Intro
اپنے آبا کے نام
ان کے جذبات، سوچیں، ملال اور غم
ہجرتیں، دوریاں، فاصلے اور الم
ان کی انسانیت
ان کی روحانیت
سب کے نام
زندگی کے سفر میں ہر اک موڑ پر
ساتھ چلتے ہوئے
ساتھ دیتے ہوئے
دو مسافر ہیں جو
ان کی ہمت کے، ان کے ارادوں کے نام
ان کے بکھرے ہوئے خانوادوں کے نام
اگلی نسلوں کے نام
ان کی خوشیوں، دکھوں
ان کے جذبات، سوچوں، ملالوں، غموں
ان کے حصے میں لکھے ہوئے رَ ت جگوں
ہجرتوں، دوریوں، فاصلوں سب کے نام
راستوں، منزلوں، آنسوؤں سب کے نام
نسل در نسل پھیلے ہوئے سلسلوں اور نشانوں کے نام
کچھ کے جسموں کے اور کچھ کی روحوں کے نام
آخرت میں اکٹھے ہوئے توخوشی
مل کے کاٹیں گے
ان ہی دعاؤں کے نام
۸۲ستمبر ۴۲۰۲
سہ پہر ۰۳:۳۰
زرعی یونیورسٹی، پشاور
Foreward
رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت
السلام علیکم!
میری پچھلی کتاب لو کے دیباچے کی اختتامی سطور کے اندرمیں نے ذکر کیا تھا سورۃ لقمان کی آخری آیت کا کہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کس سرزمین پر جا کر مرے گا۔ میں نے وہیں یہ ذکر بھی کیا تھا کہ اگرچہ میں اس کل کی پیشین گوئی تو نہیں کر سکتا مگر میرے اندر لگی اور باہر جلتی ہوئی لو ایک امید اور ایک دعا ضرور ہے سو میں اپنے قلب کی حضوری اور قالب کی حاضری لئے اس آنے والے کل کے انتظار میں سپاس گزار ہوں۔ یہ بات تھی امسال ۳۲ مارچ کی۔
۶۱ اپریل کوناگہانی مجھے ڈپلوپیا(دونظری کا مرض) ہو گیا۔ کوئی بارہ پندرہ دن تو مجھے درست سے یاد بھی نہیں کیوں کہ بیماری کی شدت سے میں نیم بیہوشی کی سی کیفیت میں ہی رہا۔ پھر بستر پر ٹیک لگانے کے قابل تو ہو گیا مگر نظر بھر کر کچھ دیکھنا بھی دماغ کے لئے انتہائی اذیت ناک مرحلہ بن چکا تھا۔پھر یہ کہ جون کے اوائل میں سفرِحج کا ارادہ بھی تھا جو بذاتِ خود کئی برس کے التوا کے بعد ممکن ہوا تھا۔ایسے میں میرے دماغ پر بس یہ دھن سوار تھی کہ کسی طرححالت اتنی سنبھل جائے کہ حج کا سفر ممکن ہو جائے اور میں اس سال بھی اس سے محروم نہ رہ جاؤں۔
اب پیچھے مڑ کر دیکھوں تو اس بات سے ہونٹوں پر مسکان آجاتی ہے کہ مدتوں یک نظری کا درس دینے والے انسان کو یکایک دو نظری کی شکایت نے آن گھیرا۔وہ جدھر بھی نگاہ دوڑاتا تھا اسے سب کچھ دو نظر آتا۔یہی نہیں بلکہ پھر وہ دونوں عکس عمود اور افق کی پہچان مٹانے پر تلے ہوئے ملتے۔ اس پر سونے پہ سہاگہ یہ کے یہ بیماری عین اس لمحے آئی جب وہ دہلیز پہ لو جلائے اور قلب میں لو لگائے بیٹھا تھا۔مگر واللہ اس مشکل کے آنے کا بھی یہی درست ترین وقت تھا۔
سب سے پہلے تو ظاہر کی دو نظری نے میرے اندر کی یک نظری کو نمایاں ہی نہیں توانا بھی کیا۔ بیماری کی حالت میں انسان کے قویٰ کمزور ہو جاتے ہیں اور ارادے کمزور تر۔جب میں نے اس حالت میں بھی خود کو مکمل طور پر انہی سوچوں، جذبوں اور ارادوں میں پایا جن میں میں اس سے پہلے تھا تو یہ میرے لئے بہت نشاط آور تھا۔دوسرا یہ کہ وہ رب جو یوسفؑ کے بھائیوں کو قحط کے بہانے کنعان سے مصر لے آیا تھا اس نے میری بھی کچھ بچھڑے ہوئے پیاروں سے اس بیماری کے بہانے ملاقات کروا دی۔ گویا دہلیز پر جلیلو کچھ لوگوں کو تو گھر تک لے آئی۔ ابھی بہت اور ہیں مگر لو بھی تو ابھی جل ہی رہی ہے۔
تیسرا اور سب سے اہم یہ کہ اندر لگی ہوئی لو اس بیماری میں اور بھی بھڑک اٹھی۔جس وقت میرا اور باہر کی دنیا کا رشتہ ایک کچے دھاگے سے بندھا رہ گیا تھا اس وقت میرا اور میرے رب کا رشتہ رضا کے اس مقام پر ہی رہا جہاں میں اسے دیکھنا چاہ رہا تھا۔ سو علالت سے مجھے عین الیقین کی حد تک معلوم ہو گیا کہ جو میں سوچتا، محسوس کرتا یا لکھتا تھا وہ سند یافتہ ہی تھا۔ بیماری بیماری ہی ہوتی ہے اور میں اس بیماری کو ہرگز بھی نعمت نہیں قرار دے رہا مگرمیرے اللہ کے کام بہت لطیف ہوتے ہیں۔ وہ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ نکالنے والا ہے سو اس نے اس بیماری میں بھی اس ناچیز کے لئے خیر کے کئی پہلو نکال دئے۔
تو بات ہو رہی تھی کہ جسم بسترسے ٹیک لگانے کے قابل ہوا تو دکھا ئی دیاکہ کچھ زیادہ ہی دکھائی دے رہا ہے۔ اس دو نظری سے گھبرا کر آنکھ بند کی تو اب اندر کی نظر کے سوا پاس بچا ہی کیا تھا۔ایسے میں بس ایک فکر تھی کہ حج پر کیسے جانا ہو گا۔ الحمدللہ کہ کچھ ایسے اشارے مل گئے جنہوں نے احساس دلا دیا کہ جانا تو طے ہے۔ بس پھر کیا تھا کمرے میں اندھیرا کر کے اور آنکھیں موند کر بستر پرپڑا رہا۔ دو ہفتے کی نیم بیہوشی کے بعد آنے والا یہ مہینہ دروں بینی کے لئے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوا۔آپ کے ہاتھوں میں موجود یہ کتاب علالت کے انہی دنوں میں تصنیف ہوئی ہے۔
اس کا نام ۔ اب کہاں یاد رہا ہے ہمیں آغازِ جنوں ۔ سفر کی طوالت کو تو ظاہر کرتا ہے مگریاد رہے کہ تھکن کو نہیں ۔ نہ ہی یہ جنوں خرد کی ضد کے طور پر بیان ہوا ہے۔اب میں جہاں ہوں وہاں جنوں خرد کی زلفوں کا اسیر ہے اور خرد جنوں کی یارِ غار۔ دو نظری کی بیماری میں لکھی ہوئی کتاب یک نظری سے لکھی گئی ہے۔
اپنی پچھلی تصنیفات میں میں نے بہت تفصیل سے اندر کے سفروں اور ان کے میری ذات پر ہونے والے اثرات پر لکھا ہے۔ میں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جب میں نے کچھ لکھا ہے تو اس کے نزول میں شعور، لاشعور اور تحت الشعور کا کیا کردار رہا ہے۔ یہ کتاب کیوں کہ میں نے جسمانی طور پر انتہائی لاچاری کے دنوں میں لکھی ہے جب کہ ایک طرف تو طبیعت اتنی موزوں ہوئی ہوئی تھی کہ دن رات اشعار اتر رہے تھے اور دوسری طرف ایک ایک مصرعہ قرطاس تک پہنچاناجوئے شیر لانے کے مترادف تھا سو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ اس کا نزول میرے اندر کے سفروں کی توثیق اور میریقلب میں لگی لو کا اعادہ ہے۔ میں نے دہلیز پر جلتے دیے کو کچھ اور روشن کر دیا ہے کہ ابھی بہت سے کھوئے ہوؤں کو گھر تک آنا ہے اور قلب میں لگی لو کو کچھ اور بھڑکا دیا ہے کیوں کہ کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کس سرزمین پر جا کر مرے گا۔
عماد احمد
لاہور
۹ستمبر۴۲۰۲ء
بمطابق۴ ربیع الاول۶۴۴۱ھ
1
قلب کے اندر دھیمے دھیمے اللہ ھو کی ضرب
سانس کے اندر دھیرے دھیرے اللہ ھو کی ضرب
قطرہ قطرہ پانی سے ہو پتھر میں سوراخ
نفس کے اوپر ہولے ہولے اللہ ھو کی ضرب
لفظ کی قوت رفتہ رفتہ جسموں میں تحلیل
روح پہ لگتی ہلکے ہلکے اللہ ھو کی ضرب
جذبوں کو باندھے رکھتی ہے یادِ خدا کی ڈور
سوچ بدلتی چپکے چپکے اللہ ھو کی ضرب
2
آدھی شب اور پورے غم تھے، سینہ بوجھل تھا
آ کے پڑی جب لیٹے لیٹے اللہ ھو کی ضرب
ہنستے ہنستے عمر بتا دی غیرِ خدا کے ساتھ
آؤ لگائیں روتے روتے اللہ ھو کی ضرب
چھٹنے کو ہے ویسے ویسے میرے من کی گرد
آ کے لگی ہے جیسے جیسے اللہ ھو کی ضرب
ٹوٹ چکے تھے لوگ عماد، پر اب آ کر دیکھ
جوڑ رہی ہے کیسے کیسے اللہ ھو کی ضرب
شام ۱۵:۳۰
۵۱مئی، ۴۲۰۲
3
غلامانِ نبیﷺ دربار میں خاموش بیٹھے ہوں
انہی میں ہم بھی بالکل گنبدِ خضرا کے نیچے ہوں
بہت سے چاہنے والے ادب سے ذکر میں گم ہوں
دبی آواز سے ہم بھی درودِ پاک پڑھتے ہوں
نہیں لائے ہیں کچھ جو شانِ آقاﷺ کے مطابق ہو
جھکی پلکوں سے یہ شرمندگی تسلیم کرتے ہوں
نگاہیں بھر کے آگے دیکھنے کی جب نہ ہمت ہو
کن اکھیوں سے مقدس جالیوں کی سمت تکتے ہوں
اٹھیں تو بھاری دل اور بھاری قدموں سے جدائی ہو
مگر ہم قلب میں اس حاضری پر ناز کرتے ہوں
عماد اب کچھ دنوں کی بات ہے دھڑکن پہ قابو رکھ
کہیں ایسا نہ ہو قلب و بدن قابو سے نکلے ہوں
دوپہر ۸۱:۱۱
۳۱ مئی ۴۲۰۲
حجازِ مقدس روانگی سے کچھ دن قبل گھرپر
4
روضہِ رسولﷺ پر حاضری قبول ہو
کاوشاتِ عمر کا سارا پھل وصول ہو
آپﷺ کی نگاہِ ناز اٹھ گئی تو قلب پر
رب کی رحمتوں کا بھی دائمی نزول ہو
نرم ہو رہا ہے جسم، کانپنے لگا رواں
جیسے قلب و روح کو نور کا حصول ہو
اب مری نگاہ میں آنے والا کل ہے بس
معصیت کا دور تو ایسے جیسے دھول ہو
آپﷺ کی لحد پہ جو پیش کر گیا سلام
اس کی ساری آل پر رحمتوں کا طول ہو
دو جہاں کی رحمتیں آپﷺ کے وجود سے
کاش میرا فسق آپ کی نظر میں بھول ہو
اشک بار آنکھ سے آپﷺ سے کہا حضور
آپﷺ کا عماد ہے، آپﷺ کو قبول ہو
سہ پہر ۹۲:۴۰
۰۳ جون ۴۲۰۲
ریاض الجنہ، مدینہ منورہ
5
تا بَہ کے
گوشت کا لوتھڑا
خون کو کھینچتا، زور سے بھینچتا اور پھر سے بدن کی طرف سونپتا
سال ہا سال سے رات دن، صبح شب
جاگتے، بھاگتے
دیکھتے،بھالتے
سوچتے اور محسوس کرتے ہوئے
خوابِ غفلت میں گھنٹوں پڑے بھی سدا
چاہِ عزلت میں پہروں کھڑے بھی سدا
گوشت کا لوتھڑا
خون کو کھینچتا، زور سے بھینچتا اور پھر سے بدن کی طرف سونپتا
اور اس کے قریں
روح کا ایک ماخذ اداسی سے پر
سالہا سال سے کچھ نہیں کر رہا
رات دن، صبح شب
جاگتے، بھاگتے
دیکھتے،بھالتے
سوچتے اور محسوس کرتے ہوئے
خوابِ غفلت میں گھنٹوں پڑے بھی سدا
چاہِ عزلت میں پہروں کھڑے بھی سدا
صرف خاموش ہے
سامنے ہے مگر
خود سے روپوش ہے
اس کا کیا دوش ہے
گوشت کا لوتھڑا
اور کتنے برس
کتنے دن، کتنی شب
جاگتے، بھاگتے
دیکھتے،بھالتے
سوچتے اور محسوس کرتے ہوئے
جسم کے بوجھ کو ایسے ڈھو پائے گا
وہ جو ماخوذِ عہدِ الستِ ازل ہے وہ کب جاگ کر
دوڑ کر، بھاگ کر
روح کے ماخذِ امر تک جائے گا
جسم مرنے سے پہلے نئی زندگی کی بنا لائے گا
اس سے پہلے کہ مٹی سے مٹی ملے
نور کو نور سے جوڑنے پائے گا
صبح۵۵:۵۰
یکم مئی ۴۲۰۲
6
توثیق
مجھے اس خوف کی پرچھائیں سے بھی خوف آتا ہے
کہ دل ڈر پوک ہو جائے
کہیں دہلیزِ ہستی سے نکل کر آگہی اور جستجو کے راستوں کی سمت جانے کی طلب کمزور پڑ جائے
جنوں بے ذوق ہو جائے
جو اک دیوارِ غیبت زندگی اور زندگی کے بعد کی پھیلی ہوئی دنیاؤں کے مابین حائل ہے
مرے دل کو اسے تسلیم کرنے
اور پھر تسخیر کرنے کی یہ خواہش ماند پڑ جائے
مرے اندر کہیں میرے لئے ہی روک ہو جائے
مجھے اس خوف کی پرچھائیں سے جب خوف آیا ہے
دعا میں سرجھکایا ہے
اور اپنے قلب کو یکسو کیے پھرسے بتایا ہے
کہ خود کو مجتمع کر لے
بدن اب عمرکی لمبی مسافت سے تھکا ہے تو
اسے رخصت ہے کچھ اعمال سے لیکن مری ہستی
تجھے دیوارِ غیبت سے پرے کا شوق ہو جائے
تجھے اصلی حقیقی زندگی کا ذوق ہو جائے
دوپہر۸۰:۱۰
۵ مئی ۴۲۰۲
7
خواب سے جاگنے لگا ہوں میں
رت جگے کاٹنے لگا ہوں میں
ظلمتِ زندگی ترے با وصف
نور سے کھیلنے لگا ہوں میں
گھر کی بنیاد کھودتے لمحے
قبر کیوں دیکھنے لگا ہوں میں
رات کے آخری پہر یک دم
قلب سے سوچنے لگا ہوں میں
کرب نے جون ہی بدل لی ہے
قہقہے بانٹنے لگا ہوں میں
اک مہک راستے سے اٹھی ہے
آرزو سونگھنے لگا ہوں میں
آنکھ جھرنا بنی، گئی دل تک
جھیل میں تیرنے لگا ہوں میں
مرا ہمزاد اجنبی تھا کبھی
اب اسے جاننے لگا ہوں میں
اور اس کے قریں
روح کا ایک ماخذ اداسی سے پر
سالہا سال سے کچھ نہیں کر رہا
رات دن، صبح شب
جاگتے، بھاگتے
دیکھتے،بھالتے
سوچتے اور محسوس کرتے ہوئے
خوابِ غفلت میں گھنٹوں پڑے بھی سدا
چاہِ عزلت میں پہروں کھڑے بھی سدا
صرف خاموش ہے
سامنے ہے مگر
خود سے روپوش ہے
اس کا کیا دوش ہے
اضطرابِ حیات و مرگ کا غم
اب نہیں روکنے لگا ہوں میں
غمِ ہستی عطائے رب ہے عماد
اسے پہچاننے لگا ہوں میں
سہ پہر ۶۱:۵۰
۷ مئی ۴۲۰۲
8
تنوع سوچ میں لیکن یقیں ادراکِ ھو میں ہے
جڑیں مٹی میں ہیں ہستی کا پودا خود نمو میں ہے
جسے میں کھوجتا پھرتا تھا میرے پاس ہی تو تھا
کبھی ظاہر کے رنگوں میں کبھی باطن کی بو میں ہے
خرد کی بیڑیاں پیروں، جنوں کی گٹھریاں سر پر
غمِ دوراں گلو میں ہے، غمِ ہستی جلو میں ہے
یہ اپنے ساتھیوں کے جام بھی تیار رکھتا ہے
یہی اک بات تو اچھی تمہارے ہم سبو میں ہے
مرے قالب سمٹ جا قلب کو اب پھیل جانے دے
کہ آج اک نور کا پورا سمندر ہے جو جُو میں ہے
چلو کے نفسِ امارہ سے پھر سے جنگ کرنی ہے
مجھے جو چاہیے ہے لگ رہا ہے اس عدو میں ہے
عماد احمد ترا بے عیب قالب جان جائے گا
مزہ جو نفس کے اور قلب کے باہم رفو میں ہے
دو پہر۸۴:۲۱
۸ مئی۴۲۰۲
9
تری محفل سے نہ باتوں سے کوئی وحشت ہے
ہمیں اپنے میں اتر جانے کی بس عادت ہے
اب کے ہنگامِ غمِ دل کو اگر روک بھی لیں
منتشر ہوتے حواسوں میں بڑی طاقت ہے
یہ جو رسوائی ہے سودائی کو گھر لائی ہے
یہ جو تنہائی میسر ہے یہ اک نعمت ہے
درد باقی ہے تو سمجھیں کہ ابھی زندہ ہے دل
سانس باقی ہے تو سمجھیں کہ ابھی مہلت ہے
گزرے وقتوں کا جنوں یاد کراتے ہو کیوں
اب ترا حال بچا ہے نہ مری حالت ہے
درد پر سود چڑھا، غم کا کرایہ آیا
اب مری ذات کے قبضے میں بڑی دولت ہے
بنے پھرتے تھے غمِ دل کی روایت کے امیں
اب بتاؤ بھی عماد اس میں کوئی راحت ہے
رات۴۵:۸۰
۸ مئی ۴۲۰۲
10
تری محفل سے نہ باتوں سے کوئی وحشت ہے
ہمیں اپنے میں اتر جانے کی بس عادت ہے
اب کے ہنگامِ غمِ دل کو اگر روک بھی لیں
منتشر ہوتے حواسوں میں بڑی طاقت ہے
یہ جو رسوائی ہے سودائی کو گھر لائی ہے
یہ جو تنہائی میسر ہے یہ اک نعمت ہے
درد باقی ہے تو سمجھیں کہ ابھی زندہ ہے دل
سانس باقی ہے تو سمجھیں کہ ابھی مہلت ہے
گزرے وقتوں کا جنوں یاد کراتے ہو کیوں
اب ترا حال بچا ہے نہ مری حالت ہے
درد پر سود چڑھا، غم کا کرایہ آیا
اب مری ذات کے قبضے میں بڑی دولت ہے
بنے پھرتے تھے غمِ دل کی روایت کے امیں
اب بتاؤ بھی عماد اس میں کوئی راحت ہے
رات۴۵:۸۰
۸ مئی ۴۲۰۲
11
شکستِ دل سے چلا فسانہ ملالِ ہستی تک آ گیا تھا
جنوں کی وادی کا سانحہ تھا جو دل کی بستی تک آ گیا تھا
نہیں کھلا یہ سفر میں کس دم تلاشِ منزل سے تھک گیا وہ
جنوں کا مارا ہوا مسافر بھی گھر گرستی تک آ گیا تھا
اٹھا تو انسان گویا توحید کا مجسم ثبوت نکلا
گرا تو پستی میں یوں گرا پھر کہ بت پرستی تک آ گیا تھا
کبھی اداسی کے راستوں پر خموش چلتا رہا تھا یہ دل
کبھی کسی سنگ میل پر یہ عجیب مستی تک آ گیا تھا
بقائے دائم کی ایک چاہت فنا کے رستے پہ لے گئی تھی
عروج کی خواہشوں کو مارا بہت ہی پستی تک آ گیا تھا
عماد قلب و نظر کو سالوں غنا کی تعلیم دی تھی تو نے
ترے سے ایسا بھی کیا ہوا تھا جو تنگ دستی تک آ گیا تھا
صبح۸۴:۵۰
۹ مئی ۴۲۰۲
گھر کے صحن میں
12
میرے جوشِ جنوں کو بقا چاہیے
اے خرد اور پھر تجھ کو کیا چاہیے
قلب کو آرزو کا دیا چاہیے
جسم کو جستجو کی ہوا چاہیے
اب دوا چھوڑ دی، اب دعا چھوڑ دی
اب مکافات کا سامنا چاہیے
سانس چلتے ہوئے زندگی کی طلب
سانس اکھڑی ہے تو اب خدا چاہیے
دشتِ تنہائی سے لوٹ جا اب تجھے
منزلوں کے لیے راستہ چاہیے
دردِ دل، رمزِ غم، چشمِ نم، سب ختم
آرزو کا نیا سلسلہ چاہیے
خضرِ ہستی کو پانے چلا ہوں مگر
پہلے موسیٰ کا اک نقشِ پا چاہیے
پہلے بھرنا تھا دل کو کسی درد سے
اب عماد اپنے اندر خلا چاہیے
دوپہر۸۲:۱۰
۹ مئی ۴۲۰۲
13
چاروں جانب ہے جھلستی ہوئی، تپتی ہوئی ریت
لو کے جھکڑ سے بلا روک سرکتی ہوئی ریت
قافلے کوچ کیے، نقشِ کفِ پا بھی مٹے
دشت میں رہ گئی خاموش سسکتی ہوئی ریت
بند مٹھی میں بچاتا رہا میں عمر کے سال
اور ہاتھوں سے پھسلتی رہی ہنستی ہوئی ریت
ریگزاروں کی طرف لوٹ کے جاتے رہنا
ڈھونڈتے رہنا کہیں دِکھ سکے آتی ہوئی ریت
آندھیاں کیسے تواتر سے چلی ہوں گی یہاں
سب بتاتی ہے مرے قلب سے ملتی ہوئی ریت
چشمِ آہو کا فسوں دیکھ کے روتے ہوئے سنگ
زخمِ بسمل کی تپش پا کے تڑپتی ہوئی ریت
یوں تو بالوں میں بھی مٹی تھی، بدن پر بھی گرد
دل دکھا دیکھ کے اس آنکھ میں دکھتی ہوئی ریت
جب نکلتا ہوں میں اندر کے سفر پر تو عماد
گھیر لیتی ہے مجھے چار سو اڑتی ہوئی ریت
اب عماد احمد اسے کرب بتاؤ نہ ملال
وہ تو خود ایسے ہے جیسے کوئی گرتی ہوئی ریت
سہ پہر۴۰:۴۰
۹ مئی ۴۲۰۲
14
طلوعِ شمس گواہی ہے وقت باقی ہے
اٹھو کہ آج بھی اک امرِ سخت باقی ہے
نہ اب خدائی کا دعویٰ، نہ ناخدا باقی
زمیں پہ آج بھی سونے کا تخت باقی ہے
مرے وجود کا مٹنا تو غم کی بات نہیں
مری اساس مری بود و ہست باقی ہے
نئے جہاں کے لئے زادِ راہ کچھ بھی نہیں
وراثتوں کے لیے خوب رخت باقی ہے
ملالِ جاں کو بہت اہتمام سے رکھا
شعورِ غم کا ابھی بندوبست باقی ہے
کئی دنوں سے کمایا بھی کچھ نہیں میں نے
اور اس پہ خوف کہ بس یومِ سبت باقی ہے
عماد خوف میں زندہ رہے یہ قسمتِ بد
نصیب یہ ہے کہ کچھ اب بھی بخت باقی ہے
دوپہر۳۲:۱۰
۰۱ مئی ۴۲۰۲
15
سمندر جیسی آنکھوں میں اداسی کے جزیرے تھے
غبار آلود چہروں میں چھپے کچھ لوگ ہیرے تھے
غمِ دوراں نے دل پتھر کئے تو کیا عجب اس میں
خبر کیا ہے کہ ان لوگوں کے پہلے کیا وطیرے تھے
شبستانِ غمِ ہستی سے تنہا تم نہیں گزرے
دبستانِ شکستِ دل نے اپنے دل بھی چیرے تھے
بھلا ہم کیسے مل لیتے، ہمارے درمیاں حائل
مقدر تھا، زمانے تھے، زمینیں تھیں، بحیرے تھے
بہت کڑوی دوا کھاتے ہوئے اک یاد لوٹ آئی
بہت شیریں مرے دادا کے ہاتھوں کے خمیرے تھے
عماد اک دور کی بستی میں کچھ گمنام قبروں پر
گل و لالہ کھلے دیکھے کہ جیسے لعل و ہیرے تھے
صبح۵۴:۵۰
۱۱ مئی۴۲۰۲
گھر کی چھت پر
16
بے عنوان
نظم کا عنوان سوچے جا رہا ہوں آج میں
رنجِ ہستی پر لکھوں
تہذیبِ غم پر کچھ کہوں
یا شعورِ ذات کے سب زیر و بم پر کچھ کہوں
درد کے پردے اٹھاؤں، اس کے درجے بھی لکھوں
یا غبار و گرد کی ہر تہہ کے قصے بھی لکھوں
کیوں نہ قلب و ذات کے برسوں پہ پھیلے معرکے
ساری تفصیلات کے ساتھ ایک اک کر کے کہوں
کیسے قالب خواہش و تعمیل کے اک کھیل میں
من کی چکی پیستا رہتا ہے جیسے جیل میں
یہ بھی ہو سکتا ہے ان باتوں سے ہٹ کر آج میں
کچھ غمِ جاناں، غمِ دوراں کے یوں قصے لکھوں
جیسے ماضی کے پرانے درد کے حصے لکھوں
چاہتوں اور نفرتوں کے سلسلے پر بات ہو
ذات کے لمبے سفر کے راستے پر بات ہو
دال روٹی کو کمانا کس قدر دشوار ہے
کیسا کیسا خوب انساں اس سفر میں خوار ہے
آگہی پر بات ہو یا بے شعوری پر ابھی
آرزو کا ذکر ہو یا جستجو پر شاعری
راستے ہوتے ہیں کیا، ملتے ہیں کیسے سنگِ میل
کیا سفر کا درد ہے اور کیا ہے منزل کی دلیل
کیا میں اندر کے سفر کا حال لکھوں آج پھر
یا بتاؤں کہکشائیں پھیلتی ہیں کس طرح
یعنی اب کے انفس و آفاق پر تصنیف ہو
ظاہر و باطن کے پھیلاؤ کی کچھ تعریف ہو
نفسِ امارہ نے کن اعمال پر راضی کیا
نفسِ لوامہ نے کن احوال پر راضی کیا
مطمئنہ چیز کیا ہے، کیسے پاتے ہیں بھلا
نفس کے پورے سفر کیا کیا سکھاتے ہیں بھلا
کائناتیں پھیلتی ہیں کیوں، معارج کون ہیں
نور کے کردار کیا ہیں اور خارج کون ہیں
کیا زمینوں میں رکھا ہے، کیا خلاؤں میں دھرا
کیا نظر سے دور ہے لیکن یہیں پر ہے بھرا
کون سا موضوع ہے جو آج تک لکھا نہیں
کون سی تفصیل ہے جس پر کبھی بولا نہیں
نظم کا عنوان سوچے جا رہا ہوں آج میں
اپنے من کا حال سمجھے جا رہا ہوں آج میں
قلب سے آواز آتی سن رہا ہوں آج میں
چھوڑ دے تو فکر ہر عنوان اور تفصیل کی
سارے معروضات کی اور سارے کال و کیل کی
یہ اشارے ہیں انہیں پہنچا دیا تو نے اگر
وقت ان سب حادثاتِ زندگی کو ایک دن
اہلِ قلب و آگہی تک اس طرح پہنچائے گا
اہلِ دل اٹھیں گے
اہلِ سوچ اٹھیں گے کہ جو
تیری سوچوں کے سبھی عنوان پڑھتے جائیں گے
ان پہ خود رمز و رموزِ حال کھلتے جائیں گے
ایک اک قصہ کھلے گا
ایک اک تفصیل بھی
سارے پیچ و خم بھی اور سارے ہی کال و کیل بھی
نظم کا عنوان بے عنوان ہونا چاہیے
سب اشارے دے دیے یہ مان ہونا چاہیے
دوپہر۰۰:۱۰
۱۱ مئی۴۲۰۲
17
نور اور مٹی میں فرق ہے مطالب کا
ایک سا نہیں ہوتا درد قلب و قالب کا
ایک آہ سے پر ہے، ایک واہ سے پر ہے
کیا مقابلہ کرنا میر اور غالب کا
آج کل زمینوں کا کاروبار کرتا ہے
جو کسی زمانے میں معترف تھا جالب کا
مال و زر یا عز و جاہ، خوف و ڈر یا عشق و چاہ
اک سے اک نیا بہروپ جستجو کے سالب کا
تو نے کیا عماد احمد ارتکاز دیکھا ہے
روشنی کے رستوں پر آگہی کے طالب کا
صبح ۰۲:۰۱
۲۱ مئی، ۴۲۰۲
18
کرب و غم کا فاسد سا اک قیاس رہتا ہے
اجتہادِ فی النص ہی دل کو راس رہتا ہے
یا وہ حق پہ قائل ہے، یا میں شر پہ مائل ہوں
آج کل مرا ہمزاد آس پاس رہتا ہے
میرا نفس کیسا ہے اب سمجھ چکا ہوں میں
خود پہ سختیاں کرنا مجھ کو راس رہتا ہے
علم و عقل دونوں ایک حد پہ ہو گئے لاچار
قلب بس بذکر اللہ حق شناس رہتا ہے
اضطرابِ قلبی تو فسق کی علامت ہے
طالبِ حقیقی کب بے حواس رہتا ہے
گو سفید چادر سے جسم ڈھانپ رکھا ہے
ذات پر ابھی تقویٰ کا لباس رہتا ہے
اے مسافرِ ہستی حوصلے کو قائم رکھ
من میں آس رہتی ہے، تن پہ ماس رہتا ہے
ہاں عماد احمد تو کل سے مختلف ہے آج
تب اداس دکھتا تھا، اب اداس رہتا ہے
دوپہر۹۴:۱۱
۲۱ مئی ۴۲۰۲
19
اداسی کے مسلسل سلسلوں سے ہے شکستہ دل
کسی دل جوئی، دلچسپی سے اب کاہے بہلتا دل
سفر میں بے کراں رستوں سے گویا تھک گیا تھا یہ
یکایک بوئے منزل پا کے ہے یکسر مچلتا دل
یہی حاصل ہوا جذبات کو آزاد کرنے سے
پریشاں سوچ، بکھرے بال، گم سانسیں، دھڑکتا دل
تمہیں معلوم ہو جاتی ہے سوچوں میں ہوئی ہلچل
مجھے محسوس ہو جاتا ہے سینے میں سرکتا دل
یہی احساس تو افکار میں تبدیل ہوتا ہے
فراست، فہم اور سوچوں سے پہلے ہے بدلتا دل
پلٹتے کیوں نہیں پہلے قدم سدِ ذریعہ کو
ابھی تک پڑھ نہیں سکتے کہ آخر کب بہکتا دل
گزارے ہیں تلاشِ ذات میں کچھ ماہ و سال ایسے
کبھی زندہ ہوئیں سوچیں، کبھی پایا ہے مرتا دل
ستارے ڈوبنے کے بعد بھی جاگا ہوں میں برسوں
بہت دیکھا ہے میں نے صبح دم سینے میں ڈھلتا دل
تکبر اور غرورِ ذات میں بیمار ذہنیت
گناہوں، معصیت اور ظلم میں ہر روز گلتا دل
چلو کچھ تذکرہ تذکیر سے اس کو مناتے ہیں
خدا کی انگلیوں کے بیچ میں تبدیل ہوتا دل
مسلسل دل بدل جانے کی خواہش میں جیے ہو تم
بدلتے تم تو اس کے بعد ہی شاید بدلتا دل
یہی رشتہ نبھاتے آئے ہیں اک عمر سے دونوں
مری پُر سوچ سی سوچیں، تمہارا دل گرفتہ دل
کسی شب سن سکیں گے اپنی بھی آواز میں خوشیاں
کسی دن دیکھ پائیں گے ہم اپنا بھی شگفتہ دل
تمہارا ذکر ہونے سے کسی پل مسکرا اٹھنا
تمہاری یاد آنے سے کوئی لمحہ مہکتا دل
کبھی غیروں کے غم میں مدتوں بیمار رہتا تھا
اب اپنے کرب پر بھی شاذ و نادر ہی سسکتا دل
کبھی یہ روشنی میں منہ چرا لیتا تھا میرے سے
مگر اب تیرگی کے خوف سے فوراً بدکتا دل
کسی غم نے اسے لاچار کر ڈالا ہے کچھ دن سے
بدن بیمار ہو جاتا تھا تب بھی یوں نہ تھکتا دل
عماد اب نفس کے مارے ہوئے ہو کیا کہوں تم سے
اگر بس قلب زندہ ہو تو مل جاتا ہے ڈرتا دل
رات۷۴:۲۱
۳۱ مئی ۴۲۰۲
20
جا اے دنیا تری چاہت کا زمانہ نہیں ہے
میرا اس بار تری سمت نشانہ نہیں ہے
رات کے پچھلے پہر نبض پہ انگلی رکھی
قلب زندہ ہے مگر خوب توانا نہیں ہے
اب کسی پل بھی مجھے اذنِ سفر ممکن ہے
خوف طاری ہے کہ سامان روانہ نہیں ہے
اے خدا مجرمِ نادم ہوں، گنہگار ہوں میں
اے خدا آج مرے پاس بہانہ نہیں ہے
عقل بن جائے اگر قلب کی شاگردِ رشید
پھر جو ملتا ہے کہیں ایسا خزانہ نہیں ہے
قلبِ جاری کی تمازت کا حقیقی ماخذ
راز کی بات ہے اوروں کو بتانا نہیں ہے
شب کی تاریکی میں روشن ہے اگر قلب عماد
تو نے اس نور کی بارش میں نہانا نہیں ہے
دوپہر۳۵:۲۱
۳۱ مئی، ۴۲۰۲
21
سب گناہوں کی معافی ہے ندامت ہو تو
سرکشی کا یہاں کوئی بھی ٹھکانہ نہیں ہے
جتنا رہنا ہے یہاں اتنا اسے وقت بھی دو
خود کو دنیا کے جھمیلے میں تھکانا نہیں ہے
یاد ہے کیسا ترا حال کیا تھا میں نے
نفسِ امارہ! مجھے آج لبھانا نہیں ہے
دہر میں رہتا ہے جو کچھ اسے پورا کر لو
دوسری بار یہاں لوٹ کے آنا نہیں ہے
قلب کیوں ذہن پہ فوقیتِ کل رکھتا ہے
ان مَعارف کو مُعارف نے چھپانا نہیں ہے
22
نور اور مٹی میں فرق ہے مطالب کا
ایک سا نہیں ہوتا درد قلب و قالب کا
ایک آہ سے پر ہے، ایک واہ سے پر ہے
کیا مقابلہ کرنا میر اور غالب کا
آج کل زمینوں کا کاروبار کرتا ہے
جو کسی زمانے میں معترف تھا جالب کا
مال و زر یا عز و جاہ، خوف و ڈر یا عشق و چاہ
اک سے اک نیا بہروپ جستجو کے سالب کا
تو نے کیا عماد احمد ارتکاز دیکھا ہے
روشنی کے رستوں پر آگہی کے طالب کا
صبح ۰۲:۰۱
۲۱ مئی، ۴۲۰۲
23
کرب و غم کا فاسد سا اک قیاس رہتا ہے
اجتہادِ فی النص ہی دل کو راس رہتا ہے
یا وہ حق پہ قائل ہے، یا میں شر پہ مائل ہوں
آج کل مرا ہمزاد آس پاس رہتا ہے
میرا نفس کیسا ہے اب سمجھ چکا ہوں میں
خود پہ سختیاں کرنا مجھ کو راس رہتا ہے
علم و عقل دونوں ایک حد پہ ہو گئے لاچار
قلب بس بذکر اللہ حق شناس رہتا ہے
اضطرابِ قلبی تو فسق کی علامت ہے
طالبِ حقیقی کب بے حواس رہتا ہے
گو سفید چادر سے جسم ڈھانپ رکھا ہے
ذات پر ابھی تقویٰ کا لباس رہتا ہے
اے مسافرِ ہستی حوصلے کو قائم رکھ
من میں آس رہتی ہے، تن پہ ماس رہتا ہے
ہاں عماد احمد تو کل سے مختلف ہے آج
تب اداس دکھتا تھا، اب اداس رہتا ہے
دوپہر۹۴:۱۱
۲۱ مئی ۴۲۰۲
24
اداسی کے مسلسل سلسلوں سے ہے شکستہ دل
کسی دل جوئی، دلچسپی سے اب کاہے بہلتا دل
سفر میں بے کراں رستوں سے گویا تھک گیا تھا یہ
یکایک بوئے منزل پا کے ہے یکسر مچلتا دل
یہی حاصل ہوا جذبات کو آزاد کرنے سے
پریشاں سوچ، بکھرے بال، گم سانسیں، دھڑکتا دل
تمہیں معلوم ہو جاتی ہے سوچوں میں ہوئی ہلچل
مجھے محسوس ہو جاتا ہے سینے میں سرکتا دل
یہی احساس تو افکار میں تبدیل ہوتا ہے
فراست، فہم اور سوچوں سے پہلے ہے بدلتا دل
پلٹتے کیوں نہیں پہلے قدم سدِ ذریعہ کو
ابھی تک پڑھ نہیں سکتے کہ آخر کب بہکتا دل
گزارے ہیں تلاشِ ذات میں کچھ ماہ و سال ایسے
کبھی زندہ ہوئیں سوچیں، کبھی پایا ہے مرتا دل
ستارے ڈوبنے کے بعد بھی جاگا ہوں میں برسوں
بہت دیکھا ہے میں نے صبح دم سینے میں ڈھلتا دل
تکبر اور غرورِ ذات میں بیمار ذہنیت
گناہوں، معصیت اور ظلم میں ہر روز گلتا دل
چلو کچھ تذکرہ تذکیر سے اس کو مناتے ہیں
خدا کی انگلیوں کے بیچ میں تبدیل ہوتا دل
مسلسل دل بدل جانے کی خواہش میں جیے ہو تم
بدلتے تم تو اس کے بعد ہی شاید بدلتا دل
یہی رشتہ نبھاتے آئے ہیں اک عمر سے دونوں
مری پُر سوچ سی سوچیں، تمہارا دل گرفتہ دل
کسی شب سن سکیں گے اپنی بھی آواز میں خوشیاں
کسی دن دیکھ پائیں گے ہم اپنا بھی شگفتہ دل
تمہارا ذکر ہونے سے کسی پل مسکرا اٹھنا
تمہاری یاد آنے سے کوئی لمحہ مہکتا دل
کبھی غیروں کے غم میں مدتوں بیمار رہتا تھا
اب اپنے کرب پر بھی شاذ و نادر ہی سسکتا دل
کبھی یہ روشنی میں منہ چرا لیتا تھا میرے سے
مگر اب تیرگی کے خوف سے فوراً بدکتا دل
کسی غم نے اسے لاچار کر ڈالا ہے کچھ دن سے
بدن بیمار ہو جاتا تھا تب بھی یوں نہ تھکتا دل
عماد اب نفس کے مارے ہوئے ہو کیا کہوں تم سے
اگر بس قلب زندہ ہو تو مل جاتا ہے ڈرتا دل
رات۷۴:۲۱
۳۱ مئی ۴۲۰۲
25
جا اے دنیا تری چاہت کا زمانہ نہیں ہے
میرا اس بار تری سمت نشانہ نہیں ہے
رات کے پچھلے پہر نبض پہ انگلی رکھی
قلب زندہ ہے مگر خوب توانا نہیں ہے
اب کسی پل بھی مجھے اذنِ سفر ممکن ہے
خوف طاری ہے کہ سامان روانہ نہیں ہے
اے خدا مجرمِ نادم ہوں، گنہگار ہوں میں
اے خدا آج مرے پاس بہانہ نہیں ہے
سب گناہوں کی معافی ہے ندامت ہو تو
سرکشی کا یہاں کوئی بھی ٹھکانہ نہیں ہے
جتنا رہنا ہے یہاں اتنا اسے وقت بھی دو
خود کو دنیا کے جھمیلے میں تھکانا نہیں ہے
یاد ہے کیسا ترا حال کیا تھا میں نے
نفسِ امارہ! مجھے آج لبھانا نہیں ہے
دہر میں رہتا ہے جو کچھ اسے پورا کر لو
دوسری بار یہاں لوٹ کے آنا نہیں ہے
قلب کیوں ذہن پہ فوقیتِ کل رکھتا ہے
ان مَعارف کو مُعارف نے چھپانا نہیں ہے
عقل بن جائے اگر قلب کی شاگردِ رشید
پھر جو ملتا ہے کہیں ایسا خزانہ نہیں ہے
قلبِ جاری کی تمازت کا حقیقی ماخذ
راز کی بات ہے اوروں کو بتانا نہیں ہے
شب کی تاریکی میں روشن ہے اگر قلب عماد
تو نے اس نور کی بارش میں نہانا نہیں ہے
دوپہر۳۵:۲۱
۳۱ مئی، ۴۲۰۲
26
فتنہِ روحِ عجم پوری طرح عام ہوا
آخری دور کا آخر بھی لبِ بام ہوا
ملک یا شہر نہیں گر تو بچا لو گھر ہی
بیٹھ کر سوچتے رہنا بھی کوئی کام ہوا
قلب کا نور کی خواہش میں ہوا وہ ہی حال
چاند راتوں میں چکوری کا جو انجام ہوا
قلب نے اتنا کہا تھا کہ مری راہ نہ روک
جسم اس کارِ ریاضت میں بھی ناکام ہوا
پہلے تو قلب کی گہرائی سے نکلی اک سوچ
پھر وہی فکر کی گیرائی کا پیغام ہوا
روز و شب آتے رہے، جاتے رہے، سال بہ سال
مرا باطن مرے ظاہر سے نہیں رام ہوا
سوچ کا زاویہ پڑھنے میں بہت وقت لگا
درد والوں میں بہت بعد مرا نام ہوا
لے کے جانا تھا بہت عمر میں اک قلبِ سلیم
بے ہنر ذات سے یہ کام بہت خام ہوا
کیا بتائے گا ندامت کو مٹانے کا طریق
جس سے خود اپنا ضمیر آپ نہیں رام ہوا
ایک ادراک کا لمحہ کبھی پایا تھا عماد
ھو کا احساس کئی سال سحر شام ہوا
شام ۴۵:۶۰
۳۱ مئی ۴۲۰۲
27
تشنگی بے دلی سے بہتر ہے
آگہی تشنگی سے بہتر ہے
قلب نے مدتوں میں سمجھا یہ
روشنی تیرگی سے بہتر ہے
کیسے نادان تھے جو کہتے تھے
گفتگو خامشی سے بہتر ہے
منزلیں گر نہ پا سکیں تب بھی
جستجو بے بسی سے بہتر ہے
ایک نکتے پہ مرتکز رہنا
ذہنی آوارگی سے بہتر ہے
غمِ ہستی کا درد سینچا ہے
یہ غمِ زندگی سے بہتر ہے
آج کُل دن کیا ہے استغفار
حالِ دل شام ہی سے بہتر ہے
یبسِ تنہائی میں فروغِ جنوں
لبسِ بے رہ روی سے بہتر ہے
ہاں غمِ آگہی کی کڑواہٹ
نفس کی چاشنی سے بہتر ہے
غم کا پھیلاؤ، درد کی بہتات
دل کی پس ماندگی سے بہتر ہے
دردِ ہستی کے ذائقوں میں عماد
ہر کوئی ہر کسی سے بہتر ہے
صبح۱۱:۶۰
۴۱مئی ۴۲۰۲
28
منڈی
لفظ کی حرمت بیچو گے؟
آ جاؤ
یہاں پر منڈی ہے
ایک سے ایک بڑا سوداگر اچھے مال کا خواہاں ہے
لیکن مال تمہارا اپنا ہو اور لفظ بھی ایسے ہوں
جن کو دنیا سنتی ہو اور لوگ بہت گرویدہ ہوں
جس کے لفظ انوکھے ہوں گے اچھی قیمت پائے گا
جس کے زیادہ بکتے ہوں گے اس کے سارے لفظوں کو
اس بازار کا ہر سوداگر ہاتھوں ہاتھ اٹھائے گا
باتوں باتوں میں جو سننے والے کو مسحور کریں
اس کو کچھ بھی کر دینے پر فوراً ہی مجبور کریں
ایسا مال تو اس منڈی میں ہر تاجر کی خواہش ہے
ایسا مال فراہم کر دو پھر نوٹوں کی بارش ہے
لیکن پہلے بیٹھ کے اپنے لفظوں کی قیمت کو جانو
ان سے کیا کچھ ہو سکتا ہے جانچو، تھوڑا سا پہچانو
ہنگامے کروا سکتے ہیں؟
خونوں کو گرما سکتے ہیں؟
جلسے اور جلوسوں میں یہ لوگوں کو بہکا سکتے ہیں؟
مشکل دن آ جائیں گر تو سب اچھا بتلا سکتے ہیں؟
غیض و غضب میں ہو گر دنیا غصہ قابو کر سکتے ہیں؟
دل ٹھنڈے کروا سکتے ہیں؟
گھر واپس بھجوا سکتے ہیں؟
لفظوں کے سوداگر اور طرح کا مال بھی لے لیتے ہیں
یہ سوچوتم لفظ تمہارے جادو کیا دکھلا سکتے ہیں؟
چھوٹے لوگوں کو اونچا انسان بنا دکھلا سکتے ہیں؟
گندے لوگوں کو تطہیر کا منبع بھی بنوا سکتے ہیں؟
جھوٹوں کو سچا، سچوں کو جھوٹا بھی کہلا سکتے ہیں؟
جو بھی گاہک چاہے وہ ہی لوگوں کو سمجھا سکتے ہیں؟
لفظ کی حرمت کتنے کی ہے بیٹھو اور تخمینہ کر لو
منڈی میں آنے سے پہلے اپنا آپ کمینہ کر لو
سوداگر کو خود بیچو گے یا منڈی میں بولی ہو گی!
چن چن کو ہر لفظ بکے گا یا بوری ہی کھولی ہو گی!
پورا ذہن بنا کر آنا منڈی میں گرما گرمی ہے
سوداگر بھی پیسے والے، مال بھی وافر بکنے والا
جس کا سودا اچھا ہو گا اتنا مال بکے گا اس کا
حرف پکڑ میں ہوں گے جس کی سارا سال بکے گا اس کا
لفظ کی حرمت بیچو گے؟
آ جاؤ
یہاں پر منڈی ہے
ایک سے ایک بڑا سوداگر اچھے مال کا خواہاں ہے
صبح۰۵:۶۰
۴۱ مئی ۴۲۰۲
29
تیرے منصب سے ڈر نہیں لگتا
کیا تجھے رب سے ڈر نہیں لگتا
ایک سجدہ کیا یقین کے ساتھ
اب مجھے سب سے ڈر نہیں لگتا
ذات کے دشت کا مسافر ہوں
منزلِ شب سے ڈر نہیں لگتا
مفتی و مولوی سے ڈرتا ہوں
بھائی مذہب سے ڈر نہیں لگتا
دیں کی تشریح سے الجھتا ہوں
اس کے مطلب سے ڈر نہیں لگتا
اپنی سوچوں کے زاویوں سے عماد
یہ بتا کب سے ڈر نہیں لگتا
دوپہر۸۳:۲۱
۴۱ مئی ۴۲۰۲
30
آرزو کا جمال دیکھا ہے
دل لگی کو نڈھال دیکھا ہے
کھینچ کر لے گئی ہے منزل تک
جستجو کا کمال دیکھا ہے
پوری تصویر نقش ہے دل پر
اک مجسم خیال دیکھا ہے
اب بلندی سے ڈر نہیں لگتا
میں نے اتنا زوال دیکھا ہے
نور بھی تیرگی سے مانگا ہے
تم نے اپنا سوال دیکھا ہے
ہر مسیحا کا دور آنے پر
قوم نے اک وبال دیکھا ہے
نت نئے آدمی سے لٹتا ہوں
ایسا قحط الرجال دیکھا ہے
آدمی تو ہزار دیکھے ہیں
آدمیت کا کال دیکھا ہے
تھک گئے ہو عماد سو جاؤ
تم نے راتوں کو پال دیکھا ہے
رات ۳۳:۲۱
۵۱ مئی ۴۲۰۲
31
احتمالِ درد سے ہی ڈر گئے ہو
راستوں کی گرد سے ہی ڈر گئے ہو
ایک انساں تھا جو دھوکا دے گیا ہے
تم تو ہر اک فرد سے ہی ڈر گئے ہو
راستے میں تو پہاڑی سلسلے ہیں
تم ہوائے سرد سے ہی ڈر گئے ہو
پورے جنگل میں خزاں دیکھو گے کیسے
ایک برگِ زرد سے ہی ڈر گئے ہو
تم عماد احمد لڑو گے شاہ سے کیا
تم تو تنہا نرد سے ہی ڈر گئے ہو
صبح ۴۱:۹۰
۵۱ مئی ۴۲۰۲
32
آرزو ایک استعارہ ہے، جستجو صرف اک اشارہ ہے
بات یہ ہے کہ قلب کے اندر ایک بے نام سا شرارہ ہے
دشتِ فرقت سے بچ کے نکلے توسامنے ذات کا سمندر تھا
ایک مدت سے کھے رہے ہیں دل یہ سمندر بھی بے کنارہ ہے
تم سمجھتے رہے تمہیں مجھ سے انسیت ہے، کوئی حوالہ ہے
راہیِ درد بات کو سمجھو، کرب نے کرب کو پکارا ہے
تم کہ آفاق کے مسافر ہو سو معارج کی بات کرتے ہو
رب نے انفس بھی بُعد رکھی ہے، قلب سے راستہ گزارا ہے
گر سمیٹو تو اپنے اندر ہی زیست کا کاروبار ممکن ہے
جیسے قالب بھی ایک دنیا ہے، قلب بھی جیسے اک ستارہ ہے
بے خودی دونوں رنگ رکھتی ہے، ہر جہت اپنے سنگ رکھتی ہے
سو خرد آج بھی ہماری ہے، سو جنوں آج بھی ہمارا ہے
مدتوں بعد اپنی بستی میں لوٹ کر آئے ہو عماد احمد
کوئی دن دیکھ لو ذرا پہلے، اب یہاں کون کس کو پیارا ہے
صبح ۴۰:۰۱
۵۱ مئی ۴۲۰۲
33
فکرِ مرگ سے ملا ضابطہ حیات کا
روح و قلب پا گئے رمز کائنات کا
کر لیا ہے رات میں فیصلہ ثبات کا
ابنِ حر کریں گے اب پھر سفر فرات کا
ذہن و دل نے کہہ دیا راستہ محال ہے
کیا برا منائیں اب دوستوں کی بات کا
زندگی سے زندگی کی طرف سفر کیا
بیچ میں پڑاؤ تھا کچھ گھڑی ممات کا
بد ہوا تو یاد کیا، نیک ہوں تو فکر کیا
کوئی بھی نہ غم کرے اب مری وفات کا
جو گزر کے آئے ہیں ان سے حال پوچھئے
قلب جیسی راہ کا، نفس جیسی گھات کا
ایک ھو نے ہمکنار کر دیا شعور سے
روح و قلب نے کیا فیصلہ نکات کا
فکر نے درست کی سمت زندگی کی اور
پھر عمل سے طے ہوا راستہ نجات کا
دن عماد کٹ گئے کاروبارِ زیست میں
جوگ تو تھا رات کا، روگ تو تھا ذات کا
دوپہر ۵۳:۲۱
34
اُدھر سے نفس سے جاری کثیف جذبے ہیں
اِدھر سے قلب سے جاری عفیف جذبے ہیں
تمہارا مان تمہارے حلیف جذبے ہیں
ہمارا درد یہی ہے، حریف جذبے ہیں
بدن جو ٹوٹ گیا ہے تو یہ ہی ہونا تھا
ہماری سوچیں قوی ہیں، نحیف جذبے ہیں
خلوص، چاہ، ادب، درد، انس اور نرمی
تمہاری آنکھ میں کیسے لطیف جذبے ہیں
تمہیں بتانا تھا دل ہے ہمارے پاس بھی ایک
تبھی تو آج غزل میں ردیف جذبے ہیں
اب ایسی عمر ہے جس میں شعور چاہیے ہے
جوان دل تھے کبھی، اب ضعیف جذبے ہیں
عماد عمرِ خرد کاٹ کر بھی آج تلک
کہیں کہیں پہ جنوں کے خفیف جذبے ہیں
دوپہر۲۳:۱۰
۵۱ مئی ۴۲۰۲
35
حضرتِ انسان
ایک حیوانی وجود اور اس کی نفسانی ہوا
جسم کی ہر اک ضرورت کا بڑھا چڑھتا نشہ
ایک نورانی حقیقت، اس کے قلبی ضابطے
اور اوپر کے جہانوں سے بھی اس کے رابطے
مل گئے ہیں حضرتِ انسان کی تخلیق میں
فیصلہ درکار ہے بس ایک کی تصدیق میں
جانور بھی کھینچتا ہے اک جبلت کی طرف
نور کی اپنی کشش ہے اپنی علت کی طرف
میں فرشتہ ہوں کبھی اور میں کبھی حیوان ہوں
کرب مت پوچھو مرا میں حضرتِ انسان ہوں
شام ۶۲:۴۰
۵۱ مئی ۴۲۰۲
36
جنوں ترتیب کا محتاج کیسے ہو گیا ہے
زمینِ دل پہ ذہنی راج کیسے ہو گیا ہے
سناؤ کامیابی کتنی قیمت میں ملی ہے
بتاؤ شہرِ دل تاراج کیسے ہو گیا ہے
شکستِ ذات کے دن تم بریدہ دل نہیں تھے
شبِ وحشت میں پھر یہ آج کیسے ہو گیا ہے
شگفتہ دل، حسیں جذبے لئے گھر سے چلے تھے
غمِ ہستی بھلا منہاج کیسے ہو گیا ہے
شرارِ ذات کو بس احتیاجِ جستجو تھی
ہوائے نفس کا محتاج کیسے ہو گیا ہے
عماد احمد خوشی اور غم برابر ہو گئے ہیں
سبھی جذبوں کا یہ اخراج کیسے ہو گیا ہے
دوپہر۲۵:۱۱
۶۱ مئی ۴۲۰۲
37
شکستِ ذات نے کھولے ہیں زخم ہستی کے
اداس رات نے کھولے ہیں زخم ہستی کے
یہ صرف دردِ جدائی نہیں ہمارے لئے
تمہاری بات نے کھولے ہیں زخم ہستی کے
وصالِ درد سے لے کر فراقِ نور تلک
غمِ حیات نے کھولے ہیں زخم ہستی کے
بدن کے، روح کے، قلب و نظر کے، سوچوں کے
مواخذات نے کھولے ہیں زخم ہستی کے
مشاہدات انوکھے، تصورات نئے
تجلیات نے کھولے ہیں زخم ہستی کے
تغیراتِ زمانہ، محرکاتِ جنوں
تحیرات نے کھولے ہیں زخم ہستی کے
عماد دسترسِ کل رہی ہے ہاتھوں میں
تصرفات نے کھولے ہیں زخم ہستی کے
دوپہر۰۱:۳۰
۶۱ مئی ۴۲۰۲
38
خود کلامی گفتگو ہے ظاہر و باطن کے بیچ
اک مسلسل ہاؤ ہو ہے ظاہر و باطن کے بیچ
آنکھ افق پر ڈھونڈتی ہے، قلب اندر جھانکتا
ایک باہم جستجو ہے ظاہر و باطن کے بیچ
نور اندر، نور باہر، نور سب ابعاد میں
اے بدن اب صرف تو ہے ظاہر و باطن کے بیچ
منفرد دنیائیں ہیں گو قلب و قالب کی مگر
مشترک اللہ ھو ہے ظاہر و باطن کے بیچ
آنکھ کے آنسو سے دھل جاتے ہیں داغِ قلب و جاں
یہ تو گویا آبِ جو ہے ظاہر و باطن کے بیچ
خوش خیالی، خوش کلامی، خوش دلی، خوش صورتی
ذات کا پورا نمو ہے ظاہر و باطن کے بیچ
امتحانِ زندگی ہمت سے دیتے آئے ہیں
اب عماد اک آرزو ہے ظاہر و باطن کے بیچ
شام ۸۴:۳۰
39
غبارِ ماضی
غبارِ ماضی چَھٹا تو دیکھا کہ عمر کتنی گزر چکی ہے
رہِ وفا دور رہ گئی ہے
اور اس کے راہی بھی بے نشاں موڑ مڑ چکے ہیں
نہ اب نشاں راستوں کے ہیں اور نہ ساتھیوں کے
غبارِ ماضی چھٹا تو دیکھا کہ ایک بوڑھا سا آدمی ہے
جو کچھ شناسا سا لگ رہا ہے
مگر رویوں میں اجنبی ہے
جو ایسے رستوں پہ چل رہا ہے جو میرے دیکھے ہوئے نہیں ہیں
مگر وہ اپنی ہی دھن میں ان پر چلے چلا ہے
غبارِ ماضی چھٹا تو کچھ دیر اجنبیت سے
سارے منظرکو میں نے دیکھا
تبھی یکایک کھلا مرے پر
کہ وہ شناسا سا اجنبی تو میں خود ہوں اور خود کو تک رہا ہوں
میں کیسی حیرت سے رک گیا ہوں
اور آپ اپنے کو دیکھتا ہوں
یہ سوچتا ہوں
کہ کون ہوں میں
وہی جو ماضی سے حال میں آ گیا ہے اور آج خود کو پہچاننے لگا ہے
یا وہ جو برسوں کے بعد ماضی کو تک رہا ہے
غبارِ ماضی چھٹا تو دونوں ہی محوِ حیرت کھڑے ہوئے ہیں
نہ میرا ماضی ہی حال کو دیکھ کر یقیں میں کھڑا ہوا ہے
نہ حال میرا مرے ہی ماضی کو دیکھ کر جان پا رہا ہے
یہ دو عدد اجنبی شناسا
کہاں پہ بچھڑے کہاں ملے ہیں
کہ آج دونوں کے جسم و جاں کے
تمام دیوار و در ہلے ہیں
غبارِ ماضی تو چھٹ چکا ہے
تمام پردہ بھی ہٹ چکا ہے
بہت سا رستہ بھی کٹ چکا ہے
وجود بھی دو میں بٹ چکا ہے
عماد اٹھو کہ آج ہستی کو ایک کرنے کا وقت ہے یہ
درست ہے بات سخت ہے یہ
دل و نظر لخت لخت ہے یہ
وجودِ ماضی، وجودِ حال اور وجودِ مستقبلِ نہاں کو
غبارِ وقت و ملالِ دوراں سے پاک کرنے کا وقت ہے یہ
عماد اٹھو!
عماد دیکھو!
کہ عمر کتنی گزر چکی ہے
رہِ وفا دور رہ گئی ہے
اور اس کے راہی بھی بے نشاں موڑ مڑ چکے ہیں
رات ۰۴:۹۰
۸۱ مئی ۴۲۰۲
40
اداس شام ڈھلی، سامنے شبِ غم تھی
تھکا ہوا تھا مرا جسم، آنکھ بھی نم تھی
شبِ فراق کسی آرزو نے دل سے کہا
تلاشِ صبح مری جستجو کو کیا کم تھی
اڑی تھی خاک شبِ آرزو میں عارض کی
پہ صبح دم مری ہستی پہ غم کی شبنم تھی
رموزِ کن کی تمنا خرد کا حصہ تھی
سکونِ قلب کی خواہش جنون میں ضم تھی
خدا ملا تو بتا دے گا رازِ ہستی بھی
یہ آرزو بھی تری جستجو میں پیہم تھی
ترے لئے میں اسے چھوڑ تو نہیں سکتا
یہ تشنگی تو ہمیشہ سے میری محرم تھی
تجھے پتا تھے تمنا کے خدوخال مگر
رہِ وفا کے تقاضوں پہ فکر مبہم تھی
خدا تو پاس تھا شہ رگ سے بھی عماد مگر
تلاشِ حق کی طلب زندگی میں مدھم تھی
دوپہر۲۴:۱۱
۹۱ مئی ۴۲۰۲
41
خدائے واحد کو دے رہا ہوں صدائے واحد
تری رضا ہو مرے لئے بس رضائے واحد
یہ سوچ کر کر رہا ہوں اعمال اپنے سارے
نہ جانے بھا جائے اس کو کوئی ادائے واحد
پھر اس کے بعد اور کون سی موت سامنے ہے
کریں گے ہمت سے، حوصلے سے ودائے واحد
مری طرف ہو نگاہِ لطف و کرم خدایا
میں جانتا ہوں نہیں ہوں میں اک گدائے واحد
میں نا خداؤں کی ایک بستی میں رہ رہا ہوں
تبھی دیے جا رہا ہوں رب کو ندائے واحد
مرے خدا میرے قلب کو تو بنا دے ایسا
سدا یہ مانگے ترے کرم کی ردائے واحد
ہم اپنے جسموں کو سو طریقوں سے پالتے ہیں
قلوب کو نور چاہئے ہے غذائے واحد
ہزار رستوں میں جو بھی چن لے ترے لئے وہ
عماد احمد ترے لئے ہے قضائے واحد
دوپہر۱۵:۲۱
۹۱ مئی ۴۲۰۲
42
کٹھور دل اور لطیف جذبے، نہیں چلے گا
ہزار غم اور شفیق لمحے، نہیں چلے گا
بقا کی منزل کی سمت چل تو پڑے ہو تنہا
اداس شامیں، مہیب رستے، نہیں چلے گا
یہاں پہ ہر روز ذات بکتی ہے مثلِ یوسف
یہ کاروبارِ قلوب سب سے نہیں چلے گا
جنوں کی چابک نے اچھے اچھوں کو ڈھا دیا ہے
میں دیکھتا ہوں یہ قلب کیسے نہیں چلے گا
جنوں کے چاروں طرف خرد کی سپہ کا پہرہ
یہ قافلہ آج ڈرتے ڈرتے نہیں چلے گا
عماد ایسے عجب بہانے نہیں بناؤ
جو چھوڑنا تھا تو ہم سے کہتے، نہیں چلے گا
دوپہر۰۳:۱۰
۹۱ مئی ۴۲۰۲
43
آسیب
مجھ پہ آسیب تھا
ایک بابے سے پوچھا تو کہنے لگا
اس کو تکلیف دو
اس کا جسم ایک عفریت کے جال میں پھنس چکا ہے اور اب
اس کی سوچیں بھی جذبے بھی قابو میں ہیں
اس کے جن کو نکالیں گے تب ہی اسے کچھ سکون آئے گا
ایک سے ایک پیروں پہ لے کر گئے
اور ڈیروں، مزاروں پہ لے کر گئے
آستانوں پہ وہ جن نکالا گیا
دھونیوں سے کبھی وہ سنبھالا گیا
آگ کے سامنے مجھ کو ڈالا گیا
مار کر، پیٹ کر اس کو ٹالا گیا
جن وہیں پر رہا، درد بڑھتا رہا
میرا آسیب میرے پہ چڑھتا رہا
اک سیانے سے پوچھا تو کہنے لگا
آستانوں، مزاروں سے کیا پاؤ گے
کوئی دھونی نہیں کوئی چابک نہیں جس سے جن جا سکے
اس طرح سے تو تم اس کو مرواؤ گے
اس پہ رقیہ کرو
کوئی جن، کوئی آسیب ایسا نہیں جو کلامِ الہٰی سے ڈرتا نہ ہو
جسم سے ایک پل میں نکلتا نہ ہو
مجھ پہ رقیہ ہوا
میرے اندر سے آسیب نکلا نہیں
میرے اندر ہی آسیب مرنے لگا
اور تب یہ کھلا
میرے اندر تو آسیب تھا ہی نہیں
میں خود آسیب تھا
اپنے اعمال سے اپنے افکار سے
اپنے قلب و جگر، اپنی فکر و نظر، اپنے جسم اور جاں
سب پہ طاری تھا میں
نفس کے بوجھ سے خود پہ بھاری تھا میں
اور کلامِ الہٰی نے قالب تو کیا قلب کو بھی کوئی پل میں زندہ کیا
میرے آسیب کا زور ٹھنڈا کیا
میرے اندر کا جن
میرے اندر کا آسیب مرنے لگا
جسم و جاں، فکر و اعمال، قلب و جگر سب سنبھلنے لگے
میں سنبھلنے لگا
ایک مدت سے بیمار تھا اب کھلا
ایک مدت سے لاچار تھا اب کھلا
اپنے اندر کا جن مارنا ہے اگر
اپنے آسیب سے جاں چھڑانی ہے گر
ذکرِ اللہ ہی ہے تطمئن القلوب
اور بے شک یہی ہے علاجِ عیوب
دوپہر۴۰:۲۰
۹۱مئی ۴۲۰۲
44
یہ دل کیوں ہے سنسان، اے اللہ، اے رحمٰن
جذبے کیوں ہیں ویران، اے اللہ، اے رحمٰن
میں آدم، میں شیطان، اے اللہ، اے رحمٰن
میں نوری، میں حیوان، اے اللہ، اے رحمٰن
انفس میں ہے بحران، اے اللہ، اے رحمٰن
آفاق الگ طوفان، اے اللہ، اے رحمٰن
جب بولیں گی کھالیں، جب بولیں گی آنکھیں
محشر کا وہ میدان، اے اللہ، اے رحمٰن
اعمال مرے کم تر لیکن تیرے در پر
رحمت کا کیا فقدان، اے اللہ، اے رحمٰن
سینے میں مرے ہر دم جرات و سکینت ہو
بڑھا دے مرا ایمان، اے اللہ، اے رحمٰن
تیری پنڈلی دیکھے، تجھ کو سجدہ کر لے
میرے جیسا انسان، اے اللہ، اے رحمٰن
مدت میرے اندر اک جنگ رہی جاری
روکا تو نے گھمسان، اے اللہ، اے رحمٰن
اسلام دیا تو نے، ایمان دیا تو نے
اب قلب میں بھر احسان، اے اللہ، اے رحمٰن
تو فقر عطا کر دے، تو عجز عطا کر دے
اونچی تیری ہی شان، اے اللہ، اے رحمٰن
ہر حرکت ہے معلوم انساں کو اپنے آپ
گو بنتا ہو انجان، اے اللہ، اے رحمٰن
سوچوں میں رسولﷺ اللہ، ہونٹوں پہ درودِ پاک
سینے میں مرے قرآن، اے اللہ، اے رحمٰن
تو حبِ خلیلؑ اللہ، تو حبِ کلیمؑ اللہ
نوحؑ و عیسیٰؑ کی آن، اے اللہ، اے رحمٰن
میں تیری غلامی میں یہ عمر گزاروں گا
باندھا تجھ سے پیمان، اے اللہ، اے رحمٰن
یہ شخص عماد احمد، بندہ ہے ترا یا رب
کر بخشش کا اعلان، اے اللہ، اے رحمٰن
رات۸۴:۱۰
۲۲مئی۴۲۰۲
45
معرفت لمحہ بہ لمحہ روز و شب بڑھتی رہی
عمر اپنی طے شدہ رفتار سے چلتی رہی
وقت میں برکت نہیں تھی وہ بھی آخر ہو گئی
ہر پہر میں پورے دن کی زندگی کٹتی رہی
روح کو ادراک تھا سو ذہن و دل تیار تھے
آنکھ کیسی بے بسی سے سامنے تکتی رہی
اتنے ماضی، حال، استقبال روشن ہو گئے
قلب کو اندر سے جتنی روشنی ملتی رہی
جسم کی مٹی دیا تھی، خونِ دل ہی تیل تھا
ایک لو دن رات میری ذات میں جلتی رہی
چاندنی بڑھتی رہی قلب و نظر میں یوں عماد
نور کے دیدار کی اک آرزو پلتی رہی
صبح۳۱:۵۰
۲۲مئی ۴۲۰۲
46
گفتگو تو بیچ میں ہی سو گئی
خامشی ہی حرفِ آخر ہو گئی
جسم باقی رہ گیا ہے دیکھ لو
روح نے جانا تھا آخر، سو گئی
جو گھڑی باقی ہے اس کو جی جیے
چھوڑئے جانا تھا اس کو، جو گئی
یوں تو بس اک رات تھی، آئی، گئی
میرے اندر رنجِ ہستی بو گئی
خونِ دل نے روح کو نہلا دیا
آنکھ رو کر قلب کو بھی دھو گئی
آرزو تھی ایک میرے قلب میں
بیش قیمت چیز تھی جو کھو گئی
جستجو کے بعد کیا تھی زندگی
سانس باقی رہ گئی تھی، لو گئی
اب خیالِ حال و استقبال کیا
میری ہستی ہی مجھے جب رو گئی
دوسروں کی زندگی کا سوچ لو
اب عماد احمد تمہاری تو گئی
صبح۰۵:۵۰
47
ہم نے دیکھا ہے سمیٹا ہوا اندازِ جنوں
ہم نے پایا ہے اداس آنکھ میں اعجازِ جنوں
دشتِ تنہائی میں کرتا رہا میں رقصِ حیات
اور بجتا رہا ویرانے میں اک سازِ جنوں
گنبدِ قلب سے اک گونج گئی روح تلک
کاش سن سکتے کبھی لوگ یہ آوازِ جنوں
نفس تو ماز گزیدہ تھا تڑپنا تھا اسے
اے مرے قلب مگر تُو تو تھا ہم رازِ جنوں
ایک آہو مرے انفس میں پریشان پھرا
اور اڑتا رہا افلاک میں اک قازِ جنوں
اب تو چھوڑ آئے ہیں منزل بھی کہیں پیچھے ہی
اب کہاں یاد رہا ہے ہمیں آغازِ جنوں
تم جو ہر بات کی گہرائی سمجھ لیتے ہو
یہ فراست ہی ہوا کرتی ہے غمازِ جنوں
دل کہ بنجارہ ہے اور سوچ جہاں گرد عماد
دیکھئے آج کہاں جاتی ہے پروازِ جنوں
کیوں خرد مند بنے شہرِ فراست میں عماد
کھول دیں گے کسی شب آپ پہ یہ رازِ جنوں
دوپہر۶۳:۲۰
۳۲مئی ۴۲۰۲
48
پیڑ سایہ دار تھا، تیار تھا، جب کٹ گیا
جس طرح میرا گھرانہ کچھ دنوں میں بٹ گیا
یوں تو میں حق پر بھی تھا، ہمت بھی میرے پاس تھی
سامنے بھائی کھڑا تھا اس لئے میں ہٹ گیا
وہ بقدرِ ظرف اپنی آخری حد تک گیا
خامشی سے درد کو سہتا رہا پھر پھٹ گیا
نیک نامی ذات کے پردوں میں گم بیٹھی رہی
اور رسوائی کا قصہ شہر بھر کو رٹ گیا
ذات کی تکلیف کم کرنے سے بڑھتی ہی رہی
درد جب اوروں کا بانٹا اپنا غم کچھ گھٹ گیا
دوسرے لڑتے رہے تھے مجھ سے پہلے بھی عماد
آج اپنے سامنا ہونے پہ میں بھی ڈٹ گیا
رات ۸۰:۸۰
۳۲مئی ۴۲۰۲
49
شکست خوردہ کو زخم خوردہ کہا ہے عزت رکھی ہے تھوڑی
ملال دل میں ہی رکھ لیا ہے تو حزن کی بھی کہی ہے تھوڑی
ہم ایک چکر میں گھومتے تھے سو دائروں میں ہی چل رہے تھے
میاں گزاری ہے عمر لمبی اگرچہ آگے بڑھی ہے تھوڑی
اب اس کے چہرے کو دیکھتے ہیں تو رنج ہوتا ہے بے حسی پر
بَتائی خوشیاں، بَتائے غم بھی، سنائی اتنی، سنی ہے تھوڑی
بہت برس تک بہت سے لوگوں نے اپنا حصہ لیا ہے اس سے
وہ زندگانی جو اپنی خاطر بچی ہے آخر وہی ہے تھوڑی
سنا تھا الفاظ ساتھ مت دیں تو حال کھلتا ہے آنسوؤں سے
یہ جوئے غم بھی رکی رہی ہے، کبھی کبھی ہی بہی ہے تھوڑی
یہ اس کی رحمت ہے جس نے جنت خرید دی ہے عماد احمد
تم اپنی نیکی کو پاس رکھو یہ ریزگاری چلی ہے تھوڑی
رات۰۰:۹۰
۳۲مئی۴۲۰۲
50
اپنے ماضی سے کراہت نہیں محسوس کرو
اور نیکی پہ نجابت نہیں محسوس کرو
سلسلے ہیں ابھی انجام سے پہلے کافی
صرف مر جانے پہ راحت نہیں محسوس کرو
تم نے اللہ کے لئے کلمہِ حق بولا نہیں
اب کسی بات پہ غیرت نہیں محسوس کرو
تم بدل جاؤ گے سوچا نہ تھا میں نے پہلے
میری حیرانی پہ حیرت نہیں محسوس کرو
آج گہرائی نہیں ڈھونڈو مری باتوں میں
اور لہجے میں فصاحت نہیں محسوس کرو
دردِ ادراک کی منزل پہ پہنچنے والے
غمِ دوراں کی سلاست نہیں محسوس کرو
لفظ در لفظ مری بات کو جھٹلا چکے ہو
حرف در حرف لطافت نہیں محسوس کرو
غیر اللہ سے تعلق کو مکمل توڑو
قلب میں درد کی ہیبت نہیں محسوس کرو
اب اگر نور کے رستے کو چنا ہے تم نے
اب پھر اجسام کی چاہت نہیں محسوس کرو
لوگ تو یاد دلائیں گے تمہاری اوقات
قلب راضی ہو تو ذلت نہیں محسوس کرو
نفسِ امارہ کی توثیق نہیں چاہئے ہے
اس کی تعریف پہ عزت نہیں محسوس کرو
جانتے تھے جسے تم مر بھی چکا ہے وہ عماد
میرے میں اس کی شباہت نہیں محسوس کرو
صبح۶۳:۹۰
۴۲مئی۴۲۰۲
51
بے مکاں آدمی، بے نشاں راستے
جائیں گے لے کے جانے کہاں راستے
کچھ پہ کرتے ہیں حق کو عیاں راستے
اور کچھ کے لئے ہیں زیاں راستے
جس جگہ رک گئے وہ ہی منزل بنی
اور جدھر مڑ گئے، تھے وہاں راستے
کون گزرا تھا کب، کون ٹھہرا تھا کب
کیا بتاتے ہمیں بے زباں راستے
آگہی کے مسافر مبارک تجھے
لا مکاں منزلیں، لا زماں راستے
تو سمجھتا ہے کھونے کا فن ذات میں
چل تلاش اپنے اندر نہاں راستے
منزلِ دل تو وا تھی تمہارے لئے
کیا ہوا، ہو گئے کیوں گراں راستے
اتنے سیدھے نہ تم ہو نہ میں ہوں عماد
کیوں وہاں جائیں ہم ہوں جہاں راستے
رات ۱۳:۱۱
۶۲مئی۴۲۰۲
52
بے مکاں آدمی، بے نشاں راستے
جائیں گے لے کے جانے کہاں راستے
کچھ پہ کرتے ہیں حق کو عیاں راستے
اور کچھ کے لئے ہیں زیاں راستے
جس جگہ رک گئے وہ ہی منزل بنی
اور جدھر مڑ گئے، تھے وہاں راستے
کون گزرا تھا کب، کون ٹھہرا تھا کب
کیا بتاتے ہمیں بے زباں راستے
53
زندگی! تیری میری نمو ہو گئی
میں بھی میں ہو گیا، تو بھی تو ہو گئی
جسم سے ذات یوں دوبدو ہو گئی
روح آگے بڑھی، رو برو ہو گئی
خود سے اتنا تعلق بچا ہے کہ بس
چلتے چلتے کبھی گفتگو ہو گئی
دیکھتی کچھ نہیں صرف بہتی ہے یہ
آنکھ تھی، اب تو بس آبِ جو ہو گئی
کوئی امید، امکان باقی نہیں
بزمِ یاراں بھی اک آرزو ہو گئی
مدتوں بعد ایسا شناسا ملا
آج خود سے ملے ہاؤ ہو ہو گئی
چوٹ کھانے کا جیسے جنوں ہو گیا
زخم چکھنے کی جیسے کہ خو ہو گئی
وصلِ جاناں نہیں، وصلِ جاں چاہئے
آرزو ہے مگر با وضو ہو گئی
ڈھونڈنا ہے عماد اب تجھے اپنا گھر
یعنی اپنی ہی اب جستجو ہو گئی
رات۹۵:۱۱
۶۲مئی۴۲۰۲
54
دور سے آ رہی ہے اک آواز
قلب تک جا رہی ہے اک آواز
بات الجھا رہی ہے اک آواز
بھید سلجھا رہی ہے اک آواز
نفسِ امارہ طالبِ شہوات
روح سنوا رہی ہے اک آواز
اس قدر شور و غل کے عالم میں
کس لئے بھا رہی ہے اک آواز
خامشی کے نگار خانے میں
زور سے گا رہی ہے اک آواز
ایک ماضی ہے، ایک مستقبل
جن کو ملوا رہی ہے اک آواز
دشتِ عبرت میں کھو گیا ہوں میں
راہ بتلا رہی ہے اک آواز
تم سنبھل جاؤ گے عماد احمد
مجھے بہلا رہی ہے اک آواز
رات۶۲:۲۱
۷۲مئی۴۲۰۲
55
اس قوم میں کتنے ہیرے تھے، تربیت کا فقدان رہا
جس شخص سے بھی دھوکا کھایا اس شخص پہ دل حیران رہا
اس قلب میں کتنی خوشبو تھی، قالب نظروں کو بھاتا تھا
سب پھول کسی کو دے بیٹھے، بس ہاتھوں میں گلدان رہا
اس مایہ جال میں پھنس کر سب ایسی ہی ترقی کرتے ہیں
گھر عالی شان بنا ڈالے اور گوشہئ دل ویران رہا
درس و تدریس ختم اب سے، یہ مکتب آج سے بند ہوا
اس شخص سے تم کیا سیکھو گے جو اپنے سے انجان رہا
بالوں کی سفیدی چھوڑو تم، دس بارہ سال کا بچہ ہوں
میں ایسے سال نہیں گنتا جب قلب مرا بے جان رہا
میں روزِ اذل تخلیق ہوا، میں روزِ ابد تک قائم ہوں
ان کھربوں نوری سالوں میں بس کچھ عرصہ انسان رہا
آیا تو فرشتہ تھا لیکن دنیا میں کئی ادوار آئے
انسان رہا، حیوان رہا، شیطان رہا، نقصان رہا
اب سامنے ایک ترازو ہے اور اس کے دونوں پلڑے ہیں
اب کوئی گنہ کی مہلت اور نہ نیکی کا سامان رہا
کچھ لوگ عماد احمد اک اک نیکی کے عوض جنت لیں گے
تم نے اعمال نہیں تولے، گنتی کی طرف رجحان رہا
دوپہر ۵۴:۱۰
۷۲مئی۴۲۰۲
56
سنو یہ قتل گاہوں کی طرف سے کون آیا ہے
کوئی ظالم ہے یا مظلوم ہے جو بھاگ پایا ہے
صدائے کن کے بعد ادوارِ نوری اور ناری ہیں
بشر تخلیق کے اگلے مراحل میں بنایا ہے
خرد والوں کے دل پامال رستوں سے گریزاں ہیں
جنوں والوں کے ذہنوں میں نیا سودا سمایا ہے
ہماری زندگی تو کٹ گئی آواز گم کر کے
بتاؤ تم نے جو اعجازِ گویائی سے پایا ہے
عماد اس بار دکھ چوٹوں کی گہرائی سے بڑھ کر ہے
ستم یہ ہے کہ ہم پر یہ ستم اپنوں نے ڈھایا ہے
شام ۶۰:۵۰
۷۲مئی۴۲۰۲
57
ذاتِ اقدس اور انسان
مکاں کب تھے
زماں کب تھے
یہ ماضی، حال، مستقبل
زمین و آسماں کب تھے
ستارے، کہکشاں کب تھے
فقط اک ذاتِ اقدس تھی
مگر یہ تھی بھی میرا لفظ ہے معنی سے عاری ہے
مرے الفاظ سے باہر ہے ماضی، حال مستقبل سے باہر
بات کر سکنا
ازل سے قبل کے ادوار کا اثبات کر سکنا
لغت کم تر ہے اس کی ذات کا ادراک گہرا ہے
حجاب اتنے ہیں جن پر پھر حجابوں ہی کا پہرا ہے
مشیت کا سفر ایسے میں ہی آغاز ہوتا ہے
صدائے کن سے افشا سب سے پہلا راز ہوتا ہے
صدائے کن سے ٹھنڈے نور کی تشکیل ہوتی ہے
اسے نورِ جہاں کہئے، اسے صبحِ ازل کہئے
اسے کھربوں برس کہئے، اسے بس ایک پل کہئے
یہاں سے امر کی دنیاؤں کا آغاز ہوتا ہے
فرشتے نور کی چادر سے اپنا روپ لیتے ہیں
یہیں سے روحِ انسانی کا بھی افراز ہوتا ہے
یہیں روزِ الست اک عہد کا ایجاز ہوتا ہے
صدائے کن کے بعد ادوار پر ادوار آتے ہیں
جہانِ امر میں تو نور کے کردار آتے ہیں
پھر اس کے بعد گویا خلق کا آغاز ہوتا ہے
تپش سے آگ بنتی ہے تو ناری خلق ہوتے ہیں
پھر اس کے بعد ہی اجسام کا احراز ہوتا ہے
مراحل نور کے
پھر نار کے
پھر جسم کے اتنے
پھر ان اجسام میں تخلیق کے بے انتہا عرصے
وہی انسان جو اک امر کی دنیا میں زندہ تھا
وہ جس کا امتحاں اس روزِ اول سے مقدر تھا
اسے اس امر کی دنیا سے آ کر خلق ہونا تھا
سبھی تخلیق کا آخر بھی اب اس ہی پہ ہونا تھا
وہ نوری آدمی جو امر کی دنیا کا باسی تھا
وہی حیوان جیسے جسم میں بھیجا گیا ہے اب
اور اس پر نار سے پیدا شدہ شیطان پیچھے ہے
یہی کافی نہیں تو نفس کا میلان پیچھے ہے
اسے واپس پلٹ کر امر کی دنیا میں جانا ہے
اور اس کے بعد بہتر خلق کی دنیا میں جانا ہے
مسافت بھی کٹھن ہے، راستے بھی پر خطر اس کے
جہنم پر یا جنت پر رکیں گے اب سفر اس کے
جہانِ امتحاں سے منزلِ رس تک پہنچنا ہے
اب اس انسان کو اس ذاتِ اقدس تک پہنچنا ہے
وہ جو اک ذاتِ اقدس تھی
وہ جو اک ذاتِ اقدس ہے
وہ جو اک ذاتِ اقدس ہر زمانے میں رہے گی بھی
مگر یہ گی بھی میرا لفظ ہے معنی سے عاری ہے
مرے الفاظ سے باہر ہے ماضی، حال مستقبل سے باہر
بات کر سکنا
ابد کے بعد کے ادوار کا اثبات کر سکنا
لغت کم تر ہے اس کی ذات کا ادراک گہرا ہے
حجاب اتنے ہیں جن پر پھر حجابوں ہی کا پہرا ہے
شام۹۳:۷۰
۷۲مئی۴۲۰۲
58
کم گو تھا، تھوڑا بولے تو تھک جاتا تھا
لوگوں میں مغرور، گھمنڈی کہلاتا تھا
ذات سے باہر آ کر بھی رہنا پڑتا ہے
میری سن لیتا تھا سو میں سمجھاتا تھا
خلوت میں دیکھا ہے اسے سو کہہ سکتا ہوں
زندہ دل تھا پر محفل میں گھبراتا تھا
اپنے روگ چھپا لیتا تھا لوگوں سے وہ
اپنے درد اکیلے میں ہی سہلاتا تھا
زخم کئی تھے اس کے دل پر، کچھ گہرے تھے
اپنوں کو بھی فرداََ فرداََ دکھلاتا تھا
ایک تھا من کا روگ عماد احمد تیرا بس
سب خوشیوں کے بعد وہی غم کھل جاتا تھا
رات ۵۰:۸۰
۷۲مئی۴۲۰۲
59
اداس رات گزاری نہیں گزر گئی ہے
ہزار بار نظر دردِ ذات پر گئی ہے
یہ صبح جس کی مبارک سلام دیتے ہو
یہ میرے کاندھے پہ اک اور روز دھر گئی ہے
ممات موت نہیں زندگی ہے صاحبِ عقل
کہ روح مدتوں بعد آج اپنے گھر گئی ہے
بدن ادھیڑا تھا اپنی تلاش میں ہم نے
تمام زخم تمہاری تلاش بھر گئی ہے
جنوں کے دوست تری سب محبتوں کی قسم
ہماری جان کی بازی ترے ہی سر گئی ہے
فراق و ہجر کے ہر مرحلے سے گزری ذات
پہ دکھ ہوا کہ شبِ آگہی سے ڈر گئی ہے
فراقِ یار ہو چاہے فراقِ جان عماد
کبھی کبھی تو مری ذات ہی بکھر گئی ہے
دوپہر۶۱:۲۱
۹۲مئی۴۲۰۲
60
ذات کا منظر
قلب اک گھونسلا ہے، چڑیا روح
جسم وہ پیڑ جس میں گھونسلا ہے
ذات وہ شاخ جس پہ نفس کا سانپ
دھیرے دھیرے سرک کے آ رہا ہے
گھونسلے میں رہے گی کیا چڑیا
قلب کیا روح کو بچا لے گا
شاخ پر ہی رہے گا کیا یہ سانپ
نفس کیا ذات کو ہرا دے گا
گھونسلا، سانپ، شاخ اور چڑیا
پیڑ اب گویا نیم جان سا ہے
قلب اور نفس، ذات اور پھر روح
جسم بھی زیرِ امتحان سا ہے
کاش یہ نفس کچھ نہ کر پائے
روح بس جا سکے ہدایت سے
کاش یہ سانپ نیچے گر جائے
اور چڑیا اڑے حفاظت سے
دوپہر۱۱:۱۰
۹۲مئی۴۲۰۲
61
شب بھر اپنے خوابوں میں پھرتا رہتا ہے آوارہ
نو سے چھ کی مزدوری کرنے والا اک بنجارہ
ہمت کر کے دینا ہو گا اب ماضی کا کفارہ
سوچ بھی ورنہ تھک جائے گی، دل بھی ہو گا سیپارہ
گھر کی قسط، نئی گاڑی، بچوں کی فیس، یوٹلٹی بل
ان سے فارغ ہو تو سوچے اپنے قلب کا بے چارہ
اندر بھی رہتا ہے اک انسان اسے بھی دیکھو تم
سوچ کی جانب بھیج رہا ہے اپنے دل کا ہرکارہ
عزت وزت اچھی ہے اور پیسہ شیسہ کافی ہے
تنہائی میں شیشہ دیکھیں تو اک شخص ہے ناکارہ
اک لمحہ سب کو ملتا ہے راہوں کی تبدیلی کا
کوئی نہیں کہہ سکتا پھر وہ آئے نہ آئے دوبارہ
دیکھ سڑک اور رش دکھتا ہے یا سرسبز پہاڑ اور جھیل
سوچ کہ تجھ کو پیارا لگتا ہے کس طور کا نظارہ
تو پہلا انسان نہیں ہے جو اس دوراہے پر ہے
چھوڑا تھا اک روز عماد احمد نے بھی اک چوبارہ
رات۰۰:۰۱
۹۲مئی۴۲۰۲
62
بیٹھ کر ہدایت کا انتظار کرنا ہے
یا عمل کی راہوں کو اختیار کرنا ہے
پستی و ندامت میں زندگی گزاری ہے
آخری سفر کو اب پر وقار کرنا ہے
ہر گھڑی نئے نکتے آگہی کے ملتے ہیں
ذات کا سفر ہم نے بار بار کرنا ہے
بعد میں چنیں گے ہم منزلوں کو، راہوں کو
پہلے اپنی ہستی کو بے قرار کرنا ہے
یا تو نور کی چادر چاک چاک کرنی ہے
یا لباسِ فقر اپنا تار تار کرنا ہے
کیا گناہ گنتے تھے؟ کیا نفاق تولا تھا؟
باقی عمر استغفار بے شمار کرنا ہے
جان، مال، دل، عزت، سب ہے دین اللہ کی
تُو عماد اب اس پر کیا نثار کرنا ہے
دوپہر۱۰:۳۰
۰۳مئی۴۲۰۲
63
اعادہ
کاروبارِ ہستی میں
زندگی کی مستی میں
کون سوچتا ہے یہ
موت نے بھی آنا ہے
اس جہانِ فانی سے ایک روز جانا ہے
زندگی کے دو رخ ہیں
ایک سب نے دیکھا ہے
اور اک سے بے رخ ہیں
کون سوچتا ہے یہ
دوسری جہت نے بھی ایک روز کھلنا ہے
روح نے نکلنا ہے
جسم نے لحد میں بھی ایک روز گھلنا ہے
کتنی دور ہے وہ روز
کتنے دن ہیں مستی کے
کاروبارِ ہستی کے
یہ سوال سادہ ہے
زیست کا اعادہ ہے
جذب و سوچ سمجھیں تو اس میں اک ارادہ ہے
لیکن اس ارادے میں دکھ بہت زیادہ ہے
اس لئے ہی سارے لوگ سوچتے نہیں اس کو
گر خیال آ بھی جائے کھوجتے نہیں اس کو
میں نے آج سوچا ہے
میں نے آج سمجھا ہے
کاروبارِ ہستی کے
کتنے دن ہیں مستی کے
جب سوال سادہ ہے
زیست کا اعادہ ہے
جذب و سوچ قائل ہیں پیچھے اک ارادہ ہے
تب جواب سادہ ہے
چار دن ہیں مستی کے
کاروبارِ ہستی کے
پھیل جائیں تو شاید کچھ برس عطا کر دیں
گر سمٹ گئے تو پھر شاید آج شاید کل
چند گھنٹے یا کچھ پل
کتنے روز جینا ہے
کس کا کس سے وعدہ ہے
لیکن اس سمے اک غم اس سے بھی زیادہ ہے
زندگی ہے بے مقصد
زیست بے ارادہ ہے
یہ سوال مشکل تھا
یا سوال سادہ تھا
سامنا کیا ہے تو یہ جواب سادہ تھا
اب یہی غنیمت ہے
جو شعور پایا ہے
بچ گیا ہے جو بھی وقت سال، دن یا کچھ گھنٹے
یا اگر ہوں کچھ لمحے
ان کا ایک مقصد ہے
ان میں اک ارادہ ہے
رب سے ایک وعدہ تو
عالمِ حقیقی میں کر لیا تھا میں نے پر
آج پورے دل کے ساتھ کر لیا اعادہ ہے
آئے اب جو آنا ہے
جائے اب جو جانا ہے
زندگی کے دونوں رخ ایک ہی زمانہ ہے
قلب و جاں کا دونوں میں ایک ہی ترانہ ہے
شام۹۵:۶۰
۰۳مئی۴۲۰۲
64
تبدیلی آج ضروری ہے، انفس میں بھی آفاق میں بھی
ہر خواہش، آس ادھوری ہے، انفس میں بھی آفاق میں بھی
اک آگ ضروری تھی سو ہے، اک ظرف ضروری تھا وہ ہے
اور آنچ بھی اب تو پوری ہے، انفس میں بھی آفاق میں بھی
تو قلب میں ہے، افلاک میں ہے، دونوں میں نظر سے اوجھل ہے
اللہ کیسی مہجوری ہے، انفس میں بھی آفاق میں بھی
یا اپنے حواسوں سے جانا، یا علم سے ماخذ پہچانا
یہ انساں کی مجبوری ہے، انفس میں بھی آفاق میں بھی
کچھ میری حدودِ علم بھی ہیں، کچھ میری قیودِ خلق بھی ہیں
ان سے باہر معذوری ہے، انفس میں بھی آفاق میں بھی
وہ فہم کا دور اچھا تھا عماد، اب فقر کی رہ پر چل دے تو
پھر بول کہیں کچھ دوری ہے، انفس میں بھی آفاق میں بھی
رات۳۱:۸۰
۰۳مئی۴۲۰۲
65
اصولِ فقہ غمِ آگہی مرتب کر
یہ فرد فرد حوادث ہیں تُو مرکب کر
تُو چاہتا ہے تجھے انعطافِ نور ملے
تَو پہلے آئینہ کر قلب، پھر محدب کر
وصالِ نور بہت پاکباز خواہش ہے
نگاہِ ناز کو پہلے ذرا مؤدب کر
یا موم ہو کے پگھل جا یا سنگ بن کے چٹخ
دل و دماغ کو ایسے نہیں مذبذب کر
وہ ایک شخص سمجھتا ہے تیرے قلب کا حال
تو اپنے دل کو نہ اس کے لئے مورب کر
جمال و حسنِ زمانہ برے مصاحب ہیں
ملالِ ذات کو جذبات کا مقرب کر
لہو کی بوند کی تکریم کرتا آیا ہے
اب آنسوؤں کو نگاہوں میں کچھ مرجب کر
عماد عود تو آتا ہے درد راتوں میں
پہ جسم و جاں کو اتنا نہیں معذب کر
رات۸۲:۲۱
۱۳مئی۴۲۰۲
66
اونٹ گر سوئی کے ناکے سے نکل سکتا ہے
تیرا سینہ بھی مرے غم سے پگھل سکتا ہے
ہجر کے سال تحجر کی ضمانت تو نہیں
کوئی جذبہ تو کسی دل میں بھی پل سکتا ہے
یہ وہ سورج ہے جو آنکھوں کو نہیں دکھتا ہے
قلب خاموشی سے سینے میں ہی ڈھل سکتا ہے
جب میں زندہ تھا معافی نہیں مانگی اس نے
میرے بعد اب وہ فقط ہاتھ ہی مل سکتا ہے
شہرِ دل میں ترے افلاس کے چرچے ہی رہے
کیا یہاں آج ترا سکہ بھی چل سکتا ہے
سوچ و جذبات تعفن نہیں دے سکتے کیا
وقت کے ساتھ بھلا جسم ہی گل سکتا ہے
لطف سے قتل بھی ہو سکتے ہیں دل والے عماد
درد سے سینہِ قاتل بھی ابل سکتا ہے
دوپہر۵۰:۲۱
۱۳مئی۴۲۰۲
67
فقہی رجحانات پر تکفیر کے فتوے دئیے
حد نہ لگوا پائے تو تعزیر کے فتوے دئیے
اب ضروری ہے کہ سب تسلیم بھی اس کو کریں
خواب خود بتلائے، پھر تعبیر کے فتوے دئیے
دوسرے مسلک کی مسجد میں نہیں ہوتی نماز
یہ بتا کر نت نئی تعمیر کے فتوے دئیے
ہاتھ باندھے ہیں کہاں، آمین بولا کس طرح
نیکیاں بھی دیکھ کر تقصیر کے فتوے دئیے
مدرسے اور خانقاہیں نور سے معمور تھے
پھر ہوس والوں نے کچھ تزویر کے فتوے دئیے
جب کبھی ان کو کتاب اللہ دکھائی تب عماد
ان خدا والوں نے اپنے پیر کے فتوے دئیے
شام۵۵:۴۰
۱۳مئی۴۲۰۲
68
ریگزارِ ذات میں پایا ہے نخلستانِ قلب
راستہ کھوئے مسافر کو ملا برہانِ قلب
نیک و بد افکار، جذبے، فعل اور میدانِ قلب
خود شناسی، احتسابِ ذات اور میزانِ قلب
میں ابھی تک نفس و شر سے برسرِ پیکار ہوں
کلمہ گو تو ہوں، نہیں حاصل ابھی ایمانِ قلب
خواہشاتِ امرِ مقبول و نجیب اس ہی سے ہیں
معصیت سے اتنی بے زاری بھی ہے احسانِ قلب
جسم و جاں کی ہر طلب ہر گام پر پوری ہوئی
اب تلاشِ نور کر، بس رہ گئے ارمانِ قلب
یہ جنوں بھی نفس کی خواہش کا ہی اک روپ ہے
نور سے برپا نہیں ہوتا کبھی ہیجانِ قلب
کیا کہا یہ ایک ہی موضوع کی گردان ہے
یہ مرا اعجاز ہے لکھا ہے جو دیوانِ قلب
جسم میں اور نور میں تفریق واضح ہو گئی
کر لیا محسوس دل اور ہو گئی پہچانِ قلب
طاق پر رکھ دے بصیرت، فہم کی یہ چابیاں
قفلِ ہستی کھل گئے ہیں، مل گیا وجدانِ قلب
ذہن کہتا تھا مجھے کب یاد ہے روزِ الست
روح کہتی تھی مجھے تو یاد ہے پیمانِ قلب
بھول جاتا ہے دماغ اکثر ضروری کام بھی
شکر ہے ہوتا نہیں اک پل کو بھی نسیانِ قلب
خواب اور تعبیر میں حائل خلیجِ عمر ہے
یوسفِ ہستی سے بھی چُھٹ جائے گا کنعانِ قلب
اس سفر میں نور لاتا ہے من و سلویٰ عماد
بس حضوری، حاضری ہی ہے یہاں سامانِ قلب
میں نہیں سمجھا بہت سالوں رموزِ غم عماد
تم بھی اک مدت رہے پوری طرح انجانِ قلب
دوپہر۴۳:۲۰
۶جون۴۲۰۲
69
درد کا دھارا پھوٹ پڑا ہے، غم اس دل پر ٹوٹ پڑا ہے
اتنے ہنگامے کے اندر تنہا دل مضبوط کھڑا ہے
تم سے شکایت اور شکوہ کیا، تم سے گلہ اور رنجش کیسی
خود کو معاف نہیں کر سکتا، میرا دل اتنا ہی بڑا ہے
ہاتھ نہیں تھاما ہے کسی نے، کام نہیں بانٹا ہے کسی نے
یک طرفہ ہر پیار کیا ہے، یک طرفہ ہر جنگ لڑا ہے
خوشیاں غم تنہا کاٹے ہیں، سب موسم تنہا کاٹے ہیں
میرے دل تو آج بھلا کیوں صحبتِ یاراں پر ہی اڑا ہے
مدت ہوئی عماد احمد نے درد کا تاج پہن رکھا ہے
اور اس تاج پہ سب سے اوپر تیرا ہی یاقوت جڑا ہے
شام۰۰:۴۰
۶جون۴۲۰۲
70
ہر قدرِ مشترک کو بہانے کی دیر ہے
رودادِ عمر اس کو سنانے کی دیر ہے
ربطِ فراق و وصل بتانے کی دیر ہے
وہ جا نہیں سکے گا بلانے کی دیر ہے
شعلہ بیانی اب تو بہت سہل ہے مجھے
درد و الم کو آگ دکھانے کی دیر ہے
لو قلب کی تپش تو بدن تک پہنچ گئی
لوہا گرم ہے چوٹ لگانے کی دیر ہے
قلب و جگر تو روز لہو مانگتے ہیں بس
نبھ جائے گی جناب، نبھانے کی دیر ہے
میں جانتا ہوں کس لئے ناراض ہے عماد
لہجہ بدل کے تھوڑا منانے کی دیر ہے
شام۲۲:۴۰
۶جون۴۲۰۲
71
کرب و بلا کے دور میں اجڑا ہے شہرِ دل
دشتِ جنوں کی چاہ میں چھوٹا ہے شہرِ دل
مدت کٹی ہے عکسِ رخِ یار کے بغیر
برسوں کے بعد ذات نے دیکھا ہے شہرِ دل
اچھا ہوا کہ ہم بھی یہیں دفن ہو گئے
صحرائے آرزو سے تو اچھا ہے شہرِ دل
منزل سے قبل ملتے ہیں رستوں کے سنگِ میل
عقل و خرد کے بعد ہی پایا ہے شہرِ دل
اب جس کسی سے چاہو ملو، جس جگہ رہو
اپنے ہی بام و در ہیں یہ، اپنا ہے شہرِ دل
اب خوش رہیں کہ درد کو اپنائیں ہم عماد
پایا ہے دشتِ جستجو، کھویا ہے شہرِ دل
شام۹۳:۵۰
جون کا کوئی دن
72
اداس رات! سنو میرے دل کا حال تو آج
غموں کے نرغے سے بچ پائے بال بال تو آج
محبتیں تو لبھاتی تھیں، مسکراتی تھیں
ملا ہے دل کو مرے عشق کا وبال تو آج
وہ خواب تھے جو ہمیں رات بھر جگاتے تھے
وہ ٹوٹنے سے ہوا نیند کا خیال تو آج
وجود سالوں میں ڈھالا تھا ایک سانچے میں
بدل کے رکھ دیے غم نے یہ خد و خال تو آج
جواب ڈھونڈ لئے زندگی نے سارے عماد
پہ تشنہ رہ گیا اک درد کا سوال تو آج
شام۷۰:۵۰
۵جولائی۴۲۰۲
73
آؤ تجدیدِ درد کرتے ہیں
اپنے سینے کو غم سے بھرتے ہیں
دوستوں نے کیا ہمیں برباد
آپ تو دشمنوں سے ڈرتے ہیں
اتنی غفلت نہ برت ان سے تو
جو غمِ آگہی پہ مرتے ہیں
تم سدا ضبط تو نہیں کرتے
ہم ہمیشہ نہیں بکھرتے ہیں
جسم تو رنگ و روپ کھوتے ہیں
قلب پر درد سے نکھرتے ہیں
خوفِ تنہائی اب نہیں ہے عماد
ہم نے رشتے بھی خوب برتے ہیں
شام۰۴:۷۰
۵جولائی۴۲۰۲
74
غمِ ہستی کے رازوں کو عیاں کرنا، نہاں رکھنا
کریں گے فیصلہ خود اہلِ دل، اچھا گماں رکھنا
یونہی دو چار کوس آگے کہاں کے سنگِ میل آخر
جہاں تم تھک کے گر جاؤ وہاں پہلا نشاں رکھنا
محبت کے مناسک جب ادا کر لیں، جہاں کر لیں
رہِ الفت پہ مٹھی میں زماں رکھنا، مکاں رکھنا
اگر تقریر کی نوبت کبھی پڑ جائے تب بھی تم
خموشی کے فسوں میں مختصر اپنا بیاں رکھنا
بھری بستی میں دل کی بات کی بے حرمتی ہو گی
جہاں تنہائی ڈیرے ڈال دے جذبے وہاں رکھنا
عماد احمد تمہارا یہ چلن اب بھی نہیں بدلا
منافع دوسروں میں بانٹ دینا اور زیاں رکھنا
رات۸۵:۰۱
۷جولائی۴۲۰۲
75
وہ اندر جو خلا تھا بھر گیا کیا
ترے اندر کا جوگی گھر گیا کیا
اداسی تو رگوں میں دوڑتی تھی
اندھیرا بھی نظر میں بھر گیا کیا
بھلا صحرا میں پانی کیوں کھڑا ہے
رہِ الفت کا راہی مر گیا کیا
ہماری کانپتی آواز سن کر
ہمارا ہم نوا بھی ڈر گیا کیا
محبت اس کی کیسی نرم خو تھی
بہت دھیرج سے غم بھی دھر گیا کیا
عماد اک شخص رہتا تھا مرے میں
وہ میرے ذہن سے باہر گیا کیا
رات۵۱:۱۱
۷جولائی۴۲۰۲
76
محفل میں سب زندہ دل تھے، جو بھی ملا وہ مسکایا
فرداً فرداً جسے ٹٹولا اس کا دل ٹوٹا پایا
بھوک لگی تھی سو جو مزدوری بھی ملی وہ لے لی تھی
مجھ سے یہ کس نے کہنا تھا بیٹے تم نے کیا کھایا
من کے غم کو ذہن سے بانٹا، سوچ کے روگ کہے دل کو
دشت میں کون سے رشتے دار تھے، دھوپ میں کون تھا ہم سایہ
ایک ہنر آتا تھا ہمیں سو اس میں خوب ترقی کی
غم پہ بہت غرور آیا اور درد میں دل بھی اترایا
عمرِ گزشتہ میں کچھ چہرے تھے اب یاد تو پڑتے ہیں
کس نے ہماری نبض چھوئی، ہم نے کس کا دل دھڑکایا
ایک مفصل باب بنے گا گر اس بات کو چھیڑیں گے
قلب نے کتنا ضبط کیا اور نفس نے کتنا بہکایا
عمر کا سورج ڈوب رہا تھا جب کچھ فرصت ملی عماد
اب کچھ دن ہیں خوش رہ لو تم چھوڑو کیا کھویا پایا
رات۹۱:۹۰
۰۱جولائی۴۲۰۲
عمرہسپتال،لاہور
77
مجھے لگا بس مرے جنوں کا جوار بھاٹا اتر گیا ہے
یہاں تو ہستی ہی بہہ گئی ہے، یہاں تو قالب بکھر گیا ہے
جدائی لگتا تھا سانحہ ہے، تلاش لگتا تھا بے اماں ہے
مسافتوں اور صعوبتوں سے غمِ محبت نکھر گیا ہے
لو آ کے دیکھو کہ کیسے کوزے میں لے کے پھرتے ہیں رات دن ہم
تمہیں لگا تھا کہ دل اداسی کے اس سمندر سے ڈر گیا ہے
ہزار لوگوں نے ساتھ چلنے کے عہد باندھے، چلا میں تنہا
ڈرو نہیں تم، مجھے بتا دو جو دل تمہارا بھی بھر گیا ہے
یہ بوجھ ہستی پہ لد چکا ہے مگر ہٹانا بھی اب کٹھن ہے
وہ اپنے غم کا مہیب سایہ اداس آنکھوں میں دھر گیا ہے
جو ہار پائی وہ میرے نقصِ عمل کا اظہار تھا ہمیشہ
جو جیت پائی تو اس کو سہرا تری عنایت کے سر گیا ہے
جنوں کو تہذیب چاہئے ہے، سفر میں ترتیب چاہئے ہے
یہ کیا کہ جب بھی خبر ملی تو اِدھر گیا ہے، اُدھر گیا ہے
وہ ایک مدت سے کہہ رہا تھا کہ پانی سر سے گزر گیا ہے
لو آج تصدیق ہو گئی ہے، وہ آج جگ سے گزر گیا ہے
جو نفس کچلا، جو قلب دھویا، تلاشِ حق کے لئے تھا گویا
عماد احمد یہ کیا ہوا ہے جو ہوشِ منزل ہی مر گیا ہے
دوپہر۳۰:۳۰
78
شکست و ریخت نے مضبوط کر دیا کیسے
گرے تو قلب کو ملقوط کر دیا کیسے
غمِ جہاں نے ہمیں قاش قاش کر ڈالا
بکھرتی ذات نے مربوط کر دیا کیسے
ہم اپنا آپ بریشم بنا کے لائے تھے
تری نگاہ نے پھر سوت کر دیا کیسے
جہاں نوردی نے کڑوا بنا دیا تھا مجھے
خدا کے ذکر نے شہتوت کر دیا کیسے
اندھیری راہ میں خواہش تھی روشنی کی بہت
ملا جو نور تو مبہوت کر دیا کیسے
فراق و وصل میں تفریق کتنی واضح ہے
تمہارے حجر نے مخلوط کر دیا کیسے
ہمارا قلب تو شفاف ہو گیا تھا عماد
پھر اس کو نفس نے منقوط کر دیا کیسے
رات۵۰:۸۰
۷۱جولائی۴۲۰۲
79
خیال و فکر کی تزئین ہو تو بات چلے
نگاہ و قلب میں تحسین ہو تو بات چلے
ہماری ذات پہ الزام دھر دیا تم نے
چلو پہ جرم ہی سنگین ہو تو بات چلے
بہت برس کی ریاضت سے عق ملا ہے مجھے
اب ان کے بیچ میں گر شین ہو تو بات چلے
تمام عمر کی رنگینیاں ہیں لا حاصل
اگر تو موت بھی رنگین ہو تو بات چلے
ہمیں پتا ہے کہ مذہب ہمارا کیا ہے عماد
ہمارے قلب میں گر دین ہو تو بات چلے
رات۷۲:۸۰
۷۱جولائی۴۲۰۲
80
چبھن بڑھی ہے تو رک کے دل کے تمام کانٹے نکال دو ناں
ملالِ ماضی کو چھوڑ دو اب لطیف سے کچھ خیال دو ناں
چلو یہ مانا کے بھول جانا تمہارے بس میں نہیں رہا ہے
اذیتیں یوں سجاؤ تو مت، انہیں کہیں پر سنبھال دو ناں
درست مانا بدن سفر کی صعوبتوں سے ادھڑ چکا ہے
تمہارا قلب آج بھی ہے قائم، کم از کم اس کو اجال دو ناں
جنوں سے کہنے لگے یہ راہی تری رفاقت کا فائدہ کیا
خرد نے سوچیں نکھار دی تھیں، تم آؤ جذبے ہی پال دو ناں
عماد سمجھو یہ خامشی ہے بہت ادھوری، بہت ہی مبہم
جواب مانگا ہے تم نے گر تو اسے مکمل سوال دو ناں
دوپہر۵۴:۲۱
۰۲جولائی۴۲۰۲
81
جسم کا ہر ریشہ تڑپا جاتے ہیں غم
اندر ہی اندر سے کھا جاتے ہیں غم
ہم تو خوشیوں کی دہلیز پہ جاتے ہیں
لیکن اپنے سامنے آ جاتے ہیں غم
جان چھڑاتے پھرتے ہیں ان سے اک عمر
جانے پھر کس لمحے بھا جاتے ہیں غم
اک تو دل بھی ایک لحد کی صورت ہے
اس پر آ کر دیپ جلا جاتے ہیں غم
عمر کا سورج جوبن پر ہوتا ہے مگر
بادل بن کر دل پر چھا جاتے ہیں غم
یاد کی آتش دھیمی آنچ پہ جلتی ہے
کوئی کوئی دن لو بڑھا جاتے ہیں غم
اک انسان کو کتنا لوٹیں، کتنی بار
اب تو شرم سے ہی کترا جاتے ہیں غم
وقت کی رمزیں خوب سمجھ لیتا ہوں عماد
اور نہ سمجھوں تو سمجھا جاتے ہیں غم
رات۳۴:۲۱
۱۳جولائی۴۲۰۲
82
قطعہ
ہستی کیا اور بستی کیا، سب راکھ ہوا
اندر باہر مستی کیا، سب راکھ ہوا
زیست بہت بے وقعت ہے، بے قیمت ہے
مہنگی کیا اور سستی کیا، سب راکھ ہوا
رات۷۴:۲۱
۱۳جولائی۴۲۰۲
83
چلو تلاش کرو ذات کو اندھیرے میں
پچھاڑنا ہے ہمیں رات کو اندھیرے میں
یہ دن کی روشنی اندر نہ دیکھنے دے گی
بغور سوچنا اس بات کو اندھیرے میں
جلاؤ قلب میں گر کوئی شمعِ ہستی ہے
تلاش کرنا ہے اک گھات کو اندھیرے میں
یہ روشنی میں جو تحصیلِ علم کرتے ہو
جیا کرو انہی لمحات کو اندھیرے میں
نہ دیکھ پاؤ تو محسوس کر کے دیکھو پھر
ہمارے کرب کی بہتات کو اندھیرے میں
کہیں کہیں پہ شعور آ کے روشنی میں ملا
کبھی کبھی ملے جذبات کو اندھیرے میں
چلو کے قلب کی تہہ میں اتر کے دیکھتے ہیں
وفورِ نور کے حالات کو اندھیرے میں
چڑھے جو دن تو غمِ ذات کو بھلا دو تم
عماد چھوڑ دو اثبات کو اندھیرے میں
رات۷۰:۱۰
۱۳جولائی۴۲۰۲
84
دشتِ ادراک میں تطہیرِ جنوں ہونے تک
اہلِ دل چلتے ہیں ہستی کا نموں ہونے تک
دل جو ٹوٹا تو سبھی حرف بکھرتے دیکھے
لفظ زندہ رہے جذبوں کے نگوں ہونے تک
درد سہتے رہو ترتیلِ محبت کے لئے
غم کی سنتے رہو تجویدِ فسوں ہونے تک
عمر کی پٹری پہ اس زیست کی گاڑی کا سفر
شور بڑھتا چلا جاتا ہے سکوں ہونے تک
دل بہل جائے گا اک روز ترے بعد مگر
درد سہنا ہی پڑے گا ہمیں یوں ہونے تک
قلب گر نور کی خواہش میں چلا ہو تو عماد
دل لگا رہتا ہے قالب کے زبوں ہونے تک
رات۳۵:۹۰
۱۳جولائی۴۲۰۲
85
عشق تھا، پیار تھا، چاہت تھی، جنوں تھا، کیا تھا
کوئی اعجاز کا لمحہ تھا، فسوں تھا، کیا تھا
جیت پر شکر کا جذبہ تھا یا بربادی کا سوگ
عاجزی تھی کہ ترا سر ہی نگوں تھا، کیا تھا
غمِ دوراں میں جو ہنگام ہے سب جانتے ہیں
غمِ ہستی میں خلش تھی کہ سکوں تھا، کیا تھا
دل محبت سے بھرا ہو تو سمجھ لیتے ہیں
قلب میں جو یہ محاسن کا نموں تھا، کیا تھا
جذبہ اک روح کو محسوس ہوا آج عماد
یہ عروجِ شبِ الفت تھا، زبوں تھا، کیا تھا
رات۱۱:۰۱
۱۳جولائی۴۲۰۲
86
ملحمہ
جنگ چھڑنے کو ہے
آخری جنگ کچھ دن میں چھڑنے کو ہے
سارا میدان پوری طرح سج گیا
ملک در ملک ترتیب میں آ گئے
سارے یاجوج بھی، سارے ماجوج بھی
دہر پھر چھا گئے
اور دنیا کے سب پھاٹکوں پر مکمل
نظر آ گئے
اب جو صف بندیاں سامنے آئی ہیں
ان میں کچھ دیو بھی ہیں
ان میں بونے بھی ہیں
کچھ ممالک ہیں جو ڈر کے زندہ بھی ہیں
کچھ ممالک ہیں جو شر کے خواہاں بھی ہیں
سرحدوں اور ملکوں سے آگے بھی کچھ
واقعاتِ جہاں ہیں جو خیر اور شر کی پرانی کہانی کی ترتیب ہیں
جو سیاسی نہیں، جو سماجی نہیں، جو معاشی نہیں، اقتصادی نہیں
جو بنائے بشر ہیں، جو تہذیب ہیں
جب سے ابلیس و آدم کا جھگڑا چلا
جب سے خیر اور شر کی لڑائی چلی
تب سے جو جنگ ہوتی رہی ہے وہی
آخرے معرکے کی طرف آ گئی
دہر پر چھا گئی
یہ نظامِ دجل
آج کھلنے کو ہے
یہ سیاسی بگل
آج بجنے کو ہے
جنگ چھڑنے کو ہے
آخری جنگ کچھ دن میں چھڑنے کو ہے
ملک در ملک ہونے لگے صف بہ صف
خیر کی قوتیں، شر کا پورا اثر
جو بھی کمزور ہے
جو بھی مضبوط ہے
جو بھی ظالم ہے اور
جو بھی مظلوم ہے
سب ہی تیار ہیں
ہم کہاں ہیں مگر
آخری معرکہ بس کسی دن، کسی پل بھی چھڑنے کو ہے
اور ہم میں ہر اک شخص گھر کے مسائل سے مرنے کو ہے
وقت ڈھلنے کو ہے
اور ہم ہیں کہاں
اور ہم ہیں کہاں
رات۳۳:۱۰
یکم اگست۴۲۰۲
87
جوں ہی آیا خیال ماضی کا
لوٹ آیا ملال ماضی کا
ڈھونڈنا تھا جوابِ مستقبل
پا لیا ہے سوال ماضی کا
عمر بھر درد دیتا رہتا ہے
اک نہ اک احتمال ماضی کا
وہ جو ہر روز جاں سے جاتے تھے
وہ بھی ٹھہرا کمال ماضی کا
سوچئے!
اور پھر سوچئے بارہا
ہم کہاں ہیں مگر
گیس کی اور پٹرول کی قیمتیں
اور بجلی کے بل
ہم کہاں ہیں مگر
کتنا محصول ہو
اس پہ آئیں وفد
عسکری اور سیاسی گروہوں کا رد
پارلیمان اور فوج کے مسئلے
عدل کی داستان اور پھر عدلیہ
سارے مچھر ہماری نگاہوں میں ہیں
اونٹ دکھتا نہیں
اب نہیں ہے دلوں میں وہ قربت
اب نہیں ہے خیال ماضی کا
جا شکنجے میں کس سبھی خوشیاں
جا جکڑ بال بال ماضی کا
ایک احساس ہے شعور سے دور
درد ہے کال کال ماضی کا
تیرے ماضی میں دردِ ماضی تھا
اب نہیں درد پال ماضی کا
جاں میں گھلتی مہک محبت کی
دل میں کِھلتا گلال ماضی کا
عمر کے گام پر دکھا برسوں
راستوں میں ہلال ماضی کا
حال کا پور پور خستہ حال
اور چہرہ نڈھال ماضی کا
آج کا دن گزار، ہمت کر
حال ہی ہے زوال ماضی کا
ایک تو درد اپنی ہستی کا
اور عماد اک وبال ماضی کا
دوپہر۳۲:۱۰
۳۲ ستمبر۴۲۰۲
زرعی یونیورسٹی، پشاور
88
عمر کے گام پہ ہنگام نہیں اب کوئی
ذات کے صحن میں کہرام نہیں اب کوئی
درد کے موڑ سے باطن کی طرف جا نکلے
لیجئے آپ کو آرام نہیں اب کوئی
ہم بھی کنعان سے مصر آئے ہیں پیدل چل کر
اس پہ جیبوں میں کوئی دام نہیں اب کوئی
غم کے ادوار کو ترتیب لگا دینے دو
ہمیں ویسے بھی کوئی کام نہیں اب کوئی
کیا کہا! خیر سے میں گھر کو پلٹ سکتا ہوں
یعنی اس ذات پہ الزام نہیں اب کوئی
دیر کر دی ہی محبت میں گنہگار ہے تو
کوئی لمحہ بھی ترے نام نہیں اب کوئی
غمِ ہستی شبِ تنہائی میں کھلتا تھا عماد
درد کا چاند لبِ بام نہیں اب کوئی
دوپہر ۹۲:۱۱
۵۲ستمبر ۴۲۰۲
زرعی یونیورسٹی، پشاور
89
غزّہ
اے میرے غزّہ کی اجڑی پٹی کے رہنے والو!
تمہیں پتا ہے
تمہیں خبر ہے
کہ تم نے عزم و وفا کی جو داستاں لکھی ہے
کہ تم نے قدر و قضا کے جو امتحاں دیے ہیں
وہ ہم نے اسلافِ دیں کے قصوں میں ہی سنے تھے
مگر یہ تم کون سے زمانے سے چل کے اس دورِ ابتلا تک
پہنچ گئے ہو
وفاؤں کی ایک انتہا تک پہنچ گئے ہو
جریح غزّہ کی اجڑی پٹی کے رہنے والو!
وفا کی مٹی کے رہنے والو
تمہارا خوں وقت کے خداؤں نے بھیڑیوں پر
حلال تر کر دیا ہوا ہے
تمہارے جسموں، تمہاری عزت، تمہاری حرمت
کو سب نے پامال کر دیا ہے
تم ایسے وقتوں میں آرزوؤں کا، حریت کا
علم اٹھائے ہوئے کھڑے ہو
کہ جیسے تم آخرالزماں میں پرانی تاریخ پھر سے لکھنے کو آگئے ہو
کہ جیسے بدر و اُحد کے غازی ہو تم جو آ کر
گئے زمانوں کے سب ورق
پھر سے لکھ رہے ہو
رہِ قضا پر نئے نشانے بنا رہے ہو
رہِ وفا پر نئے ستارے سجا رہے ہو
دلیرغزّہ کی اجڑی پٹی کے رہنے والو!
یہ حریت کا علم تمہاری شجاعتوں کا
ریاضتوں کا گواہ ٹھہرا
کہ یہ جنوں رائگاں نہیں ہے
تمہارا خوں رائگاں نہیں ہے
رفاہ سے جو جواں اٹھے ہیں
یہ خان یونس کے پھیلے ملبے سے بارہا جو علم اٹھا کر
نئے نئے کارواں اٹھے ہیں
جنوں کے آتش فشاں اٹھے ہیں
وفا کے اونچے نشاں اٹھے ہیں
تو ان کی جرأت کو
حوصلے کو سلام کرنے
زماں اٹھے ہیں
مکاں اٹھے ہیں
عظیم غزّہ کی اجڑی پٹی کے رہنے والو!
زماں، مکاں سے بھی ماورا ہے تمہاری جرأت
بہت سے اونچوں سے بھی سوا ہے تمہاری عزت
نشاۃِ دوئم کی ابتدا ہے تمہاری ہمت
شام ۰۱:۷۰
۳۲اکتوبر ۴۲۰۲
دفتر میں