدمہ نظر نہیں آئے گا۔اِس کی وجہ میں خود ہوں۔میں محض کتاب کی تشہیر کی خاطر کسی ادیب سے کچھ الفاظ تحریر کروا کر زیبِ قرطاس کرنے کو مناسب نہیں سمجھتا۔میرے لیے یہ ضروری تھا کہ کوئی ایسا شخص مقدمہ لکھتا جو اگر کتاب اور صاحبِ کتاب کی زندگی کے منظر اور پسِ منظر کا حصہ نہیں تو کم از کم اس سے کچھ نسبت ضرور رکھتا ہوتا۔ میں اپنی زندگی کے تینوں بنیادی رخوں؛ تخلیقی، عملی اور نظریاتی میں ایسا کوئی شخص نہیں پاتا۔ان تینوں ہی پہلوؤں میں نہ میرا کوئی استاد رہا ہے اور نہ ہی کوئی ہم سفر؛ ہاں گاہے بہ گاہے کچھ راہزنوں سے ضرور واسطہ پڑتا رہا ہے۔ان تینوں پہلوؤں کی تشکیل تنہائی میں ہوئی ہے۔ انہوں نے بن باس گمنامی میں کاٹے ہیں اور اب جس سنگِ میل پر میں پہنچا ہوں محض اذنِ ربی سے پہنچا ہوں۔
جیساکہ میں نے عرض کیا کہ میں نے خشک سالی کے ان برسوں سے قبل کہی جانے والی تمام شاعری سالہاسال پہلے ہی تلف کردی تھی اور زندگی کے ان سالوں کی شاعری نہ تو اس کتاب میں ہے اور نہ ہی میرے پاس محفوظ ہے، ماسوائے اس ایک قطعے کے، جو تقریبا ً بیس برس پراناہے۔ یہ مجھے یاد تھا اور شاید اسی لیے یاد رہ گیا تھا کہ اقتباس کا حصہ بن جائے۔۔۔
آنکھوں سے کربِ ذات چھپایا نہیں گیا
عمرِ رواں کا بوجھ اُٹھایا نہیں گیا
پل پل کشید کرکے گزاری ہے زندگی
ہستی کا قرض پھر بھی چکایا نہیں گیا
والسلام
عماد احمد
۲۲ شوال،۱۴۴۱ ہجری
بمطابق۴۱ جون ۰۲۰۲
Preface
عرضِ مکرر
قلب و آگہی کی اشاعتِ دوئم حاضرِخدمت ہے۔اب سے محض تین ماہ قبل کتاب کی رونمائی کے وقت میرے گما ن میں بھی نہیں تھا کہ اتنی کم مدت میں ۰۰۰۱ کتب اپنے قارئین تک رسائی حاصل کر لیں گی۔ میرے لیے یہ امر باعثِ مسرت بھی ہے اور موجبِ تشکر بھی۔اس مختصر سے عرصہ میں بہت سے احباب نے مجھ سے رابطہ فرمانے کی کوشش کی۔کچھ سے بات ہو سکی اور کچھ کے پیغامات بالواسطہ ملتے رہے۔مجھے خوشی ہے کہ قارئین کی ایک بہت بڑی تعداد نے وہ سوالات اُٹھائے جو میرا متمع ِنظر تھے۔
کچھ سوالات تو تواتر سے پوچھے گئے مثلاََ یہ کہ میں نے سات سال چپ کیوں سادھے رکھی؟یا یہ کہ سات سالوں کا وہ سفر جو میرے اندر باہرہے اس کا کیا ماجرا ہے؟کچھ نے لکھا کہ یہ ظاہر ہے کہ میں نے اس کتاب میں جو کچھ بتایا ہے اس سے زیادہ چھپایا ہے۔کچھ احباب تو بات کی مکمل گہرائی تک پہنچ گئے اور مجھ سے کہف،لوح،نفس اور علم ِتاویل کے بارے میں پردہ کشائی کا تقاضا کیا۔
میں بنیادی طور پر شعراء کے قبیل سے تعلق ہی نہیں رکھتا۔میں کبھی اردو ادب یا کسی بھی زبان کے ادب کا طالبِ علم رہا ہی نہیں۔میری تعلیم بھی اکاؤنٹنگ اور قانون کے میدانوں میں ہے۔میں نے نہ کبھی مشاعرے پڑھے ہیں،نہ شعراء کی محافل میں اُٹھا بیٹھا ہوں اور میراسرِدست ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے۔ہاں اللہ نے شعر کہنے کی ایک صلاحیت ودیعت کی ہوئی ہے، سو جب قلب کا پیالہ بھرگیا توچھلک اُٹھا اورقلب و آگہی تخلیق پذیر ہوئی۔
قارئین نے میری دلچسپیوں کے بارے میں جو سوالات اُٹھائے ہیں ان کا مکمل تذکرہ تو شائد نثرکی دو یا تین کتب میں ممکن ہومگر یہاں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میری بنیادی دلچسپی کے مضامین چار ہیں۔ان میں پہلا تو نفسِ انسانی،اس کے ارتقا، تنزلی اور ترقی کو جیسے میں سمجھا ہوں، وہ ہے۔کچھ لوگوں نے روحانیت کی بھی بات کی ہے مگر وہ اسی سفر کا ایک جزو ہے جسے اکیلے پڑھا تو جا سکتا ہے مگر جیا نفس کے سفر کے ساتھ ہی جاتا ہے۔میری دوسری دلچسپی علمِ تاویل ہے۔میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا عرصہ اسی دشت کی سیّاحی میں گزارا ہے۔تیسرے طور پر مَیں علم ِ آخرُالزّماں میں نہ صرف یہ کہ دلچسپی رکھتا ہوں بلکہ اسکی عملی شکل پر بھی بہت کام کر چکا ہوں۔
اب عزلت نشینی کے بہت برسوں کے بعد میں اس بات کومناسب نہیں سمجھتا
یہ سارا سفر اپنے اندر ہی رکھوں اور اپنے ساتھ ہی لحد میں لے جاؤں۔یہاں سے میرا آخری شوق پھوٹتاہے جو ٹریننگ اورڈیویلپمنٹ ہے۔اس کا مقصد انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں قلوبِ انسانی کو حقیقت سے روشناس کرنا ہے۔یہاں بس اتنی ہی تمہید کو کافی سمجھتا ہوں کہ اس سے قارئین یہ سمجھ پائیں گے کہ شاعری کی یہ کتاب ایک نظریاتی اور عملی انسان کی زندگی کا تعارف ہے اور اس میں دیدۂ ِبینا کو وہ سفر نظر آسکتا ہے جو شاید کل کو اس کے بھی نصیب میں ہو۔
کتاب کی دوسری اشاعت میں ایک خوش آئندبات یہ ہے کہ اشاعت ِاوّل میں طباعت کی کچھ غلطیاں رہ گئی تھیں جن کی تصحیح کر دی گئی ہے۔بہت احباب کو یہ بھی شکایت تھی کہ میں نے یہ تو بتا دیا کہ میری پہچان لوح و غار سے ہے مگر اپنا دنیاوی تعارف نہیں کروایا۔عمر کا بالواسطہ ذکر تو خیر کتاب کے دیباچے میں تھا مگر اب میں نے کتاب کے آخری صفحہ پر اپنا ایک سرسری تعارف بیان کر دیا ہے۔میرا تفصیلی تعارف میری ویب سائیٹ پر دیکھا جا سکتاہے۔
دعا ہے کہ یہ کتاب اندر کے بہت سے سفروں کے لیے معاون ثابت ہو۔ آمین
والسلام
عماد احمد
۲۲محرم الحرام۲۴۴۱ ہجری
بمطابق۱۱ ستمبر ۰۲۰۲
1
اللہ ھُو
جاں سنبھلی ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
رگ پھڑکی ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
سانس لیا ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
پھر نکلا ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
نبض چلی ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
شہ رگ بھی ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
دل دھڑکا ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
قلب چلا ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
آنکھ رواں ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
نفس دھواں ہے
ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓاللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
جسم گرم ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
روح میں ضم ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
نرم کھال ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
بال بال ہے
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
زیست کی سرگم
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
سب زیر و بم
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
اندر باہر
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
سارا منظر
اللہ ھُو، اللہ ھُو، اللہ ھُو
2
شافعِ محشر
آپﷺ کے سامنے آ سکوں مَیں کبھی
میری ہمت نہیں
اپنے اعمال کا بوجھ سر پر لیے
سب گناہوں کی تختی کو گردن میں ڈالے ہوئے
آپ ﷺ کے سامنے حاضری دے سکوں
مجھ میں ایسی جسارت کی طاقت نہیں
مَیں گناہوں میں ڈوبا ہوا شخص ہوں
نفس کے واہموں میں گھِرا شخص ہوں
اپنے اعمال کا بوجھ ڈھوتا ہوا
روز گرتا ہوا، روز اٹھتا ہوا
اپنی پستی سے دن رات لڑتا ہوا
اپنی ہستی سے دن رات لڑتا ہوا
قلب کی کچھ صفائی میں مصروف ہوں
نفس کی کچھ دھلائی میں مصروف ہوں
آپ ﷺ خیر البشر،وجہِ شمس و قمر
سیّد الانبیا، راز دارِ خدا
مہرِ ختم الرّسل، والیِ خلقِ کُل
آپﷺ کا مرتبہ، سدرۃالمنتہیٰ
لوگ کہتے ہیں وہ آپ ﷺکے دستِ شفقت کی توفیق سے
حوضِ کوثر کا پانی پئیں گے تو سیراب ہو جائیں گے
حشر کی سختیاں بھول جائیں گے وہ
اورجنت کے در وَا ملیں گے انہیں
چاہتا میں بھی ہوں، میری خواہش بھی ہے
میرا بھی خواب ہے،کاش ایسا ہی ہو، اور مَیں
آپﷺ کے دستِ شفقت سے پانی پیوں
ایک امید ہے، ایسا ہو پائے گا
مَیں بھی جنت کے در کو کھُلا پاؤں گا
یہ خیالات بھی دل میں آتے تو ہیں
آپﷺ نے گر محبت سے دیکھا مجھے
تو نکھر جاؤں گا
غیرفانی حقیقت کے رستے پہ خود کو
کھڑا پاؤں گا
آپ ﷺکے دستِ شفقت سے کوثر کا پانی پیوں گا، یقینا بدل جاؤں گا
خُود کو منزل پہ پہنچا ہوا پاؤں گا
پر مجھے ساتھ ہی ساتھ یہ خوف ہے
مَیں وہاں تک پہنچ ہی نہیں پاؤں گا
حوضِ کوثر سے پہلے کئی گھات ہیں
میرے اعمال کی کچھ مکافات ہیں
مَیں تو اس فکرسے ہی زمیں میں گڑا جا رہا ہوں کہ گر
آپﷺ نے سر زنش کی نگاہوں سے میری طرف اِک نظر ڈال دی
تو کدھر جاؤں گا
مَیں تو مَر جاؤں گا
حشر کے دن تو پر یہ بھی ممکن نہیں ہو سکے گاکہ مَر جاؤں
مِٹ جاؤں مَیں
زندگی،جاودانی حقیقت، مرے سامنے ہو گی تومَیں کدھر جاؤں گا
آپﷺ کی نظرِ الفت سے گر کر مکمل بکھر جاؤں گا
یہ بھی ممکن نہیں
حشر کے دن تو بکھرا ہوا جسم بھی
پھر سے پورا وجودِمسلّم بنا کر کھڑا کر دیا جائے گا
تب کدھر جاؤں گا
آپﷺ خیر البشر
وجہِ شمس و قمر
سیّدالانبیا
راز دارِ خدا
مہرِ ختم الرّسل
والیِ خلقِ کُل
آپﷺ کا مرتبہ
سدرۃالمنتہیٰ
آپﷺ نے سرزنش کی نگہ ڈال دی
تو نہ سہہ پاؤں گا
مَیں جہنم کی تہہ میں اُتر جاؤں گا
گر محبت سے دیکھا مجھے آپﷺ نے
تو نکھر جاؤں گا
خود کو منزل پہ پہنچا ہوا پاؤں گا!
3
سات سال چُپ سادھی، بات تب بنی جا کر
ایک اک پہر سینچا، ذات تب بنی جا کر
بے مقام ہستی تھی، صرف رنگ و مستی تھی
لَو لگائی رب سے جب، رات تب بنی جا کر
حرف بھول جاتے تھے، لفظ ٹوٹ جاتے تھے
کُھل گیا مرا سینہ نعت تب بنی جا کر
چار سمت شیطاں تھے، ہر طرف اندھیرا تھا
نفس نے بھی کی سازش، گھات تب بنی جا کر
ہم تو ایک بادل تھے، ہم تو صرف پانی تھے
نفس کو نتھارا تو، دھات تب بنی جا کر
ہم تو اپنی راہوں کو خود ہی چھوڑ آئے تھے
منزلوں سے آگے کی بات تب بنی جا کر
خود کو جب مٹا ڈالا، نام تک بھُلا ڈالا
آخرش عماد احمد، ذات تب بنی جا کر
4
راز مضمر تھا فنائے جسم و جان و مال میں
زندگی ہم نے تلاشا تیرے خدوخال میں
کُھل رہے ہیں کُن کے کچھ اسرار میرے قلب پر
ربط واضح ہو رہا ہے منفرد اشکال میں
ایک نقطہ پا رہا ہوں ماضی و فردا کے بیچ
آج تھوڑی دیر مجھ کو چھوڑ دو اِس حال میں
ہم تو مستقبل کے امکانات میں مصروف تھے
فلسفی تھے، پھنس گئے ہیں کس طرح احوال میں
تم کہو تم تو ہمارے محرم و غمخوار تھے
کب پھنسا، کیسے پھنسا دل آپ اپنے جال میں
زخم سِل جاتے ہیں، کھُل جاتے ہیں، سِل جاتے ہیں پھر
آپ مِل جاتے ہیں پھر سے سال میں، دو سال میں
اس قدر مایوسیوں کے بعد اک امیدِ نو
ہم برہنہ پا کھڑے ہیں اس کے استقبال میں
دل سے پڑھتا ہوں درودِ پاک اُنﷺ کے ذکر پر
اک یہی نیکی ہے میرے نامہِ اعمال میں
لطف و مستی ہے نہ سرشاری ہے پہلے سی کوئی
اب وفا پھندا لگے ہے، دل لگے بھونچال میں
مَیں سراسر سوچ ہوں اور وہ سراپا دل عماد
پھنس گئے دونوں ہی فکر و دل کے اس جنجال میں
5
نفسِ اَمارہ ستاتا ہی رہا
مَیں تو بس خود کو بچاتا ہی رہا
عُمر کے ہر موڑ پر تازہ فریب
دامنِ دنیا لُبھاتا ہی رہا
میرے اندر بھی کئی شیطان تھے
میں انھیں سجدے کراتا ہی رہا
ظاہر و باطن میں اتنا فرق تھا
خود کو مَیں خود سے چھپاتا ہی رہا
مجھ سے تو قائم نہ ہوتی اک نماز
پَر خدا مجھ سے کراتا ہی رہا
اپنا قیدی ہوں سَو اپنے آپ سے
اپنے قبضے کو چھڑاتا ہی رہا
خیر و شر کی جنگ میں دونوں طرف
خود کو مَیں خود سے لڑاتا ہی رہا
خیمہِ دل حق کا یا باطل کا ہے
جو رہا اس میں بتاتا ہی رہا
اب نہیں، لیکن عماد اک دَور میں
تُو بھی تو دھوکے میں آتا ہی رہا
6
محبت چھوڑ دی مَیں نے تو دل کامِل نہیں ہو گا
ریاضت چھوڑ دی تو حشر کے قابل نہیں ہو گا
ندامت کی جو قیمت ہے وہ تُودینے سے قاصر ہے
درِ توبہ کھلا ہے، تُو مگر داخل نہیں ہو گا
اسے بتلاؤ توبہ تین چیزوں کا مرکب ہے
کہو، اب کھوکھلے لفظوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا
کبھی لگتا ہے میں راحت میں اُس کو دور رکھوں گا
کبھی لگتا ہے وہ تکلیف میں شامل نہیں ہو گا
مجھے سجاد اور مسجود دونوں پر بھروسا ہے
صنم خانوں میں جو جھک جائے میرا دل نہیں ہو گا
اگر کچھ خواب ہیں تو چھوڑ کر آنا ہمارے گھر
تمہیں اجڑے ہوئے لوگوں سے کچھ حاصل نہیں ہوگا
خدا گر چاہ دیکھے گا تو عُقدے کھول ڈالے گا
نہیں گر شرحِ صدر اب تک تو دل قابل نہیں ہو گا
مقدر نے کسی کے ساتھ، تجھ سے دور رکھا ہے
تو وہ رستہ نہیں ہوگا، تو تُو منزل نہیں ہو گا
عمومی یہ کہ مَیں دُنیا کے ہر بندے سے عاجز ہوں
خصوصی یہ کہ وہ اس قول میں داخل نہیں ہو گا
مَیں اپنے آپ میں گُم ہوں یا پھر افلاک میں، چھوڑو
سفر اندر ہو یا باہر مگر فاصل نہیں ہو گا
اگر مَیں روشنی ہوتا تو میری برق رفتاری
بالآخر تھک کے کہتی، زیست کا ساحل نہیں ہو گا
بدوں کو بد ملے، اچھوں کو اچھے، ہم نہ مل پائے
تو یا میں اس کے یا پھر وہ مرے قابل نہیں ہو گا
اداسی کا سفر اپنے ہی کچھ اسرار رکھتا ہے
ملے گا کچھ نہیں، لیکن یہ لاحاصل نہیں ہو گا
عماد اب دوستوں اور دشمنوں سب کو بلائے گا
بس اک وہ شخص جو دونوں طرح شامل نہیں ہو گا
7
کوانٹم لیپ(Quantum Leap)
ہمیں اب آگہی اور روشنی اک چیز لگتے ہیں
اگرہوآنکھ کے اندرتواس کوروشنی کہیے
اگر ہو قلب کے اندر تواس کوآگہی کہیے
سفر باہر کا ہو تو روشنی سے آگہی لیجے
سفر اندر کا ہو تو آگہی سے روشنی لیجے
حقیقت دیکھنی ہو ظاہری اسباب کی تو آنکھ کو کچھ نُور تو درکار ہوتا ہے
حقیقت جاننی ہو داخلی اسرار کی توقلب کو کچھ نُور تو درکار ہوتا ہے
معمہ ہو اگر مادّہ سے وابستہ تو اس کی آگہی آنکھوں سے ملتی ہے
مسائل ہوں اگر ما بعد ا لطبیعات کے بارے
تو پھر قلبی نظر آگاہ کرتی ہے
اگر قلب و نظر یکجان ہو جائیں
اگر ظاہر کی آنکھیں باطنی آنکھوں سے مل کر زاویہ ترتیب دیتی ہوں
گر قلبِ بشر بس آگہی کی روشنی میں راہ ڈھونڈے تو
سفر اندر یا باہر کا نہیں رہتا
کہ یہ اندر یا باہر تو فقط کچھ استعارے ہیں
حقیقت کے کنارے ہیں
حقیقت تو سمندر ہے
نہیں بلکہ سمندر بھی فقط اک استعارہ ہے
حقیقت کا بیاں انسان کی تخلیق کردہ کچھ زبانوں میں نہیں ممکن
حقیقت کا بیاں انسان کی ایجاد کردہ علمی اصلاحات سے
پردے میں ہے اب تک
بیاں کرنے کی کوشش میں یہاں اتنا اشارہ ہے
بیاں کرنے کا بس اتنا ہی یارا ہے
کہ گر قلب و نظریک جان ہو جائیں
تو ایسے آدمی کوآگہی اور روشنی اک چیز لگتے ہیں
تو اس کے راستے بس نُور میں تفویض لگتے ہیں
ستاروں کے سفربھی پاؤں کو دہلیز لگتے ہیں!
8
وہ مجھ سے دور ہے لیکن مری خبر میں ہے
کہ جیسے چاند کا ہالہ ہے جو نظر میں ہے
وہ شخص جو کسی شیطان کے اثر میں ہے
تمام شہر اسی شخص کے سِحر میں ہے
نہ کوئی خوف سفر کا، نہ کوئی وحشتِ شب
ابھی وہ دن کے اجالے میں، اپنے گھر میں ہے
وہ ایک چہرہ کہ دھندلا گیا ہے وقت کے ساتھ
ہے دُور آنکھ سے اور پھر بھی چشمِ تر میں ہے
کھُلا کہ میں بھی کسی کی طرح تلاش میں ہوں
کھُلا کہ وہ بھی مری ہی طرح سفر میں ہے
مَیں اپنے آپ سے لڑتا ہوا ملوں گا تمہیں
مِرا وجود مہمّاتِ خیر و شر میں ہے
اسے کہا تو بس اتنا کہ بھائی تم پہ سلام
خیال رکھا کہ بیٹھا وہ میرے گھر میں ہے
9
مرا غم جب ترے ہونٹوں کی زبانی نکلا
تب کہیں جا کے مری آنکھ کا پانی نکلا
سال ہا سال کی خوشیوں سے یہ ُعقدہ نہ کھلا
شورشِ غم سے مری زیست کا معنی نکلا
خانقاہوں میں، گناہوں میں کہیں بھی نہ گیا
کتنا بے سُود مرا عہدِ جوانی نکلا
عُمر بھر میری حکایاتِ غمِ دل میں رہا
مرا محبوب فقط ایک کہانی نکلا
ایک ویرانے میں پھرتا رہا برسوں، تنہا
نفس کو پڑھنا تو اک کارِ گرانی نکلا
حوصلے ٹوٹ گئے، بالوں میں چاندی آئی
ڈھل گئی عُمر تو پھر خبطِ جوانی نکلا
حدتِ غم سے سلگنے کی جگہ بہہ سا گیا
دل کو ہم آگ سمجھتے تھے، وہ پانی نکلا
عُمر کے سال، بہت مال، سبھی ہجر و وصال
کچھ نہیں ہاتھ میں باقی رہا، یعنی نکلا
سامنے بیٹھا ہوا شخص شناسا سا لگا
غور کرنے پہ مرے درد کا بانی نکلا
موڑ آتے گئے، احباب جدا ہوتے گئے
سب کا پیمانِ وفا صرف زبانی نکلا
تیرے خدشات تھے جتنے بھی، حقیقت نکلے
مرا جتنا بھی یقیں تھا، وہ گمانی نکلا
ایک تو ہم بھی ابھی خاک سے اُٹھے ہی نہ تھے
اُس پہ شاہانہ ترا طرزِ مکانی نکلا
بات کچھ اور سمجھتے تھے مگر نکلی اور
جس کو ہم دوست سمجھتے تھے وہ ہانی نکلا
جس پہ آ کر مَیں اٹک جاتا تھا ہر بار عماد
وہی میرے لب و لہجے کی روانی نکلا
10
اداسی کا سفر
تمہیں معلوم ہے ہم نے
یہ اتنی عُمر کن رستوں پہ کاٹی ہے؟
تمہیں کچھ علم ہے یہ دل
تمہارے گھرسے جو تنہائی کا
طوفان لے کر
اُٹھ گیا تھا تو کہاں، کن راستوں پر
چل پڑا تھااور کن جذبات
کن سوچوں سے گزراتھا؟
تمہیں تو یاد نہ ہوگا
کہ اب اک عُمر بھی تو ہو گئی ہے
یاد رکھنے کے لیے آخر
تمہارے پاس تھا ہی کیا؟
اکیلے ٹوٹنے کی منزلیں جن پر شکستہ دل،
کسی کرچی کی صورت ریزہ ریزہ ہو بکھرتے ہیں
اندھیرے غم کی وہ منزل جہاں پر رات کے پردے سے دن وارد نہیں ہوتا
روایاتِ دلِ وارفتگانِ عشق کی منزل
جہاں پربے صفا اور با صفا رستے جُدا کرتے ہوئے
مہمیزدیتے ہیں
شکستہ سوچ کی منزل،
جہاں امیدِ نو کی کونپلیں ناپید ہوتی ہیں
فریب ِ آرزو اور آخری امید کی منزل
جہاں اک موڑ ہے جس سے گزر جائیں تو آگے درد کا ساحل
غمِ ہستی کے سب اسرار لے کے اس سمندر سے گلے ملتا ہے جو
اندھا بھی ہے اور بے کراں بھی ہے
سمندر جو ہمارے غم
ترے، میرے، زمانے بھر کے غم آغوش میں لے کر
ہمیں بے سمت رستوں سے بچا کر
یوں ڈبوتا ہے کہ ہم غم سے
کسی کی آنکھ سے نکلے ہوئے نم سے
کسی کے پیار سے بولے ہوئے اک لفظ کے دَم سے
بالآ خرٹوٹ جاتے ہیں
ہمارے غم کی کڑواہٹ سمندر ہی میں گھُلتی ہے
سمندر کے نمک میں مل کے مٹتی ہے
سنو!
میں آج بس اتنا ہی کہنے کو تمہارے پاس آیا ہوں
تمہیں بھی کوئی غم
میرے سوا، کچھ اور۔۔کوئی غم
اداسی کے سفر پر لے کے جائے توبتا دینا!
اداسی کے سفر کے سارے رستے مجھ کو ازبر ہیں۔۔۔
11
دل ویرانی میں کچھ ایسا مست ہوا
میں نے جس جانب بھی دیکھا دشت ہوا
غم دِل کو ہولے سے تھپکی دیتا ہے
بچے کے گالوں پر ماں کا دست ہوا
پہلے دل کی گلیوں میں ہنگام ہوا
پھر ہر موڑ پہ ویرانی کا گشت ہوا
خواب ادھورے تھے، ہم خود تو پورے تھے
ہم سے کیوں نہیں اپنے غم پر ضبط ہوا
غم کا وہ اک لمحہ میرے اندر ہی
ہست ہوا، پھر بود ہوا، پھر ہست ہوا
نفسانفسی کا عالم تھا اور ہم تھے
تیرے غم کا تیر بھی آ پیوست ہوا
ماضی سب کا ہوتا ہے پر یار، عماد
تجھ پہ کیا بیتی جو اتنا سخت ہوا
12
مِرے سامنے کھڑی تھی، مجھے دیکھنے لگی تھی
وہ شبیہِ غم کہ جس میں مِری ذات دِکھ رہی تھی
نہ وہ ہو سکا شناسا، نہ رہی وہ اجنبیت
نہ بُلا سکے غموں میں، نہ خوشی میں کچھ خوشی تھی
مَیں رفیقِ غم نہیں ہوں، مَیں فریقِ غم نہیں ہوں
مِرا تجھ سے ربطِ باہم مری اپنی بے کلی تھی
جو لٹے تو قافلے میں کئی لوگ رو پڑے تھے
مَیں ہنسا کہ اس میں کیا تھا، مجھے غم سے آگہی تھی
مَیں جدا تھا اپنے غم سے، شبِ غم کے زیر و بم سے
مجھے صاف دِکھ رہا تھا مری ذات بٹ گئی تھی
بھلا خوف کس لیے اب کہ یہ پہلے طے ہوا تھا
یہی غم تو راستہ تھا، یہی غم تو راستی تھی
جو مناسکِ محبت ہی ادا نہ کر سکے تو
بے وجہ سفر کیا تھا بے وجوہ سعی کی تھی
مجھے خود پہ ترس آیا تو اسے نجات دے دی
مجھے کرب دے رہی تھی، یہ عجیب دوستی تھی
مَیں بھلا شریکِ غم کو یہ کہوں کہ دل نہ کھولے
مجھے خوف آ رہا تھا، مری سانس رک رہی تھی
جو شعور سے ملا تھا اسے تج کے چل پڑا تھا
جو مجھے چلا رہی تھی وہ تو میری بے خودی تھی
جو عماد رو دیا ہے تو ٹھٹھک گئے ہو تم سب
جو ہنسا تھا کھلکھلا کے، تمہیں تب خبر ہوئی تھی؟
13
دل شکستہ تھا تو آنسو بھی بہایا مَیں نے
ہاں مگر اس کا تماشا نہ بنایا مَیں نے
وہ مرے دل کی زمیں پر نہیں اترا تو اسے
اپنے شعروں کی زمینوں میں بسایا مَیں نے
اس کا غم میرے لیے باعثِ آزار نہ تھا
دل کا ٹکڑا تھا، کلیجے سے لگایا مَیں نے
اپنے ہر غم میں اسے خود سے جدا ہی رکھا
ایک دن ٹوٹ گیا وہ تو اُٹھایا مَیں نے
اس غمِ ظاہر و موجود کے تہ خانے میں
اک خزانہ غمِ ہستی کا چھپایا مَیں نے
نفس کو باگ بھی ڈالی کہ وہ قابو میں رہے
دلِ وحشی کو دھڑکنا بھی سکھایا مَیں نے
ایک دن اُس نے مجھے چھوڑ دیا تھا تنہا
آج موقع تھا مگر یہ نہ جتایا مَیں نے
ایک مایوسی میں دل ڈوب رہا تھا اس روز
اک سفینہ تھا جسے پار لگایا مَیں نے
14
خمار آنکھوں میں، چہرہ گلال ہوتا ہے
مگر بلاؤ تو لہجہ نڈھال ہوتا ہے
ہزار طرز کی آسودگی میسر ہو
گزرتے سالوں کا اپنا ملال ہوتا ہے
رموزِ ذات کی وادی ہے پُر خراش بہت
کٹا کے عُمر ہی رستہ بحال ہوتا ہے
شعورِ حق سے مٹایا تو مٹ گیا، ورنہ
نقوشِ وقت کا مٹنا محال ہوتا ہے
ملالِ جان کو اتنا تو ہم سمجھتے ہیں
ہمیں پتا ہے جو صدموں سے حال ہوتا ہے
عجب نہیں کہ مجھے دیکھ کر وہ رک جائے
اداس آنکھوں کا اپنا جمال ہوتا ہے
اسیرِ ضبطِ غمِ دل بتا رہا ہے، سنو!
فرار ہونے کا رستہ محال ہوتا ہے
میں اپنے آپ سے اکثر سوال کرتا ہوں
مرے جواب میں اکثر سوال ہوتا ہے
جو اپنے آپ کو تسخیر کرنا چاہتا ہو
وہ خود سے خود ہی بہت پائمال ہوتا ہے
عماد رات کے پہروں میں قلب کو دھو لو
تمام دن تو کدورت کا جال ہوتا ہے
15
رات گہری ہے تو رو لو، کوئی دیکھے گا نہیں
خود کو اپنے میں سمو لو، کوئی دیکھے گا نہیں
خامشی سے اسے پانی کے حوالے کر دو
اپنے دامن کو بھگو لو، کوئی دیکھے گا نہیں
وہ بہن بھائی، وہ ماں باپ، وہ رشتے ناتے
سب کو اک ساتھ ہی رو لو، کوئی دیکھے گا نہیں
تم نے محفل میں مرے دل پہ گرہ باندھی تھی
آؤ تنہائی میں کھولو، کوئی دیکھے گا نہیں
شرمساری ہے جو خود سے تو چلو اپنا وجود
ایک چُلو میں ڈبو لو، کوئی دیکھے گا نہیں
لوگ آئیں گے تو سو طرز کی باتیں ہوں گی
اپنے غم آپ ہی دھو لو، کوئی دیکھے گا نہیں
ہاں عماد آیا تھا، دروازے پہ دستک دی تھی
چاہا تھا تم اسے کھولو، کوئی دیکھے گا نہیں
16
آگ میں ہاتھ
آگ میں ہاتھ ڈال بیٹھا تھا
جانتا تھا کہ آگ سے جلنا
کس قدر کرب آزما ہو گا
کس قدر بے کراں اذیت کا
کس قدر سخت سامنا ہو گا
جانتا تھا اسی لیے تو سدا
اپنے سینے میں جل رہے جذبے
اپنی سوچوں سے دور رکھتا تھا
اور سوچوں میں جاگتے عنواں
نفس کے ہاتھ سے کچلتا تھا
جانتا تھا کہ زندگی کا شعور
اپنے اندر کی آگ میں گُم ہے
حدِ ادراک صرف دھوکہ ہے
کہ خدا قلبِ پاک میں گُم ہے
ہاں مگر قلب آگ مانگتا ہے
پاک ہونا عذاب مانگتا ہے
پھر بھلا آگ کی طلب کرنا
ایک آتش کی سمت چل پڑنا
کیسے اپنے لیے کوئی چُنتا
کیسے خواہش کے گھاٹ سے اُٹھتا
اس لیے آنکھ ہی نہیں کھولی
اپنی ہمت کبھی نہیں تولی
چاہتا تھا کہ راہ سادہ ہو
کسی مشکل سفر کی خواہش ہو
نہ بہت دُور کا ارادہ ہو
جستُجو ہو تو بس سُکون کی ہو
آرزو ؤں کا کچھ افادہ ہو
اور پھر وہ سکون پا بھی لیا
راستہ سادہ سا بنا بھی لیا
خواہشیں دسترس میں آ بھی گئیں
زندگی مل گئی سہولت کی
آرزوؤں کا سیج سج بھی گیا
اور تب اس گھڑی کسی نے کہا
زیست ہونی ہو تو عماد سی ہو
زندگی ہو تو بس جناب سی ہو
مَیں نہیں جانتا کہ اس لمحے
میرے اندر جمود تھا کہ اُٹھان
میرے اندر زمان تھا کہ مکان
ہاں مگر ایک سخت جھٹکا تھا
میں نے یکدم ٹھٹھک کے سوچا تھا
زیست؟ مجھ سی؟ عماد سی؟ کیونکر؟
یہ تو دھوکہ ہے نفس کا بھائی
جس کو پانی سمجھ رہے ہو میاں
یہ سرابِ حقیقتِ جاں ہے
اندھے جذبوں کا ایک طوفاں ہے
یہ کوئی مانگنے کی چیز نہیں
یہ کوئی چاہنے کی بات نہیں
مانگنا ہے تو رب سے وہ مانگو
جو نہ سادہ ہونہ قریب بہت
جس کی منزل سکوں سے آگے ہو
جس کا مقصد نشاطِ جان نہ ہو
بلکہ ادراکِ قلب ِ روشن ہو
وہ جو ٹھٹھکا تو رُک گیا گویا
دل کہیں اور جُھک گیا گویا
بس وہ ساعت عجیب ساعت تھی
بس وہ لمحہ عجیب لمحہ تھا
حال و ماضی سے کٹ چکا تھا میں
دل کے محور سے ہٹ چکا تھا میں
جس مقدر سے بچ کے چلتا تھا
اُس کے در پر پڑا ہوا تھا میں
اس گھڑی مَیں نڈھال بیٹھا تھا!
آگ میں ہاتھ ڈال بیٹھا تھا!
17
پورا سچ جب سامنے آ موجود ہوا
ہست ہست کہتے کہتے میں بود ہوا
کتنا غم واپس کر دوں، کتنا رکھ لوں؟
اصلی زَر کتنا تھا، کتنا سود ہوا؟
دِل اک دُکھ سے کانپ رہا تھا پہلے بھی
اس پر تیرا غم بھی آ موجود ہوا
تیری باتیں ایسے بھی چنگاری ہیں
میرا سینہ ویسے بھی بارود ہوا
عمر تو لمحہ لمحہ اک ہنگامہ تھی
آخری ہچکی لی تو کچھ آسود ہوا
آؤ عماد احمد تنہا خوش رہتے ہیں
سب ملنا، ملوانا تو بے سود ہوا
18
پھلبہری
بدنما داغ
مرے جسم پہ بڑھتے ہوئے داغ
چہرے پہ، ہاتھوں پہ، بازو پہ، نکلتے ہوئے داغ
میری ہیئت کو شب و روز بدلتے ہوئے داغ
میرے ماتھے پہ صبح شام بکھرتے ہوئے داغ
جلد پر داغ نکل آئے ہیں میری جب سے
لوگ کہتے ہیں تمہیں فرق نہیں پڑتا کیا؟
تم انہیں لے کے پریشان نہیں لگتے ہو
اپنی ہیئت پہ تمہیں غم نہیں ہوتا،کیوں کر؟
مَیں ہنسے دیتا ہوں اب ان پہ پریشانی کیا
جلد کے داغوں پہ رونے کی ضرورت کیا ہے؟
خود کو اس غم میں ڈبونے کی ضرورت کیا ہے؟
بے قراری نہیں ہوتی مجھے اِن داغوں سے
شرمساری نہیں ہوتی مجھے اِن داغوں سے
جلد کے داغ گنہگار نہیں کرتے ہیں
میری تشکیل پہ اصرار نہیں کرتے ہیں
میرے اندر کا تو بیوپار نہیں کرتے ہیں
میرے کردار کا اظہار نہیں کرتے ہیں
میں نے دیکھے ہیں بہت لوگ جنہیں روگِ برص
جلد پر تو نہیں، پَرقلب میں ہو جاتا ہے
داغ آجاتے ہیں ایسے جو نہاں ہوتے ہیں
پھر بھی ہر اہلِ بصیرت پہ عیاں ہوتے ہیں
میں نے دیکھے ہیں کئی لوگوں کے افکار پہ داغ
میں نے دیکھے ہیں کئی لوگوں کے کردار پہ داغ
میں نے دیکھے ہیں کئی بار نمایاں چہرے
قد وقامت میں، خدوخال میں، رنگ و بو میں
ان گنت اندھے نشانوں سے پٹے جن کے قلوب
تیز دھبوں سے عبارت تھے فقط، جن کے نفوس
جلد کے داغوں پہ رونے کی ضرورت کیا ہے؟
بے قراری نہیں ہوتی مجھے اِن داغوں سے
شرمساری نہیں ہوتی مجھے اِن داغوں سے
جلد کے داغ گنہگارنہیں کرتے ہیں!
میرے کردار کا اظہار نہیں کرتے ہیں!
19
کئی حوالوں سے نام والا، بہت سے لوگوں میں معتبر ہوں
اکیلے لمحوں میں دل گرفتہ، شکست خوردہ، اداس تر ہوں
میں اپنے اوپر ہی ایک حجت، میں اپنے اندر ہی ایک ضد سی
کھلے جو سینہ تو لا مکاں ہوں، نہیں تو اُتنا ہی مختصر ہوں
کچھ اِس طرح ہے کہ میرے اندر کوئی حقیقت پنپ رہی ہے
ابھی مَیں پُھوٹانہیں ہوں خود سے، مَیں اپنے ہونے کا منتظر ہوں
علومِ ظاہر، علومِ باطن، علومِ شرقی، علومِ غربی
سبھی کا حاصل ہے ایک نقطہ کہ اپنی ہستی سے بے خبر ہوں
مٹا کے خود کو چلا تو جانا کہ نام کتنا بڑا سِحر ہے
مَیں خاک اور نور کا مرکب، مَیں کچھ نہ ہو کر ہی نام وَر ہوں
وہ میرے اندر کے موسموں کی خبر بھی رکھے تو کس طرح سے
کبھی جلا ہوں، کبھی بجھا ہوں، کبھی اندھیرا، کبھی سَحر ہوں
شعور کی منزلوں پہ پہنچا تو راستے اور کھُل رہے تھے
انہی میں اک راستہ تھا دل کا، تبھی سے میں عازمِ سفر ہوں
20
ضبطِ غم کیسی اسیری ہے یہ اہلِ دل سے پوچھ!
عشق کیسا امتحاں ہے یہ کسی قابل سے پوچھ!
راستے کے موڑ تو ملتے رہے چُھٹتے رہے
زخم کتنے دل نے کھائے یہ مری منزل سے پوچھ!
میرے مذہب میں غلو ہرگز کہیں جائز نہیں
تجھ کو فتویٰ چاہیے تو جا کسی قائل سے پوچھ!
کیوں سمندر کی ہوا نم ہے، اسے کیا روگ ہے
کس کا سینہ دیکھ آئی ہے کسی ساحل سے پوچھ!
کیا مرے ہاتھوں نے جنبش کی کہ روکیں ایک وار
کیا مجھے مرنے سے خوف آیا، مرے قاتل سے پوچھ!
وہ تو سنیاسی ہے اس کو کیا پتا دنیا کے رنگ
یہ بلا کتنی حسیں ہے، یہ کسی مائل سے پوچھ!
جب شکم کی آگ بھڑکی ہو تو بِک جاتے ہیں خواب
اور ان خوابوں کی ارزانی کسی سائل سے پوچھ!
پھول بن جاتے ہیں آخر کون سے لمحے کے بعد
زخم کب تک درد دیتے ہیں کسی گھائل سے پوچھ!
لمس کا حصّہ نہیں، احساس کا حصّہ ہے وہ
کون ہے وہ، کون ہوں میں، یہ مری مشکل سے پوچھ!
عاقل و دانا پلٹ جاتے ہیں ان راہوں سے کیوں
ان کو ہو جاتا ہے کس کا علم، مجھ جاہل سے پوچھ!
باپ کی بپتا ہے کیا، یہ تو بتا دے گا عماد
ان کو کتنا پیار ہے یہ وانیہ، باسل سے پوچھ!
21
آنکھ سے آنسو کا بہہ جانا تو اچھی بات ہے
رو رلا کر درد سہہ جانا تو اچھی بات ہے
کہہ دیا جو منہ میں آیا، یہ ضروری تو نہیں
کچھ نہ کچھ دل میں ہی رہ جانا تو اچھی بات ہے
بِن بتائے بھی مجھے چھوڑا ہے لوگوں نے کئی
آپ کا یہ صاف کہہ جانا تو اچھی بات ہے
آپ ایسے مشورے غیروں کو جا کر دیجیے
اُن سے کہیے ناں کہ سہہ جانا تو اچھی بات ہے
میں اسے اپنی شکستِ فاش کیسے مان لوں
اس کے آگے میرا ڈھہ جانا تو اچھی بات ہے
ضبط سے کوئی نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے عماد
اشک بن کر غم کا بہہ جانا تو اچھی بات ہے
22
زاویہ ِنظر
نظر کا زاویہ تبدیل ہو جانے سے کتنا فرق پڑتا ہے
کبھی غم باعثِ آزار لگتے ہیں
کبھی یہ غم ہی یارِ غار لگتے ہیں
کبھی ناکام ہو جانے سے کتنا خوف آتا ہے
کبھی نا کامیاں ہی جیت کی بنیاد لگتی ہیں
کبھی افسوس ہوتا ہے اگر کوئی ہمیں دھتکار ڈالے تو
کبھی بہتر یہی لگتا ہے بس ہم با وفا ہوں
لوگ تنہا چھوڑ دیں تو ٹھیک لگتا ہے
کبھی مبہم پریشاں راستے دشوار لگتے ہیں
کبھی لگتا ہے سب پامال راہوں سے ذرا ہٹ کر نیا رستہ بنانا،
جنگلوں میں راہ پالینا ہی تو حاصل ہے سفروں کا
کبھی دُنیا سند دے دے رضا مندی کی تو یہ امر سر کا تاج لگتاہے
کبھی یہ قلب مُہرِ آگہی کی آس رکھتا ہے
تو گویا بات ساری زاویے کی ہے
مگر یہ زاویہ بننے میں تھوڑا وقت لگتا ہے
سفر درکار ہوتا ہے
کوئی ایسا سفر جو قلب کو تحریک دیتا ہو
اشاروں اور خوابوں کو نئی تعبیر دیتا ہو
جو ماضی کے کئی مبہم حوالوں کواکٹھا جوڑ کر فردا کو اک تصویر دیتا ہو
کوئی ایسا سفر جو آدمی کو اس کے اندر کے جہاں سے رابطہ دے دے
نیا اک راستہ دے دے!
حقیقت کا پتا دے دے!
23
تُزکِ ماضی
خاموشی
خاموشی اور لمبا رستہ
خاموشی، لمبا رستہ اور یاد کے بادل
یاد میں اک مہتاب سا چہرہ
چہرے میں وہ پاگل آنکھیں
ایک دَہائی رو کر کاٹی
ایک ادھورے ہو کر کاٹی
چند برس گمنام رہے ہم
چند برس معروف رہے ہم
بے ہستی ہوکر بھی دیکھا
چند برس مصروف رہے ہم
ملکوں ملکوں خاک بھی چھانی
شہروں شہروں پھری جوانی
ایک زمانہ بیت گیا ہے
وقت کا سایہ جیت گیا ہے
عُمر کا سورج ڈھلنے کو ہے
آس کا پنچھی اُڑنے کو ہے
آج بھی جس دم خاموشی ہو
آج بھی گر لمبا رستہ ہو
یاد کے بادل آجاتے ہیں
اور ان میں مہتاب سا چہرہ
چہرے میں وہ پاگل آنکھیں
سامنے آکر کہہ دیتی ہیں
سنو!تھکن سے رک مت جانا
چلتے رہنا!
دھوپ ہو یا چھاؤں، دونوں میں
درد ہوں یا خوشیاں،دونوں میں
چلتے رہنا، جیتے رہنا۔۔۔
یاد کے بادل جینے سے ہیں
چاند سا چہرہ جینے سے ہے
پاگل آنکھیں جینے سے ہیں!!
24
قلب جب نور سے ملنے کا مکاں سمجھا ہے
تب کہیں جا کے یہ اسرارِ زماں سمجھا ہے
ہم تو اس شخص کو انسان نما کہتے ہیں
جو محبت کو فقط جاں کا زیاں سمجھا ہے
دل کے احوال سرِراہ نہیں کہہ سکتے
ہم سے لوگوں کو بھلا کون، کہاں سمجھا ہے
اب نہیں ہوتا ہے مجھ سے وہی اظہارِ وفا
تم نے کیا اب بھی مرے دل کو جواں سمجھا ہے
وہی نفرت بھری باتیں وہی دھیما لہجہ
مدتوں میں ترا اندازِ بیاں سمجھا ہے
تیرے الزام کا اک داغ مرے دل پر ہے
ہم نے وہ داغ محبت کا نشاں سمجھا ہے
25
معجزے کا کوئی دعویٰ نہیں کرنے والا
میں ترے غم سے کنارہ نہیں کرنے والا
اپنی تکلیف بتانے سے جھجک جاتا ہوں
جانتا بھی ہوں وہ رُسوا نہیں کرنے والا
دھوپ ہے توکسی سائے کی طلب بھی ہو گی
پر وہ اک سایہ جو چہرہ نہیں کرنے والا
وہ کسی کام میں شامل نہیں ہوتا اور مَیں
کارِ بے کار بھی تنہا نہیں کرنے والا
آ شبِ غم ترے گیسو ہی سنواریں کہ یہاں
کوئی اس وصل میں رخنہ نہیں کرنے والا
آؤ! اِس راہ پہ بے وجہ مرے ساتھ چلو
میں کسی بات کا وعدہ نہیں کرنے والا
اب مجھے تیری طلب بھی نہ ہرا پائے گی
اب میں اس ہجر کو لمبا نہیں کرنے والا
وہ کسی طَور مرا حق نہیں دے گا مجھ کو
اور میں اس سے تقاضا نہیں کرنے والا
کام آ جاؤں گا گر تم کو ضرورت ہو گی
پر مَیں اب تم پہ بھروسا نہیں کرنے والا
تو نے دامن پہ کئی داغ لگائے ہیں پہ مَیں
دامنِ دل کو تو میلا نہیں کرنے والا
تم ہی پوچھو کہ عماد اب کے کدھر جاؤ گے
وہ تو اس بار مداوا نہیں کرنے والا
26
ہر دور کی زلیخاؤں کے نام
عزیزِ مصر کی بیوی
زلیخا کیا کِیا تُو نے!
کہاں وہ عزت و تکریم جو بس خاص لوگوں کے مقدر میں امر ہو تی ہے
تیری دسترس میں تھی
کہاں وہ شان جو کردارکے سچوں کی ماؤں کے لیے مختص ہے
تیری مملکت میں تھی
کہاں وہ پیار جو اونچے گھرانوں کے بڑوں کے واسطے مخصوص ہوتا ہے
تری قسمت میں لکھا تھا
کہاں وہ امتیازی قدر جو یوسف ؑ کو اپنے گھر کے اندر پالنے کے
وصف ملنی تھی
زلیخا کیا کِیا تُو نے!
اِنسان کو کتنی بلندی سے گرا سکتی ہے اِس کا سوچ کر بھی خوف آتا ہے
نُفوسِ نسلِ انسانی اُنہیں کن کن بلند و بالاتر درجوں سے نیچے پھینک دیتے ہیں
اگر انسان اپنے مرتبے، کردار اور ان سے جڑے سب ضابطے قربان کر کے خواہشوں کی سمت بھاگے توکہاں تک جا کے گرتا ہے
اگر انساں حقیقت بھول جائے اپنی ہستی کی،
فقط ظن اور گماں کے ضابطے تشکیل کر کے
ان کے آگے جھک کے چلنے کے لئے تیا رہو جائے
توپھر کیسا پھسلتاہے
زلیخا کیا کِیا تُو نے!
مبارک نور تیرے گھر کا محور تھا
اک ایسا نور گویا طاق میں رکھا دِیا کوئی کہ جو فانوس کی صورت میں جلتا ہو
کسی موتی،کسی تارے کی صورت میں چمکتا ہو
جو ایسے تیل سے روشن ہوجو شرقی نہ غربی ہو
جواپنے آپ جلتا ہو
اک ایسا نور جو بس اُن گھرانوں میں ہی ہوتا ہے
جہاں پر پاک دل انسان بستے ہیں
اک ایسا نُور تیرے گھر کا محور تھا
مگر تُو نے تووہ گھرہی جلا ڈالا
مگر تُو نے ہوس کی آگ کو ترجیح دے ڈالی
ترے لالچ نے سب کچھ ہی بھُلا ڈالا
ترا اُونچا گھرانا، مصر کے سردار کا مسکن
خلوص و پیار، عِزّ و جاہ، شان و مرتبہ سب کچھ
اور ان سب سے کہیں بڑھ کر
مقدر کے اُفق پر جگمگاتے وہ ستارے بھی
جو یوسفؑ کو لڑکپن سے جوانی تک بسا کراپنے گھرمیں پالنے کے وصف تیرے ہاتھ آنے تھے
زلیخا کیا کیا تُونے!!!
27
اب جو رسوائی کے میلے میں بلائے ہوئے ہیں
ہم بھی پھر درد کی پینگوں کو چڑھائے ہوئے ہیں
کچھ ستارے ہیں جو آنکھوں میں ٹکائے ہوئے ہیں
غم کے کچھ نوحے بھی شعروں میں سجائے ہوئے ہیں
تم نے تو کہہ کے کئی لفظ بھلائے ہوئے ہیں
ہم نے سینے میں وہی زخم چھپائے ہوئے ہیں
ہم یونہی آنکھ میں آنسو نہیں لائے ہوئے ہیں
پسلیاں دل کو شکنجے میں دبائے ہوئے ہیں
اب کے تنہائی پہ اپنی کوئی افسوس نہیں
پہلے رشتے بھی کلیجے سے لگائے ہوئے ہیں
دارِ فانی میں کئی کام ابھی باقی ہیں
اور فرشتے مجھے لے جانے کو آئے ہوئے ہیں
چل کسی اور بہانے مجھے زخمی کر دے
تو نے کچھ تیر ابھی اور بچائے ہوئے ہیں
دل کے آزار کو اندر ہی چھپا کر رکھیے
آپ نے کس لیے یہ زخم سجائے ہوئے ہیں
تم سے پہلے بھی کئی عاقل و دانا آئے
وقت نے کتنے ہی مجنون بنائے ہوئے ہیں
ہم نے درپردہ کئی بار منایا ہے اسے
آپ جو دیکھ رہے ہیں وہ دِکھائے ہوئے ہیں
اب یہ اک چھوٹی سی تکلیف پہ پرسش کیسی؟
آپ نے زخم مرے دل پہ لگائے ہوئے ہیں
کچھ رویے ہیں جو تکلیف کا باعث ہیں بہت
گرچہ اخلاق کے پردے میں چھپائے ہوئے ہیں
نرم گفتار مگر درد سے عاری یہ لوگ
جیسے سکھلائے نہیں، صرف سدھائے ہوئے ہیں
دھوپ کی سختی کو جھیلا ہے کئی بار عماد
ہم کئی بار کئی لوگوں پہ سائے ہوئے ہیں
28
رات اور ذات
مری نظموں میں اداسی کے سوا کیا ملتا
مَیں نے کچھ سخت سفر ہنس کے بِتا ڈالے ہیں
ساری اُمید، سبھی حوصلہ، سب مضبوطی
دن کے پہروں میں بہت خوب نبھا ڈالے ہیں
سالہا سال کڑے ہو کے بِتا ڈالے ہیں
دل میں چاہے کسی انداز سے اترا کوئی سوز
مَیں نے امید سے، ہمت سے جیا ہے ہر روز
ہاں مگر رات، مری رات، مری اپنی رات
اس کے پردے میں کئی درد چھپا رکھے ہیں
اس میں مَیں وہ نہیں رہتا جو نظرآتا ہوں
رات کے پہروں میں مَیں خوب بدل جاتا ہوں
جب مری رات، مری ذات میں بس جاتی ہے
غمِ دل عود کے پہلو میں کھسک آتے ہیں
اپنے اندر کے سبھی درد اُبھر جاتے ہیں
جو مری روح کے دکھ ہیں وہ نظر آتے ہیں
اور مری سانس کی نرمی میں بِسر جاتے ہیں
ان میں مَیں، مَیں نہیں رہتا ہوں بدل جاتا ہوں
اپنے اندر کے سبھی درد اگل جاتا ہوں
اور ان لمحوں میں غم، نظم کی صورت لے کر
یوں اترتے ہیں کہ بارش سی برس جاتی ہے
بھیگ جاتا ہے مرا ظاہر و باطن اس سے
ڈوب جاتا ہے یہ دل کاغذی ناؤ کی طرح
مری نظموں کی اداسی پہ اچنبھاکیسا
خود کہو اِن میں اداسی کے سوا کیا ملتا
مَیں نے امید کی حد کر کے جیا ہے ہر روز
اور غم رات کے پردے میں چھپا رکھے ہیں!!!
29
سنا سکتا تھا اَنہونی خبر، مَیں چپ رہا پھر بھی
دِکھا سکتا تھا اندر کا نگر، مَیں چپ رہا پھر بھی
بہت تفصیل سے سوچاکہ جزئیات تک کہہ دوں
نہیں مٹتا مرے اندر کا ڈر، مَیں چپ رہا پھر بھی
میں جس کے سائے میں کھیلا تھا بچپن سے لڑکپن تک
ترے ہاتھوں نے کاٹا وہ شجر، مَیں چپ رہا پھر بھی
فقط اک بار کہنا تھا، فقط اظہار کرنا تھا
کُھلا ملتا ترا دل اور دَر، مَیں چپ رہا پھر بھی
بس اب ترکِ تعلق کا بہانہ ہی بنے گا یہ
اگر کچھ کہہ دیا پھر بھی، اگر میں چپ رہا پھر بھی
مجھے اِدراک تھا فاتح بہت مغرور ہوتے ہیں
سو تم کو ہارتے دیکھا مگر میں چپ رہا پھر بھی
اسے اونچا اُڑانا تھا سو اس کی کامیابی پر
کیا محسوس سینے میں فخر، میں چپ رہا پھر بھی
یہ میں نے بارہا سوچا کہ ہمسفروں کو بتلا دوں
مری منزل ہے اب یہ ہی سفر، میں چپ رہا پھر بھی
مجھے اک صاحبِ اَسرار نے پیغام بھیجا تھا
کہ سارے راز کہہ دے بے خطر، میں چپ رہا پھر بھی
30
خدارا! اسمِ اعظم بول دو ناں
مرے اندر کے در کو کھول دو ناں
بہت کچھ سہہ لیا ہے بِن بتائے
مجھے اب لا کے کوئی ڈھول دو ناں
گناہوں کی معافی مانگ لی ہے
مگر نیکی بھی تھوڑی تول دو ناں
ہمیشہ کھینچتے ہو، ٹوٹتا ہوں
چلو اس بار تھوڑا جھول دو ناں
اگر راحت نہیں دینی تو مت دو
چلو صدمہ دو پر انمول دو ناں
عماد اک سرپھرا ہے جو کرے وہ
تمہیں جو بولنا ہے بول دو ناں
31
یہ میرا دل جو تنہا ہو رہا ہے
محبت سے شناسا ہو رہا ہے
وہ میرے سامنے ہے یا کہ پھر سے
مری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے
ابھی کچھ دن حدودِ غم میں رہ لے
ابھی خوشیوں کا سودا ہو رہا ہے
بظاہر تو ترقی ہو رہی ہے
حقیقت میں اکیلا ہو رہا ہے
تری شعلہ بیانی کے بِنا بھی
مرے گرنے کا چرچا ہو رہا ہے
گزرتے وقت سے کیا صبر آتا
مرا غم اور گہرا ہو رہا ہے
یقیں ہے اب پلٹ کر وار ہو گا
مجھے تم پر بھروسا ہو رہا ہے
بساطِ دل پہ میری بادشاہ تھا
جو اب اوروں کا مہرہ ہو رہا ہے
غمِ ہستی، مزاجِ یار اور مَیں
مرا ہر روز تختہ ہو رہا ہے
کہاں راتیں ہماری جاگتی تھیں
کہاں دن بھی اندھیرا ہو رہا ہے
مرا دل اتنا ارزاں بھی نہیں تھا
مگر خوش ہوں کہ سودا ہو رہا ہے
عماد احمد تری تنہائیوں کا
زمانے بھر میں شُہرہ ہو رہا ہے
32
ہزاروں خواہشیں تھیں، خواب تھے، افسوس تھے، غم تھے
کہو خود کو سمجھنے کے مواقع کیا بہت کم تھے
ہماری زندگی میں روشنی تو خیر کم تھی ہی
تمہارے ساتھ چلتے تو اندھیرے بھی مقدم تھے
مرے حصے میں کچھ دکھ تو وراثت میں بھی آئے تھے
نئے رشتے بنائے تو وہاں بھی نت نئے غم تھے
سبھی ہمزاد تھے یا آئینے ہر سمت رکھے تھے
لگا جب میلہِ غم تو ہر اک جانب ہمِیں ہم تھے
بہت سے لوگ تو بس یہ تماشا دیکھنے آئے
کہ کیا ہم آج بھی اپنے ارادوں میں مُسلّم تھے
ترے چہرے پہ کچھ سالوں میں اتنی جھریاں کیوں ہیں
انوکھے روگ تھے تیرے کہ میرے درد مدھم تھے
عماد اب کے فصیلِ شب پہ اپنی غم گُساری کو
کئی چہرے، کئی لمحے، کئی صدمے، کئی نم تھے
33
ایک طوفان سا گزر گیا ہے
ایک انسان تھا، گزر گیا ہے
تری آنکھوں کے سامنے مجھ پر
دیکھ کیا سانحہ گزر گیا ہے
ساتھ رہتے ہو، ساتھ دیتے نہیں
ایسا کیا ماجرا گزر گیا ہے
دوریاں قربتوں سے نکلی ہیں
ایسا اک واقعہ گزر گیا ہے
اب شکایات کیا کروں تم سے
بس وہ اک وقت تھا، گزر گیا ہے
یاد ڈھلنی ہی تھی کسی دن تو
وقت بھی بے بہا گزر گیا ہے
جس جگہ مل کے بیٹھتے تھے ہم
اب وہاں راستہ گزر گیا ہے
آپ کے دل کی رہگزار پہ اب
کیا کوئی دوسرا گزر گیا ہے
اپنے اندر تو شور تھا ہی مگر
شہر میں کیا بھلا گزر گیا ہے
چند جذبات اور کچھ سوچیں
رات کا سلسلہ گزر گیا ہے
قربتوں کی تلاش میں گویا
ہم میں اک فاصلہ گزر گیا ہے
چار خوشیوں کی آرزو میں عماد
غم کا اک قافلہ گزر گیا ہے
34
دل کو کچھ سمجھا کے دیکھو
میرے گھر میں آ کے دیکھو
اِتنی سی نیکی پہ جنت
دل سے بھار اٹھوا کے دیکھو
غیرت و کردار کا بار
بار بار اٹھوا کے دیکھو
خود سے لڑنا زندگی ہے
تھوڑی ہمت لا کے دیکھو
سچ کا پرتو ہے یہ غم تو
اِس کو مت گھبرا کے دیکھو
شاہوں سا گھر، فرشی بستر
اُس سے ملنے جا کے دیکھو
اپنا غم بھی مجھ کو دے دو
تھوڑا سا مسکا کے دیکھو
نفسی نفسی کہتے کہتے
قلب دھو دھلوا کے، دیکھو
آؤ اپنی ہستی کھوجو
خود سے خود تک آ کے دیکھو
لوگ اپنے کب بنے ہیں
تم خدا تک جا کے دیکھو
قلب روشن چاہتے ہو
غم کی لَو بڑھا کے دیکھو
آتشِ غم میں عماد اب
نفس کو جلوا کے دیکھو
35
خود اپنی ذات میں محمول ہونا چاہتا ہوں
فقط خوشبو نہیں، مَیں پھول ہونا چاہتا ہوں
سرِ منزل پہنچ جانا حصولِ آرزو تھا
انہی راہوں کی اب تو دھول ہونا چاہتا ہوں
تو اب اپنی سبھی رسوائیوں کو عام کر لوں
کہ اب مَیں بھی ذرا مقبول ہونا چاہتا ہوں
کوئی خواہش کسی خواہش سے کتنی مختلف ہے
کبھی قائم، کبھی مجہول ہونا چاہتا ہوں
اگر اب اور کوئی محورِ ہستی ہے تیرا
تو تیری زندگی کی بھول ہونا چاہتا ہوں
36
کس و ناکس سے جب طعنہ پڑے گا
فقیہِ شہر کو آنا پڑے گا
تو حق گوئی کا ہرجانہ پڑے گا
مجھے مصلوب ہو جانا پڑے گا
گمان و ظن کے رستوں میں پڑا دل
یقیں کے موڑ تک لانا پڑے گا
37
کس و ناکس سے جب طعنہ پڑے گا
فقیہِ شہر کو آنا پڑے گا
تو حق گوئی کا ہرجانہ پڑے گا
مجھے مصلوب ہو جانا پڑے گا
گمان و ظن کے رستوں میں پڑا دل
یقیں کے موڑ تک لانا پڑے گا
38
درد کو رات کے حوالے کر
درد کو رات کے حوالے کر
دن کو مت رو کہ لوگ دیکھیں گے
لوگ دیکھیں گے تو ترے غم کے
نت نئے زاویے بنائیں گے
کوئی قیمت لگائے گا اس کی
اور ارزاں خریدنے کے لیے
اُس کو چھوٹا دکھائے گا تجھ کو
مول تھوڑا بتائے گا تجھ کو
کوئی خیرات دینے والا شخص
تیرے غم کو نوازنے کے لیے
تیری دل جوئی کے لیے گویا
بھیک میں کچھ تسلیاں دے گا
کوئی بیوپار بھی کرے گا یہاں
اور کسی جنس کی طرح غم کو
آنکھ میں جگمگا رہے نم کو
اپنی دوکان میں سجا لے گا
اُس پہ کچھ بتیاں جلا دے گا
ایسے مت کھول اپنا دل ہرگز
اتنا سستا نہیں بنا غم کو
خود کو کمزور مت دکھا کہ یہاں
کوئی کمزور جی نہیں سکتا
اور جی لے تو سر جھکا کے جیے
یوں تو تُوسوچ بھی نہیں سکتا
یہ تو وہ گاؤں ہیں کہ جن میں کسان
پیٹ بھر جَو بھی کھا نہیں سکتے
یہ تو وہ شہر ہیں جہاں مزدور
اپنی روٹی کما نہیں سکتے
تُو یہاں دل کی بات کرتا ہے
تُو یہاں غم کا ذکر کرتا ہے
یہ محلے، یہ شہر، یہ گاؤں
یہ ریاست، یہ ملک، یہ دنیا
یہ شکم کے لیے بنائے ہیں
ان میں بس جسم ہی کی قیمت ہے
بھوک حاکم ہے نفسِ انساں کی
پیٹ حاکم ہے نسلِ انساں کا
دل شکم سے نہیں لڑا کرتے
دل تماشہ نہیں بنا کرتے
دل یہاں بے غنیم سی شے ہے
دل دِکھائے گا تو ہنسیں گے لوگ
تجھ پہ فقرے ہی بس کسیں گے لوگ
لوگ دیکھیں گے تو ترے غم کے
نت نئے زاویے بنائیں گے
دن کو مت رو کہ لوگ دیکھیں گے
درد کو رات کے حوالے کر!
39
مجھے گریز نہ تجھ سے نہ تیرے درد سے ہے
یہ میرے دل کی اداسی اک اور فرد سے ہے
اداسیاں ہیں کچھ ایسی کہ اپنی نسبتِ دل
ٹھٹھرتی شام سے اور ایک شاخِ زرد سے ہے
غمِ فراق نے یہ کیا کِیا کہ اب کے قرار
وصالِ یار سے بڑھ کر وصالِ درد سے ہے
مگر وہ غم کہ جو اس نے ہمارے نام کیا
مگر وہ سوگ جو اس کی نگاہِ سرد سے ہے
تمہارے ساتھ بھی تنہائیوں میں جیتا تھا
تمہارے بعد بھی نسبت تمہاری گرد سے ہے
مَیں اس کو کھونے سے پہلے نہیں سمجھ پایا
کہ ساری رونقِ دنیا اس ایک فرد سے ہے
وہ ہر پڑاؤ کو منزل کا نام دیتا ہے
معاملہ ہی مرا ایسے رَہ نورد سے ہے
عماد آج مزا آئے گا عداوت کا
کہ آج سامنا اپنا جوان مرد سے ہے
40
نفس کے وار کس قدر ہیں بتا!
ہم بھی تیار کس قدر ہیں بتا!
کتنے ڈوبے ہیں،جانتے ہیں سب
پَر ہوئے پار کس قدر ہیں بتا!
میرے دشمن تو ہیں ہزاروں میں
تیرے بیمار کس قدر ہیں بتا!
میں تو ہر سمت ہوں سپاس گزار
تیرے انکار کس قدر ہیں بتا!
کتنے اپنوں نے سنگ مارے ہیں
اور اغیار کس قدر ہیں بتا!
کیسے کرتا ہے تُو مجھے رسوا
تیرے اخبار کس قدر ہیں بتا!
ہاں اسے پا لیا، غنیمت ہے
پَر ہوئے خوار کس قدر ہیں بتا!
لوگ فرصت میں چاہتے ہیں تجھے
ہم سے بے کار کس قدر ہیں بتا!
راز کو کھول دے عماد احمد
تیرے اَسرار کس قدر ہیں بتا!
41
برسوں کی دھول
تنہائی، افسردہ لمحے، لمبی راتیں
سرد ٹھٹھرتا، کہرے کا موسم
کچھ غم
اور ہم!
جذبے جو دل میں ہی رہے
اور سوچیں جو خود تک ہی رکھیں
سوچوں اور جذبوں سے پیہم
آنکھوں کا نم
اور ہم!
ماضی کے گم گشتہ رستوں پہ بچھڑے
کچھ سنگی ساتھی
اُن کی باتوں کا زیر و بم
ریت پہ پل دو پل کی شبنم
اور ہم!
کہرے کے موسم سے پیچھے چھوڑ آئے جو
گرم حرارت بخش دنوں کے کچھ رشتے
کچھ اپنے ہمدم
اور ہم!
اب بھی اکثر
یاد کے پنچھی آجاتے ہیں
دل کے سونے آنگن میں بس سائے سے لہرا جاتے ہیں
وقت کی گھڑیاں رہ جاتی ہیں
بے دل، بے دم
اور ہم!
اب بھی خواہش جاگ اُٹھتی ہے
دل دُکھتاہے مدھم مدھم
افسردہ راتوں کی سرگم
اور ہم!
جان چکے ہیں
اب تو دل سے مان چکے ہیں
کہ برسوں کی دھول کے پیچھے
کہاں ملیں گے
اپنے محرم
اور ہم!
42
رابطہ قلب و آگہی سے ہُوا
غم بہت اپنی ہی خوشی سے ہُوا
خود نے خود کو ہی قتل کر ڈالا
اپنا افسوس آپ ہی سے ہوا
نفس پر اعتبار کر بیٹھے
جرم بھی اپنا سادگی سے ہُوا
قلب مُردہ پڑا تھا آپ کے بِن
پھر یہ زندہ بھی آپ ہی سے ہُوا
گھُپ اندھیرے تھے قلب روشن تھا
سو سفر اپنی روشنی سے ہُوا
جس کلی سے بہار تھی دل میں
اُس سے ملنا بھی بے کلی سے ہُوا
جس گھڑی خود کو حق شناس کہا
نفس کا وار اُس گھڑی سے ہُوا
اپنی غلطی کا اعتراف عماد
اپنے ہی دل کی تشنگی سے ہُوا
43
پنے اندر سنور گیا اک شخص
ایک ایسے نگر گیا اک شخص
میرے گھر سے اداس اُٹھا تھا
پھر نہ جانے کدھر گیا اک شخص
کوئی جھگڑا ہوا نہ ہنگامہ
کیسے دل سے اُتر گیا اک شخص
اپنے اندر کے سانپ دیکھے تو
اپنی حالت سے ڈر گیا اک شخص
اُس کو خواہش نہیں تھی جانے کی
خود سے لڑ کر مگر گیا اک شخص
تُو نے محسوس بھی کیا کہ نہیں
تیری خاطر ٹھہر گیا اک شخص
وقتِ رخصت تھا اجنبی خود سے
اِس قدر بے خبر گیا اک شخص
نفس کے ہاتھ میں کھلونا تھا
اس لیے ٹوٹ کر گیا اک شخص
اپنی ہستی کو ڈھونڈنے کے لیے
اپنے اندر اُتر گیا اک شخص
پہلے پہلے بہت ہنسا اور پھر
روتے روتے نکھر گیا اک شخص
اپنے محلوں کو چھوڑ کر آخر
کس لیے دربدر گیا اک شخص
زندگی کیسے ہو عماد کہ جب
تیرے اندر ہی مر گیا اک شخص
44
راستہ لمبا بھی ہو سکتا ہے اور دشوار بھی
آدمی تنہا بھی ہو سکتا ہے اور بیمار بھی
کہہ رہے ہیں دوستوں پر بھی بھروسا چھوڑ دو
کوئی دن تو حد ہی کر دیتے ہیں میرے یار بھی
زندگی سب ہی بسر کرتے ہیں، میں تنہا نہیں
کوئی آساں، کوئی مشکل، کوئی زیرِبار بھی
زندگی کی آخری منزل پہ اِک جیسا ہے سب
ایک جیسے لگ رہے ہیں یار بھی، اغیار بھی
جو بناتا ہوں بکھر جاتا ہے تھوڑی دیر میں
ریت کے کچے گھروندے، ریت کی دیوار بھی
اس طرح سے ہوں تمہارے گھر کی جانب مَیں رواں
خوف بھی، امید بھی اور دل میں اِک تکرار بھی
یاد ہے، تُو بچ کے نکلا تھا زمانے سے عماد
کھول ڈالے تجھ پہ رب نے لوح بھی اور غار بھی
45
جنون
جنوں کا ذکرعام ہے
جنوں کا ایک نام ہے
فُسوں ہے تو جنون ہے
فُغاں ہے تو جنون ہے
جو بے خرد کھڑا ہوا تو کہہ دیا جنون ہے
جو سر پھرا بڑا ہوا تو کہہ دیا جنون ہے
جو زندگی کی بھیڑ میں الجھ گیا تو کہہ دیا
جو راستوں کی گَرد میں بھٹک گیا تو کہہ دیا
مَیں بے خِرد ہی ٹھیک ہوں
مجھے ذرا جنون ہے
جنون اس طرح نہیں
نہیں جنون یوں نہیں
جنوں فقط فُغاں نہیں
جنوں فقط فُسوں نہیں
جنوں تو امتحان ہے
بڑا کڑا رہا سفر، یہ اس کا اک نشان ہے
مزاجِ زیست ہے وہ حوصلوں کو آزمائے گی
سو طے کرے کہ کونسا بشر کہاں تلک چلے
چُنے کہ کون تھک گرے، چُنے کہ کون پھر چلے
سفرکی ان صعوبتوں میں کس کا کیا مقام ہے
کہ کون تشنہ کام ہے کہ کس کے ہاتھ جام ہے
جنوں بھی ایک جام ہے
شعورِ ذات کے لیے جنون انتظام ہے
جنوں خرد کی ضد نہیں
یہ آگہی کے راستے پہ منزلوں کے پاس کا مقام ہے
جنون سنگِ میل ہے
مقامِ عقل سے گزرگئے ہو، یہ دلیل ہے!
جہاں پہ ذات بٹ گئی ہوحوصلہ بچا نہ ہو
جنوں،وہاں بھی تھک کے گر نہ جائیں، یہ سبیل ہے!
46
خامشی بولتی رہی اُس شب
دردِ دل تولتی رہی اُس شب
وہ مجھے چھوڑ کر گیا جس دن
نبض ہی ڈولتی رہی اُس شب
تم نہیں آ سکے تو تنہائی
دل میں غم گھولتی رہی اُس شب
آپ نے مُنہ دکھا دیا جس رات
چاندنی ڈولتی رہی اُس شب
نہ کھلا آسماں، نہ اوپر چھت
سر پہ بس اولتی رہی اُس شب
تُو عماد اِس قدر بتا کہ نماز
راز کیا کھولتی رہی اُس شب
47
تم مجھے سارے زمانے سے ڈراتے رہنا
ساتھ مت دینا، فقط درد بڑھاتے رہنا
ایک تصویر شب و روز بناتے رہنا
پَر زمانے کی نگاہوں سے چھپاتے رہنا
نت نئی بات ہمیشہ ہی بناتے رہنا
اُنگلیوں پر مجھے دن رات نچاتے رہنا
میں تمہیں یوں ہی ہر اک موڑ پہ پاتا رہوں گا
تم مجھے یوں ہی بلا وجہ گنواتے رہنا
آؤ اب میرے گناہوں پہ کوئی بات کرو
یہ بھلا کیا، مری نیکی ہی بتاتے رہنا
آج مشکل ہے سو تم ساتھ نہیں دو گے مرا
بعد میں بیٹھ کے اک عُمر بلاتے رہنا
خیر اب اُس سے کوئی شکوہ ہمیں ہے بھی نہیں
تم نہ اب جا کے کہیں بات بڑھاتے رہنا
راستے اُس کے بھی دشوار ہیں سو مِل کے اسے
میری تکلیف کے قصے نہ سناتے رہنا
حوصلہ ٹوٹ بھی جائے تو بھروسا رکھنا
عُمر کی ناؤ کے چپو کو چلاتے رہنا
جب عماد آئے تو اس کو نہ بتانا غمِ دل
اُس کے خوابوں کو بکھرنے سے بچاتے رہنا
48
آج مشکل ہے سو تم ساتھ نہیں دو گے مرا
بعد میں بیٹھ کے اک عُمر بلاتے رہنا
خیر اب اُس سے کوئی شکوہ ہمیں ہے بھی نہیں
تم نہ اب جا کے کہیں بات بڑھاتے رہنا
راستے اُس کے بھی دشوار ہیں سو مِل کے اسے
میری تکلیف کے قصے نہ سناتے رہنا
حوصلہ ٹوٹ بھی جائے تو بھروسا رکھنا
عُمر کی ناؤ کے چپو کو چلاتے رہنا
جب عماد آئے تو اس کو نہ بتانا غمِ دل
اُس کے خوابوں کو بکھرنے سے بچاتے رہنا
49
نفسِ لوّامہ
لوّامہ
نفسِ لوّامہ
ہنستے ہنستے رو دینے کی خواہش ہونا
چلتے چلتے رک جانے کی کوشش کرنا
منظر اور پس منظر، دونوں ہی کا بے معنی ہو جانا
حاصل اورلا حاصل کا بے مقصد، لا یعنی ہو جانا
رشتے جن کے بِن جینا سوچا بھی نہ ہو
رستے جو قرنوں سے ازبر ہوں، دل کو اچھے لگتے ہوں
جذبے جو دل کا آنگن آباد کریں اور
سوچیں کہ جن سے تشکیلِ زیست ہوئی ہو
تھم جانا
سارا ہنگامہ
لوّامہ
نفسِ لوّامہ
جو سیکھا ہو، جو سمجھا ہو، جو محسوس کیا ہو
سب کچھ
جو جانا ہو، جو پرکھا ہو، جومانوس کیا ہو
سب کچھ
ماضی اپنا پورا ماضی
کئی دَہائیوں کا سرمایہ
پڑھا پڑھایا، لکھا لکھایا
جو کچھ کھویا، جو کچھ پایا
جو مانگا اور جو کچھ بانٹا
جو بویا اور جو کچھ کاٹا
جو خرچا اور جو بھی بچایا
سب کچھ اس لمحے میں مایا
دل میں اک احساس سمایا
خوشیاں بس خواہش کا پرتَو؟
غم بس حسرت کا افسانہ؟
خود کو بھی گر نہ پہچانا
تو کیا حاصل
تو کیسا دُنیا میں آنا
تو کیسا دُنیا سے جانا
بس اِس سوچ نے دل کو تھاما
لوّامہ
نفسِ لوّامہ
50
مَیں وہ غم اب بھول جانا چاہتا ہوں
مسکرانا، گنگنانا چاہتا ہوں
سارے رستے دیکھ ڈالے ہیں سو اب کے
لوٹ کر گھر اپنے جانا چاہتا ہوں
میرے اندر ہے کوئی، ملتا نہیں ہے
اُس کو خود سے ڈھونڈ لانا چاہتا ہوں
جانتا ہوں تم کو دلچسپی نہیں ہے
میں تمہیں پھر بھی بتانا چاہتا ہوں
اب کسی سرسبز باغیچے کے اندر
گھاس پر بس بیٹھ جانا چاہتا ہوں
ایک دنیا نے کہا تھا لَوٹ جاؤ
ایک دنیا کو جتانا چاہتا ہوں
لوگ ہنستے تھے کہ تم پاگل ہو بھائی
اب اُنہیں ہنسنا سکھانا چاہتا ہوں
اُس سے اتنی دشمنی ہونے لگی ہے
اپنے غم اُس کو دِکھانا چاہتا ہوں
تم اسے کہنا عماد اب بھول جاؤ
میں نئے رشتے بنانا چاہتا ہوں
51
تو اس کا ساتھ چُھٹنے لگ گیا تھا
تو گویا وقت پیچھے لگ گیا تھا
مجھے احساس ہونے لگ گیا تھا
اُسے محسوس ہونے لگ گیا تھا
اُسے آواز دیتا ڈوبتے وقت
پر اُس کا دل کنارے لگ گیا تھا
یقیں ہی ہار کا باعث ہے میری
بھروسا ہی ڈبونے لگ گیا تھا
اُسے مجھ پر بھروسا تھا تبھی تو
وہ اپنے غم بتانے لگ گیا تھا
غموں کی آندھیوں میں خیمہِ دل
اُکھڑ کر پھڑپھڑانے لگ گیا تھا
گریزاں لوگ پھر ملنے لگے تھے
مقدر مسکرانے لگ گیا تھا
اسے تنہائی راس آنے لگی تھی
عماد اب جیت جانے لگ گیا تھا
52
توضیحِ غم سے سمجھانی رہتی ہے
دل کی بات ابھی بتلانی رہتی ہے
لٹنے پر کچھ دن حیرانی رہتی ہے
اس کے بعد تو بس ویرانی رہتی ہے
بیشک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے
مشکل کاٹ چکے، آسانی رہتی ہے
کوئی لمحہ اپنا لگتا رہتا ہے
کوئی گھڑی مدت بیگانی رہتی ہے
غم کا زور ذرا کم ہو تو سوچیں گے
خوشیوں سے کیوں رُو گردانی رہتی ہے
اپنے اپنے خواب سنا بیٹھے دونوں
اب تو بس تاویل بتانی رہتی ہے
جذبوں کو تو شہ رگ سے ہی کاٹ چکے
آگے سوچوں کی قربانی رہتی ہے
نفسا نفسی کے عالم میں خود پہ نظر
رہتی ہے، توکچھ آسانی رہتی ہے
جب بھی ملنے آتے ہو تم خود سے عماد
اس شب آنکھوں میں سیلانی رہتی ہے
53
دل اور قلب
قلب اور دل میں توافق بھی ہے اورفرق بھی ہے
لوگ اک چیز سمجھتے ہیں مگر دونوں کے
رابطے اور ہیں انسان کا سینہ لے کر
ضابطے اور ہیں جینے کا قرینہ لے کر
دل مرے مادّہِ جسمی کی حرارت کا نشاں
دل مری نبض کے چلنے کی ضرورت کا بیاں
دل کے باعث ہی لہو گرم،بدن زندہ ہے
دل ہی سردار بھی اعضائے رئیسہ کا ہے
دل رگِ جان میں طاقت سی بہا دیتا ہے
دل ہے مادّہ سو یہ جسموں کو جِلا دیتا ہے
قلب کچھ اور ہے
یہ روح سے وابستہ ہے
قلب ہے وجد کی قوت کا، حرارت کا نشاں
قلب ہے نفس کچلنے کی ضرورت کا بیاں
قلب ہے خون نہیں، نُور کی حرکت کے لیے
قلب ہے جسم نہیں، روح کی طاقت کے لیے
قلب ہے نُور، سو یہ اُس کو جِلا دیتا ہے
قلب بھی اس ہی جگہ ہے جہاں دل ہے لیکن
دونوں کے کام الگ، دونوں کے انجام الگ
دل جو زندہ ہے تو جینے کا مزہ آتا ہے
دل جو قائم ہے تو انسان چلا پھرتا ہے
دل چلے گا تو بدن چند برس جی لے گا
دل رکے گا تو فقط جاں کا زیاں ہی ہو گا
قلب زندہ ہے تو جینے کا مزہ دوبالا
قلب قائم ہے تو اک نُور کا ہالہ ہے بشر
قلب جاری ہے تو پھر سارے سفر ہیں آساں!
قلب رُک جائے توپھر دونوں جہاں صرف زیاں!
54
میرے اندر کوئی اور ہے جو مجھے چین سے بیٹھنے بھی نہیں دے رہا
میرے غم، میری خوشیاں، مری زندگی مجھ کو خود کاٹنے بھی نہیں دے رہا
وہ مجھے کہہ رہا ہے کہ میں زندگی کے سبھی فیصلے بس اسے سونپ دوں
اور اتنے بڑے فیصلے کے لیے وہ مجھے سوچنے بھی نہیں دے رہا
کہہ رہا ہے کہ اکثر محبت نہیں نفرتیں زندگی بھر کا حاصل ہوئیں
ایسی باتوں پہ نفرین بھیجوں مگر وہ مجھے بھیجنے بھی نہیں دے رہا
چاہتا ہے کہ مَیں اس کی دنیا سے کٹ کر کہیں دور کی منزلیں ڈھونڈ لوں
اور ہر سمت سے گھیر رکھا بھی ہے، وہ مجھے بھاگنے بھی نہیں دے رہا
وہ تو مایوس تھا، وہ تو مایوس ہے، وہ تو ناکام تھا، وہ تو ناکام ہے
پَر تجھے کیا ہواہے مرے راہبر! تو اسے جاگنے بھی نہیں دے رہا
نقطہ ہائے نظر، امتحاناتِ دل، فکرِ فردا و ماضی، تلاشِ خدا
ابنِ آدم پہاڑوں سے مضبوط ہے، خود کو جو ہارنے بھی نہیں دے رہا
ایک مدت عماد اِن ہی راہوں پہ چلتا رہا ہے اُسے خوب معلوم ہے کون بچھڑے گا کس موڑ پر اس لیے، دل کو وہ ڈوبنے بھی نہیں دے رہا
55
درد کی تحریف کرنا چاہتے ہو
پھر مجھے تصنیف کرنا چاہتے ہو
اب تو میں تکلیف میں ہوں بھی نہیں، تُم
آج کیوں تکلیف کرنا چاہتے ہو
مجھ سے شکوے کی وجہ کیا ڈھونڈتے ہو
غیر کی توصیف کرنا چاہتے ہو
غم کے معنی جاننے کی جُستُجو ہے
ربط کی تعریف کرنا چاہتے ہو
بے کلی سے جی رہے ہو کچھ دنوں سے
کچھ نئی تالیف کرنا چاہتے ہو
56
نسل در نسل دائروں کا ظہور ان کے اصلی مقام پر رکھا
اپنے اندر کے ہر سفر کا بیاں کسی ہجرت کے نام پر رکھا
اپنی ہستی کے بھی نہیں مالِک، اپنی مرضی کے بھی نہیں مالک
آپ ہی فیصلہ کریں آقا بوجھ کتنا غلام پر رکھا
اس نے گر جیت کر جتایا نہیں تو مجھے بھی شعور ہے اسکا
میں نے بھی دشمنی کا یہ رشتہ باہمی احترام پر رکھا
اس کے آگے جُھکے ہوئے توملے، اسکی خاطر کھڑا کوئی نہ ملا
میں نے سجدے کو مختصر کر کے زور سارا قیام پر رکھا
حسن اور نور ایک رات ملِے، قلب میں جگمگا دیے یکبار
میں نے وہ لمحہِ حیات سدا اپنی ہستی کے بام پر رکھا
کہہ رہا تھا کہ آ کے مِل جاؤ،پر وہ نخوت وہی تھی پہلی سی
فیصلے کے لیے بصد مشکل اسکا لہجہ پیام پر رکھا
بُجھ رہے تھے کسی گھڑی سارے، میرا دل بھی، دیا بھی اور دن بھی
ساری ہمت کو مجتمع کر کے میں نے تینوں کو بام پر رکھا
وصفِ ابنِ علیؓ بیاں کرتا، میری اوقات ہی نہیں اتنی
سوچ اپنے مقام پر رکھی، قلب اپنا سلام پر رکھا
نفس تیار تھا اندھیرے میں، قلب پر وار تھا اندھیرے میں
انگلیاں دھار کے قریب رہیں، ہاتھ پورا نیام پر رکھا
جاؤ پوچھو عماد سے مطلب اپنے ہر خواب، اضطراب کا اب
ہے مکمل جہانِ معنی جو اُس نے علم الکلام پر رکھا
57
شبیہِ غم
رات تنہائی میں،خود سے گفتگو کے بیچ میں
سامنے دیکھا تو جیسے تھم گیا ہو دل مرا
اِک شبیہِ غم، مجسم سامنے بیٹھی ہوئی
مجھ سے سرگوشی میں گویا رازِ دل کہتی ہوئی
میں اُسے تکتا رہا، تکتا رہا، تکتا رہا
سادھ کر دم، بے خودی میں،سانس کو تھامے ہوئے
ایک جنبش تک نہیں کی چونک مت جائے کہیں
دیکھ ہی ڈالے کہیں میری طرف۔۔۔کہہ دے عماد!
سامنے بیٹھا ہے اور ہمت ہے تجھ میں اس قدر
جو شبیہِ غم کے آگے آنکھ اوپر ہے تری
میں اُسے تکتا رہا
خود سے یہی کہتا رہا
یہ حقیقت ہے، مرے اندر کہیں موجود ہے
آج تو بس یہ گھڑی یا دو گھڑی کو سامنے
اس لیے آئی ہے سو مَیں اپنے اندر جھانک لوں
دیکھ لوں کیا حسن ہے جو دل میں رہتا ہے مرے
جان لوں یہ غم کی مورت کس قدر نایاب ہے
پا سکوں اِدراک یہ رِشتہ بہت کمیاب ہے!
رات بھر ایسے ہی میں بیٹھا رہا، بیٹھا رہا
رات بھر دل میں یہی کہتا رہا، کہتا رہا
غم کی مورت!
اے شبیہ ِ دردِ ماضی، دردِ دل!
آج بس ایسے ہی بیٹھی رہ تجھے تکتا رہوں!
آج بس سانسوں کو روکے تجھ پہ ہی مرتا رہوں!
58
غم اگر سنگِ میل ہے، تو ہے
منزلوں کی دلیل ہے، تو ہے
نہ گوارہ ہو آپ کو، تو نہ ہو
وہ ہمارا وکیل ہے، تو ہے
قربتیں باعثِ عداوت ہیں
فاصلہ ہی فصیل ہے، تو ہے
چین کے پل تو بس حوادث ہیں
اور اداسی طویل ہے، تو ہے
کیا کرو گے عماد سے مل کر
اب وہ اتنا علیل ہے، تو ہے
59
قطعہ
روشنی کو روشنی کہہ دیجیے
راستی کو راستی کہہ دیجیے
نفس کے کچے دلائل چھوڑ کر
آگہی کو آگہی کہہ دیجیے
60
قطعہ
جس کا انگ انگ مرے واسطے دروازہ تھا
آج وہ سنگ کی دیوار ہوا بیٹھا ہے
جو مجھے قوس کی صورت میں رواں رکھتا تھا
آج وہ حاشیہ بردار ہوا بیٹھا ہے
61
کسی لطف و کرم پر اب ذرا مائل نہیں ہے وہ
ستم تو یہ کہ دشنامی کا بھی قائل نہیں ہے وہ
اسے اک اُنس ہے تم سے جو اس کو کھینچ لاتا ہے
تمہارے در پہ آ جاتا ہے پر سائل نہیں ہے وہ
میں اس کی سوچ پڑھ لیتا ہوں سو یہ علم رکھتا ہوں
ہماری زیست کی راہوں میں اب حائل نہیں ہے وہ
تمہارے سب دلائل پر کہ انساں صرف مادّہ ہے
کہے دیتا ہے میں خاکی ہوں پر قائل نہیں ہے وہ
مرا دل کرب میں ہے اس اداسی کے سمندر میں
مَیں کشتی موڑلوں اِس پر مگر مائل نہیں ہے وہ
عماداحمد بدن کے زخم تو بھر جائیں گے آخر
خوشی یہ ہے کہ دل مربوط ہے،گھائل نہیں ہے وہ
62
غم کا دیا
آؤ تنہائی اور درد کا ذکر
خود سے کرتے ہیں وہ بھی رات ڈھلے
آؤ چلتے ہیں صحن میں گھر کے
گھُپ اندھیرے میں بیٹھ جاتے ہیں
خامشی چاہیے جو گہری ہو
اور اندھیرا جو ڈھانپ لے سب کچھ
دھڑکنیں سن سکیں ذرا اپنی
سرسراہٹ سنیں غمِ دل کی
جو کہ اس رات کے پہر گویا
سسکیاں لے رہا ہے بے آواز
اپنے اندر، بہت قریب،یہیں
غمِ ہستی کے ماخذوں کے قریں
آؤ تنہائی اور درد کا ذکر
ایسے چھیڑیں کہ تارِ دل کانپیں
ایسے چھیڑیں کہ سازِ نیست بجے
غم دیا بن کے جل اٹھے اور ہم
اس کی لَو میں مزاجِ زیست پڑھیں
آؤ تنہائی اور درد کا ذکر
خود سے کرتے ہیں وہ بھی رات ڈھلے!
63
دل رہے پُر فقط عداوت سے
سب گریزاں رہے محبت سے
ساتھ بس چھوڑتے گئے سب لوگ
کچھ رقابت سے، کچھ اجازت سے
وہ تو تیار تھے کہ ساتھ چلیں
ہم ہی غافل رہے نیابت سے
آؤ اب دردِ دل کو عام کریں
سب کو آگہ کریں قیامت سے
لب تو چپ ہیں مگر نگاہ میں پڑھ
کون گزرا ہے کس مصیبت سے
اب کے خاموش ہی رہیں گے ہم
جو بھی ہے دِکھ رہا ہے حالت سے
میری وقعت کہاں تھی اتنی پر
آپ نے رکھ لیا محبت سے
اُس نے خود لَو لگائی تھی مجھ سے
اب گریزاں ہے میری وحشت سے
ہاں یہ سچ ہے کہ ایک عُمر عماد
زندگی کی بہت ہی غفلت سے
64
حریمِ غم سے باہر آ گیا ہوں
تو اُس کے دَم سے باہر آ گیا ہوں
نہیں ہیں اب تری یادوں کے بادل
گئے موسم سے باہر آ گیا ہوں
بہت محنت سے تیرے دل میں جھانکا
بہت جوکھم سے باہر آ گیا ہوں
بساطِ دل نہیں سوداگری تھی
سو بیش و کَم سے باہر آ گیا ہوں
مرے اندر تو غم موجود ہے پر
مَیں اپنے غم سے باہر آ گیا ہوں
کھُلا ہے رازِ ہستی جب سے، تب سے
میں زیر و بم سے باہر آگیا ہوں
سمجھ! مَیں، مَیں ہوں اور تُو، تُو ہے پیارے
سمجھ! مَیں، ہم سے باہر آ گیا ہوں
عماد الجھن ہے اس کو بارشوں سے
سو چشمِ نم سے باہر آ گیا ہوں
65
حوالے دل کے اتنے عام ہو جاتے تو کیا غم تھا
محبت میں سبھی نیلام ہو جاتے تو کیا غم تھا
ہمیں محنت نہیں ناکامیِ محنت سے وحشت ہے
کسی کوشش سے گر وہ رام ہو جاتے تو کیا غم تھا
سرِ بازار رسوائی ہوئی، اس بات کا دکھ ہے
اگر ہم اہلِ دل گمنام ہو جاتے تو کیا غم تھا
وہی ساری پرانی رنجشیں تم پھر سے لے آئے
میاں کچھ نت نئے الزام ہو جاتے تو کیا غم تھا
ہمیں یہ دل تمہیں دینا ہی تھا ہر حال میں لیکن
اگر تھوڑے سے اس کے دام ہو جاتے تو کیا غم تھا
ہماری زندگی ضائع بھی ہو جاتی تو سہہ لیتے
کم از کم آپ کے کچھ کام ہو جاتے تو کیا غم تھا
عماد اس شخص نے اک دن ہمیں آواز تو دی تھی
اگر ہم رک کے اس کے نام ہو جاتے تو کیا غم تھا
66
گفتگو میں ذکرِ ماضی آ گیا
اپنے گھر پھر ہر کوئی روتا گیا
وقت ٹھہرا ہے، گزر جاتے ہیں لوگ
وقت ہی یہ راز بھی بتلا گیا
دیکھ سکتا ہوں میں اب یہ سلسلہ
کیسے ماضی، حال سے فردا گیا
جو جہاں بیٹھا تھا بیٹھا رہ گیا
مڑ کے دیکھا جس نے وہ پتھرا گیا
کیا کہوں، مل کر اسے جو دکھ ہوا
ایک بادل دل پہ آیا، چھا گیا
درد ہے اُس کی نگاہوں میں کہ وقت
اُس سے بھی جیتا مجھے بھی کھا گیا
وہ تو سورج تھا سو ڈھلتی عُمر میں
حسن اُس کا اور بھی بڑھتا گیا
غم دبے پاؤں پلٹ آیا عماد
تُو نے کیا سمجھا تھا یہ رشتہ گیا
67
منہ سے گرچہ نہیں بتا سکتا
حالتِ دل نہیں چھپا سکتا
اُس کی تکلیف بانٹ سکتا ہوں
اپنے آنسو نہیں دکھا سکتا
کُن کے بِن، ایڑیاں رگڑنے سے
کوئی چشمہ نہیں بہا سکتا
اُس کے اور میرے بیچ مت آنا
میں خدا کو نہیں بھلا سکتا
وہ مرے لفظ جھیل جاتا ہے
میرا لہجہ نہیں پچا سکتا
آرزوئیں تو وہ سمندر ہیں
کوئی غوطہ نہیں لگا سکتا
درد شعروں میں ڈھل گیا ہے عماد
اب تُو اس کو نہیں مٹا سکتا
68
خود کو سمجھ رہے ہو تو گفتار کم کرو
سمجھا رہے ہو بات تو تکرار کم کرو
خود پر لگاؤ سارے زمانے کی قدغنیں
اوروں کا ہاتھ پھیلے تو انکار کم کرو
اندر کے اس سفر کا بیاں کھول دیجیے
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں یہ اسرار کم کرو
وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ اتنا نہ درد دو
مَیں اُس سے کہہ رہا تھا کہ آزار کم کرو
دھیرج سے دل پہ ہاتھ نہیں رکھ سکو گے تم
پہلے تم اپنی سوچ کی رفتار کم کرو
چاہت نہیں بھی دینی تو، نفرت ہی بانٹ دو
پر اپنے چار سمت یہ دیوار کم کرو
گر نفس کی سنو گے تو پچھتاؤ گے عماد
خواہش زدہ دلیل پہ اِصرار کم کرو
69
غموں کا یہ نتیجہ ہو گیا ہے
پریشاں دل شکستہ ہو گیا ہے
گواہی دو کہ تم سچے نہیں ہو
مجھے تم پر بھروسا ہو گیا ہے
اُداسی کون سی چڑیا ہے پیارے
ہمیں خوشیوں کا چہرہ ہو گیا ہے
تجھے تکلیف ہے تو آ کے خود مل
ہمارا اب گزارہ ہو گیا ہے
غموں کا یہ نتیجہ ہو گیا ہے
پریشاں دل شکستہ ہو گیا ہے
گواہی دو کہ تم سچے نہیں ہو
مجھے تم پر بھروسا ہو گیا ہے
اُداسی کون سی چڑیا ہے پیارے
ہمیں خوشیوں کا چہرہ ہو گیا ہے
تجھے تکلیف ہے تو آ کے خود مل
ہمارا اب گزارہ ہو گیا ہے
خود اپنے ہاتھ سے تحریر ہونا چاہتا تھا
میں اپنی سوچ سے تسخیر ہونا چاہتا تھا
میں اُس کو زندگی کے قاعدے کب تک بتاتا
کہ وہ تو بس مری تقدیر ہونا چاہتا تھا
وہ گرچہ خامشی سے سن رہا تھا بات میری
مگر ہر انگ سے تقریر ہونا چاہتا تھا
وہ بننا چاہتا تھا تاج میرے سر کا لیکن
مرے پاؤں کی ہی زنجیر ہونا چاہتا تھا
میں اُس کی دوستی کا پاس رکھتا ہر طرح سے
مگر وہ خود ہی بے توقیر ہونا چاہتا تھا
70
ابھی اندر ہی اندر چل رہی تھی
محبت خامشی میں پَل رہی تھی
بہت نازاں تھا اپنے حسن پر وہ
مگر وہ عمر جو اب ڈھل رہی تھی
تمہارے بعد میری زندگانی
نہ جانے کتنے دن بے کل رہی تھی
اُداسی تھی کہ جاتی ہی نہیں تھی
خوشی بھی ہاتھ اپنے مل رہی تھی
ڈھلی ہے عمر تو کچھ دَم لیا ہے
کبھی یہ زندگی بادل رہی تھی
اُسے گرچہ گمانِ دوستی تھا
محبت فی الحقیقت ڈھل رہی تھی
عماد آیا تھا اک دن شام کے وقت
گیا تو رات بھی بوجھل رہی تھی
71 (2)
بہت دلگیر مشکل تھی
کہ اب اُمید بے دل تھی
تہی دامن رہے یہ دل
ہر اک نعمت جو حاصل تھی
پہنچ کر رو دیا تھا مَیں
خوشی اک ایسی منزل تھی
میں اِس دنیا کے جیسا تھا
یہ دنیا میرے قابل تھی
بہت ٹھسے سے نکلا تھا
مری مَیں ہی مقابل تھی
وصالِ یار سے آگے
تلاشِ حق کی منزل تھی
اُداسی کی دہائی تھی
جو کچھ جذبوں کا حاصل تھی
عماد اب خود مَرا تھا تُو
کہ دنیا تیری قاتل تھی؟
باز گشت
اُسے پُکار کے دیکھا تو باز گشت سُنی
کہ ایک شخص کئی بار کانپتے دل سے
اُُداس لہجے میں، کمزور چیخ کے ہمراہ
کسی عزیز کو، اپنے کو روکنے کے لیے
بہت ہی ضبط سے آواز دے رہا تھا اور
اسے یقین نہیں تھا کہ کوئی سنتا ہے
سُنے بھی گر تو پلٹنے کی چاہ رکھتا ہے
مگر وہ اس کے سِوا اور کچھ کرے بھی تو کیا
سو اپنی آخری ہمت کو مجتمع کرکے
وہ بار بار اسے روکنے کی کوشش میں
اُُداس لہجے میں، کمزور چیخ کے ہمراہ
بلا رہا تھا کہ اک بار میری بات سُنو
بس ایک بار مجھے خود سے جوڑ لو پھر سے
اُسے پُکار کے دیکھا تو باز گشت سُنی
تو کیا یہ مَیں تھا یہ کمزور، ٹوٹتا ہوا شخص
تو کیا یہ میری ہی آواز تھی جو مَیں نے سنی
یہ باز گشت نہ سُنتا تو کب سمجھ پاتا
کہ میں صدائیں نہیں دے رہا تھا صرف اسے
مَیں ٹوٹ جانے کے تکلیف دہ مصائب سے
گزر رہا تھا مگر خود کو پڑھ نہ پایا تھا
اُسے پُکار کے دیکھا تو باز گشت سُنی
جو باز گشت سُنی تو پتا چلا کہ یہاں
یا مَیں تھا یا مری ٹوٹی ہوئی صدائیں تھیں
یا بے سپاس غمِ ہجر کی ہوائیں تھیں
وہ شخص کب کا کہیں جا چکا تھا زیست سے دور
غمِ فراق سے پُرالتجائے نیست سے دور
کہ میرے پاس فقط خامشی کا میلہ تھا
کہ میرے گرد فقط بے کسی کا گھیرا تھا
یہاں پہ صرف مرے ٹوٹنے کا منظر تھا
یہاں پہ صرف مرے ڈوبنے کا منظر تھا
یہاں پہ صرف صدائیں تھی اور وہ میری تھیں
یہاں پہ صرف غمِ دل تھا اور وہ میرا تھا
اُسے پُکار کے دیکھا تو باز گشت سُنی!
72
مرے بچپن میں ہی تنہائی کیسے عود آئی تھی
وہ اَسّی کی دَہائی تو اُداسی کی دَہائی تھی
بہت انساں بکھیرے تھے، بہت سے گھر اُجاڑے تھے
سنا ہے ڈیم میں لوگوں کے اشکوں کی بھرائی تھی
غریبوں سے کبھی پوچھا کہ اُن کی بستیوں میں سے
گزاری ریل کی پٹری تو اُن کو نیند آئی تھی
پلازے تو بنے تھے، شہر میں ہوٹل بھی عمدہ تھے
مگر معلوم ہے سب کو بڑھی کس کی کمائی تھی
فقط اک مَیں نہیں اس مغربی تہذیب سے خائف
یہی کچھ صاحبِ اَسرار لوگوں کی دُہائی تھی
بتا دو اپنے بچوں کو کہ ان تاریخ دانوں نے
ہمیں دھوکے میں رکھ کر اور ہی دنیا دکھائی تھی
عماد آؤ سرِ بازار سچ کہہ دیں کہ یہ دنیا
بہت ہی مصلحت اندیش لوگوں نے بنائی تھی
73
چار بندے ساتھ ہو جانے سے سچے ہو گئے
تم سے تو بالغ نظر مکتب کے لڑکے ہو گئے
مَیں بہت تنہا، بہت سادہ طریقے سے ہوا
کچھ اُصولی فیصلے لوگوں سے اچھے ہو گئے
گر تری تصدیق سے عزت ملی اس شخص کو
اس سے تو اچھا ہوا ہم لوگ کچے ہو گئے
اِک یتیمی، اس پہ غربت اس کو پتھر کر گئی
آنکھ تب چھلکی جب اس کے اپنے بچے ہو گئے
تنگیِ دامانِ دل تھی یا کہ غربت تھی عماد
اُس کو لَوٹا تو دیا پر خود بھی نیچے ہو گئے
74
ہر مشکل میں ہنس دینا بھی خیر ضروری چیز نہیں
رُک جانا، سستا لینا بھی غیر ضروری چیز نہیں
لوگ یہاں چھوٹی سی رنجش پر بھی جاں لے لیتے ہیں
آپس میں کوئی جدّی پُشتی بیر ضروری چیز نہیں
تھکنے والے پیروں کی تکلیف سے بھی رُک سکتے ہیں
چلتے رہنا چاہیں تو پھر پیر ضروری چیز نہیں
اپنے اندر بھی اِک عالم ہے جس میں پھِر سکتے ہیں
فہم کی خاطر دنیا بھر کی سیر ضروری چیز نہیں
نفسا نفسی، نفس پرستی ہر کوشش کا منبع ہیں
چلو عماد اب اس بستی میں خیر ضروری چیز نہیں
75
عزازیل
۱۔پسِ منظر
ساری دنیا کے مشاغِل سے کنارہ کر کے
صرف ایمان کی دولت پہ بھروسا کر کے
ہم نے اک سوچ کو بیدار کیا تھا اک دن
ایک تحریک کو تیار کیا تھا اک دن
پہلے آغازِ سفر ساتھ کیا تھا ہم نے
پھر تو اک عہد بَسر ساتھ کیا تھا ہم نے
راستے کھوجے تھے منزل کے نشاں رکھے تھے
جس جگہ کوئی نہ جاتا تھا وہاں پہنچے تھے
کتنی قربانیاں دے دے کے بنا تھا رستہ
کتنی مشکل سے بنایا تھا ہراول دستہ
76
۲۔پسِ پردہ
ہائے! سرداری عزازیل کی قسمت میں نہیں
صدق و اخلاص تو ابلیس کی فطرت میں نہیں
اِس کا وہ حال ہے جیسے کہ گدھے پر تَورات
بار بھی جس کا اُٹھائے، پہ نہ سمجھے کوئی بات
اِس کا وہ حال ہے جیسے کہ وہ عالِم جس کو
علمِ آیاتِ خدا وند عطا ہو پر وہ
ان کی حد توڑ کے پورا کرے بس نفس کا حَظ
کلب کی مثل پڑا ہانپتا رہ جائے محض
77
۳۔منظر نامہ
میں نے آغازِ سفر میں ہی بتایا تھا تمہیں
زور دے دے کے کئی بار جتایا تھا تمہیں
سوچ اور قلب میں ہوتی ہے نظریاتی اساس
سومری سوچ مرا قلب ہیں ضامن اس کے
اور پھر اس کے لئے جان لڑا دی میں نے
لاج رکھنے کے لیے عُمر گنوا دی مَیں نے
عہد کا پاس تھا ہر گام نبھایا مَیں نے
ورنہ اس راہ پہ کیا کچھ نہ گنوایا مَیں نے
مَیں نے ہر موڑ پہ مضبوط کیے ہاتھ ترے
تُو انہی ہاتھوں کی مضبوطی پہ اِترانے لگا
اِک کڑا لمحہ تھا جب نفس تجھے لے اُچکا
تُف، تو افکار کی دنیا میں ہوس لے آیا
اپنے کردار کی دولت پہ تُو راضی نہ رہا
تُو نے ایقان و توکُل کا گلا گھونٹ دیا
جنگ جیتی ہوئی تھی، نفس پہ دے واری ہے
تُونے تحریک کی شہ رگ پہ چھری ماری ہے
ہم نے قربانی پہ رکھی تھی نظریاتی اساس
عہد باندھا تھا کہ احسان پہ جینا ہوگا
صرف ایقان و توکل ہی تو سرمایہ تھا
ہم پہ اللہ کی رحمت کا بہت سایہ تھا
جس کے بل بوتے پہ رسموں سے بغاوت کی تھی
شہر کے شہر سے تنہا ہی عداوت لی تھی
تُو مقدر کو سمجھ لینے پہ تیار نہ تھا
اپنی خواہش کو کچل دینے پہ تیار نہ تھا
وہ جو اک راز شبِ قدر میں کھولا گیا تھا
ترا سینہ اسے لے لینے کو بیدار نہ تھا
فائدے لے لیے، قربانی پہ راضی نہ ہوا
نفس تیرا بھی عزازیل کی راہوں پہ چلا
اپنے سینے پہ لگے زخم بھلا سکتا ہوں
غم کے ایّام کی سختی بھی اُٹھا سکتا ہوں
میں نے جو ضبط کیے ہیں وہ چھپا سکتا ہوں
سال ہا سال کی محنت بھی گنوا سکتا ہوں
مال و زر، قوتِ بازو، مری ذہنی کاوش
دل کے جذبات، معاشی و سماجی رشتے
سب پہ جو ٹھیس لگی ہے وہ پچا سکتا ہوں
مجھ کو ان میں سے کسی چیز کا افسوس نہیں
دل میں ناکامی نہیں، جوگ نہیں، روگ نہیں
اپنے ماضی کے رویّوں کا کوئی سوگ نہیں
جو کیا ہے وہ فقط اذنِ خدا کو ہے کیا
جو دیا ہے تو وہ بس اُس کی رضا کو ہے دیا
جو سہا ہے، مری تقدیر میں لکھا ہوا تھا
جو رہا ہے، مری تقدیر میں لکھا ہوا ہے
مرے اک خواب کی تعبیر میں لکھا ہوا ہے
سو مَیں کردار کو سستا نہیں کر سکتا ہوں
نظریات کا سودا نہیں کر سکتا ہوں
تُو نے دنیا کے اثاثے ہی بنائے ہیں فقط
میں نے اجداد کی میراث کو حرمت دی ہے
تُو عمارات کی تعمیر میں مشغول رہا
میں نے افکار کی تعمیر میں دن کاٹے ہیں
تُو تو مصروف رہا گننے میں افراد مگر
مَیں نے کردار کی تشکیل میں غم کاٹے ہیں
تُو تو کر گزرا ہے، جو کچھ بھی ترے بس میں تھا
مَیں نے بنیاد کا پتھر ہی لگایا ہے ابھی
سوچ اور قلب میں ہوتی ہے نظریاتی اساس
اور مری سوچ، مرا قلب ہیں ضامن اس کے
اپنے اطوار سے لوگوں کو دکھانا ہے ابھی
اپنے کردار سے دُنیا کو بتانا ہے ابھی
تُو سمجھتا ہے کہ تُو جیت گیا ہے بازی؟
تُو نے ایمان گنوا ڈالا ہے یارِ ماضی!
تُو نے کیا کھویا ہے، تُو خود بھی سمجھ سکتا ہے
مَیں نے کیا پایا ہے تُو خود بھی ہے شاہد اِس پر
78
کہانی کیوں سنانا چاہتے ہو
مجھے تم کیا جتانا چاہتے ہو
اب اپنے قہقہوں کی گونج میں تم
کوئی صدمہ چھپانا چاہتے ہو
اکیلے ہو، مگر خوددار بھی ہو
اشارے سے بتانا چاہتے ہو
سرِ بازار رسوا کر رہے ہو
مجھے نیچا دکھانا چاہتے ہو
اُسے جو کہہ دیا تو کہہ دیا بس!
اُسے اب کیوں بلانا چاہتے ہو
میاں چاکر نہیں ہیں ہم تمہارے
بتا دو گر نبھانا چاہتے ہو
بہانے سے پرندے مت دکھاؤ
کہو اب دور جانا چاہتے ہو
وہی آواز جو آتی ہے دل سے
اُسے صورت دلانا چاہتے ہو
عماد اک عمر کی دوری ہے اور تم
دنوں میں ہی مٹانا چاہتے ہو
79
شدتِ غم کو فسانہ نہ بناؤ، چھوڑو
اُس پہ مت کھولو، اُسے کچھ نہ بتاؤ، چھوڑو
دل میں اور گھر میں سبھی کچھ ہے کھلا تیرے لیے
کچھ نہاں خانے ہیں ان میں نہیں جاؤ، چھوڑو
کس نے کس طرح ترے لطف کے سامان کیے
گٹھلیاں گنتے ہو کیوں، آم ہی کھاؤ، چھوڑو
آؤ میں تم کو سناتا ہوں لطیفے اے دوست!
تم مرے غم کی طرف آج نہ جاؤ، چھوڑو
ڈوب جانے کے سبھی گُر مجھے آتے ہیں عماد
کبھی پتوار، کبھی دل، کبھی ناؤ، چھوڑو
80
سننے والوں کا انتظار
میں نے اکثر سوچا ہے
بس آساں سی بات کروں
تھوڑا تھوڑا ہجر و وصال
تھوڑا تھوڑا درد و ملال
بس تھوڑا آنکھوں کا نم
بس تھوڑا سا قصہِ غم
مشکل شعر نہیں کہنا
مشکل نظم نہیں پڑھنی
مشکل لفظ نہیں لکھنا
مشکل بات نہیں کرنی
81
شدتِ غم کو فسانہ نہ بناؤ، چھوڑو
اُس پہ مت کھولو، اُسے کچھ نہ بتاؤ، چھوڑو
دل میں اور گھر میں سبھی کچھ ہے کھلا تیرے لیے
کچھ نہاں خانے ہیں ان میں نہیں جاؤ، چھوڑو
کس نے کس طرح ترے لطف کے سامان کیے
گٹھلیاں گنتے ہو کیوں، آم ہی کھاؤ، چھوڑو
آؤ میں تم کو سناتا ہوں لطیفے اے دوست!
تم مرے غم کی طرف آج نہ جاؤ، چھوڑو
ڈوب جانے کے سبھی گُر مجھے آتے ہیں عماد
کبھی پتوار، کبھی دل، کبھی ناؤ، چھوڑو
82
سننے والوں کا انتظار
میں نے اکثر سوچا ہے
بس آساں سی بات کروں
تھوڑا تھوڑا ہجر و وصال
تھوڑا تھوڑا درد و ملال
بس تھوڑا آنکھوں کا نم
بس تھوڑا سا قصہِ غم
مشکل شعر نہیں کہنا
مشکل نظم نہیں پڑھنی
مشکل لفظ نہیں لکھنا
مشکل بات نہیں کرنی
لوگوں کو بتلانا ہے
لوگوں کو سمجھانا ہے
ہلکی پھلکی باتوں میں
اصلی راز بتانا ہے
شعر پڑھیں گے تو شاید
کل کو دل بھی پڑھ لیں گے
بات سنیں گے تو اک دن
شاید سچ بھی سن لیں گے
وقت گزرتا جاتا ہے
سچ بھی بڑھتا جاتا ہے
سننے والا کوئی نہیں
دفتر لگتا جاتا ہے
بات نہیں بھی کرتا ہوں
پر کچھ کر بھی جاتا ہوں
سننے والے آئیں گے
خود کو یہ سمجھاتا ہوں
مشکل بات نہیں کرتا!
مشکل لفظ نہیں لکھتا!
مشکل نظم نہیں پڑھتا!
مشکل شعر نہیں کہتا!
83
اب کٹاؤ نہ وہ بہاؤ ہے
شانت ندی ہے، شانت ناؤ ہے
پاس بلوا کے پھر جھڑک دینا
آپ کا ایک ہی سبھاؤ ہے
آج دل پر ُمہر لگا دینا
آج یہ آخری چناؤ ہے
سوچ کر اُس کے پاس جانا ہے
یہ بھی دل ہی کا ایک داؤ ہے
تم مجھے دور ہی رکھو گے میاں!
تم پہ اوروں کا کچھ دباؤ ہے
دل ہے اک انجمن سو اپنا سخن
اپنی ہی ذات کو سناؤ ہے
میں نے پوچھا، عماد! آج کدھر؟
بولا اک دشت میں پڑاؤ ہے
84
کچھ اس طرح ہے کہ اب سے پہلے مری بھی خوشیوں سے دوستی تھی
مگر بتایا یہ زندگی نے کہ غم کے رستوں پہ آگہی تھی
شعور کے سب برس گنے تھے تو چار دِن بھی نہیں بنے تھے
قصور کے سال گن رہا ہوں، تو لگ رہا ہے کہ اک صدی تھی
میں اپنے اندر نجانے کتنے برس کے لمبے سفر سے آیا
اور اتنی مدت کے بعد باہر گیا تو دنیا وہیں کھڑی تھی
عجیب لوگوں سے واسطہ تھا، جو صرف جسموں کو مانتے تھے
جسے بتایا کہ روح کیا ہے، اُسے ہی حیرت لگی ہوئی تھی
ہم اس کو برسوں سے جانتے تھے، ہم اس کو اپنا بھی مانتے تھے
مگر حقیقت کھلی تو دنیا ہمارے قدموں میں آ پڑی تھی
اسے پتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اس کا بندہ بدل گیا ہے
جو سات سالوں سے قبل بیتی، وہ زندگی اور زندگی تھی
سفر جلی کیا، سفر نہاں کیا، کسی ولایت کا امتحاں کیا
عماد جس کو کہا کہ بدلو، اسے بدل کی پڑی ہوئی تھی
85
وہ میرے ساتھ دنیا جی رہا تھا
میں اُس کے ساتھ تنہا جی رہا تھا
ابھی لحظہ بہ لحظہ مر رہا ہوں
کبھی لمحہ بہ لمحہ جی رہا تھا
کہا تھا اس کے بِن مر جاؤں گا مَیں
مگر مَیں بے وفا تھا، جی رہا تھا
مکانوں کی چھتیں اوندھی پڑی تھیں
کھڑا تھا ایک خیمہ، جی رہا تھا
غمِ ہستی نے مجھ کو مار ڈالا
غمِ جاناں میں اچھا جی رہا تھا
تو میرے جسم کی سانسیں رواں تھیں
میں اُس کے بِن بھی گویا جی رہا تھا
وہ جذبہ جو بدن سے ماورا ہے
وہ جذبہ ناچتا تھا، جی رہا تھا
دلوں میں بال تھے، مِلتے نہیں تھے
سو بس ہر ایک اپنا جی رہا تھا
نہایت تیز آندھی میں وہ تنہا
کھڑا تھا اور کیسا جی رہا تھا
خوشی تو مر گئی، مدت ہوئی تھی
مگر وہ ایک صدمہ جی رہا تھا
عماد احمد وہ تیرا مان تھا جو
جب اُن ہاتھوں سے ٹوٹا، جی رہا تھا
86
میرے فاتح کو تشنگی کیوں ہے
اور مجھے ہار کی خوشی کیوں ہے
خواہشِ ہجر ہے تو کیونکر ہے
وصل اتنا ہی اجنبی کیوں ہے
ہم تو احیائے راز کو چپ ہیں
شہر میں اتنی خامشی کیوں ہے
گر فسانہ ہے دل کا غم تو بتا!
زیرِ تحریر شاعری کیوں ہے
سوچ مرتی نہیں یہ سوچا تھا
سوچتا ہوں یہ سوچ ہی کیوں ہے
لڑکھڑانا ہے جب مقدر میں
راستہ کیوں ہے، راستی کیوں ہے
خامشی کے نگار خانے میں
ایک تصویر ناچتی کیوں ہے
عُمر بھر جس کی آبیاری کی
بس وہی شاخ سوکھتی کیوں ہے
سرد لہجہ ہے، منجمد آنکھیں
آگ سینے میں پھر لگی کیوں ہے
دشت و صحرا کی سیر سے جانا
عالَمِ ہُو میں آگہی کیوں ہے
ہر خوشی میں بھی بے قراری ہے
اتنا بے چین آدمی کیوں ہے
کس نے سونگھا ہے یہ بدن آخر
اے مری روح کانپتی کیوں ہے
عشق ہے، رائگاں سفر ہی سہی
لَوٹ جانے کا ذکر ہی کیوں ہے
دل جلے! یہ تری پریشاں سوچ
ہجر کے کھیل میں پڑی کیوں ہے
اے خدا! تھک گیا ہوں جی جی کر
آپ نے اتنی عُمر دی کیوں ہے
آؤ تبلیغِ دردِ عشق کریں
آؤ کہہ دیں کہ عاشقی کیوں ہے
صرف دو گام پر رہی منزل
پھر یہ اصرارِ واپسی کیوں ہے
جب پتنگ اُڑ رہی ہو عین اس وقت
عُمر کی ڈور ٹوٹتی کیوں ہے
میں اسے رائگاں سمجھتا تھا
تو نے کھولا کہ زندگی کیوں ہے
تم بتا دو کہ جب محبت میں
درد ہی درد ہے، ہنسی کیوں ہے
حسِ ظاہر نصیب ہے جس کو
اُس کے باطن میں بے حسی کیوں ہے
زندگی رائگاں ہے تیری عماد
تو نے یہ اُس کے نام کی کیوں ہے
87
حاسد، کنواں، تہمت، زنداں یہ سارے تو رستے ہیں
سورج، چاند، ستارے تو پھر منزل پر ہی ملتے ہیں
پارس پتھر خاطر دنیا مُلکوں مُلکوں پھرتی ہے
پارس پتھر ہونے والے صرف ریاضت کرتے ہیں
کچھ سالوں تک دنیا سے کٹ کر بھی جینا پڑتا ہے
تَب جا کر ہی مَن کے اندر روشن دِیپ چمکتے ہیں
دشمن طاقتور ہے یا کمزور مجھے اب خوف نہیں
حق کی خاطر جینے میں کچھ فیصلے کرنے پڑتے ہیں
پابندی اور آزادی مجھ جیسوں کو تو اک ہی ہیں
ایک میں لوگ اور ایک میں ہم خود اپنا آپ جکڑتے ہیں
غیر ضروری رشتے رکھ کر کتنوں کو مجروح کیا
اب خاموش بسر کرتے ہیں، اب تنہا ہی پھرتے ہیں
غم کا روگ بہل جاتا ہے، رونے سے، ہنس دینے سے
ان کی سوچو جو ہر حال میں اصلاََ ہی چُپ رہتے ہیں
سچائی کو روگ بنائے رکھنا کیسی نیکی ہے
یہ رستے ایمان میسر ہو، تب اچھے لگتے ہیں
ایک عماد سے کیا ہونا تھا، اتنے ڈھیر محاذوں پر
لیکن حق کی راہوں میں کچھ غیبی ہاتھ بھی ہوتے ہیں
88
سخت بات
دل کی آوارگی
غلامیِ نفس
آرزو بے لگام کر دینا
زندگی بے مقام کر دینا
راستوں کو ہی منزلیں کہنا
راستی کو سلام کر دینا
حسرتوں کو بسا کے رکھنا اور
خواہشوں کو دوام دے دینا
بیچ دینا ضمیر پھر اس کو
با اُصولی کا نام دے دینا
نفس کا یوں غلام بن جانا
اپنے محور کو چھوڑ کر چلنا
اپنے ہاتھوں عوام بن جانا
خواہشوں کا غلام بن جانا
پہلے پہلے ہجوم بن جانا
اور پھر اژدہام بن جانا
حسرتیں گویاگھات ہوں جیسے
خواہشیں بے ثبات ہوں جیسے
ان کو پڑھنے کا دل نہیں کرتا؟
ان کو سننے کا دل نہیں کرتا؟
بات کی جائے تو سلیقے سے؟
لفظ لکھوں جو ہوں قرینے کے؟
بس یہی ناں کہ سچ ہو جیسا بھی
قلب کا حال جس طرح کا ہو
دل میں آوارگی ہو جتنی بھی
نفس کتنا غلیظ ہو چاہے
تہہ بھی جتنی دبیز ہو چاہے
ذکر انکا ہو صاف لہجے میں؟
لفظ گندے نہ ہوں کسی صورت؟
چھوڑیے، یہ تو کوئی بات نہیں
یہ تو صاحب منافقت ٹھہری
خود مری بات کی دلیل ہے یہ
میرے لہجے کی خود وکیل ہے یہ
میرے الفاظ چھوڑ دیجیے گا
اپنے اندر نگاہ کیجیے گا
دل کی آوارگی۔۔
غلامیِ نفس۔۔
نہ نظر آئیں تب ہی لڑیے گا!
89
سانس لیتی سَحر میں دیکھا ہے
جو کسی کی نظر میں دیکھا ہے
ایک پَرتو کسی حقیقت کا
ہم نے شمس و قمر میں دیکھا ہے
حوصلہ جنگلوں میں رہنے کا
اک اکیلے شجر میں دیکھا ہے
پہلے دیکھا تھا دشت میں جو فسوں
آج وہ اپنے گھر میں دیکھا ہے
میری ہستی کے غم کا سایہ ہی
آپ نے بام و در میں دیکھا ہے
خوف کھاتا ہے بزدلی سے وہ
ہم نے اک ڈر نڈر میں دیکھا ہے
کیوں اُداسی کی اوڑھ لی چادر
کیا بھلا اس نگر میں دیکھا ہے
نفس کو اپنے دائرے میں لا
چھوڑ، جو شہر بھر میں دیکھا ہے
میں کسی بام کا کبھی نہ ہوا
خود کو اکثر سفر میں دیکھا ہے
اب تو جنگل کی آگ کچھ بھی نہیں
زور ایسا خبر میں دیکھا ہے
90
تشکیلِ ذات
چلو چھوڑو زمانے کے فسانے
چلو رہنے دو اِس دُنیا کے قصّے
ہمیں کیا کِس نے کتنے گھر بنائے
ہمیں کیا کِس نے کتنے گھر بسائے
ہمیں کیا ہو زر وزن کس نے پائے
ہمیں کیا کس نے جام و دُر لٹائے
گمان و ظن ہے دُنیا، اس کی خواہش
شکست و ریخت ہے اس میں بِسرنا
گزر جائیں گے دن اچھے برے سب
نکل جائیں گے پَل مُٹھی سے آخر
مجھے اب فکر یہ ہے حاصلِ زیست
زر و زن، جام و دُر، گھربس یہی ہیں؟
محبت، قوتِ بازو، سہولت
مقدر کے اُفق پربس یہی ہیں؟
تو میرے پاس اپنا کچھ نہیں ہے؟
جو اندر ہو، جومیری دسترس سے چھِن نہ سکتا ہو؟
جو میرے ساتھ جائے جب چلا جاؤں مَیں دُنیا سے
نہیں نیکی نہیں، نیکی تو سب کرتے ہیں دُنیا میں
کہ نیکی بھی تو آخر تول ہے، تُل جائے گی اک دن
کوئی شے جو مَیں اس دُنیا میں رہ کر خود بنا پاؤں
مگر وہ میرے اندر ہو
مجھے محسوس ہوتا ہے
زمانہ کارخانہ ہے
جہاں مَیں خود سے اپنی ذات کی تعمیر کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں
مجھے یہ دسترس دے دی گئی ہے
کہ میں اُس شخص اُس انسان کی تعمیر اور تشکیل کر پاؤں
جو اگلی زندگی کو اپنی مرضی سے
بسر کرنے کی پوری اہلیت رکھے
مجھے معلوم ہونے لگ گیا ہے یہ ضروری ہے
کہ جب مَیں دوسری دُنیا کے سفروں پر نکل جاؤں
تو میری ذات، میرے ہاتھ سے تشکیل کردہ ذات
میری دسترس میں ہو
مجھے اس زندگی سے بس یہی مطلوب اور مقصود لگتا ہے
کہ میری ذات خود مجھ کو
کسی اگلے سفر،دنیا سے آگے، آخرت کے بعد
جنت سے پرے کی زندگی کے واسطے بیدار کرتی ہو
مری اصلی حقیقت کے لیے تیار کرتی ہو!
91
مری تکلیف سے اُس کو علاقہ بھی نہیں ہوتا
اور اُس کے بِن مجھے کوئی افاقہ بھی نہیں ہوتا
کبھی انسان غصے میں بھی خود کو مار لیتا ہے
وہ جس کی مان لیں ساری وہ آقا بھی نہیں ہوتا
ہمارے سے تو گھر کے برتنوں کا حال بہتر ہے
ہمارے ٹوٹ جانے سے چھناکا بھی نہیں ہوتا
یہ دل لٹتا ہے جب تو آدمی خاموش رہتا ہے
کہ چوری کہہ نہیں سکتا ہے، ڈاکا بھی نہیں ہوتا
ہماری بھوک دل کی بھوک ہے جسموں سے عاری ہے
نہیں بھرتا ہے اس میں پیٹ، فاقہ بھی نہیں ہوتا
اب ایسا وقت ہے وہ بھی گزر جاتا ہے دھیرے سے
اور اپنے دل میں پہلے سا دھماکا بھی نہیں ہوتا
عماد ایسا بھی ہوتا ہے کہ دل ایسے پہ آ جائے
نظر بھر کے جسے اک بار تاکا بھی نہیں ہوتا
92
غمِ ہستی گوارا ہو رہا ہے
تبھی تم سے کنارہ ہو رہا ہے
مجھے کچھ اور راہیں چھاننی ہیں
کہیں سے یہ اشارہ ہو رہا ہے
جدائی سانحہ تھا، ہو گیا تھا
وہی اب پھر دوبارہ ہو رہا ہے
نئے رشتے، نئی منزل، نئے ہم
جنم گویا ہمارا ہو رہا ہے
اُسے منزل سمجھنا چھوڑ دو، وہ
سفر کا استعارہ ہو رہا ہے
مرِا دل دیکھ آیا ہے حقیقت
تبھی تو بے کنارہ ہو رہا ہے
تصوف، روشنی، منزل، مقدر
ہمیں کوئی سہارا ہو رہا ہے
وہ اک رستہ ہماری زندگی ہے
جو اب منزل سے پیارا ہو رہا ہے
عماد اب زندگی کا غم نہیں ہے
ہمیں مرنے کا یارا ہو رہا ہے
93
ہم تو سمجھے ہو گئے روشن ہمارے بخت، دوست
آج اک درویش نے ہم کو دیا ہے وقت، دوست
دوستی میں جبر مَیں برداشت کر سکتا نہیں
آپ میرے سخت دشمن بن رہے ہیں سخت، دوست
تم کہو کس کی قدر ہو کس سے بے زاری یہاں
صاحبِ کردار دشمن اور ابن الوقت، دوست
آپ کی پوشاک ہے ریشم کے تاروں سے بنی
اور بڑھانا چاہتے ہیں صوفیوں سے ربط، دوست
ساتھ رہنا تھا تو پیمانِ وفا میں قید تھے
اب مجھے آزاد کر دو، اُٹھ چکا ہے رخت، دوست
رنج نے مانوس کر ڈالا ہے اپنے آپ سے
دل خوشی سے کٹ رہا ہے، ہو رہا ہے لخت، دوست
آپ کے سینے میں بھی کچھ راز ہیں، میرے بھی ہیں
دیکھتے ہیں کھولتا ہے کون، کیا، کس وقت، دوست!
بخش دیتا ہے زمانہ دوستوں کے سات خون
گِن کے دیکھا ہے تو پورے ہو گئے ہیں ہفت، دوست
عقل والے کیا سمجھ پائیں گے ان باتوں کے راز
وجد والوں کو بھی ہے درکار تھوڑا خبط، دوست
بے سر و سامانیاں، اُجڑا ہوا دل، اُس پہ آپ
کر رہے ہیں اور غم سینے کے اوپر ثبت، دوست
جب سبھی سے اعتبار اُٹھ جائے تب کہنا ہمیں
ساتواں در کھول دیں گے آپ پر اس وقت، دوست
آپ نے مجھ کو سکھائے گُر حکومت کے عماد
پیر کے نیچے سے کھینچا آپ ہی نے تخت،دوست
94
نفس پرستی لے جاتی ہے دُور خدا سے بندے کو
رہ جاتے ہیں کچھ پچھتاوے انساں کے تنگ ہونے کو
لوگ ہمیں مل کر کہتے ہیں تم ویسے کے ویسے ہو
کسے دکھائیں اندر کا دکھ کہ ہم تو ہیں مرنے کو
جس لمحے آ جائیں فرشتے، جس لمحے ہو اذنِ سفر
ہم نے ساماں باندھ لیا ہے، ہم راضی ہیں چلنے کو
سب کے اپنے اپنے غم ہیں، سب کے اپنے اپنے روگ
کون کِسے کیا سمجھائے اب بھولیں کیسے صدمے کو
کاش کہ غم مٹی ہو جائیں، مٹی سے پھوٹیں خوشیاں
کاش کہ سوچیں رستہ دے دیں بس تھوڑا سا جذبے کو
جس میں تیری یاد کے موتی سیپی سے برآمد ہوں
سالوں سے ہی ڈھونڈ رہے ہیں ہم اک ایسے لمحے کو
خیر و شر کی جنگ میں ہم تو بس میدانِ جنگ رہے
اور ہم کیسے بھولے پن سے نکلے تھے جی لڑنے کو
تُو کہتا تھا ڈوب مریں گے یا اتریں گے پار عماد
اب ہمت ناپید ہے تیری اک چُلّو تک بھرنے کو
95
قلب کچھ تو عذاب سے سیکھا
باقی غم کے نصاب سے سیکھا
نفس کو باندھنے کا فن میں نے
آرزوؤں کے باب سے سیکھا
غیر مانوس راستوں سے گزر
منزلوں کے حساب سے سیکھا
علمِ اسباب زندگی سے ملا
پھر لَدُنّی کتاب سے سیکھا
راستوں اور منزلوں کا شعور
میں نے تاویلِ خواب سے سیکھا
آنکھ پر اعتبار غلطی ہے
زندگی کے سراب سے سیکھا
تارِدل چھیڑنے سے غم کانپا
جیسے دھن کو رباب سے سیکھا
بس کوئی غم نہ ہو یہی ہے خوشی
کچھ تو ہم نے عذاب سے سیکھا
زیست کا گُر فنا میں مضمر ہے
خواہشوں کے حباب سے سیکھا
جو ملنگوں سے سیکھنا تھا عماد
آج وہ اضطراب سے سیکھا
96
ٹھہراؤ!
یوں نہیں تھا مجھے لحاظ نہ تھا
یا غمِ دل مرا محاذ نہ تھا
پَر مجھے لوٹنا پڑا اس بار
دل کو بھی روکنا پڑا اس بار
مجھے ادراک تھا زمانے کا
اپنے کٹنے، ترے تڑپنے کا
غم نہیں کر سکا،دکھانے کو
خوش نہیں ہو سکا، بتانے کو
خود بھی ترسا مَیں مسکرانے کو
تُو بھی تکتا رہا کہ ہنس دوں میں
کسی خاطر، کسی بہانے کو
کوئی اُمید ہی دکھانے کو
پَر مجھے اور کوئی سودا تھا
ذہن جذبوں سے یوں علیحدہ تھا
جیسے صحرا میں کوئی پودا تھا
جو بہاروں سے دور زندہ تھا
تُو بھی آگاہ ہے ہمیشہ سے
ایسا بے حس مرامزاج نہ تھا
میں تو ہنستا تھا اپنے غم پر بھی
اپنے ہر غم کے زیر وبم پر بھی
اور روتا تو دل سے روتا تھا
راہ چلتوں کی چشمِ نم پر بھی
میں تو زندہ تھا دھڑکنوں کے لیے
میں تو دھڑکا تھا زندگی کے لیے
پَرمرے یار اب کے موسم میں
میرے دل کا کوئی علاج نہ تھا
یوں نہیں تھا مجھے لحاظ نہ تھا
یا غمِ دل مرا محاذ نہ تھا
پَر گئے موسموں کی سمت مرا
دل نہیں تھامرا دھیان نہ تھا
اب میں تھک جاؤں یہ ہی ٹھیک لگا
اب کے رک جانا امتحان نہ تھا
صرف رکنے میں مطمئن تھا دل!
بس ٹھہر جانا تھا مری منزل!
97
کبھی مغلوب ہو جاتا ہے دل جب غم کی شدت سے
تخیل میرا لڑتا ہے، مرے جذبوں کی وحشت سے
بہت دن سے خوشی کا ایک عالم ہے سو ڈرتا ہوں
کہیں کچھ گُل کھلا ڈالے یہ دل مجبور عادت سے
کوئی بُرہان دیکھی تھی تبھی تو بچ گیا تھا مَیں
بُلایا تھا مجھے دُنیا نے کس درجہ محبت سے
بھُلا دیتا ہے انساں دل سے وابستہ کئی قصے
پگھل جاتے ہیں کچھ جذبے غمِ دوراں کی حدّت سے
خلا محسوس ہوتا ہے کبھی تاریکیِ شب میں
ملے ہیں اور نہ کی ہے بات کچھ لوگوں سے مدت سے
عماد اپنی ریاضت پر بھروسا چھوڑ دے کیونکہ
مِلا کرتا ہے اذنِ باریابی اُس کی قدرت سے
98
اپنے ماتھے پہ بھی کچھ وقت کے دھارے نکلے
مانگ میں تیری بھی کچھ چاند ستارے نکلے
بالوں میں چاندی اُتر آئی ہے اور سانسوں میں برف
ہم بھی بالآخر اسی زیست کے مارے نکلے
وقت کے گھوڑے پہ بیٹھی تھی جوانی کل تک
اب ڈھلی عمر میں ہم لے کے سہارے نکلے
موت آسان لگی تب ہی تو ہمت سے جیے
زندہ رہنے کے لیے روز اشارے نکلے
موت کے خوف سے ہم بھاگ گئے زیست کی سمت
گویا ہم موت نہیں، خوف کے مارے نکلے
سالہا سال پھرے وادی و صحرا و شہر
چار چھ لوگ ہی کردار کے تارے نکلے
ہم نے کھوجا ہے کئی بار تجھے شام و سحَر
تیرے انکار کو کاندھے سے اُتارے نکلے
منجمد خوابوں کی دیواروں میں محصور تھے لوگ
چند اک تھے جو کڑی دھوپ کے مارے نکلے
اُس کی گفتار میں غصہ بھی بجا ہے کہ عماد
ہم کو قانونِ وفا اس سے بھی پیارے نکلے
99
گمان و ظن سے ذرا اب جدا کیا جائے
مجھے شعورِ حقیقت عطا کیا جائے
نفَس نفَس پہ جو بیتی ہے مت کہے پھر بھی
کسی کی آنکھ کے موتی کا کیا کِیا جائے
میں اپنی روح کو ڈھونڈوں کہ اِس بدن کو جیوں
کہ کوئی طور تو اپنا بھلا کیا جائے
تمام عمر اداسی کو تیرا نام دیا
سو اب کی بار بہانہ نیا کیا جائے
اگرچہ سامنے مقتل تھا پَر دلِ مضطر
یہ کہہ رہا تھا کہ رستہ کھُلا کیا جائے
مری اداس نگاہیں ترے وجود پہ تھیں
تجھے خبر نہ ہوئی اس کا کیا کِیا جائے
مجھے یہ چاہ کہ تو اپنی زیست آپ جیے
تجھے یہ فکر کہ وعدہ وفا کیا جائے
میں زندگی کی اسیری میں سوچتا ہوں عماد
بدن کو روح سے کیسے جدا کیا جائے
100
قطعہ
جب کبھی خود کو تار تار کیا
نفس سے دوستی رہی اُس رات
شام کے بعد، صبح سے پہلے
روشنی، راستی رہی اُس رات
101
کسی نے ذات کے منظر میں خود کو دیکھ لیا
کسی نے رات کے منظر میں خود کو دیکھ لیا
غرور، جھوٹ، تجسس، حسد، غلامیِ نفس
شعورِ ذات کے منظر میں خود کو دیکھ لیا
تمہیں بھی خوف نہیں اب رہا زمانے کا
کسی کی مات کے منظر میں خود کو دیکھ لیا
اندھیرے شہر میں آسیب بن کے گھومتا ہے
کہ جس نے رات کے منظر میں خود کو دیکھ لیا
حسینؓ ہو کہ ہو ابنِ زیاد جان لیا
کہو! فرات کے منظر میں خود کو دیکھ لیا
وہ مردِ حُر ہی بنے گا کہ جس نے جرم کے بعد
پھر اپنی گھات کے منظر میں خود کو دیکھ لیا
عماد خود کو بشر اب کہوں تو کس منہ سے
بشرﷺ کی نعت کے منظر میں خود کو دیکھ لیا
102
میں اُسے بدل رہا تھا، وہ مجھے بدل رہی تھی
مری بے کلی تو گویا، مرے ساتھ چل رہی تھی
جسے میں نے خود سے چاہا، وہ خوشی نہیں ملی ہے
جو مرے نصیب میں تھی، سو وہی سپھل رہی تھی
تری جُستُجو میں مَیں نے کئی سال تج دیے تھے
یہ شعور ہی نہیں تھا کہ یہ عُمر ڈھل رہی تھی
مری آگہی نے جانا، مجھے مجھ سے پیشتر ہی
مَیں مڑا جو اپنی جانب، تو وہ ہاتھ مل رہی تھی
وہ جو غم ملا مجھے تو، وہ چمٹ گیا مرے سے
جو خوشی بھی ہاتھ آئی، کسی دم پھسل رہی تھی
جو ملا عماد اس نے ترا حال تک نہ پوچھا
سبھی دوستوں کے دل سے تری یاد ڈھل رہی تھی
103
خود انحصاری
مَیں نے کچھ ایسے زندگی کی ہے
گھُپ اندھیرے میں روشنی کی ہے
جگ پہ کب اعتبار رکھا ہے
خود پہ ہی انحصار رکھا ہے
گِرد اپنے حصار رکھا ہے
یہ بہت پہلے جان بیٹھا تھا
کہ یہاں ایک ہی سہارا، مَیں
ڈوبنے لگ گیا کہیں پہ اگر
پھر تو بس ایک ہی کِنارہ، مَیں
یار، اغیار کچھ نہیں دیں گے
پیار، بیوپار کچھ نہیں دیں گے
اپنے گرنے پہ خود سنبھلنا ہے
ہر بھنور ہی سے خود نکلنا ہے
سو فقط اپنی ذات، اپنا وجود
سو فقط حوصلہ، جواں مردی
ان پہ ہی اعتبار رکھا ہے
خود پہ ہی انحصار رکھا ہے
تشنہ کامی اگر بڑھی اپنی
چشمہِ دل سے پی لیا میں نے
درد جب بھی بڑھا کسی غم کا
خود کو ہی چارہ گر کیا میں نے
جب اندھیرا بڑھا مرے اندر
روح کی روشنی سے کاٹ دیا
جب سیاہی بڑھی غموں کی تو
چشمِ نم سے ہی دھو دیا اس کو
میں نے کچھ ایسے زندگی کی ہے
گھُپ اندھیرے میں روشنی کی ہے
جگ پہ کب اعتبار رکھا ہے!
خود پہ ہی انحصار رکھا ہے!
گِرد اپنے حصار رکھا ہے!
104
عرض کرتے ہیں تو فرماتے ہیں
اُن کے نخرے ہی نہیں جاتے ہیں
پہلے کہرام مچاتے تھے غم
اب دبے پاؤں چلے آتے ہیں
اب خموشی کا سبب کیا بولیں
لوگ سچ سننے سے گھبراتے ہیں
تجھ سے ملنے پہ نہیں آتا دل
ہم تو اکثر اِسے سمجھاتے ہیں
چاندنی راتوں میں کچھ خواب و عذاب
بس جھگڑتے ہوئے آ جاتے ہیں
غم کے پودے یہاں اُگتے ہیں بہت
دل کو زرخیز زمیں پاتے ہیں
ہم ہمیشہ ترے جانے کے بعد
ترے وعدوں سے بہل جاتے ہیں
جو تہی دامنی دیتی ہے تجھے
تجھ کو وہ غم ہی بہت بھاتے ہیں
ہم نہیں اُن میں سے جو لوگ عِماد
اپنے ماضی سے بھی شرماتے ہیں
105
آپ مُجھ کو چھوڑ کے میرے حوالے کیجئے
میرے اندر کے سفر کی کنجیاں دے دیجئے
مَیں پلٹ کر آؤں یا ایسا نہ ہو، یہ چھوڑیے
پر چلا جاؤں گا ہاں اتنی قسم لے لیجئے
ہم تمہارے ساتھ بھی خاموش تھے اور بعد بھی
ہم کو اپنے روگ تھے ہم ایک جیسا ہی جئے
اب اگر دل مان ہی بیٹھا ہے اُس کی برتری
تو اسے آواز دے کر میرِ منزل کیجئے
اب مسیحائی کے دعویدار سارے چھَٹ چکے
آج اپنے زخم اپنے ہاتھ سے ہی سی جئے
ہاں مجھے احساس ہے رشتے کا بھی، رنجش کا بھی
چھوڑیے، دُکھ کو مرے یوں مت بڑھاوا دیجئے
ایک دن جس کو نمازِ عشق حاصل ہو گئی
میری ساری عمر اُس انسان کو دے دیجئے
اب عماد احمد اسے خود سے جُدا کرتے ہو کیوں
اس نے پہلے بھی تو کتنے سال تجھ بِن ہی جئے
106
سفر نصیب میں ہوتا تو ہم بہک جاتے
یا گھر قریب میں ہوتا تو بے کھٹک جاتے
اگر نہ کرتا حفاظت میں اپنے رستے کی
خیال و دل کے پرندے مجھے اُچک جاتے
کِیا ہے ساری کہانی میں اس کے نام پہ ضبط
مٹا دیے ہیں اشارے جو اس تلک جاتے
اگر خیال نہ ہوتا حریمِ الفت کا
کسی جنون کے لمحے میں یہ بھی بَک جاتے
کسی سے ربط کی عزت کو چپ رہے ہم لوگ
وگرنہ اپنے بچاؤ میں دور تک جاتے
اگر وہ چاند سا چہرہ نہ راہ بَر ہوتا
شبِ فراق کی راہوں میں ہم بھی تھک جاتے
عماد ہم نے سرِ عام خود کو للکارا
کہ دل کے چور بس ایسے نہیں کھسک جاتے
107
کھو بھی سکتا ہوں اِشاروں میں بتایا ہے بہت
مجھے ماضی میں بھی لوگوں نے گنوایا ہے بہت
ڈھے بھی جاتی ہیں عمارات بلند و بالا
ڈھل بھی جاتی ہے محبت یہ جتایا ہے بہت
تُو غمِ ہستی کو حیران نگاہوں سے نہ دیکھ
یہ جو روشن ہے تو دل مَیں نے جلایا ہے بہت
دیکھ کے تجھ کو جو اٹھ بیٹھا ہے یکدم پھر سے
میں نے اُس درد کو ا ک عُمر سلایا ہے بہت
جو بنایا نہ بسایا کبھی، ایسا اک گھر
دیکھ کے تجھ کو مجھے یاد وہ آیا ہے بہت
آپ نے پھر سے اِسے ڈال دیا ہے اس راہ
ہم نے اِس دل کو کئی سال منایا ہے بہت
وہ مرے بعد بہت خوش ہے یہ اُس کی قسمت
میری تقدیر، مجھے دکھ نے ستایا ہے بہت
ساری دنیا کا سفر تجھ کو مبارک ہو، مجھے
گھر کے آنگن میں کھڑے پیڑ کا سایہ ہے بہت
بھول جاتا ہوں کہ اُس نے ہی مجھے چھوڑا تھا
اُس نے اِس بار یقیں مجھ کو دلایا ہے بہت
اب عماد آئے تو کہہ دینا پلٹ جا واپس
تُو نے ہر گام پہ اس دل کو رُلایا ہے بہت
108
مرا دل غم کا جادہ کس لیے ہے
بھلا یہ اتنا سادہ کس لیے ہے
اگر چاہت میں دم باقی نہیں ہے
تو ملنے کا ارادہ کس لیے ہے
مجھے ہر بار دیتے ہو دغا تم
تو پھر ہر بار وعدہ کس لیے ہے
اگر ماخذ ہمارا روح ہے تو
بدن کا یہ لبادہ کس لیے ہے
میاں تم شاہ ہو، بچ جاؤ گے تم
کہو گے خود، پیادہ کس لیے ہے
مرے بالوں میں چاندی آ گئی ہے
چلو چھوڑو یہ وعدہ کس لیے ہے
عماد احمد سفر میں تو سبھی تھے
تھکن تیری زیادہ کس لیے ہے
109
ایک چہرہ ہے مگر یاد میں دھندلا رہا ہے
جیسے اک سایہ مری آنکھ میں لہرا رہا ہے
اک جنوں پیشہ خرد مندوں میں بیٹھا ہوا ہے
گرچہ خاموش ہے پر ہولے سے مُسکا رہا ہے
دل کا آئینہ جو دیکھا ہے بہت مدت بعد
آج بھی اُس میں ترا عکس نظر آ رہا ہے
وہ مجھے دیکھ کے حیران ہے اور مَیں اُس کو
وقت دونوں کو بدلتا ہی چلا جا رہا ہے
ایک مدت سے ترا نام سنا ہے نہ ملے
دل مگر پھر بھی ترے نام سے رسوا رہا ہے
رویتِ دل ہے اسے رات سے پہلے کر لو
اور کچھ دیر میں یہ چاند ڈھلا جا رہا ہے
مَیں گروں گا تو مجھے خود سے سنبھلنا ہو گا
یہی بستی کی روایت میں چلا آ رہا ہے
110
رموزِ نفس کا آساں تریں بلاغ ہوں مَیں
تمام بوجھ اُٹھا کر بھی اب فراغ ہوں مَیں
اندھیری رات میں جلتا ہوا چراغ ہوں مَیں
حقیقتوں کو سمجھنے کا اک سراغ ہوں مَیں
وہ مجھ سے آج بھی جذبوں کی بات کرتا ہے
اسے خبر ہی نہیں ہے کہ بس دماغ ہوں مَیں
مَیں اپنے شر سے حفاظت کی مانگتا ہوں دعا
کہ آپ اپنے ہی دامن پہ ایک داغ ہوں مَیں
حدودِ نفس کو لے کر مَیں ایک زنداں ہوں
پر اپنی روح کی خاطر تو ایک باغ ہوں مَیں
عماد ذات کے اندر میں ایک نَغمہ ہوں
حدودِ قلب سے باہر بس ایک کاغ ہوں مَیں
111
قطعہ
دل اداسی کا اک سمندر ہے
ذہن جیسے کہ فکر کا گھر ہے
میرے اندر بھی اور باہر بھی
دو جہانوں میں ایک منظر ہے
112
ایک میں قلب کی سختی سے بہت ڈرتا ہوں
دوسرا نفس کی نرمی سے بہت ڈرتا ہوں
تین نسلوں کی مکافاتِ عمل دیکھی ہے
اس لئے وقت کی کرنی سے بہت ڈرتا ہوں
آسماں والے کی مرضی پہ رضامندی ہے
بس زمیں والوں کی مرضی سے بہت ڈرتا ہوں
راز کھُلتے ہیں تو دِل جھوم تو اُٹھتا ہے مگر
ایسے لمحات کی مستی سے بہت ڈرتا ہوں
خوف آتا ہے کبھی پستیِ انساں سے مجھے
اور کبھی اس کی بلندی سے بہت ڈرتا ہوں
ایک درویش، مصلّٰی پہ پڑا، روتے ہوئے
کہتا جاتا ہے، میں ماضی سے بہت ڈرتا ہوں
قلب روشن ہو تو امید سے کھِل جاتا ہے
اس لئے اپنی اداسی سے بہت ڈرتا ہوں
حدِافلاک سے آگے کی طلب رکھتا ہے
میں تری دیدہ دلیری سے بہت ڈرتا ہوں
ایک شب سُن کے مرا گِریہ کہا اس نے، عماد!
میں تری آنکھ کے موتی سے بہت ڈرتا ہوں
113
ترتیلِ غم
غم!
تیرا غم!
میرے اندر، دھیرے دھیرے، رفتہ رفتہ، آبیٹھا ہے!
دل!
میرا دل!
تیرے غم میں، لحظہ لحظہ، لمحہ لمحہ،ڈوب رہا ہے!
راتیں!
لمبی، مبہم، تنہا راتیں!
ناگن بن کر ڈستی راتیں!
میں ان کو، وہ مجھ کو کب سے کاٹ رہی ہیں!
میں!
تیرا میں!
میرے تیرے اک مشترکہ غم کو لے کر،
زندہ ہوں اور سوچ رہا ہوں!
موت!
میری اور میرے جذبوں کی
کب آئے گی!
غم، دل، راتیں،
مَیں، تم، سب سے چھڑوائے گی!
114
جب کبھی ہم نے اُس کو پاس کیا
سمجھیں اپنا ہی دل اُداس کیا
ہم بکھرنے لگے تو اپنوں نے
ہاتھ پکڑا نہ غم کا پاس کیا
میرے بے درد تجھ پہ کیا بیتی
تُو نے بھی درد کو لباس کیا
زخم بھی کھُل گئے کہانی بھی
اور یاروں کو بھی اداس کیا
تشنگی دیکھ کر محبت کی
چشمہِ دل نے پیاس پیاس کیا
اُس سے مانگا تو کس لیے مانگا
کس لیے خود کو بے سپاس کیا
دل تو اک چشمہِ اَلم ہے عماد!
جس نے سینہ مرا کٹاس کیا
115
نقطہ
مکان و لا مکاں کیا ہیں؟
زمان و لا زماں کیا ہیں؟
حدودِ آگہی کیا ہیں؟
شعورِ زندگی کیا ہے؟
حوادث کے بیاں سے جاننے کی جُستجو ناکام رہتی ہے
کسی تمثیل سے بھی یہ معمے حل نہیں ہوتے
جگہ اور وقت میں تفریق ہے یا یہ ہماری آنکھ کا دھوکا ہے
جو افکار کو محدود رکھتا ہے؟
حقیقت کو سمجھنے کے طریقے میں
کوئی ایسا خلا ہے جو ہماری جُستجو بے ُسود رکھتا ہے؟
اگرچہ فلسفے میں ان مسائل کے کئی حل ہیں
اگرچہ تجربات تھوڑی سُن گُن دے رہے ہیں اب
مگر کیا یہ حواد ث کا بیاں ہی ہے؟
اضافت کے عمومی یا خصوصی ضابطوں سے ملنے والے
کچھ مکانی اور زمانی نقطہ ہائے آگہی کا اک نشاں ہی ہے؟
یہ ہم سے دور بس افلاک میں گُم کہکشاؤں کی کہانی ہے؟
کہو کیا نفسِ انسانی نے آفاقی مسائل کو
ہمیشہ سے کہیں اندر، بہت اندر نہیں پرکھا؟
نفوسِ نسلِ انسانی نے باہر کے کئی عُقدے
فقط اندر کے سفروں سے نہیں کھولے؟
سنو، یہ لا مکاں اور لا زماں آفاق سے بڑھ کر
ہمارے اپنے اندر کی کہانی ہے
جہاں پر لا مکاں اور لا زماں ملتے ہیں، وہ نقطہ
کہ نقطہ؛بے مکان و بے زماں ہوتا ہے ویسے بھی
حدودِ آگہی کا ہے
شعورِ زندگی کا ہے
جو اس نقطے پہ آ جائے اسے محسوس ہوتا ہے
اسے معلوم ہوتا ہے
مکاں بس ایک حد ہے
زندگی کا امتحاں ترتیب دینے کے لیے تخلیق کردہ ہے
زماں بس ایک حد ہے
آدمی کا امتحاں ترتیب دینے کے لیے تخلیق کردہ ہے
جو اس نقطے پہ آ جائے
اسے معلوم ہوتا ہے
حقیقت کا نشاں کیا ہے
قلوبِ نفسِ انسانی کا اصلی امتحاں کیا ہے
اسے محسوس ہوتا ہے
زمانی کچھ نہیں ہوتا
مکانی کچھ نہیں ہوتا
جگہ اور وقت اک ہی چیز کے رُخ ہیں
حقیقت ہی کے پرتَوہیں
یہ دو بُعدین ہیں جو منقسم ہوتے ہوئے بھی
مرتکز ہیں ایک نقطے پر
جو اس نقطے پہ آ جائے
سمجھ جاتا ہے بالآخر
خدا جو لامکانی ہے
خدا جو لازمانی ہے
وہ کیسے قلبِ مومن میں سما سکتا ہے
کیسے آدمی کا ہاتھ رب کا ہاتھ بنتا ہے
کہ کیسے ٓادمی کی آنکھ رب کی آنکھ بنتی ہے
کہ کیسے لا مکاں اور لازماں ملتے ہیں نقطے پر
حدودِ قلب میں یک جان ہوتے ہیں
جو اس نقطے پہ آ جائیں
تو کس رفعت پہ پھر انسان ہوتے ہیں!
116
افسردگی تو عمر کا اک سنگِ میل تھی
غم تھا تو زندگی کی بھی اس میں دلیل تھی
جو سوچتا رہا ہوں کبھی کہہ نہیں سکا
اندر چھپی سیاہی ہی میری وکیل تھی
کچھ ہم بھی دوسروں کے لیے شاہ خرچ تھے
کچھ زندگی بھی اپنے لیے ہی بخیل تھی
میں آپ اپنی ذات کو قائل نہ کر سکا
جو بات کہہ رہا تھا بڑی بے دلیل تھی
ناپید ہو رہے تھے زمانے سے با صفا
کردار بیچنا ہو تو ہر سمت ڈھیل تھی
آغازِ خط میں نام تھے، دشنام تھے کئی
آگے نہیں پڑھا پَہ عبارت طویل تھی
فرصت کے کچھ دنوں میں کھلا یہ کہ زندگی
کچھ کام کر رہے تھے تبھی تو قلیل تھی
اہلِ صفا نے جان لیا تھا کہ زیست میں
جو درد مل رہے تھے وہی زنجبیل تھی
اک چشمہِ حیات تھا اہلِ وفا کے ہاتھ
غم بہہ رہا تھا اور یہی سلسبیل تھی
117
طریقتِ اہلِ وفا
ضبطِ غم میری نہ عادت ہے، نہ مجبوری ہے
یہ طریقہ ہے
طریقت ہے
وفا والوں کی
درد کو سینچتے رہنا کہ وہ تحریک بنے
سوچ کے نور کی، جذبات کے اظہار کی اور
لفظ کو آنچ پہ رکھنا کہ وہ تریاق بنے
غم کی لَو بڑھتی ہے تو سوچ جواں ہوتی ہے
درد ہو تا ہے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے
غم میں اور حاملِ غم میں کوئی تفریق نہیں
سوچ اور دل کی جدائی بھی ذرا ٹھیک نہیں
لفظ بھی صرف سہارا ہیں بتانے کے لیے
ورنہ اندر کی گواہی کے یہ نزدیک نہیں
ایک ہو جاتا ہے انسان کا ظاہر باطن
جیسے ہو جائے سمندر پسِ طوفاں ساکن
نیک اور بد کی نہیں، جفت یا واحد کی ہے بات
ذہن اور دل جو ہوئے ایک تو کٹ جاتی ہے رات
ایک ہو جاتا ہے انساں تو سمجھ جاتا ہے
دردِ دل کھول کے رکھنے کے لیے ہوتا تو
لوگ اس کی بھی نمائش سے منافع لیتے
غم اگر جنس کی صورت بھرے بازار کے بیچ
بِک گیا ہوتا تو کس دام کا ہوتا آخر
یہ تو انمول سی سوغاتیں ہیں دل والوں کی
سینچتے پھرتے ہیں،سینے سے لگا رکھتے ہیں
ان کی تحریک سے ہوتا ہے نیا نور کشید
ان کے پارس سے بنے جاتے ہیں انساں سونا
دردوالوں سے کبھی پوچھو تو بتلائیں گے
ضبطِ غم ان کی نہ عادت ہے، نہ مجبوری ہے
یہ طریقہ ہے،
طریقت ہے،
وفا والوں کی!
118
اپنا اندر ہی مار چلتے ہیں
چل اداسی کے پار چلتے ہیں
جس پہ احساں کیا وہی بِچھڑا
لوگ کب زیرِ بار چلتے ہیں
وہ نہیں آئے گا پلٹ کر اب
آ شبِ انتظار چلتے ہیں
کوئی آسیب تو نہیں ہے وہ
اُس کے گھر بے حصار چلتے ہیں
کتنی توقیر چاہتے ہو اور
دامنِ تار تار چلتے ہیں
اک تو غم بے شمار ہیں آتے
اور پھر بے قطار چلتے ہیں
ہم ہی روکے ہوئے ہیں ناوکِ درد
دل پہ تو روز وار چلتے ہیں
اک نئے غم کی آرزو میں عماد
ہم پسِ دردِ یار چلتے ہیں
119
مدین
سال ہا سال ہوئے رونقِ دُنیا سے کٹے
اب تو اک عمر ہوئی شورشِ ماضی سے ہٹے
ایک موہوم اشارہ تھا سفرکا اور بس
ایک امید سہارا تھا سفر کا اور بس
کچھ دعائیں تھیں جو مانگی تھیں بہت دھیرے سے
ایک تو یہ کہ مری لغزشِ انسانی سے
درگزر فرما، مجھے غم سے رہائی دید ے
اور یہ وعدہ خدا سے کہ اب اس پل کے بعد
کسی ظالم کی حمایت نہ کروں گا ہرگز
پھر دعا یہ کہ مجھے ظلم کی بستی سے نکال
کوئی مانوس اشارہ ہو کسی منزل کا
ڈوبتے دل کو سہارا ہو کسی ساحل کا
زندگی کو مری اب اک نیا معنی دے دے
زیست کو میری کوئی مدینِ ثانی دیدے
اپنے ماضی سے کٹا تھا تو سفر مبہم تھا
اجنبی دیس، تھکن، دل میں ابھرتا غم تھا
کیسے بیٹھا تھا پریشان، شکستہ، دلگیر
اپنے اللہ سے دعا کی تھی، خدایا مجھ پر
خیر تُو جو بھی اُتارے، مجھے پائے گا فقیر
آٹھ برسوں کا سفرہے مرے اندر باہر
دھیرے دھیرے سے گرا خواہشِ دُنیا کا نگر
مَیں نے تنہائی میں پھر دیکھے ہیں دشتِ فانی
مجھ پہ بن باسی نے کھولے ہیں جہانِ معنی
آٹھ سالوں میں تو اک عہد گزر جاتا ہے
وقت کا دھارا زمانے کو بدل جاتا ہے
میں نے یہ سال فقط خود پہ نظر رکھی ہے
نفس کی باگ بھی ہاتھوں میں پکڑ رکھی ہے
آج میں وادی وصحرا کو سمجھ آیا ہوں
نفسِ انسانی کی ایذا کو سمجھ آیا ہوں
میں نہیں جانتا آگے کا سفر کیا ہو گا
آٹھ برسوں کی ریاضت کا ثمر کیا ہو گا
ہاں مگر دور کی چوٹی پہ نگہ جاتی ہے
اس پہ جلتی ہوئی اک آگ نظر آتی ہے!